پولیو مہم کے خلاف تنگ نظری
دہشت گردی پر کمربستہ قوتوں نے وطن عزیز کے خلاف باقاعدہ اعلان جنگ کر رکھا ہے۔ بے قصور محنت کش...
دہشت گردی پر کمربستہ قوتوں نے وطن عزیز کے خلاف باقاعدہ اعلان جنگ کر رکھا ہے۔ بے قصور محنت کش خواتین پولیو ورکرز پر وقفے وقفے سے قاتلانہ حملے اس بات کا بین ثبوت ہے کہ حکومت عام شہریوں کے ساتھ ساتھ پولیو ورکرز کو تحفظ دینے میں بھی بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ اگرچہ حکومت پولیو کے خاتمے کی مہم کے نام پر عالمی ادارہ صحت سے کروڑوں ڈالر امداد لے رہی ہے تاہم سیکیورٹی کے انتظامات انتہائی ناقص اور نہ ہونے کے برابر ہیں۔ مناسب طریقے سے دہشت گردی کے قلع قمع کی حکمت عملی وضع کی جاتی تو دہشت گرد کب کے ٹھکانے لگائے جا چکے ہوتے۔ دہشت گردوں کا پولیو مہم کے خلاف ہرزہ سرائی اور گمراہ کن پروپیگنڈا کوئی نئی بات نہیں۔
ماضی میں بھی پولیو مہم کے خلاف طالبان کا پروپیگنڈا رہا ہے کہ وہ پولیو کے قطروں کو امریکا کی جانب سے مسلمانوں کی نسل کشی کی خفیہ ادویات سے تعبیر کرتے ہیں۔ ملک بھر میں پولیو ورکرز انتہائی قلیل معاوضوں کے عوض اپنی جان جوکھم میں ڈال کر یہ خطرناک ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں۔ پولیو ورکرز کو گھر گھر جا کر انتہائی نامساعد حالات میں معصوم بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کے عوض کہیں 175 تو کہیں 250 روپے معاوضہ ملتا ہے۔ غریب گھرانوں کی خواتین بڑھتی ہوئی ہوشربا مہنگائی میں اس انتہائی قلیل رقم کو بھی غنیمت جانتے ہوئے پولیو مہم کا انتظار کرتی ہیں کہ مہم شروع ہو تو ان کو اپنے بچوں کے منہ میں نوالہ ڈالنے کے لیے کچھ رقم مل سکے۔ پشاور اور کراچی میں کچھ عرصہ پہلے بھی پولیو ٹیم کے ارکان پر نامعلوم مسلح موٹر سائیکل سواروں نے اندھا دھند فائرنگ کی تھی جس میں کئی پولیو ورکرز ہلاک ہو گئے تھے۔
اتنے سفاک واقعے کے بعد حکومت اور سیکیورٹی فورسز کی جانب سے عدم دلچسپی اور غفلت کے ارتکاب نے دہشت گردوں کو ایک بار پھر متحرک و فعال ہونے کا موقع فراہم کیا، جس کا نتیجہ مزید پولیو ورکرز کی اموات کی صورت میں سامنے آیا۔ پولیو مانیٹرنگ سیل تحلیل کر دیا گیا، جس کے باعث 130 ملین ڈالر کی امداد خطرے میں نظر آ رہی تھی۔ یہ وزیر اعظم مانیٹرنگ سیل تین سال قبل پاکستان میں پولیو مہم کی مانیٹرنگ اور قومی پولیو ایمرجنسی پلان کے تحت قائم کیا گیا تھا، مگر ملک کے دو صوبائی دارالحکومتوں، پشاور اور کراچی میں تواتر سے پولیو ٹیموں پر ہونیوالے قاتلانہ حملوں کے بعد اسے ختم کر دیا گیا تھا، تاہم عالمی ادارہ صحت اور یونیسیف کی جانب سے حکومت پاکستان کو فوری مکتوب روانہ کیے گئے جس کے بعد مانیٹرنگ سیل کو بحال کر دیا گیا۔
یہی نہیں بلکہ پولیو وائرس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے پاکستان کو مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس کی جانب سے فراہم کی جانیوالی سالانہ 130 ملین ڈالر کی امداد بھی پاکستان کو بلاتعطل فراہم کیے جانے کی یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے۔ عالمی ادارہ صحت اور یونیسیف پولیو وائرس کے مکمل خاتمے اور پولیو مانیٹرنگ سیل کو فوری بحال کرنے کے لیے حکومت پاکستان سے مسلسل رابطے میں ہیں۔
