عملی روڈ میپ کی اشد ضرورت
عوام کے سامنے بیان بازیاں اور امریکیوں کو ڈرون حملوں کی اجازت دینے کی پالیسی اب نہیں چلے گی، وزیراعظم نواز شریف
صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ آج کے پاکستان میں آمروں کے لیے کوئی گنجائش نہیں،آئین کو معطل کرنا یا توڑنا بغاوت ہے، انتخابی عمل میں شرکت سے ثابت ہوگیا کہ ہمارے عوام کا مزاج جمہوری ہے، ڈرون حملے ہماری قومی خودمختاری اور عالمی قوانین کے خلاف ہیں ، انھیں ہر قیمت پر بند کرنا ہو گا۔ پیر کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے اپنے چھٹے خطاب میں انھوں نے کہا کہ آج یہ اعزاز کی بات ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلے منتخب سویلین جمہوری انداز میں اقتدار کی منتقلی کا مشاہدہ کررہے ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ عوام کے سامنے بیان بازیاں اور امریکیوں کو ڈرون حملوں کی اجازت دینے کی پالیسی اب نہیں چلے گی، امریکی حکومت کو بھی پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری کا احترام کرنا ہوگا۔ کرپشن کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی،آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے،کرپشن نے ہمیںتباہ کردیا، ملک کو برباد کرنے والوں کے خلاف بھرپور کارروائی کرینگے ۔ وفاقی کابینہ کے پہلے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے وفاقی وزرا کو 15دن میں وزارتوں کا ایکشن پلان تیارکرنے کی ہدایات کرتے ہو ئے کہا کہ وفاقی وزارتوں کے اخراجات30 فیصد تک کم کیے جائیں،3 ماہ بعد وفاقی وزرا کی کارکردگی کا خود جائزہ لوں گا، جو وزیر کارکردگی نہ دکھا سکا وہ گھر جائے گا صرف کام کرنے والا ہی کابینہ میں رہے گا۔
صدرآصف زرداری اور وزیراعظم نواز شریف کے ایک ہی دن امور مملکت اور قوم کو درپش کثیرالجہتی چیلنجز کے حوالے سے ارشادات و معروضات بلاشبہ جمہوریت کے تسلسل کی ایک نئی اور شاندار روایت ہے، دونوں مقتدر شخصیات نے اپنے نقطہ نظر اور سیاسی سوچ کے مطابق ملک کو درپیش سیاسی ،اقتصادی اور سماجی مسائل اور عالمی قوتوں سے ریاستی اور حکومتی تجدید تعلقات کے اہم معاملات سمیت داخلی امن و امان کے قیام ، لوڈ شیڈنگ ، غربت، مہنگائی اور کرپشن کے خاتمے کے لیے جو روڈ میپ پیش کیا ہے وہ عمل اور صرف عمل سے سروکار رکھتا ہے۔
اگر پاکستان کی 65 سالہ سیاسی و سماجی اور اقتصادی تاریخ کا بہ نظر غائر جائزہ لیا جائے تو قوم کو بتانے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ ملک کی جونا گفتہ بہ اقتصادی حالت ہے یہ سب کچھ فرد اور ریاست کے مابین دوری ، حکومت اور عوام کے درمیان بدگمانی، طبقاتی تقسیم، قانون کے بے توقیری، تفکر و خرد افروزی کی توہین و ناقدری اور اشرافیائی اور وی آئی پی کلچر کا کیا دھرا ہے جب کہ وقت نے بھی مسائل کی پرورش کی ہے ۔قومی منظر نامہ پر حادثے ایک دم نہیں ہوئے۔ حکمرانوں کی چشم پوشی اور زندگی کے تلخ حقائق سے نظریں چرانے اور سنگین سیاسی ،معاشی اور آئینی معاملات سے انحراف کا نتیجہ عوام کے سامنے ہے ۔اب برس ہا برس کے اس سارے ملبہ کو نئی حکومت پر ڈالنا اور قومی مسائل اور اہم ایشوز کے جامع حل کے لیے الہ دین کے چراغ کی آرزو بھی بے جا ہوگی۔
