ایک ستارہ اور ٹوٹا
ایسے بڑے لوگ خال خال نظر آتے ہیں، اپنے بے لوث خلوص اور وسیع النظری کی وجہ سے دلوں میں گھر کرلیتے ہیں۔
جمعرات کا دن تھا اور تاریخ 4 اکتوبر 2018، دوپہر ڈھلنے کے لیے تیاری میں مصروف تھی اور میں معمول کے مطابق لکھنے پڑھنے کے امور انجام دے رہی تھی، میری میز پر بہت ساری کتابیں اور کئی فائلیں رکھی تھیں، اسی دوران فون کی گھنٹی بجی، ڈاکٹر سکندر حیات میکن نے سرگودھا سے فون کیا کہ ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش انتقال فرما گئے ہیں، سن کر یکدم دھچکا سا لگا، بے اختیار دعائے مغفرت کے الفاظ منہ سے نکلے۔
گزشتہ کئی دنوں سے میں ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش کے لیے دل کی گہرائیوں سے دعا کر رہی تھی کہ اے اللہ! انھیں زندگی کی طرف لوٹا دے، اپنی رحمت اور قدرت سے ان کی بیماری کو دور کردے۔ ایک ہفتہ قبل ہی ان کی ہمشیرہ سے بات ہوئی تھی، انھوں نے بتایا تھا کہ طبیعت زیادہ ٹھیک نہیں، دوا کھا کر دیر تک سوتے ہیں۔ وہ بہت منکسرالمزاج، تہذیب یافتہ اور بااخلاق انسان تھے۔ انھوں نے اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں مضامین لکھے جو مختلف رسائل میں شایع ہوئے، ان کا شمار ممتاز و معتبر تخلیق کاروں میں کیا جاتا ہے۔ ان کا حسن اخلاق اور بڑا پن ہی تو تھا کہ انھوں نے لاہور اور سرگودھا کے کئی پرچوں سے متعارف کروایا۔
ایسے بڑے لوگ خال خال نظر آتے ہیں، اپنے بے لوث خلوص اور وسیع النظری کی وجہ سے دلوں میں گھر کرلیتے ہیں۔ ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش کے دوستوں اور قدر دانوں کی کمی نہیں ہے، وہ انھیں اپنی تحریر و تقریر کے ذریعے خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں، اپنے اپنے اداروں میں ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی کا اہتمام کروایا جا رہا ہے، ڈاکٹر خالد ندیم نے سرگودھا یونیورسٹی خصوصاً اپنے ڈپارٹمنٹ میں ختم قرآن کروا کے ان کی روح کو ثواب پہنچا کر حق دوستی ادا کرنے کی کوشش کی۔
ڈاکٹر خالد ندیم نے اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کیا کہ ''ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش ایک ایسی علمی و ادبی شخصیت تھے جنھوں نے چھتنار کے نیچے پرورش پانے کے باوجود خود کو اپنی محنت سے بڑا ثابت کیا، انھوں نے بطور شاعر، انشائیہ نگار، افسانہ نگار اور محقق و نقاد کے اپنی حیثیت تسلیم کروائی۔ ڈاکٹر وزیر آغا کا فرزند ہونے کو انھوں نے کبھی اپنے لیے اعزاز نہیں بنایا، بلکہ اپنی تحریروں سے اپنے وجود کو ثابت کیا، ان کے انشائیے اس صنف میں صف اول کے نہ بھی ہوں، قابل ذکر ضرور ہیں، ان کی تحقیقی و تنقیدی کاوشوں نے مختلف پیرائے میں اپنا اظہار کیا، البتہ اردو افسانے پر ان کے پی ایچ ڈی کے مقالے نے اپنے موضوع کے ساتھ جتنا انصاف کیا ہے، اس کی چند ہی مثالیں مل سکتی ہیں، علمی و ادبی خدمات کے علاوہ خود ان کی شخصیت بھی دل آویزی رکھتی تھی، وضع داری، مروت، دوست داری اور مہمان نوازی ان کا وصف تھا جو انھیں کبھی ایک دفعہ ملا، سلیم آغا کبھی اس سے قطع تعلق نہ ہوئے، مہمانوں کی خدمت کے لیے خود آگے بڑھنا، دوستوں کے لیے خود دروازے تک آنا اور مخالفت کے باوجود سابقہ تعلقات کو نبھاتے چلے جانا آسان نہیں، جس کا اظہار ان کے عمل سے ہوتا رہا ہے۔''
ذوالفقار احسن جو خود بھی تجزیہ نگار، شاعر اور نقاد ہیں، انھوں نے ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش کے بارے میں کہا کہ وہ محبت کرنے والا شخص تھا، بہت مضبوط اعصاب کا مالک، کبھی میں فون کرتا، تو وہ کہتا تم فون بند کرو، میں کرتا ہوں، اس طرح وہ دوستوں کا خیال رکھتا، ہر حوالے سے وہ مددگار ثابت ہوتا، وزیر آغا کے فوت ہونے کے بعد سارا کام سلیم آغا نے سنبھالا، لیکن اس کے انتقال کے بعد یوں لگتا ہے کہ وزیر آغا کا اب انتقال ہوا ہے۔
انھوں نے اپنی پوری عمر علم و ادب کی خدمت کرنے میں گزاری، وہ نقاد تھے، محقق تھے، انجمن ترقی اردو کی طرف سے ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ بعنوان اردو افسانے کے رجحانات شایع ہوا تھا۔ دوسرا ایڈیشن حال ہی میں اشاعت کے مرحلے سے گزرا ہے۔
ان کی 13 کتابیں منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئیں، انشائیوں کے مجموعے ''سرگوشیاں''، ''آمنا سامنا''، ''نام میں کیا رکھا ہے''، مغرب کے انشائیے (تراجم) منظر عام پر آئے اور وہ داد و تحسین کے حق دار ٹھہرے۔ افسانوں کے مجموعوں میں ''صبح ہونے تک'' اور ''انگور کی بیل'' جب کہ نثری نظموں کا مجموعہ ''زخموں کے پرند''، ''ہے نا عجیب بات''، تنقید کی کتاب ''اشارے 2011'' اس کے علاوہ دو اور کتابیں ''منتخب انشائیے'' ،'' 1983 اور''نئے انشائیے1992 میں سامنے آئے۔
ڈاکٹر سلیم آغا کے افسانوں کی میں بھی قاری رہی ہوں، اسلوب بیان، منظرسازی اور مکالمہ نگاری میں ایک اچھوتا پن نظر آتا ہے، وہ بہت محنت اور محبت کے ساتھ اپنے افسانوں کا خمیر تیار کرتے تھے ان کی ایسی لگن اور تخلیق سے محبت کے نتیجے میں ان کے افسانوں میں قوس و قزح کے رنگ اور دلکشی پیدا ہوئی۔
ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش مناظر اور حالات و واقعات کو لفظوں کی شکل میں پینٹ کرنے کا ہنر بخوبی جانتے تھے، کافی عرصہ گزرا، جب میں نے ان کی کتاب ''صبح ہونے تک'' کے کئی افسانے ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالے تھے، انھی میں سے ایک افسانہ ''لال سینڈل'' آج تک مجھے یاد ہے، سلیم آغا نے ظاہری اور ذہنی پسماندگی، بھوک اور افلاس سے پیدا ہونے والے مسائل کو افسانے کی زبان عطا کردی ہے، اور مذکورہ افسانے نے اپنی انفرادیت کے باعث مصنف کو اعلیٰ پائے کا افسانہ نگار ثابت کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی، کرداروں کی زبان ان کا طرز زندگی اور ماحول کی عکاسی اچھوتے انداز میں کی گئی ہے۔ افسانہ نگار اور افسانہ زندہ جاوید ہوگیا ہے، ان کے افسانے عصری حالات سے جڑے ہوئے ہیں۔
''اجمال'' کے مدیر فہیم انصاری کو بھی ڈاکٹر سلیم کی موت نے غمزدہ کردیا۔ انھوں نے کہا کہ تازہ شمارے میں سلیم آغا قزلباش کا خط اور مضمون شایع ہوا ہے، افسوس کہ وہ دیکھ بھی نہ سکے، وہ میرے بہت اچھے دوست اور بہترین انسان تھے، مجھے ایک تنقیدی کتاب جو لاہور سے شایع ہوئی تھی جس کا نام یاد نہیں مجھے اس کی ضرورت تھی، میں نے ان سے ذکر کیا، انھوں نے فوراً مجھے رجسٹرڈ ڈاک کے ذریعے بھجوا دی۔ ''وار'' کے عنوان سے افسانہ بھی اس پرچے میں شامل ہے۔
ممتاز شاعر اور نقاد صبا اکرام نے اپنی مختصر رائے کا اس طرح اظہار کیا کہ ''وہ اردو کے اسکالر ہی نہیں تھے بلکہ تخلیقی ادب میں بھی ان کا نمایاں مقام تھا''۔ ان کی نثری نظم کی کتابیں بھی آچکی تھیں ان کے جانے کے بعد ڈاکٹر وزیر آغا کا خانوادہ ختم ہوگیا چونکہ وہ اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے۔ وزیرکوٹ ان کے دادا نے آباد کیا تھا اور وزیر کوٹ میں ہی ان کی تدفین ہوئی۔ ڈاکٹر سکندر حیات میکن کا مضمون مقامی اخبار میں شایع ہوا ہے، جس میں انھوں نے لکھا ہے کہ ان کی تدفین 4 اکتوبر 2018 رات ساڑھے نو بجے کے قریب وزیرکوٹ میں ہوئی۔ وزیر کوٹ کے سب لوگ حیران تھے کہ اچانک ان کا شہزادہ سلیم انھیں داغ مفارقت کیسے دے گیا۔ یہ شعر ان کے حسب حال ہے:
اس کی آواز میں تھے سارے خد و خال اس کے
وہ چہکتا تھا تو ہنستے تھے پر و بال اس کے
ڈاکٹر سکندر میکن نے یادوں کے چراغوں کو درد مندی کے ساتھ روشن کیا ہے۔ اللہ مغفرت فرمائے آمین۔
گزشتہ کئی دنوں سے میں ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش کے لیے دل کی گہرائیوں سے دعا کر رہی تھی کہ اے اللہ! انھیں زندگی کی طرف لوٹا دے، اپنی رحمت اور قدرت سے ان کی بیماری کو دور کردے۔ ایک ہفتہ قبل ہی ان کی ہمشیرہ سے بات ہوئی تھی، انھوں نے بتایا تھا کہ طبیعت زیادہ ٹھیک نہیں، دوا کھا کر دیر تک سوتے ہیں۔ وہ بہت منکسرالمزاج، تہذیب یافتہ اور بااخلاق انسان تھے۔ انھوں نے اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں مضامین لکھے جو مختلف رسائل میں شایع ہوئے، ان کا شمار ممتاز و معتبر تخلیق کاروں میں کیا جاتا ہے۔ ان کا حسن اخلاق اور بڑا پن ہی تو تھا کہ انھوں نے لاہور اور سرگودھا کے کئی پرچوں سے متعارف کروایا۔
ایسے بڑے لوگ خال خال نظر آتے ہیں، اپنے بے لوث خلوص اور وسیع النظری کی وجہ سے دلوں میں گھر کرلیتے ہیں۔ ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش کے دوستوں اور قدر دانوں کی کمی نہیں ہے، وہ انھیں اپنی تحریر و تقریر کے ذریعے خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں، اپنے اپنے اداروں میں ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی کا اہتمام کروایا جا رہا ہے، ڈاکٹر خالد ندیم نے سرگودھا یونیورسٹی خصوصاً اپنے ڈپارٹمنٹ میں ختم قرآن کروا کے ان کی روح کو ثواب پہنچا کر حق دوستی ادا کرنے کی کوشش کی۔
