عوام کی دادرسی
جسٹس افتخار چوہدری شروع دن سے ملکی، انتظامی، قانونی، آئینی اور عدالتی معاملات پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں بالخصوص...
جسٹس افتخار چوہدری شروع دن سے ملکی، انتظامی، قانونی، آئینی اور عدالتی معاملات پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں بالخصوص سیاسی حکومتوں اور سیاسی اداکاروں پر ۔ ان کا منصبی کردار نہایت شاندار اور بے داغ رہا ہے جس کی وجہ سے وہ حالات پر کڑی نظر رکھتے ہوئے سنگین نوعیت کے واقعات کو فوراً ''سوموٹو'' ایکشن کے ذریعے عدالتی دائرے میں لے آتے ہیں۔ اس بات میں کوئی شائبہ نہیں کہ عدالت کا کام آئین و قانون کی پاسداری کرتے ہوئے اس کی تشریح و تنقیدی جائزہ لینا بھی ہے۔
اسی نکتہ نظر کو مدنظر رکھتے ہوئے چیف جسٹس اور معاونین ججز صاحبان بھی اپنی صلاحیتیں بخوبی انداز میں بروئے کار لارہے ہیں جس کی وجہ سے چیف جسٹس کا کام آسان ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے کاندھوں پر بوجھ ہلکا ہو گیا ہے اس لیے بعض نہایت اہمیت کے حامل مقدمات میں جس میں ان کی سربراہی متاثر ہوتی ہو وہاں چیف جسٹس علیحدگی اختیار کر لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چیف جسٹس صرف وطن عزیز میں ہی نہیں بلکہ عالمی عدالتی نظام میں بھی نمایاں مقام حاصل کر چکے ہیں اور انھیں عالمی عدالتی نظام میں رہتے ہوئے کئی اعزازات سے نوازا گیا ہے اور دنیا کے چند بڑے بڑے ججز کی فہرست میں ان کا نام بھی جگمگا رہا ہے۔ یہ صرف جسٹس کے لیے ہی اعزاز نہیں ہے بلکہ ہمارے وطن عزیز کے لیے بھی اعزاز ہے۔
یہی وجہ ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی عدالتی سیمینار، مباحثے اور دیگر تقاریب ہوتی ہیں وہاں چیف جسٹس کو مدعو کیا جاتا ہے۔یہاں تک یہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ مختلف حلقوں کی طرف سے چیف جسٹس اور ان کے معاونین ججز پر تنقید کی جاتی رہی ہے مگر چیف جسٹس نہایت صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے تنقید کو برداشت کرتے اور کوئی تیز و ترش اظہار خیال نہیں کرتے اور یہی مشورہ وہ اپنے معاونین کو بھی دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ چیف جسٹس ایک غیر متنازعہ شخصیت کی حیثیت کے حامل سمجھے جاتے ہیں۔ چیف جسٹس کا عہدہ صرف کسی ذات یا شخصیت کا محور نہیں ہوتا بلکہ وہ تو اپنے ملک کی نمایندگی کرتا ہے۔ یوں چیف جسٹس اور ان کے معاونین ججز کو بھی نہایت بردباری، صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی کارکردگی دکھانی ہوتی ہے، جس میں چیف جسٹس اور ان کی ٹیم سرخرو ہوئی ہے۔
چیف جسٹس اور ان کی ٹیم کی کارکردگی اور کردار کا مختصر جائزہ لینے کے بعد میں چیف جسٹس کی توجہ مختلف امور کی جانب مبذول کرانا چاہوں گا خاص طور پر حالیہ اختتام پذیر ہونیوالے ''انتخابات''۔ ان انتخابات کا انعقاد تو کامیابی سے مکمل ہو گیا جس کا کریڈٹ چیف الیکشن کمشنر اور ان کی ٹیم کو جاتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ نگران حکومت کو بھی لیکن نگران حکومت انتخابی مہم کو بہتر طریقے سے انجام دینے یا کنٹرول کرنے میں ناکام ثابت ہوئی جس کی بنا پر بعض حلقوں میں بدانتظامی دیکھنے میں آئی۔ پولنگ اسٹیشنز کا قیام، پولنگ عملے کے تحفظ اور ووٹروں کی انتخابات میں غیر معمولی شرکت جیسے عوامل کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ گو کہ الیکشن کمیشن نے نہایت مضبوط قوانین و قواعد نافذ کیے تھے لیکن انتظامیہ کی طرف سے ان قواعد و قوانین کی طرف سے عدم توجہی افسوسناک رہی، جس کی وجہ سے پولنگ کے عمل میں سست روی، بدانتظامی اور بے ہنگامی صورتحال دیکھنے میں آئی۔
گو کہ ان انتخابات کا انعقاد نہایت ہی سنگین صورتحال میں کیا جا رہا تھا ہر جگہ خوف و ہراس کا ماحول تھا۔ اندازہ تو یہی تھا کہ شاید ووٹرز کا ٹرن آؤٹ اندازوں سے کم رہے گا لیکن اس کے باوجود عوام نے انتخابی عمل میں جس جوش و جذبے کا مظاہرہ کیا وہ قابل تحسین ہی نہیں تھا بلکہ حیرت کا باعث تھا۔ عوام نے خودکش حملوں، بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کی دھمکیوں کے باعث انتخابات کا التوا منظور نہیں کیا، دوسری طرف ہماری فوج کے سپہ سالار جنرل اشفاق پرویز کیانی کا بھی قوم کے حوصلے بلند کرنے میں بڑا کردار ادا کیا۔ آپ نے الیکشن کمیشن کی معاونت جاری رکھنے کا عندیہ دیا جس کی وجہ سے الیکشن کمیشن نے بھی حوصلہ و عزم کے ساتھ انتخابات کے انعقاد کا کام بخوبی طریقے سے انجام دیا۔ ان تمام حقائق کے باوجود نتیجہ کیا برآمد ہوا۔ یہی کہ ہر طبقے ہر حلقے کی طرف سے ''دھاندلی ، دھاندلی'' کا شور بلند ہوا۔ ہارنے والے تو ''دھاندلی'' کا شور مچاتے ہی ہیں لیکن جیتنے والے بھی دھاندلی کا رونا روتے رہے۔ کیا عجب طرفہ تماشہ ہے۔
یہ عمل چاہے کسی جانب سے ہو۔ الیکشن کمیشن کی کارکردگی کو داغدار نہیں بنا رہا ہے؟ یقینا الیکشن کمیشن کی کارکردگی ہی نہیں اس کی کردار کشی بھی ہو رہی ہے۔ بڑا افسوسناک مقام ہے۔ اسی طرزعمل کی طرف میں چیف جسٹس کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ خیر اب تو نئی حکومت کا قیام بھی عمل میں آ چکا ہے لیکن مختلف سیاسی پارٹیوں نے دھاندلی کے نعروں کے ساتھ جو امن و امان کا مسئلہ کھڑا کیا اور عوام کو جس ذہنی کوفت کا سامنا کرنا پڑا اس کا ازالہ کون کریگا عدالتیں کس لیے ہیں کہ اگر کسی کے ساتھ زیادتی یا ناانصافی ہوئی ہو تو عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایا جانا چاہیے نہ کہ سڑکوں پر آ کر یا جلسے جلوسوں، ریلیوں کے ذریعے احتجاج کا طریقہ اپنا کر امن و امان کا مسئلہ کھڑا کر دیا جائے۔چیف جسٹس سے دوسری گزارش یہ ہے کہ کراچی کے حالات دن بدن بگڑتے جا رہے ہیں، قتل و غارت گری کا سلسلہ جاری ہے۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ سندھ میں کوئی حکومت ہے اور نہ ہی قانون نافذ کرنیوالے اداروں کا کوئی وجود ۔