پاکستان دہشت گردوں کے منفی اور سطحی پروپیگنڈے کے باعث تاحال پولیو وائرس کے شکنجے سے آزاد نہیں ہو سکا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ دہشت گردوں کی منظم اور منصوبہ بندی کے تحت کی جانے والی مذموم کارروائیاں ہیں۔ اپنے تئیں پاکستان کو امریکی نسل کش ادویات سے پاک رکھنے کا منفی پروپیگنڈا لے کر درحقیقت یہ دہشت گرد آنیوالی پاکستانی نسلوں کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے سے محروم کر دینے کی سازش پر خود ہی عمل پیرا ہیں۔ اس ضمن میں عالمی ادارہ صحت ہر ممکن کوشش کر رہا ہے کہ دنیا کے ممالک کو اس وائرس سے محفوظ بنایا جا سکے تا کہ یہ وائرس ایک ملک سے دوسرے ملک میں منتقل نہ ہو سکے۔ بدقسمتی سے ابھی تک ہمارے حکمرانوں نے ان غریب اور جرأت مند خواتین کی دادرسی اور کفالت کا کوئی بندوبست نہیں کیا جنھوں نے ایک قومی اور عالمی مقصد کے لیے اپنی قیمتی جان قربان کر دی۔
ان میں سے اکثر خواتین اپنے گھروں کی واحد کفیل تھیں۔ اگر قومی اور عالمی مقاصد کے لیے جان دینے والوں سے ہماری حکومتوں کا یہی طرز عمل رہا تو آنیوالے دنوں میں شاید ہی کوئی رضا کار خود کو ان کاموں کے لیے پیش کر سکے۔ حکومت کو چاہیے کہ بل گیٹس کی جانب سے آنیوالی امداد میں سے جاں بحق پولیو ورکرز کو مناسب امدادی رقم فراہم کرے اور لواحقین میں سے قابل فرد کو متعلقہ صوبے کے محکمہ صحت میں ملازمت فراہم کرے تا کہ قومی مقاصد کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے میں کسی کو کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ ہو۔ صحت مند افراد ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل و تعمیر میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں اس کے برعکس طالبان کی محدود سوچ اور ذہنیت کا عملی مظاہرہ افغانستان میں ان کے دور اقتدار میں بخوبی دیکھا گیا۔ بزور قوت اپنے جاہلانہ ایجنڈے کو رعایا پر مسلط کرنے کی سوچ لے کر یہ دہشت گرد اب پاکستان کا رخ کر چکے ہیں۔
دہشت گردوں کو اگرچہ پاکستان میں شدت پسندی کو پروان چڑھانے میں زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں ہے تاہم پاکستانی قوم دہشت گردوں کی اس دہشت گردی کے آگے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑی ہو چکی ہے۔ نہایت خوش آیند بات یہ دیکھنے میں آئی ہے کہ وطن عزیز کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں دہشت گردی کی ان مذموم وارداتوں کی مذمت میں ایک ہی صف میں کھڑی نظر آتی ہیں۔ پولیو وائرس کی پاکستان میں موجودگی جزوی ہی سہی تاہم ہے تشویشناک۔ پچھلے کئی برسوں سے اس موذی مرض سے وطن عزیز کو پاک کرنے کے لیے کاوشیں کی جا رہی ہیں مگر پولیو وائرس ملک کے کئی شہروں میں متواتر رپورٹ ہو رہا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ دہشت گردوں کا یہی پروپیگنڈا ہے جس میں پولیو ویکسین کو نسل کش ادویات سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ دوسری اور اہم وجہ، شرح خواندگی میں کمی ہے۔ محدود سوچ اور تعلیم کی کمی کے باعث دیہی علاقوں کے عوام با آسانی منفی پروپیگنڈے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تیسری اور اہم وجہ، حکومت کی طرف سے اس منفی پروپیگنڈے کا مناسب جواب نہ دینا ہے۔
حکومت کو ایسے اقدامات کرنا ہوں گے کہ عوام میں جہاں جہاں دہشت گردوں کا یہ منفی پروپیگنڈا جڑ پکڑ گیا ہے وہاں بالخصوص اور باقی علاقوں میں بالعموم مناسب تشہیری مہم چلائی جائے جس میں ملک کے ماہر اور مایہ ناز معالجین عوام میں معصوم بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے متعلق شعور اجاگر کریں۔ دوسری طرف حکومت کو پولیو ورکرز کا معاوضہ مہنگائی کے تناسب سے طے کرنا ہو گا تا کہ پولیو ورکرز اس قومی اور عالمی مقصد میں پوری دلجمعی سے شریک ہوں۔ نو منتخب پارلیمان کو، فلاح انسانیت کے مشن میں اپنی جانوں کا نذرانہ دینے والی ملک کی قابل فخر خواتین و مرد پولیو ورکرز کے لواحقین کو معقول معاوضہ دینے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے ورنہ جہل کے سائے اب اتنے بڑھ چکے ہیں کہ انسانی جان کی کوئی قدر و قیمت باقی نہیں رہی ہے۔ جاہلوں کے گروہ انسانی بستیوں کو تاراج کرنے پر تل گئے ہیں۔
دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد کے لیے کھل کر سامنے آنے کے بجائے وطن عزیز کے ناخواندہ اور بیروزگار نوجوانوں کی برین واشنگ کرکے انھیں اپنے ہی ہموطنوں کے خلاف دہشت گردی کی وارداتوں میں استعمال کر رہے ہیں۔ پولیو مہم کو تنگ نظری سے دیکھنے والوں کو نہ جانے اپنی قوم کے سرمائے پر ترس کیوں نہیں آتا۔ مٹھی بھر دہشت گرد اپنی غاصبانہ و ظالمانہ سوچ ساری قوم پر مسلط کرنے کے درپے ہیں۔ میاں صاحب تیسری بار بطور وزیر اعظم ملک و قوم سے وفاداری کا حلف اٹھا چکے ہیں اب انکو چاہیے کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے ملک و قوم کی بقا کے لیے انتہائی سنجیدگی سے تمامتر ضروری اقدامات بروئے کار لائیں۔
سب سے پہلے تو قوم کے بچوں کو معذور ہونے سے بچانے کے لیے اپنا آج قوم کے نونہالوں کے بہتر اور صحت مند مستقبل پر قربان کرنے والے پولیو ورکرز کے لیے قومی اعزازات کا اعلان کیا جائے، مستقبل میں پولیو ورکرز کو مکمل تحفظ اور دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے انٹیلی جنس نیٹ ورک کو ترجیحی بنیادوں پر مزید فعال کیا جائے۔ ہمیں ساری دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ ہم امن پسند قوم ہیں اور وطن عزیز پاکستان ہر قسم کی دہشت گردی کی سخت مذمت کرتا ہے، نہ صرف یہ کہ پاکستان میں دہشتگردوں کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں بلکہ کروڑوں پاکستانی ایسے تنگ نظر لوگوں کی سوچ سے برملا نفرت کرتے ہیں۔