صدر کا یہ عزم اور خواہش کہ پارلیمنٹ آئین توڑنے والوں کے خلاف کارروائی کرے،اچھی تلقین ہے تاہم پچھلی پارلیمنٹ ہی کو یہ کریڈٹ ملتا تو کتنا اچھا تھا،اسی طرح ڈرون حملوں کے خلاف سابق کمانڈو جنرل اور صدر پرویز مشرف قومی امنگوں کے مطابق جرات مندانہ حکمت عملی وضع کرتے تو اوباما فاٹا میں ڈرون حملے جاری رکھنے کی دھمکی نہ دیتے۔ان معروضات کے بین السطور میں ان مسائل کی نشاندہی ضروری ہے جسے کل کی حکومت آج کے حکمرانوں کے سپرد کررہی ہے۔یوں وہ گراں بار مسائل اور ایشوز بھی نواز حکومت کے نازک کندھے پر آگئے ہیں جن کی تکمیل اگر سابقہ حکومت کے دور میں ہوتی توملک کو انتظامی ، سیاسی اور اقتصادی طور پر ان داخلی ،عالمی اورخارجی دباؤ سے نجات مل چکی ہوتی جو قوم کو درپیش ہے، ان میں ڈرون حملوں کا مسئلہ انتہائی توجہ کا حامل ہے۔
ڈرون حملوں کی بندش کا مطالبہ حکمراں اس اوباما انتظامیہ سے کررہے ہیں جس کے بارے میں امریکی دانشور ،مبصرین اور کالم نگاروں کی رائے ہے کہ صدر اوباما ایک نہیں بلکہ دو چہروں والی سوچ وشخصیت کا نام ہے ۔ تاہم پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہنے کے باوجود اب بھی احساس زیاں باقی ہے تو وزیراعظم نواز شریف کے لیے میدان عمل خالی ہے۔سلیٹ پر وہ ایک نئی تاریخ رقم کرسکتے ہیں۔چنانچہ صدر و وزیراعظم کے عزم و ارادے کو دیکھتے ہوئے یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ قوم سفینہ جمہوریت کو طوفان سے نکالنے کی ہر جائز، بے لوث اور مخلصانہ اقدام کی بھر پور نہ صرف حمایت کریگی بلکہ اس کے لیے جو قربانی ارباب اختیار اس سے مانگیں گے وہ دے گی ، پیچھے کبھی نہیں ہٹے گی۔ ملکی سیاسی تاریخ کی ان دو محترم شخصیات کے لیے ماضی کے تلخ تجربات خاصے سبق آموز رہے ہیں، جمہوریت سے کمٹمنٹ کے نتیجہ میں سیاست میں بنیادی تبدیلی اور انتخابات کا بگل اگرچہ الیکشن کمیشن ۔
عدلیہ اور میڈیا کی کوششوں کا نتیجہ ہے لیکن الیکشن کا انعقاد آصف زرداری اورنواز شریف کی باہمی معاونت اور مشترکہ خواہشات ، عسکری قیادت اور دیگر ریاستی اداروں کی حمایت کا ہی تحفہ ہے۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ حکومت کو ہر صورت عوام کی توقعات پر پورا اترنا ہے، تمام وزراء دو ہفتوں میں اپنی ترجیحات کا تعین کرلیں۔ صدر نے کہا کہ یہی وہ نصب العین ہے جس کے لیے شہید محترمہ نے اپنی زندگی وقف کی، جس کے لیے میں نے ساڑھے 11سال جیل میں گزارے، جس کے لیے وزیراعظم محمد نواز شریف نے قید اور جلا وطنی کی صعوبت اٹھائی۔ انھوں نے وزیراعظم میاں نواز شریف کو مبارکباد دیتے ہوئے کہ رائے دہندگان اور منتخب پارلیمنٹ نے انھیں بہت بڑی ذمے داری انھیں سونپی ہے، مجھے اعتماد ہے کہ وہ عوام کی توقعات پر پورا اتریں گے ۔
صدر کا یہ کہنا درست ہے کہ انتہا پسندی اور دہشتگردی ہماری قومی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں، ہمیں اس خطرے پر قابو پانے کے لیے مضبوط قیادت کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو بین الاقوامی تنہائی کا سامنا ہے، عالمی ماحول ملک کے لیے سازگار نہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی، انتہا پسندی ، معیشت کی بحالی، توانائی بحران اور ملک میں جاری بدترین لوڈشیڈنگ بڑے مسائل ہیں جن کا حکومت سامنا ہے۔ صدر کا اعتراف اعلیٰ ظرفی ہے۔ ان مسائل پر قابو پانے کی کوشش کی گئی تو صورتحال میں نمایاں تبدیلی دیکھنے میں آئے گی ۔
لوڈ شیڈنگ کا معاملہ انتہائی سنگین ہے، ملک میں بجلی ،گیس اور ایندھن کی دیگر مصنوعات کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ قومی طرز زندگی اور انداز حکمرانی پر ایک گہرا طنز ہے۔ملک سے اندھیرے مٹانا اولین ٹاسک ہونا چاہیے۔ جب پہیہ نہیں چلے گا،گھر گھر بجلی نہیں ہوگی اور کاروبار ٹھپ ہوجائے گا تو قومی ترقی کے خواب کی تعبیر کا ملنا ممکن نہیں ہوگا۔ حکمران عیاشی اور شاہ خرچیوں کا ہر در بند کریں ۔ سادگی، کفایت شعاری اور خود انحصاری منزل تک پہنچنے کے لیے حکمراں طبقہ اللوں تللوں سے جان چھڑائے ۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کے اتفاق کے ساتھ دہشت گردی پر قابو پانے کی کوشش حقیقت پسندانہ ہوگی ۔
وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ عوام کے سامنے بیان بازیاں اور امریکیوں کو ڈرون حملوں کی اجازت دینے کی پالیسی اب نہیں چلے گی، امریکی حکومت کو بھی پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری کا احترام کرنا ہوگا۔ کرپشن کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی،آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے،کرپشن نے ہمیںتباہ کردیا، ملک کو برباد کرنے والوں کے خلاف بھرپور کارروائی کرینگے ۔ وفاقی کابینہ کے پہلے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے وفاقی وزرا کو 15دن میں وزارتوں کا ایکشن پلان تیارکرنے کی ہدایات کرتے ہو ئے کہا کہ وفاقی وزارتوں کے اخراجات30 فیصد تک کم کیے جائیں،3 ماہ بعد وفاقی وزرا کی کارکردگی کا خود جائزہ لوں گا، جو وزیر کارکردگی نہ دکھا سکا وہ گھر جائے گا صرف کام کرنے والا ہی کابینہ میں رہے گا۔
صدرآصف زرداری اور وزیراعظم نواز شریف کے ایک ہی دن امور مملکت اور قوم کو درپش کثیرالجہتی چیلنجز کے حوالے سے ارشادات و معروضات بلاشبہ جمہوریت کے تسلسل کی ایک نئی اور شاندار روایت ہے، دونوں مقتدر شخصیات نے اپنے نقطہ نظر اور سیاسی سوچ کے مطابق ملک کو درپیش سیاسی ،اقتصادی اور سماجی مسائل اور عالمی قوتوں سے ریاستی اور حکومتی تجدید تعلقات کے اہم معاملات سمیت داخلی امن و امان کے قیام ، لوڈ شیڈنگ ، غربت، مہنگائی اور کرپشن کے خاتمے کے لیے جو روڈ میپ پیش کیا ہے وہ عمل اور صرف عمل سے سروکار رکھتا ہے۔
اگر پاکستان کی 65 سالہ سیاسی و سماجی اور اقتصادی تاریخ کا بہ نظر غائر جائزہ لیا جائے تو قوم کو بتانے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ ملک کی جونا گفتہ بہ اقتصادی حالت ہے یہ سب کچھ فرد اور ریاست کے مابین دوری ، حکومت اور عوام کے درمیان بدگمانی، طبقاتی تقسیم، قانون کے بے توقیری، تفکر و خرد افروزی کی توہین و ناقدری اور اشرافیائی اور وی آئی پی کلچر کا کیا دھرا ہے جب کہ وقت نے بھی مسائل کی پرورش کی ہے ۔قومی منظر نامہ پر حادثے ایک دم نہیں ہوئے۔ حکمرانوں کی چشم پوشی اور زندگی کے تلخ حقائق سے نظریں چرانے اور سنگین سیاسی ،معاشی اور آئینی معاملات سے انحراف کا نتیجہ عوام کے سامنے ہے ۔اب برس ہا برس کے اس سارے ملبہ کو نئی حکومت پر ڈالنا اور قومی مسائل اور اہم ایشوز کے جامع حل کے لیے الہ دین کے چراغ کی آرزو بھی بے جا ہوگی۔
صدر کا یہ عزم اور خواہش کہ پارلیمنٹ آئین توڑنے والوں کے خلاف کارروائی کرے،اچھی تلقین ہے تاہم پچھلی پارلیمنٹ ہی کو یہ کریڈٹ ملتا تو کتنا اچھا تھا،اسی طرح ڈرون حملوں کے خلاف سابق کمانڈو جنرل اور صدر پرویز مشرف قومی امنگوں کے مطابق جرات مندانہ حکمت عملی وضع کرتے تو اوباما فاٹا میں ڈرون حملے جاری رکھنے کی دھمکی نہ دیتے۔ان معروضات کے بین السطور میں ان مسائل کی نشاندہی ضروری ہے جسے کل کی حکومت آج کے حکمرانوں کے سپرد کررہی ہے۔یوں وہ گراں بار مسائل اور ایشوز بھی نواز حکومت کے نازک کندھے پر آگئے ہیں جن کی تکمیل اگر سابقہ حکومت کے دور میں ہوتی توملک کو انتظامی ، سیاسی اور اقتصادی طور پر ان داخلی ،عالمی اورخارجی دباؤ سے نجات مل چکی ہوتی جو قوم کو درپیش ہے، ان میں ڈرون حملوں کا مسئلہ انتہائی توجہ کا حامل ہے۔
ڈرون حملوں کی بندش کا مطالبہ حکمراں اس اوباما انتظامیہ سے کررہے ہیں جس کے بارے میں امریکی دانشور ،مبصرین اور کالم نگاروں کی رائے ہے کہ صدر اوباما ایک نہیں بلکہ دو چہروں والی سوچ وشخصیت کا نام ہے ۔ تاہم پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہنے کے باوجود اب بھی احساس زیاں باقی ہے تو وزیراعظم نواز شریف کے لیے میدان عمل خالی ہے۔سلیٹ پر وہ ایک نئی تاریخ رقم کرسکتے ہیں۔چنانچہ صدر و وزیراعظم کے عزم و ارادے کو دیکھتے ہوئے یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ قوم سفینہ جمہوریت کو طوفان سے نکالنے کی ہر جائز، بے لوث اور مخلصانہ اقدام کی بھر پور نہ صرف حمایت کریگی بلکہ اس کے لیے جو قربانی ارباب اختیار اس سے مانگیں گے وہ دے گی ، پیچھے کبھی نہیں ہٹے گی۔ ملکی سیاسی تاریخ کی ان دو محترم شخصیات کے لیے ماضی کے تلخ تجربات خاصے سبق آموز رہے ہیں، جمہوریت سے کمٹمنٹ کے نتیجہ میں سیاست میں بنیادی تبدیلی اور انتخابات کا بگل اگرچہ الیکشن کمیشن ۔
عدلیہ اور میڈیا کی کوششوں کا نتیجہ ہے لیکن الیکشن کا انعقاد آصف زرداری اورنواز شریف کی باہمی معاونت اور مشترکہ خواہشات ، عسکری قیادت اور دیگر ریاستی اداروں کی حمایت کا ہی تحفہ ہے۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ حکومت کو ہر صورت عوام کی توقعات پر پورا اترنا ہے، تمام وزراء دو ہفتوں میں اپنی ترجیحات کا تعین کرلیں۔ صدر نے کہا کہ یہی وہ نصب العین ہے جس کے لیے شہید محترمہ نے اپنی زندگی وقف کی، جس کے لیے میں نے ساڑھے 11سال جیل میں گزارے، جس کے لیے وزیراعظم محمد نواز شریف نے قید اور جلا وطنی کی صعوبت اٹھائی۔ انھوں نے وزیراعظم میاں نواز شریف کو مبارکباد دیتے ہوئے کہ رائے دہندگان اور منتخب پارلیمنٹ نے انھیں بہت بڑی ذمے داری انھیں سونپی ہے، مجھے اعتماد ہے کہ وہ عوام کی توقعات پر پورا اتریں گے ۔
صدر کا یہ کہنا درست ہے کہ انتہا پسندی اور دہشتگردی ہماری قومی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں، ہمیں اس خطرے پر قابو پانے کے لیے مضبوط قیادت کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو بین الاقوامی تنہائی کا سامنا ہے، عالمی ماحول ملک کے لیے سازگار نہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی، انتہا پسندی ، معیشت کی بحالی، توانائی بحران اور ملک میں جاری بدترین لوڈشیڈنگ بڑے مسائل ہیں جن کا حکومت سامنا ہے۔ صدر کا اعتراف اعلیٰ ظرفی ہے۔ ان مسائل پر قابو پانے کی کوشش کی گئی تو صورتحال میں نمایاں تبدیلی دیکھنے میں آئے گی ۔
لوڈ شیڈنگ کا معاملہ انتہائی سنگین ہے، ملک میں بجلی ،گیس اور ایندھن کی دیگر مصنوعات کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ قومی طرز زندگی اور انداز حکمرانی پر ایک گہرا طنز ہے۔ملک سے اندھیرے مٹانا اولین ٹاسک ہونا چاہیے۔ جب پہیہ نہیں چلے گا،گھر گھر بجلی نہیں ہوگی اور کاروبار ٹھپ ہوجائے گا تو قومی ترقی کے خواب کی تعبیر کا ملنا ممکن نہیں ہوگا۔ حکمران عیاشی اور شاہ خرچیوں کا ہر در بند کریں ۔ سادگی، کفایت شعاری اور خود انحصاری منزل تک پہنچنے کے لیے حکمراں طبقہ اللوں تللوں سے جان چھڑائے ۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کے اتفاق کے ساتھ دہشت گردی پر قابو پانے کی کوشش حقیقت پسندانہ ہوگی ۔