بس دہشتگردوں اور جرائم پیشہ افراد کو کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے کہ وہ بے گناہ شہریوں اور سیاسی جماعتوں کے کارکنان اور عہدیداران کا قتل عام کرنے میں آزاد ہیں۔ ابھی تک تو نگراں حکومت کام کر رہی تھی جس کے ذمے انتخابات کرانا تھے۔ دیگر انتظامی امور میں ان کا عمل دخل نہیں تھا اس وجہ سے امن و امان کی بگڑتی صورتحال دگرگوں ہو گئی تھی لیکن نئی سندھ حکومت کے قیام کے بعد آنیوالے حالات مزید گمبھیر ہوتے دکھائی دیتے ہیں کہ گزشتہ 5سالہ آمریت نما جمہوریت کے پروردہ نمایندہ ہی دوبارہ سندھ کے ٹھیکیدار بن بیٹھے ہیں۔ پولیس اور رینجرز ان جرائم پیشہ افراد اور دہشتگردوں کے سامنے بے بس نظر آ رہے ہیں۔ نئی حکومت وجود میں آ گئی ہے لیکن وہی صورت حال سامنے آ رہی ہے، وہی وزیر اعلیٰ، وہی وزرا، وہی پارٹی کی حکومت قائم ہو رہی ہے حالانکہ سابقہ حکومتی پارٹی کو ناقابل یقین شکست اسی بنا پر ہوئی تھی کہ ان کی گزشتہ 5 سالہ کارکردگی کسی طور مستحسن نہ تھی اور ناکام ثابت ہوئی تھی مگر کیا کیجیے کہ وہی پرانے شکاری نیا جال لے کر آ گئے ہیں۔
خدا معلوم اب عوام کی بدحالی اور بدترین معاشی حالت کو سدھاریں گے بھی کہ نہیں؟ قائم علی شاہ بے شک بہت ہی آزمودہ اور تجربے کار سیاستدان ہیں لیکن جب انسان جسمانی و ذہنی طور پر بوڑھا ہو جائے تو اس کی کارکردگی ضرور متاثر ہوتی ہے، بہ نسبت ایک نوجوان شخصیت کے۔ دوسرا نقصان یہ ہوتا ہے کہ کمزور آدمی پر طاقتور حاوی ہو جاتے ہیں، پھر وہ حکومتی سربراہ بے بس و بے اختیار ہو جاتا ہے، اس کی کارکردگی صفر ہو کر پس پردہ چلی جاتی ہے۔ ایسی سیاسی صورتحال بن جائے تو عوام کہاں جائینگے، کون ان کی داد و فریاد سنے گا، کون انھیں ظلم کے اندھیروں سے نکالے گا؟ چیف جسٹس ! آپ صوبہ سندھ (بالخصوص کراچی) کے معاملات پر خاص نظر رکھیے۔ ناانصافی کا جو دور چل رہا تھا یا دوبارہ چل گیا ہے اسے انصاف فراہم کر دیجیے۔ آپ ضرور یہ کہتے آئے ہیں کہ ہر ادارہ اپنے دائرے اختیار میں کام کرے تو کوئی بدنظمی یا کرپشن نہ ہو لیکن یہاں تو معاملہ الٹ ہے، کوئی ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کر رہا ہے اور جس نے بھاری مینڈیٹ حاصل کیا ہے وہ من مانی کرنے پر اتر آیا ہے۔
مخالفین کو ہر طرح سے شکنجے میں لانا اور زیادتی کرنا معمول بن گیا ہے۔ وہی سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ کوئی انصاف کرنیوالا، مظلوموں کو ظالموں کے شکنجوں سے نجات دلانے والا، کوئی نظر نہیں آتا سوائے انصاف فراہم کرنیوالے اداروں کے۔ بدقسمتی سے یہاں بھی طاقتوروں کا زور چلتا ہے، کمزور کی تو یہاں تک رسائی بھی ممکن نہیں ہوتی۔ نئی حکومت کو اگر آپ کی رہنمائی مل جائے تو شاید حالات معمول پر رہیں ورنہ اس دور میں بھی عوام کا کوئی پرسان حال نہ ہو گا۔