تذکرہ کچھ مخلص کارکنوں کا

آج کل جو موضوع زیادہ تر زیر بحث ہے اور مختلف جگہوں پر لوگ اپنے اپنے انداز سے جس پر تبصرے تذکرے کرتے نظر آتے ہیں...


سائرہ اکبر June 11, 2013

آج کل جو موضوع زیادہ تر زیر بحث ہے اور مختلف جگہوں پر لوگ اپنے اپنے انداز سے جس پر تبصرے تذکرے کرتے نظر آتے ہیں وہ ہے الیکشن۔ اگرچہ الیکشن ہو چکے ہیں مگر اس کے باوجود اب اس میں کی جانے والی مبینہ دھاندلیوں کے خلاف ہر جگہ و ہر سمت زبردست احتجاجی دھرنے دیکھنے اور بحث و مباحثے سننے میں آ رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس حالیہ الیکشن میں دھاندلیاں تو ضرور ہوئی ہیں ورنہ اتنی شدت سے احتجاج و دھرنے نہ ہو رہے ہوتے۔

ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ اس الیکشن نے تو 1977 کے الیکشن کی بھی دھاندلیوں کے سارے ریکارڈ توڑ دیے، اسی طرح ایک جماعت کے ممبر کے بقول 47 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت کی اس غضب کی گرمی میں دھرنے دینے کا ہمیں کوئی شوق نہیں کہ اس چلچلاتی دھوپ اور شدید حبس میں مسلسل بیٹھے رہنا کوئی آسان کام نہیں۔ اس سنگین صورت حال پر غور کیا جائے تو یہ واقعی سچ ہے کہ اس قدر قیامت خیز گرمی میں جم کر اور مسلسل بیٹھنا وہ بھی اپنے جائز حق کے لیے کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ فعل بے حد قابل ستائش ہے اس معاملے میں مختلف چینلز پر متعدد بار دھاندلیاں ہوتے ہوئے واضح طور پر دکھایا بھی جاتا رہا اور جہاں دوبارہ الیکشن کرائے گئے وہاں کے نتائج بھی پہلے کے مقابلے میں یکسر مختلف نکلے، جس سے یہ بات کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی گڑبڑ ضرور ہوئی ہے۔

ہمیں تو ان حالیہ الیکشن کو دیکھتے ہوئے چند ماضی کے الیکشن یاد آ رہے ہیں، وہ بے غرض کارکن بھی بے حد یاد آ رہے ہیں جو اپنی اپنی پارٹیوں سے بے انتہا مخلص ہوا کرتے تھے اور آج کل کے لوگوں کی طرح مفاد پرست نہیں تھے، جو ہوا کا رخ دیکھ کر سیاسی جماعتوں میں شمولیت اختیار کرتے ہیں۔ اسی بنا پر ایک زمانے میں لوٹوں کی سیاست اپنے عروج پر تھی، ہم سمجھتے ہیں کہ اس میں کارکنوں کا بھی کوئی دوش نہیں کہ جب ان کے لیڈر ہی طوطا چشم ہوں تو ان سے متاثر ہو کر وہ بھی ان ہی کی تقلید کریں گے۔ بہرکیف ہم ذکر کر رہے تھے ان کارکنوں کا جو واقعی بے حد مخلص اور اپنی اپنی سیاسی پارٹیوں کے وفادار ہوتے تھے۔

اس حوالے سے ہم نے کافی عرصہ پہلے پڑھا تھا کہ ایک پارٹی کی دیرینہ کارکن نے اپنی پارٹی کی اس وابستگی کے حوالے سے بتایا تھا کہ وہ ایک بے حد غریب عورت ہے اور آج بھی اس کی غربت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے، وہ اسی طرح حالات کی چکی میں پس رہی ہے اور اپنے بے روزگار بچوں کے ساتھ نہایت مشکل وقت گزار رہی ہے لیکن اس کے باوجود آج بھی اس کی سیاست میں دلچسپی کم نہیں ہوئی ہے البتہ اس کی اپنی پارٹی سے والہانہ محبت میں کمی ضرور آ گئی ہے۔

