غریب اور تن خواہ دار طبقے کے حالات
غریب کون ہوتا ہے؟ اِس سوال کے جواب کے لیے بہت سے فرمودات، ضرب الامثال اور مختلف علوم کے ماہرین کی وضع کی...
غریب کون ہوتا ہے؟ اِس سوال کے جواب کے لیے بہت سے فرمودات، ضرب الامثال اور مختلف علوم کے ماہرین کی وضع کی ہوئی تعریفیں ہماری رہ نمائی کرسکتی ہیں لیکن عہد حاضر میں سرمایہ داری نظامِ معیشت کے تحت معرضِ وجود میں آنے والے معاشیات کے علم نے ''غربت کی لکیر'' جیسی اصطلاح وضع کی اور اعداد و شمار کی روشنی میں ہمیں یہ بتایا کہ غریب کون ہوتا ہے۔
خطِ غربت دراصل اُس حد کا تعین کرتا ہے جو کسی بھی ملک کے عاقل و بالغ شہری کی آمدن سے متعین ہوتی ہے۔ اس فارمولے کے تحت روزانہ، ماہانہ یا سالانہ آمدنی کو مدنظر رکھ کر اُس فرد کی امارت یا غربت کا تعین کیا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر غربت کی لکیر کی حد کا تعین ہمیشہ سے (بیمار ہوئے جس کے سبب) امریکی ڈالر کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں وفاقی ادارۂ شماریات کے جاری کردہ ماہانہ اعداد و شمار کی روشنی میں اگر کسی شہری کی فی کس آمدنی کا تعین کر لیا جائے تو پاکستان میں اُسے غریب یا امیر ہونے کا سرٹیفکیٹ آسانی سے دیا جا سکتا ہے لیکن یہ بھی طے ہے کہ حالات و واقعات سے فی کس آمدنی میں کمی یا بیشی بہ ہرحال ممکن ہوتی ہے۔
وطن عزیز کی چھیاسٹھ سالہ معاشی تاریخ کا جائزہ لیاجائے تو یہ معلوم ہو گا کہ پاکستانیوں کی فی کس آمدن میں جو اضافہ ہوا اس کے مقابلے میں منہگائی میں اضافہ اس سے کئی گنا زیادہ ہوتا رہا، جس کی وجہ سے غربت کی لکیر سے اوپر آنے کے تمام حیلے حربے دھرے کے دھرے رہ جاتے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق ملکی آبادی کا 60 فی صد ابھی تک خطِ غربت سے اوپر آنے میں مکمل طور پر ناکام ہے جب کہ دوسری جانب افراطِ زر میں ہر سال مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ معاشی ماہرین نے اس کی سیکڑوں وجوہات بیان کی ہیں جن میں سے کچھ اہم وجوہات ۔۔۔۔آبادی میں تیز ترین اضافہ، قدرتی وسائل میںبہ تدریج کمی، افراط زر، معاشی اور معاشرتی سطح پر بدعنوانی کا بڑھتا ہوا رجحان اور میرٹ کی پامالی ۔۔۔ وغیرہ ہیں جن کی وجہ سے آج ہم عالمی سطح پر ساتویں ایٹمی قوت ہونے کے باوجود بجلی جیسی اہم ضرورت سے محروم ہیں۔
معاشی اصطلاحوں کے کورگھ دھندوں میں الجھے بغیر اگر ہم سادہ الفاظ میں یہ کہ لیں کہ غربت کی لکیر سے نیچے تو غریب لوگ ہوتے ہی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں غربت کی نام نہاد لکیر سے اوپر بھی بہت دور تک غربت کے آثار نظر آتے ہیں۔ اس نرغے میں پھنسے ہوئے لوگوں کو عام زبان میں ''سفید پوش'' کہ کر وضع داری کے تقاضے تو پورے کر لیے جاتے ہیں لیکن ہوتے یہ بھی غریب لوگ ہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امارت تو اس سے کہیں دور بہت دور صدیوں کی مسافت پر ہوتی ہے جہاں تک ایمان داری سے پہنچتے پہنچتے کئی نسلوں کو سخت محنت اور جنگی بنیادوں پر بچت جیسی کٹھنائیوں سے گذرنا پڑتا ہے لیکن جھوٹ یہ بھی نہیں کہ اس منزل تک پہنچنے کے لیے جب ''شاٹ کٹ'' اپنائے جاتے ہیں تو پھر امارات بھی دنوں میں مل جاتی ہے اور معاشرے میں عزت و احترام بھی۔