ڈاکٹر خالد ندیم نے اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کیا کہ ''ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش ایک ایسی علمی و ادبی شخصیت تھے جنھوں نے چھتنار کے نیچے پرورش پانے کے باوجود خود کو اپنی محنت سے بڑا ثابت کیا، انھوں نے بطور شاعر، انشائیہ نگار، افسانہ نگار اور محقق و نقاد کے اپنی حیثیت تسلیم کروائی۔ ڈاکٹر وزیر آغا کا فرزند ہونے کو انھوں نے کبھی اپنے لیے اعزاز نہیں بنایا، بلکہ اپنی تحریروں سے اپنے وجود کو ثابت کیا، ان کے انشائیے اس صنف میں صف اول کے نہ بھی ہوں، قابل ذکر ضرور ہیں، ان کی تحقیقی و تنقیدی کاوشوں نے مختلف پیرائے میں اپنا اظہار کیا، البتہ اردو افسانے پر ان کے پی ایچ ڈی کے مقالے نے اپنے موضوع کے ساتھ جتنا انصاف کیا ہے، اس کی چند ہی مثالیں مل سکتی ہیں، علمی و ادبی خدمات کے علاوہ خود ان کی شخصیت بھی دل آویزی رکھتی تھی، وضع داری، مروت، دوست داری اور مہمان نوازی ان کا وصف تھا جو انھیں کبھی ایک دفعہ ملا، سلیم آغا کبھی اس سے قطع تعلق نہ ہوئے، مہمانوں کی خدمت کے لیے خود آگے بڑھنا، دوستوں کے لیے خود دروازے تک آنا اور مخالفت کے باوجود سابقہ تعلقات کو نبھاتے چلے جانا آسان نہیں، جس کا اظہار ان کے عمل سے ہوتا رہا ہے۔''
ذوالفقار احسن جو خود بھی تجزیہ نگار، شاعر اور نقاد ہیں، انھوں نے ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش کے بارے میں کہا کہ وہ محبت کرنے والا شخص تھا، بہت مضبوط اعصاب کا مالک، کبھی میں فون کرتا، تو وہ کہتا تم فون بند کرو، میں کرتا ہوں، اس طرح وہ دوستوں کا خیال رکھتا، ہر حوالے سے وہ مددگار ثابت ہوتا، وزیر آغا کے فوت ہونے کے بعد سارا کام سلیم آغا نے سنبھالا، لیکن اس کے انتقال کے بعد یوں لگتا ہے کہ وزیر آغا کا اب انتقال ہوا ہے۔
انھوں نے اپنی پوری عمر علم و ادب کی خدمت کرنے میں گزاری، وہ نقاد تھے، محقق تھے، انجمن ترقی اردو کی طرف سے ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ بعنوان اردو افسانے کے رجحانات شایع ہوا تھا۔ دوسرا ایڈیشن حال ہی میں اشاعت کے مرحلے سے گزرا ہے۔
ان کی 13 کتابیں منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئیں، انشائیوں کے مجموعے ''سرگوشیاں''، ''آمنا سامنا''، ''نام میں کیا رکھا ہے''، مغرب کے انشائیے (تراجم) منظر عام پر آئے اور وہ داد و تحسین کے حق دار ٹھہرے۔ افسانوں کے مجموعوں میں ''صبح ہونے تک'' اور ''انگور کی بیل'' جب کہ نثری نظموں کا مجموعہ ''زخموں کے پرند''، ''ہے نا عجیب بات''، تنقید کی کتاب ''اشارے 2011'' اس کے علاوہ دو اور کتابیں ''منتخب انشائیے'' ،'' 1983 اور''نئے انشائیے1992 میں سامنے آئے۔