وہ الیکشن کے دنوں کو یاد کر کے آج بھی بتاتی ہے کہ الیکشن کے دنوں میں ہم جماعت کے سربراہ کے بنگلے میں دن رات کام کیا کرتے تھے تو وہاں سربراہ کی اہلیہ (بیگم صاحبہ) ہمارا بہت خیال رکھتی تھیں، ہمیں اکثر کام کرتے ہوئے صبح کے چار پانچ بج جاتے تھے تو ایسے میں بیگم صاحبہ ہمیں اپنی ذاتی گاڑی میں ڈرائیور سے کہہ کر گھر چھڑواتی تھیں۔ یہ سب بتانے کے بعد وہ تاسف سے کہنے لگی پہلے کبھی جس گھر کے دروازے کارکنوں کے لیے چوبیس گھنٹے کھلے رہتے تھے وہاں آج مفاد پرست ٹولے کا راج ہے، وہاں جانا تو دور کی بات ہے چوکیدار ہمیں دیکھ کر دروازہ تک نہیں کھولتا، جس گھر میں کبھی ہم الیکشن کے دنوں میں دن رات کام کیا کرتے تھے وہاں آج ہمیں کوئی گھسنے تک نہیں دیتا، تو یہ سب دیکھ کر دل بے اختیار رو پڑتا ہے۔

اسی طرح ایک اور خاتون کارکن نے الیکشن کے دنوں کا ذکر ہنستے ہنستے کیا تھا، اس کے مطابق اس کے نو بچے ہیں جو سب ان دنوں چھوٹے چھوٹے تھے تو اپنی پسندیدہ پارٹیوں سے دیوانہ وار وابستگی کی حامل اس کارکن کا کہنا تھا کہ ہمیں نہ روپے پیسے کا لالچ ہوتا تھا اور نہ ہی کسی عہدے یا شہرت کی طمع، ہمیں صرف اور صرف اپنی سیاسی جماعت سے لگاؤ تھا اور آج بھی ہے، وہ بیتے ہوئے دنوں کو یاد کر کے کبھی ہنس رہی تھیں تو کبھی افسردہ ہو جاتی تھیں، وہ بتا رہی تھیں کہ ہماری دیوانگیوں کا یہ عالم تھا کہ اگر کسی نے روٹی پکاتے پکاتے باہر سے چلنے کے لیے آواز دی تو ہم فوراً توا چمٹا چھوڑ کر باہر کی جانب بھاگتے اور پھر پوری پارٹی کے حق میں گھنٹوں دوسرے لوگوں کے ساتھ گلی گلی، محلہ محلہ جاکر نعرے بازی کرتے اور پارٹی کے حق میں خوب دلائل دیتے اور اکثر اس جوش و خروش کے باعث دھر لیے جاتے تھے، یوں کئی بار جیل کی ہوا کھانی پڑتی۔

تو یہ بات کہتے ہوئے وہ جوشیلی خاتون جو اب عمر رسیدہ ہو گئی تھی افسردہ لہجے میں کہنے لگی، ان دنوں میرا سب سے چھوٹا بچہ سال سوا سال کا تھا جو میرے بغیر خوب روتا تھا اور ضد کرتا تھا کہ وہ بھی میرے ساتھ جیل جائے گا، لیکن جیل کے حکام اسے میرے پاس آنے نہیں دیتے تھے، وہ دن میں نے بڑی اذیت میں گزارے تھے، خدا خدا کر کے رہائی ملی تو تب کہیں جا کر میں اپنے معصوم بچے سے مل پائی۔ اگرچہ یہ مخلص سی کارکن آج بھی اپنے بچوں کے ساتھ مفلسی کی زندگی گزار رہی ہے پر اس نے ایک واقعے کا تذکرہ بڑے فخریہ انداز میں کیا کہ ایک بار ایک گھر میں میری پارٹی کے سربراہ سے اچانک ملاقات ہو گئی جو الیکشن کے زمانے میں مختلف علاقوں میں لوگوں کے اجتماع سے خطاب کر رہے تھے تو حسن اتفاق اس روز وہ اسی علاقے میں خطاب کے لیے آ گئے جہاں میں پارٹی کی دوسری کارکن سے ملنے اس کے گھر آئی ہوئی تھی۔