غربت اور امارت کا ذکر اپنی جگہ لیکن ایک بات طے ہے کہ آج بھی پاکستان کی آبادی کا بہت بڑا حصہ دیانت داری کے ساتھ غربت سے امارت کی جانب سفر کرنے کا خواہاں ہے، اِس کا ایک واضح ثبوت حالیہ انتخابات کے نتائج ہیں۔ ملک کے غریب عوام نے بم دھماکوں کے خطرے کے باوجود گھر سے نکل کر جب میرٹ کی پامالی اور بدعنوانی کے خلاف اپنے حق رائے دہی کا بھرپور استعمال کیا تو ہارنے والوں کے ساتھ ساتھ جیتنے والے بھی حیران رہ گئے۔ نئی حکومت کو جو مینڈیٹ ملا ہے وہ زیادہ تر غریب اور سفید پوش طبقے نے ہی اِس امید پر دیا کہ ملک کی معاشی حالت بہتر ہو گی تو ان کی معاشی حالت بھی خود بہ خود بہتر ہو جائے گی۔
آئندہ چند دنوں میں نئی حکومت کے پہلے 100 دنوں کی بلی تھیلے سے باہر آنے والی ہے۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کی ابتر معاشی حالت کو سنوارنے کا یہ آخری موقع ہے اگر خدا نہ خواستہ یہ ہاتھ سے نکل گیا تو بس اللّٰہ ہی حافط ہے، صاحب ثروت طبقہ یہاں سے پرندوں کی طرح ہجرت کرنے میں ہر گز دیر نہیں لگائے گا، اِس لیے انتہائی ہوش مندی، صبر و تحمل، بردباری اور دور اندیشی کے ساتھ آگے بڑھنے کے سوا اب کوئی چارہ نہیں ہے۔
پاکستان کے غریب طبقے کی حالت زار کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں، اِس حالِ زار میں وہ تن خواہ دار طبقہ بھی شامل ہے جس کا ذریعۂ آمدن صرف اور صرف تن خواہ ہی ہوتی ہے اور جب لگی بندھی تن خواہ کا مہینہ پچاس ساٹھ دن کا ہو جائے اس طبقے کی خاموشی بھی سسکیوں میں بدل جاتی ہے۔ گزشتہ حکومت میں سرکاری اور نجی شعبہ سے اپنی خدمات کے عوض تن خواہ پانے والے ہزاروں ملازمین کی سسکیاں اس بات کی گواہ ہیں کہ انھوں نے کس کس طرح اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھا، اس لیے کم مراعات اور کم تن خواہ دار طبقے کو بھی اگر غریب طبقے میں شمار کر لیا جائے تو غربت کی تفسیر بیان کرنے والی کسی معاشی اصطلاح پر زد نہیں پڑے گی۔
نئے مالی سال 2013-14 کے لیے تیار کیے جانے والے سالانہ مالیاتی بجٹ میں نئی حکومت غربت کی چکی میں پسے ہوئے طبقے کو کیا مراعات اور سہولیات فراہم کرتی ہے؟ اس کا مفصل ذکر تو بجٹ اعلان کے بعد ہی ہو گا لیکن جس شدت کے ساتھ یہ طبقہ نئے بجٹ کا انتظار کر رہا ہے اُس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ نئی حکومت کے لیے یہ بجٹ ''اک آگ کا دریا ہے اور تیر کے جانا ہے'' کے مترادف ہو گا ۔ نئے بجٹ میں غریب اور تن خواہ دار طبقے سے بجٹ تیار کرنے والی ٹیم کیا وعدے کرتی ہے، کس طرح کی تسلیاں دیتی ہے؟ یہ مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہوگا جو بہ ہرحال کرنا پڑے گا۔ اگر یہ وعدے بھی طفل تسلیوں پر مبنی ہوئے تو اس بار حکومت کو ''فرینڈلی اپوزیشن'' کے بجائے حقیقی اپوزیشن سے پالا پڑنے والا ہے اور اس اپوزیشن کا ہم نوا ملک کا آزاد میڈیا اور متحرک عدالت عظمیٰ بھی ہو گی۔