ڈاکٹر سلیم آغا کے افسانوں کی میں بھی قاری رہی ہوں، اسلوب بیان، منظرسازی اور مکالمہ نگاری میں ایک اچھوتا پن نظر آتا ہے، وہ بہت محنت اور محبت کے ساتھ اپنے افسانوں کا خمیر تیار کرتے تھے ان کی ایسی لگن اور تخلیق سے محبت کے نتیجے میں ان کے افسانوں میں قوس و قزح کے رنگ اور دلکشی پیدا ہوئی۔
ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش مناظر اور حالات و واقعات کو لفظوں کی شکل میں پینٹ کرنے کا ہنر بخوبی جانتے تھے، کافی عرصہ گزرا، جب میں نے ان کی کتاب ''صبح ہونے تک'' کے کئی افسانے ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالے تھے، انھی میں سے ایک افسانہ ''لال سینڈل'' آج تک مجھے یاد ہے، سلیم آغا نے ظاہری اور ذہنی پسماندگی، بھوک اور افلاس سے پیدا ہونے والے مسائل کو افسانے کی زبان عطا کردی ہے، اور مذکورہ افسانے نے اپنی انفرادیت کے باعث مصنف کو اعلیٰ پائے کا افسانہ نگار ثابت کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی، کرداروں کی زبان ان کا طرز زندگی اور ماحول کی عکاسی اچھوتے انداز میں کی گئی ہے۔ افسانہ نگار اور افسانہ زندہ جاوید ہوگیا ہے، ان کے افسانے عصری حالات سے جڑے ہوئے ہیں۔
''اجمال'' کے مدیر فہیم انصاری کو بھی ڈاکٹر سلیم کی موت نے غمزدہ کردیا۔ انھوں نے کہا کہ تازہ شمارے میں سلیم آغا قزلباش کا خط اور مضمون شایع ہوا ہے، افسوس کہ وہ دیکھ بھی نہ سکے، وہ میرے بہت اچھے دوست اور بہترین انسان تھے، مجھے ایک تنقیدی کتاب جو لاہور سے شایع ہوئی تھی جس کا نام یاد نہیں مجھے اس کی ضرورت تھی، میں نے ان سے ذکر کیا، انھوں نے فوراً مجھے رجسٹرڈ ڈاک کے ذریعے بھجوا دی۔ ''وار'' کے عنوان سے افسانہ بھی اس پرچے میں شامل ہے۔
ممتاز شاعر اور نقاد صبا اکرام نے اپنی مختصر رائے کا اس طرح اظہار کیا کہ ''وہ اردو کے اسکالر ہی نہیں تھے بلکہ تخلیقی ادب میں بھی ان کا نمایاں مقام تھا''۔ ان کی نثری نظم کی کتابیں بھی آچکی تھیں ان کے جانے کے بعد ڈاکٹر وزیر آغا کا خانوادہ ختم ہوگیا چونکہ وہ اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے۔ وزیرکوٹ ان کے دادا نے آباد کیا تھا اور وزیر کوٹ میں ہی ان کی تدفین ہوئی۔ ڈاکٹر سکندر حیات میکن کا مضمون مقامی اخبار میں شایع ہوا ہے، جس میں انھوں نے لکھا ہے کہ ان کی تدفین 4 اکتوبر 2018 رات ساڑھے نو بجے کے قریب وزیرکوٹ میں ہوئی۔ وزیر کوٹ کے سب لوگ حیران تھے کہ اچانک ان کا شہزادہ سلیم انھیں داغ مفارقت کیسے دے گیا۔ یہ شعر ان کے حسب حال ہے:
اس کی آواز میں تھے سارے خد و خال اس کے
وہ چہکتا تھا تو ہنستے تھے پر و بال اس کے
ڈاکٹر سکندر میکن نے یادوں کے چراغوں کو درد مندی کے ساتھ روشن کیا ہے۔ اللہ مغفرت فرمائے آمین۔