تو وہاں اچانک پارٹی کے سربراہ کو دیکھ کر ہمارے تو گویا ہوش اڑ گئے جب کہ وہ ہم سے بڑے خلوص سے ملے، کسی نے میرے بارے میں بتایا کہ یہ پارٹی کی سرگرم کارکن ہے، پر بے چاری بے روزگار ہے لہٰذا یہ اور اس کے بچے بڑی کسمپرسی میں زندگی بسر کر رہے ہیں جس پر اس پارٹی کے سربراہ نے فوراً اپنا ہاتھ بڑھاکر مجھ سے گرم جوشی سے مصافحہ کیا تو یہ دیکھ کر میں غریب عورت دم بخود رہ گئی جب کہ وہ میرا ہاتھ پکڑے بدستور جوشیلے انداز میں انگریزی میں کہہ رہے تھے کہ کوئی بات نہیں اگلی حکومت تمہاری آئے گی پھر تم دیکھنا جگہ جگہ ملیں، فیکٹریاں کھلیں گی اور انشاء اﷲ کوئی بیروزگار نہیں رہے گا، سب کو روزگار ملے گا تو میرے لیے وہ لمحات کہ جب اتنے بڑے لیڈر نے مجھ سے مصافحہ کیا ہمیشہ کے لیے ناقابل فراموش لمحے بن کر رہ گئے۔ نہ اب وہ پہلے جیسے سربراہ رہے نہ وہ مخلص لوگ اور نہ ہی لہو گرما دینے والی سیاسی پارٹیاں، مگر ان سب کے باوجود میرے دل سے پارٹی کی محبت کم نہ ہو سکی۔

بات بے لوث کارکنان کی ہو رہی ہے تو ہمیں ایک اور کارکن یاد آ رہا ہے، اس نے بھی اپنی سیاسی جماعت سے وابستگی کی بڑی بھاری قیمت چکائی، اس نے متعدد بار محض پارٹی کی خوشنودی کے لیے کئی بار ناجائز کام کیے جس کے باعث کئی بار اسے جیل جانا پڑا اور اسی دوران بڑے مصائب و پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا، یہاں تک کہ جلا وطنی جیسی کڑی سزا بھی بھگتنی پڑی، کافی عرصے تک یہ تک نہ پتہ چل سکا کہ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں، اس کی جدائی میں ماں باپ دل کے مریض بن گئے، یہاں تک کہ ماں یہ دنیا ہی چھوڑ گئی اور کئی برس بعد جب وہ دوبارہ وطن لوٹا تو ایک معذور شخص کا روپ دھار چکا تھا، اس کے آنے کے بعد پھر الیکشن کا زمانہ آ گیا تو یہ دیکھ کر اس کارکن کو شدید ذہنی و دلی جھٹکا لگا کہ اس کی تمام تر قربانیوں کو پس پشت ڈال کر اس کی پارٹی نے اس کے بجائے ایک متمول شخص کو پارٹی ٹکٹ تھما دیا تو پارٹی کے اس طرز عمل کے باعث اس نے دل برداشتہ ہو کر وہ پارٹی ہی چھوڑ دی، جس کا ظاہر ہے پارٹی قیادت پر کوئی اثر نہ ہوا، البتہ اس مخلص کارکن کو عمر بھر یہ قلق رہا کہ جس پودے کو اس نے اپنے خون جگر سے سینچا تھا اسی نے تناور درخت بننے کے بعد اسے آج نہ صرف فراموش کر دیا بلکہ سرے سے پہچاننے سے ہی انکار کر دیا کہ کبھی وہ بھی اس پارٹی کا کوئی اہم رکن تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں