پشاور یونیورسٹی جادو اور ڈنڈوں سے نہیں چلے گی

معاشی انقلاب بذریعہ کشکول والی حکومت کو عوام کو مہنگائی میں پیسنے کے باوجود تسلی نہ ہوئی تو طلبہ کا کچومر نکالنے لگی

جب فیسوں میں اضافہ ہوا اور انتظامیہ پر جنسی ہراسانی کا الزم لگا تو تب جاکے غنڈے نمودار ہوئے؟ فوٹو: انٹرنیٹ

بلاول صاحب ٹھیک فرما رہے ہیں کہ سیاست گالی، معیشت چندے اور ملک جادو سے نہیں چلتا، نظام کو چلانے کا گر سمجھنا ہوگا۔ سو روزہ انقلابی حکومت پر جہاں سیاست گالی سے چلانے کا الزام ہے، وہیں انہوں نے تعلیم بھی گولی سے چلانے کی ٹھان لی ہے۔ آغاز پشاور یونیورسٹی سے کیا گیا جہاں جائز مطالبات کے لیے پرامن احتجاج کرنے والے طلبہ پر ایسے ڈنڈے برسائے کہ درجنوں کو لہولہان کردیا گیا۔ بیسیوں کو جیل بھیج دیا گیا۔

معاشی انقلاب بذریعہ کشکول والی حکومت کا دل عوام کو خوردنی اشیاء کی مہنگائی میں پیسنے کے باوجود بھی ٹھنڈا نہ ہوا تو طلبہ کا کچومر نکالنے لگی۔

ادھر تحریک انصاف حکومت دعویٰ کر رہی کہ صوبہ خیبرپختونخوا میں ان کی پانچ سالہ حکومت کے بعد لاکھوں طلبہ پرائیویٹ اسکولوں سے نکل کر سرکاری اسکولوں میں داخل ہوچکے ہیں، اب یہ کہاں کا انصاف ہے کہ آپ سرکاری تعلیمی اداروں کو بھی کمائی کا ذریعہ بناکر طلبا پر اتنا بوجھ ڈالیں کہ وہ ان سرکاری اداروں سے بھی نکل جائیں اور کہیں کہ نہیں رہیں۔

جناب، آپ تعلیمی نظام میں بہتری کی بات کر رہے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ کو پانچ سالوں میں یہ خبر تک نہیں ہوئی کہ صوبے کی سب سے بڑی درسگاہ کے ہاسٹل میں غنڈے رہائش پذیر ہیں۔ جب فیسوں میں اضافہ ہوا اور انتظامیہ پر جنسی ہراسانی کا الزم لگا تو تب جاکے غنڈے نمودار ہوئے؟

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، اس یونیورسٹی کے ہاسٹل پر نہ صرف سیاسی غنڈے، بلکہ کئی سرکاری محکمے کے لوگ بھی برسوں سے قابض ہیں، طلبہ کے مطالبات میں ان کو بے دخل کرنا بھی شامل ہے۔ لیکن جناب یہ تو آپ کی منیجمنٹ پر سوال اٹھتا ہے کہ سیاسی اور سرکاری غنڈوں کو بے دخل کرنے کے باوجود بھی اتنے طلبہ ہاسٹل سے کیوں باہر پڑے ہیں، اور اپنے حقوق کے لیے وہ احتجاجی مظاہروں پر اتر آئیں؟

میرے ایک چھوٹے سے گاؤں کالام کے تین طلبہ ابھی تک یونیورسٹی کارڈ جاری نہ ہونے کی وجہ سے نجی ہاسٹلوں میں رہ رہے ہیں، انتظامیہ سے پوچھنے پر آئیں بائیں شائیں کیا جاتا ہے۔ پورے صوبے کے کتنے طالب علم ہاسٹل سے باہر خوار و ذلیل ہوں گے، اس کا بھی کبھی سوچا ہے یونیورسٹی انتظامیہ نے؟

اس سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ آپ ابھی تک طلبہ کا ٹھیک طریقے سے ریکارڈ نہیں بناسکے ہیں۔


کوئی گورنر صاحب سے یہ بھی پوچھے کہ ساٹھ سالہ پروفیسروں کی نوکریوں میں کس قانون کے تحت توسیع دی گئی ہے؟

مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ کوئی نئی یونیورسٹی تو بن نہیں رہی، ہزاروں طلبہ پہلے سے تعلیم سے محروم ہیں اور ادھر سے ایچ ای سی یونیوسٹی کو ہدایت جاری کرتا ہے کہ کسی بھی ڈیپارٹمنٹ میں چالیس سے زائد طلبہ کو نہ رکھا جائے۔ طلبہ کی تعداد بڑھانے کی بجائے اساتذہ کی نوکریوں میں توسیع دے کر اسکولوں سے باہر طلباء کو کس جادو کے تحت تعلیم دی جارہی ہے؟

تلخ سوالات کے ان بوچھاڑ میں ایک "ڈھیٹ کام" جو آپ نے کیا ہے، وہ قابل تعریف ہے۔ آپ نے ٹی وی اور اخباری اشتہارات کے ذریعے کروڑوں اڑانے کے بعد عوام میں جو شعور بیدار کیا اس کے ثمرات سامنے آرہے ہیں۔

طلبہ باشعور ہوچکے ہیں، جس طرح کرپٹ حکومت کو گرانے کے لیے آپ نے پلان اے، بی، سی ترتیب دیے اور سرکاری اداروں پر دھاوا بول دیا تھا، اسی طرح طلبہ بھی اب باشعور ہوچکے ہیں، اور یونیورسٹی کے کرپٹ نظام کو بچانے کے لیے ایم ٹی ایم (متحدہ طلبہ محاذ) ترتیب دیا ہے۔ لیکن گھوم پھر کے بات دوبارہ بلاول کے اس بیان پر رک جاتی ہے کہ آپ نظام کو جادو سے چلانے کی کوشش کر رہے ہیں، جس طرح پی ٹی ایم (پشتون تحفظ موومنٹ) کو غیرملکی فنڈنگ اور بیرونی سازش کے ٹھپوں والے جادو پھونک پھونک کر بند کرنے کی کوشش کی جارہی تھی، ٹھیک اسی طرح اب ایم ٹی ایم کو بھی سیاسی غنڈوں کی پشت پناہی کے ٹھپوں سے بند کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ جس طرح پی ٹی ایم کے خلاف تشدد پر اتر آئے تھے، ٹھیک اسی طرح ایم ٹی ایم کی آواز کو بھی تشدد کے ذریعے بند کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ کیوں کہ وہ جنسی استحصال کا الزام لگا کر آپ کے پروفیسرز کے مورال کو ٹھیس پہنچا رہے ہیں؟

اب ہاتھ جوڑ کر اپیل کرتے ہیں کہ اس نظام کو چلانے کے لیے "انتر منتر چھو" والی سوچ کے اس خول سے نکل جائیں اور ان طلبہ کے مطالبات کو غور سے سن کر ان کو حل کرنے کی کوشش کریں۔

یہ طریقہ ٹھیک نہیں کہ آپ معیشت اور تعلیم دونوں کو ایک ساتھ عروج پر لانے کے لیے تمام تر بوجھ عوام پر ڈال رہے ہیں۔ تعلیم مفت دی جائے، روزگار پیدا ہوگا، روزگار کے ذریعے معیشت پروان چڑھے گی، ورنہ بعد میں کف افسوس ملنے کے سوا کچھ نہیں بچے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story