ملک میں غربت کے حوالے سے بعض معتبر اور باوثوق سیاسی پنڈتوں نے تو ابھی سے کہنا شروع کر دیا ہے کہ اگر نئی حکومت نے بھی جانے والی حکومت کی طرح معاشی عدم استحکام سے نظریں چرانے اور اقربا پروری کی روش اختیار کر لی تو یہ حکومت اپنی مدت میعاد کا تیسرا بجٹ اسمبلی میں پیش کرنے سے قاصر رہے گی اور قوم کو ایک مرتبہ پھر اپنا مینڈیٹ دینا پڑے گا۔
پاکستان میں غربت اپنوں کی وجہ سے ہے، غیروں کی وجہ سے یا دونوں کی ملی بھگت سے ہے؟ اب اس بحث کی بجائے شاید یہ سوچنے کا وقت آ چکا ہے کہ پاکستان میں غربت کا فائدہ کس کو ہو رہا ہے؟ اگر یہ فائدہ غیروں کو ہے تو پھر حقیقی معنوں میں کشکول کو ہمیشہ کے لیے دفن کرکے خود کفالت کی مشکل راہ پر گام زن ہونے کی تیاری کرنا ہو گی۔ چین، جنوبی کوریا، ویت نام اور بھارت کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ ان ممالک نے کس طرح مشکل حالات میں اپنے مفادات کے لیے مشکل فیصلے کیے اور آج ان ہی فیصلوں کے ثمرات سمیٹتے نظر آ رہے ہیں۔
اگر پاکستان میں غربت کا فائدہ صاحبِ ثروت طبقات اور کرپٹ عناصر کو ہو رہا ہے تو پھر ان کے خلاف سخت اقدامات کرنے پڑیں گے، خواہ ان عناصر کے گناہوں کی فہرست کتنی بھی طویل ہو، اب مفاہمت اور مصلحت یا کسی بھی معاشی یا قانونی جواز کی آڑ میں انھیں معافی ہرگز نہیں ملنی چاہیے ورنہ دوسری صورت میں ملک کے اندر دیوار سے لگے غریب اور تن خواہ دار طبقے کو غربت مجبور کر دے گی کہ وہ آخری آپشن کے طور پر کچھ بھی کرنے پر مجبور ہور جائے۔
ابھی یہ صرف ایک جملہ ہے جس کو تحریر بننے سے روکنا اور ترجیحی بنیادوں پر اس خیال کا رخ موڑنا ہو گا ورنہ طویل دورانیے کی لوڈ شیڈنگ، بیروزگار مزدوروں اور نوجوانوں کو جہادی کیمپوں میں جانے سے ہرگز روک نہیں سکے گی۔ پاکستان میں غربت کی لعنت سے چھٹکارا ہمارا فرض تو ہے ہی، اب اقوام عالم کو بھی اس بارے میں سوچنا ہو گا ورنہ عالمی امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ یہ ہی وہ نقطہ ہے جس کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے ہمیں سفارتی سطح پر سخت محنت کرنا پڑے گی۔
افراط زر
افراط زر (Inflation) معاشیات کی ایک اہم اصطلاح ہے۔ کسی ملک کا مرکزی بینک اگر مقررہ حد سے زیادہ کرنسی نوٹوں چھاپ لے اور اس کے نتیجے میں زر کی قدر میں کمی اور اشیاء کی قیمت میں اضافہ ہو جائے تو اس صورت حال کو افراط زر کہا جاتا ہے۔
