خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف اور اتحادیوں میں وزارتوں کی تقسیم
خیبرپختونخوا میں کابینہ کی تشکیل کے سلسلے میں جہاں یہ مسلہ درپیش ہے کہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے درمیان تعلیم...
خیبرپختونخوا میں کابینہ کی تشکیل کے سلسلے میں جہاں یہ مسلہ درپیش ہے کہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے درمیان تعلیم کی وزارت چھوڑنے اور نہ چھوڑنے کے حوالے سے اتفاق نہیں ہورہا تھا وہیں پر یہ مسلہ بھی سامنے آیا ہے کہ تحریک انصاف نے جتنی وزارتیں اپنے اتحادیوں میں تقسیم کی ہیں اتنی ہی وزارتیں خود اس کے لیے بچی ہیں ۔
حالانکہ اس کے اپنے ارکان کی تعداد پچاس سے زائد ہے،تحریک انصاف کے ٹکٹ پر اکثر ارکان پہلی مرتبہ منتخب ہوکر اسمبلیوں میں پہنچے ہیں۔ چونکہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف نے اپنی حکومت بنائی ہے اس لیے پی ٹی آئی کی صفوں میں کھڑے ہر رکن کی خواہش اور تمنا ہے کہ اسے وزیر بنایاجائے جو یقینی طور پر ممکن نہیں ہے تاہم یہ امکانات مزید اس لیے بھی کم ہوگئے ہیں کہ اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبائی کابینہ کا حجم بندشوں میں جکڑا ہوا ہے اور بشمول وزیراعلیٰ یہ حجم پندرہ سے زائد نہیں ہوسکتا ، ایسے میں وزراء کی تعداد چودہ ہی ہوگی اور ان چودہ میں سے سات وزارتیں پی ٹی آئی اپنے اتحادیوں میں بانٹ چکی ہے۔
جس کی وجہ سے خود پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے اراکین میں مایوسی پائی جاتی ہے جس کا اظہار پشاور کی سطح پر منتخب ارکان نے اپنے ایک اجلاس کے ذریعے کیا تھا جبکہ ایسے ہی جذبات مردان ،سوات اور دیگر اضلاع سے منتخب ارکان میں بھی پائے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اندرون پی ٹی آئی یہ بات بھی زیر گردش ہے کہ اتحادیوں کو دی جانے والی وزارتوں میں کمی کی جائے تاکہ پی ٹی آئی والوں کے لیے جگہ بن سکے تاہم شاید ہی یہ ممکن ہوسکے ۔
تحریک انصاف کے اپنے ارکان کی تعداد 124 رکنی ایوان میں 54 ہے جن میں دس خواتین اور نو آزاد حیثیت میں منتخب ہوکر پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے ارکان بھی شامل ہیں ۔ تاہم تحریک انصاف اٹھارویں ترمیم کی بندشوں اور نصف وزارتیں اتحادیوں کو دینے کے باعث کابینہ میں اپنے صرف سات ارکان ہی ایڈجیسٹ کرسکتی ہے اور ان سات میں بھی وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو اس حوالے سے خیال رکھنا پڑے گا کہ اپنے بندوں کے ساتھ وہ سپیکر اسد قیصر کے ساتھیوں کو بھی ایڈجیسٹ کریں۔
کیونکہ ذرا سے غلطی ان کے لیے پارٹی کے اندر بہت سے مشکلات پیدا کرسکتی ہے، تاہم وزیراعلیٰ اس حوالے سے ضرور فائدہ لے سکتے ہیں کہ وہ اپنے جو پانچ مشیر مقرر کریں گے وہ تمام منتخب اراکین صوبائی اسمبلی ہی ہوں جنھیں مختلف محکموں کے قلمدان بھی حوالہ کیے جائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ ساتھیوں کی ایڈجیسٹمنٹ بھی کی جاسکے اور اسمبلی کے فلور پر حکومت کا دفاع کرنے والوں کی بھی کمی نہ ہو ۔ جے یو آئی کے اکرم درانی صوبائی اسمبلی کی نشست چھوڑ کر قومی اسمبلی چلے گئے ہیں اور سردار مہتاب کو گورنر بنائے جانے کا امکان ہے ۔
عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلزپارٹی کی مخلوط حکومت نے صوبہ کو درپیش مسائل کے حل کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے اور اے پی سیز اور جرگوں کے انعقاد کی پالیسی اپنائی تھی جس کا فائدہ وہ ہر قدم پر لیتے رہے کہ وہ صوبہ کے حوالے سے جو بھی فیصلہ کرتے ہیں وہ تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر ہی کیے جاتے ہیں ۔ سابقہ حکومت نے سوات میں آپریشن ،بجلی کے خالص منافع کے حصول اور ایسے ہی دیگر کئی ایشوز پر سیاسی جماعتوں کا اکٹھ کیا تھا اور اب تحریک انصاف کی قیادت میں صوبہ میں قائم چار جماعتی اتحاد کی حکومت بھی سابقہ حکومت کے نقش قدم پر چلنے کی تیاری کررہی ہے۔
جس کے حوالے سے تحریک انصاف کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر شوکت علی یوسفزئی نے واضح کیا ہے کہ صوبہ کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ان کے حوالے سے ترجیحات کے تعین اور ان مسائل سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی وضع کرنے کی غرض سے بجٹ اجلاس کے بعد وزیراعلیٰ ایسی ہی اے پی سی بلائیں گے جس میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ صوبہ کو درپیش مسائل پیش کرتے ہوئے ان کی رائے لی جائے گی ۔ صوبائی حکومت کو معلوم ہے کہ صوبہ کو امن وامان کے حوالے سے جن مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ان سے ہٹ کر بھی کئی مسائل ایسے ہیں جس میں انھیں تمام سیاسی جماعتوں کی سپورٹ اور امداد کی ضرورت ہوگی اور ان میں سب سے اہم اور بنیادی مسئلہ بجلی کے خالص منافع کا ہے کیونکہ آئندہ مالی سال کے دوران صوبہ کو تصفیہ شدہ 110 ارب کی ادائیگی مکمل ہوجائے گی۔
جس کے بعد نیا کیس مرکز کو پیش کرنے اور مرکز اور واپڈا کو اس ادائیگی پر رضامند کرنے کے لیے تحریک انصاف لازمی طور پر تمام سیاسی جماعتوں کی حمایت چاہے گی، خصوصی طورپر مسلم لیگ(ن)اور جے یو آئی کی جو مرکز میں برسراقتدار ہیں جبکہ صوبے کے حصے کے پانی کا دیگر صوبوں کی جانب سے استعمال کے عوض رقم کی وصولی اور چشمہ رائٹ بنک کنال جیسے منصوبوں کو عملی شکل دینے کے لیے بھی سیاسی جماعتوں کا اکٹھ ضروری ہے ، بصورت دیگر پی ٹی آئی کے لیے ان مقاصد کا حصول مشکل ہوجائے گا کیونکہ مرکز میں (ن)لیگ برسراقتدار ہے ۔
سوات میں 2007 ء میں فوج کی آمد اس وقت کی صوبائی حکومت ہی کی درخواست پر ہوئی تھی جس کے حوالے سے اب تک جے یو آئی اور اے این پی ایک دوسرے کے سر پر الزامات عائد کرتی ہیں، تاہم یہ بات یقینی ہے کہ ایک یا دوسری لیکن کسی ایک صوبائی حکومت ہی کی درخواست پر سوات میں عسکریت پسندی کے خاتمے کے لیے فوج گئی تھی اور وہاں سے اس نے کاروائی کی اور اب وہاں سے فوج کی واپسی بھی صوبائی حکومت ہی کی درخواست پر ہوگی جس کے حوالے سے گزشتہ حکومت میں بھی معاملات زیر بحث آئے تھے اور اب ایک مرتبہ پھر اس حکومت میں بھی یہ معاملہ زیربحث ہے جس کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ سوات سے فوج کی واپسی مرحلہ وار ہوگی۔
تاکہ سول انتظامیہ خود کو وہاں مضبوط کرسکے،فوج کی سوات سمیت ملاکنڈ ڈویژن سے واپسی یقینی طور پر کوئی عام یا آسان فیصلہ نہیں ہے بلکہ یہ فیصلہ کرنے سے قبل صوبائی حکومت اور فوج دونوں کو ہر پہلو کا جائزہ لینا ہوگا کیونکہ اگر ایک سوات میں عسکریت پسندی کو کنٹرول کرلیا گیا ہے تو دوسری جانب دیر اور چترال کے علاقوں میں افغانستان کی جانب سے جو حملے کیے جاتے رہے ہیں ان کی روک تھام اور موثر جواب دینے کے لیے بہرکیف فوج کی وہاں پر ضرورت ہے، اسی لیے امکانات ظاہر کیے جارہے ہیں کہ اگر فوج نے سوات سمیت ملاکنڈ ڈویژن کے دیگر علاقوں کا کنٹرول سول انتظامیہ کے حوالے کربھی دیا تو پھر بھی فوج کسی نہ کسی صورت میں وہاں پر موجود رہے گی اوراسی لیے ملاکنڈ ڈویژن میں کنٹونمنٹ بنانے کے حوالے سے غور کیا جارہا ہے کیونکہ اگر وہاں پر چھاؤنی بن جاتی ہے تو اس صورت میں فوج وہاں پر مستقل طور پر موجود رہے گی اور کسی بھی ناخوشگوار صورت حال میں معاملات کو کنٹرول کرسکے گی۔
پیپلزپارٹی کا معاملہ یوں ہے کہ الیکشن کو ایک ماہ گزرنے کے باوجود تاحال پارٹی کے صوبائی صدر کا کچھ اتا پتا نہیں کہ وہ کہاں ہیں کیونکہ الیکشن کے بعد تاحال وہ میڈیا کے سامنے نہیں آئے اور نہ ہی انہوں نے الیکشن میں پارٹی کی شکست کی وجوہات جاننے کے لیے کسی قسم کی کوئی انکوائری یا تحقیقات کرائیں جس کے باعث پیپلزپارٹی ایک مرتبہ پھر اسی حالت میں چلی گئی ہے جس حالت میں انور سیف اللہ کے پارٹی صدر بننے سے قبل تھی اور پارٹی پر اس وقت مکمل طور پر جمود طاری ہے جس کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پارٹی کی سرگرمیاں کسی نہ کسی حوالے سے شروع کی جائیں ، تاہم ایسا کچھ نہیں کیاجارہا اور جس انداز میں معاملات کو چلایاجارہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے لگ یہی رہا ہے کہ جلد یا بدیر پیپلزپارٹی کی قیادت میں ایک مرتبہ پھر تبدیلی آئے گی اور پارٹی ایک نئے پارٹی صدر کے ساتھ کام کرے گی ۔
حالانکہ اس کے اپنے ارکان کی تعداد پچاس سے زائد ہے،تحریک انصاف کے ٹکٹ پر اکثر ارکان پہلی مرتبہ منتخب ہوکر اسمبلیوں میں پہنچے ہیں۔ چونکہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف نے اپنی حکومت بنائی ہے اس لیے پی ٹی آئی کی صفوں میں کھڑے ہر رکن کی خواہش اور تمنا ہے کہ اسے وزیر بنایاجائے جو یقینی طور پر ممکن نہیں ہے تاہم یہ امکانات مزید اس لیے بھی کم ہوگئے ہیں کہ اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبائی کابینہ کا حجم بندشوں میں جکڑا ہوا ہے اور بشمول وزیراعلیٰ یہ حجم پندرہ سے زائد نہیں ہوسکتا ، ایسے میں وزراء کی تعداد چودہ ہی ہوگی اور ان چودہ میں سے سات وزارتیں پی ٹی آئی اپنے اتحادیوں میں بانٹ چکی ہے۔
جس کی وجہ سے خود پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے اراکین میں مایوسی پائی جاتی ہے جس کا اظہار پشاور کی سطح پر منتخب ارکان نے اپنے ایک اجلاس کے ذریعے کیا تھا جبکہ ایسے ہی جذبات مردان ،سوات اور دیگر اضلاع سے منتخب ارکان میں بھی پائے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اندرون پی ٹی آئی یہ بات بھی زیر گردش ہے کہ اتحادیوں کو دی جانے والی وزارتوں میں کمی کی جائے تاکہ پی ٹی آئی والوں کے لیے جگہ بن سکے تاہم شاید ہی یہ ممکن ہوسکے ۔
