جسٹس شوکت صدیقی کی نواز شریف اور مریم نواز کے مقدمات میں غیر معمولی دلچسپی تھی رپورٹ
شوکازکے جواب میں تقریرکے متن سے انکارنہیں کیا،پبلک میٹنگ میں اداروں پر الزام تراشی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے۔
سپریم جوڈیشل کونسل کی رپورٹ کے مطابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی نواز شریف اور مریم نواز مقدمات میں دلچسپی غیر معمولی تھی۔
سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ہٹانے کی سفارشات پر مبنی رپورٹ جاری کردی گئی۔ رپورٹ کے مطابق شوکت عزیز صدیقی کیخلاف تمام شکایات درست ثابت ہوئیں جواب میں وہ کوئی شواہدفراہم نہیں کرسکے۔
رپورٹ میں شوکت عزیز صدیقی کے جواب کو مستردکرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ شوکت عزیز صدیقی کی نواز شریف مقدمات میں دلچسپی غیر معمولی تھی۔ سپریم جوڈیشل کونسل کی رپورٹ39صفحات پر مشتمل ہے جو جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے تحریرکی۔
رپورٹ کے مطابق 31 جولائی کو جسٹس صدیقی کو21 جولائی کی تقریر پر شوکاز نوٹس جاری کیا گیا جس پر انہوں نے دوجواب جمع کرائے، پہلا جواب 15 اگست جبکہ دوسرا جواب27 اگست کو جمع کرایا۔اپنے جواب میں انہوں نے کہیں بھی تقریرکے مندرجات سے انکار نہیں کیا اورکہا کہ بارکو اعتماد میں لینا ان کی ذمے داری تھی۔ جواب میں کہیں بھی تقریرکے متن سے انکار نہیں کیا۔
سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس شوکت صدیقی کے موقف کو مستردکرتے ہوئے قرار دیاکہ پبلک میٹنگ میں اداروں پر الزام تراشی ججزکوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ معاملے میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی جسٹس شوکت صدیقی کے الزامات کو مستردکیا ۔
دوسری جانب رپورٹ میں کہا گیا کہ جسٹس شوکت عزیز صد یقی کی نواز شریف، مریم نواز کے مقدمات میں دلچسپی غیر معمولی تھی ۔کیس ہائیکورٹ میں آنے سے پہلے ہی شوکت صدیقی کا دلچسپی لینا آنکھیں کھولنے کیلیے کافی ہے، فیصلہ میں کہا گیا جسٹس شوکت صدیقی کیخلاف آنے والی تمام شکایت درست ثابت ہوئیں جبکہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی جواب میں کوئی شواہد اور ثبوت فراہم نہیں کر سکے۔
سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ہٹانے کی سفارشات پر مبنی رپورٹ جاری کردی گئی۔ رپورٹ کے مطابق شوکت عزیز صدیقی کیخلاف تمام شکایات درست ثابت ہوئیں جواب میں وہ کوئی شواہدفراہم نہیں کرسکے۔
رپورٹ میں شوکت عزیز صدیقی کے جواب کو مستردکرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ شوکت عزیز صدیقی کی نواز شریف مقدمات میں دلچسپی غیر معمولی تھی۔ سپریم جوڈیشل کونسل کی رپورٹ39صفحات پر مشتمل ہے جو جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے تحریرکی۔
رپورٹ کے مطابق 31 جولائی کو جسٹس صدیقی کو21 جولائی کی تقریر پر شوکاز نوٹس جاری کیا گیا جس پر انہوں نے دوجواب جمع کرائے، پہلا جواب 15 اگست جبکہ دوسرا جواب27 اگست کو جمع کرایا۔اپنے جواب میں انہوں نے کہیں بھی تقریرکے مندرجات سے انکار نہیں کیا اورکہا کہ بارکو اعتماد میں لینا ان کی ذمے داری تھی۔ جواب میں کہیں بھی تقریرکے متن سے انکار نہیں کیا۔
سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس شوکت صدیقی کے موقف کو مستردکرتے ہوئے قرار دیاکہ پبلک میٹنگ میں اداروں پر الزام تراشی ججزکوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ معاملے میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی جسٹس شوکت صدیقی کے الزامات کو مستردکیا ۔
دوسری جانب رپورٹ میں کہا گیا کہ جسٹس شوکت عزیز صد یقی کی نواز شریف، مریم نواز کے مقدمات میں دلچسپی غیر معمولی تھی ۔کیس ہائیکورٹ میں آنے سے پہلے ہی شوکت صدیقی کا دلچسپی لینا آنکھیں کھولنے کیلیے کافی ہے، فیصلہ میں کہا گیا جسٹس شوکت صدیقی کیخلاف آنے والی تمام شکایت درست ثابت ہوئیں جبکہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی جواب میں کوئی شواہد اور ثبوت فراہم نہیں کر سکے۔