یعنی '' کسی بھی معیشت میں موجود اشیاء (خریدوٖفروخت کے لیے تیار کی جانے والی اشیاء ) کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی شرح کو افراط زر کہا جائے گا'' ۔ یاد رہے افراط زر میں مسلسل اضافہ کا رجحان مہنگائی کی صورت میں سامنے آتا ہے، سرمایاداری نظام معیشت میں افراط زر کی موجودگی کو ایک قدرتی امر سمجھا جاتا ہے جو عمومی سطح پر اوسطاً 5 سے 6 فیصد سالانہ بتائی جاتی ہے۔
تاہم دیوالیہ ہو جانے والی معیشتوں میں افراط زر ہزار فی صد سے بھی تجاوز کرجاتا ہے، اس کو معقول حد میں رکھنا ہر ملک کے مرکزی بینک کی بنیادی ذمے داری ہوتی ہے۔ افراط زر کی بنیادی وجہ ایک ہی ہوتی ہے یعنی حکومت کا اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے زیادہ نوٹ چھاپنا ۔
افراط زر محصول
اس ٹیکس کو انفلیشن ٹیکس (tax inflation) بھی کہتے ہیں یہ ایک عجیب وغریب ٹیکس ہے جو کوئی شہری ادا نہیں کرتا مگر اس کے باوجود وصول ہو جاتا ہے اور حکومت پورا ٹیکس حاصل کرنے میں کامیاب رہتی ہے۔
دراصل یہ stealth tax اور hidden tax کی ایک قسم ہے جس کی عام آدمی کو سمجھ نہیںآتی۔ حکومت جب زیادہ نوٹ چھاپتی ہے تو اسے خرچ کرنے کے لیے رقم تو مل جاتی ہے لیکن اسکا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ملک میں افراط زر کی وجہ سے کرنسی کی( قدر) قوت خرید کم ہو جاتی ہے گو کہ اس طریقے سے حکومت ٹیکس نافذ کیے بغیر یہ ٹیکس وصول کر لیتی ہے اور اس کا نتیجہ عوام کو مہنگائی کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے جب حکومت نوٹ چھاپنے کی بجائے یہ ٹیکس نافذ کر کے وصول کرنے کی کوشش کرتی ہے تو حکومت کی مقبولیت میں جہاںکمی آتی ہے وہاں سرکاری اداروں کی کرپشن کی وجہ سے پورا ٹیکس بھی وصول نہیں ہو پاتا۔
یہ ٹیکس صرف currency Fiat پر ہی لاگو ہو سکتا ہے کیوں کہ ہارڈ کرنسی currency Hard میں افراط زر نہیں ہوتا اس لیے اس پر انفلیشن ٹیکس بھی نہیں لگ سکتا۔ اس ٹیکس سے سب سے زیادہ غریب طبقہ متاثر ہوتا ہے؟ آمدنی کے لحاظ سے غریبوں کو یہ ٹیکس زیادہ ادا کرنا پڑتا ہے اور امیروں کو کم، جب کہ تنخواہ دار طبقہ تو سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے کیوں کہ اس کی آمدنی مستقل ہوتی ہے۔ اسی طرح جس کے پاس زیادہ نقد رقم یا بانڈ ہوں گے وہ بھی اس ٹیکس سے زیادہ متاثر ہو گا۔
اسی طرح جس نے کوئی رقم قرض دی ہوئی ہو گی وہ بھی نقصان میں رہے گا کیوں کہ قرض کی واپسی پر مہنگائی کی وجہ سے اسکی رقم کی قوت خرید گر چکی ہو گی ۔ اس ٹیکس سے کون فائدے میں رہتا ہے؟ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ قرض لینے والے فائدے میں ہوں گے کیوں کہ رقم کی قوت خرید گر جانے کی وجہ سے اب یہ رقم کم محنت کر کے کمائی جا سکتی ہے چوں کہ حکومت ہمیشہ مقروض ہوتی ہے اس لیے جب وہ زیادہ نوٹ چھاپتی ہے تو نہ صرف براہ راست اس کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے بل کہ پرانے قرضوں کا بوجھ بھی ہلکا ہو جاتا ہے۔