تحریک انصاف کے اپنے ارکان کی تعداد 124 رکنی ایوان میں 54 ہے جن میں دس خواتین اور نو آزاد حیثیت میں منتخب ہوکر پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے ارکان بھی شامل ہیں ۔ تاہم تحریک انصاف اٹھارویں ترمیم کی بندشوں اور نصف وزارتیں اتحادیوں کو دینے کے باعث کابینہ میں اپنے صرف سات ارکان ہی ایڈجیسٹ کرسکتی ہے اور ان سات میں بھی وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو اس حوالے سے خیال رکھنا پڑے گا کہ اپنے بندوں کے ساتھ وہ سپیکر اسد قیصر کے ساتھیوں کو بھی ایڈجیسٹ کریں۔
کیونکہ ذرا سے غلطی ان کے لیے پارٹی کے اندر بہت سے مشکلات پیدا کرسکتی ہے، تاہم وزیراعلیٰ اس حوالے سے ضرور فائدہ لے سکتے ہیں کہ وہ اپنے جو پانچ مشیر مقرر کریں گے وہ تمام منتخب اراکین صوبائی اسمبلی ہی ہوں جنھیں مختلف محکموں کے قلمدان بھی حوالہ کیے جائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ ساتھیوں کی ایڈجیسٹمنٹ بھی کی جاسکے اور اسمبلی کے فلور پر حکومت کا دفاع کرنے والوں کی بھی کمی نہ ہو ۔ جے یو آئی کے اکرم درانی صوبائی اسمبلی کی نشست چھوڑ کر قومی اسمبلی چلے گئے ہیں اور سردار مہتاب کو گورنر بنائے جانے کا امکان ہے ۔
عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلزپارٹی کی مخلوط حکومت نے صوبہ کو درپیش مسائل کے حل کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے اور اے پی سیز اور جرگوں کے انعقاد کی پالیسی اپنائی تھی جس کا فائدہ وہ ہر قدم پر لیتے رہے کہ وہ صوبہ کے حوالے سے جو بھی فیصلہ کرتے ہیں وہ تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر ہی کیے جاتے ہیں ۔ سابقہ حکومت نے سوات میں آپریشن ،بجلی کے خالص منافع کے حصول اور ایسے ہی دیگر کئی ایشوز پر سیاسی جماعتوں کا اکٹھ کیا تھا اور اب تحریک انصاف کی قیادت میں صوبہ میں قائم چار جماعتی اتحاد کی حکومت بھی سابقہ حکومت کے نقش قدم پر چلنے کی تیاری کررہی ہے۔
جس کے حوالے سے تحریک انصاف کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر شوکت علی یوسفزئی نے واضح کیا ہے کہ صوبہ کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ان کے حوالے سے ترجیحات کے تعین اور ان مسائل سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی وضع کرنے کی غرض سے بجٹ اجلاس کے بعد وزیراعلیٰ ایسی ہی اے پی سی بلائیں گے جس میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ صوبہ کو درپیش مسائل پیش کرتے ہوئے ان کی رائے لی جائے گی ۔ صوبائی حکومت کو معلوم ہے کہ صوبہ کو امن وامان کے حوالے سے جن مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ان سے ہٹ کر بھی کئی مسائل ایسے ہیں جس میں انھیں تمام سیاسی جماعتوں کی سپورٹ اور امداد کی ضرورت ہوگی اور ان میں سب سے اہم اور بنیادی مسئلہ بجلی کے خالص منافع کا ہے کیونکہ آئندہ مالی سال کے دوران صوبہ کو تصفیہ شدہ 110 ارب کی ادائیگی مکمل ہوجائے گی۔
جس کے بعد نیا کیس مرکز کو پیش کرنے اور مرکز اور واپڈا کو اس ادائیگی پر رضامند کرنے کے لیے تحریک انصاف لازمی طور پر تمام سیاسی جماعتوں کی حمایت چاہے گی، خصوصی طورپر مسلم لیگ(ن)اور جے یو آئی کی جو مرکز میں برسراقتدار ہیں جبکہ صوبے کے حصے کے پانی کا دیگر صوبوں کی جانب سے استعمال کے عوض رقم کی وصولی اور چشمہ رائٹ بنک کنال جیسے منصوبوں کو عملی شکل دینے کے لیے بھی سیاسی جماعتوں کا اکٹھ ضروری ہے ، بصورت دیگر پی ٹی آئی کے لیے ان مقاصد کا حصول مشکل ہوجائے گا کیونکہ مرکز میں (ن)لیگ برسراقتدار ہے ۔
سوات میں 2007 ء میں فوج کی آمد اس وقت کی صوبائی حکومت ہی کی درخواست پر ہوئی تھی جس کے حوالے سے اب تک جے یو آئی اور اے این پی ایک دوسرے کے سر پر الزامات عائد کرتی ہیں، تاہم یہ بات یقینی ہے کہ ایک یا دوسری لیکن کسی ایک صوبائی حکومت ہی کی درخواست پر سوات میں عسکریت پسندی کے خاتمے کے لیے فوج گئی تھی اور وہاں سے اس نے کاروائی کی اور اب وہاں سے فوج کی واپسی بھی صوبائی حکومت ہی کی درخواست پر ہوگی جس کے حوالے سے گزشتہ حکومت میں بھی معاملات زیر بحث آئے تھے اور اب ایک مرتبہ پھر اس حکومت میں بھی یہ معاملہ زیربحث ہے جس کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ سوات سے فوج کی واپسی مرحلہ وار ہوگی۔
تاکہ سول انتظامیہ خود کو وہاں مضبوط کرسکے،فوج کی سوات سمیت ملاکنڈ ڈویژن سے واپسی یقینی طور پر کوئی عام یا آسان فیصلہ نہیں ہے بلکہ یہ فیصلہ کرنے سے قبل صوبائی حکومت اور فوج دونوں کو ہر پہلو کا جائزہ لینا ہوگا کیونکہ اگر ایک سوات میں عسکریت پسندی کو کنٹرول کرلیا گیا ہے تو دوسری جانب دیر اور چترال کے علاقوں میں افغانستان کی جانب سے جو حملے کیے جاتے رہے ہیں ان کی روک تھام اور موثر جواب دینے کے لیے بہرکیف فوج کی وہاں پر ضرورت ہے، اسی لیے امکانات ظاہر کیے جارہے ہیں کہ اگر فوج نے سوات سمیت ملاکنڈ ڈویژن کے دیگر علاقوں کا کنٹرول سول انتظامیہ کے حوالے کربھی دیا تو پھر بھی فوج کسی نہ کسی صورت میں وہاں پر موجود رہے گی اوراسی لیے ملاکنڈ ڈویژن میں کنٹونمنٹ بنانے کے حوالے سے غور کیا جارہا ہے کیونکہ اگر وہاں پر چھاؤنی بن جاتی ہے تو اس صورت میں فوج وہاں پر مستقل طور پر موجود رہے گی اور کسی بھی ناخوشگوار صورت حال میں معاملات کو کنٹرول کرسکے گی۔
پیپلزپارٹی کا معاملہ یوں ہے کہ الیکشن کو ایک ماہ گزرنے کے باوجود تاحال پارٹی کے صوبائی صدر کا کچھ اتا پتا نہیں کہ وہ کہاں ہیں کیونکہ الیکشن کے بعد تاحال وہ میڈیا کے سامنے نہیں آئے اور نہ ہی انہوں نے الیکشن میں پارٹی کی شکست کی وجوہات جاننے کے لیے کسی قسم کی کوئی انکوائری یا تحقیقات کرائیں جس کے باعث پیپلزپارٹی ایک مرتبہ پھر اسی حالت میں چلی گئی ہے جس حالت میں انور سیف اللہ کے پارٹی صدر بننے سے قبل تھی اور پارٹی پر اس وقت مکمل طور پر جمود طاری ہے جس کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پارٹی کی سرگرمیاں کسی نہ کسی حوالے سے شروع کی جائیں ، تاہم ایسا کچھ نہیں کیاجارہا اور جس انداز میں معاملات کو چلایاجارہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے لگ یہی رہا ہے کہ جلد یا بدیر پیپلزپارٹی کی قیادت میں ایک مرتبہ پھر تبدیلی آئے گی اور پارٹی ایک نئے پارٹی صدر کے ساتھ کام کرے گی ۔