علاوہ ازیں بینک میں رکھی ہوئی رقم پر چوں کہ سود یا منافع ملتا رہتا ہے اس لیے یہ رقم افراط زر سے کم متاثر ہوتی ہے۔ لیکن پاکستان جیسے ملک میں جہاں حقیقی افراط زر، سود یا منافع سے بھی زیادہ ہوتا ہے اس لیے سرمایہ لگانے والے اکثروبیشتر نقصان میں ہی رہتے ہیں۔ مثلاًدس سال میں ڈیفنیس سیونگ سرٹیفیکٹ سے رقم کئی گنا تو ہو جاتی ہے مگرسوال یہ بھی ہے کہ اب یہ اتنا سونا نہیں خرید سکتی جتنا دس سال پہلے خرید سکتی تھی کیونکہ دس سال میں سونا افراط زر سے بھی زیادہ مہنگا ہو جاتا ہے۔اس کو بینکینگ کی زبان میں منفی شرح سود کہا جاتا ہے۔
پاکستان کی 49 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے ۔۔۔۔۔ اقوام متحدہ
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ترقیاتی پروگرام نے ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس 2013 رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کی 49 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔ پاکستان 186 ممالک کی فہرست میں 146 ویں نمبر پر ہے۔
رپورٹ کے مطابق'' پاکستانی سیاست صرف 100 خاندانوں کی میراث بن کر رہ گئی ہے، پاکستان کی حکومت کی حالیہ 5 سالہ کارکردگی ہر گز اچھی نہیں تھی، 2000 سے 2007 کے دوران پاکستان میں ہیومن ڈیویلپمنٹ انڈیکس میں 18.9 فی صد اضافہ ہوا جو سالانہ 2.7 فیصد بنتا ہے جب کہ 2008 سے 2012 کے دوران اس انڈیکس میں صرف 3.7 فیصد اضافہ ہوا جو 0.7 فیصد سالانہ بنتا ہے،گزشتہ تین سالوں میں تو اس انڈیکس میں صرف 0.2 فیصد سالانہ کا اضافہ دیکھا گیا''۔
دنیا بھر میں ناروے عام آدمی کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے پہلے نمبر پررہا، سری لنکا 92 ویں، بھارت 136 ویں اوربنگلہ دیش بھی پاکستان کے ساتھ ایک 146 ویں نمبرپررہا جب کہ نائجیریا سب سے نیچے 186ویں نمبر پر رہا۔ رپورٹ کے مطابق صحت اور تعلیم جیسے شعبوں پر پاکستان غریب افریقی ملک کانگو سے بھی کم خرچ کرتا ہے جب کہ کانگو صحت پر جی ڈی پی کا 1.2 فی صد اور تعلیم پر 6.2 فی صد خرچ کرتا ہے لیکن پاکستان میں صحت پر جی ڈی پی کا 0.8 فیصد اور تعلیم پر 1.8 فیصد خرچ کیا جاتا ہے۔
خطِ غربت دراصل اُس حد کا تعین کرتا ہے جو کسی بھی ملک کے عاقل و بالغ شہری کی آمدن سے متعین ہوتی ہے۔ اس فارمولے کے تحت روزانہ، ماہانہ یا سالانہ آمدنی کو مدنظر رکھ کر اُس فرد کی امارت یا غربت کا تعین کیا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر غربت کی لکیر کی حد کا تعین ہمیشہ سے (بیمار ہوئے جس کے سبب) امریکی ڈالر کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں وفاقی ادارۂ شماریات کے جاری کردہ ماہانہ اعداد و شمار کی روشنی میں اگر کسی شہری کی فی کس آمدنی کا تعین کر لیا جائے تو پاکستان میں اُسے غریب یا امیر ہونے کا سرٹیفکیٹ آسانی سے دیا جا سکتا ہے لیکن یہ بھی طے ہے کہ حالات و واقعات سے فی کس آمدنی میں کمی یا بیشی بہ ہرحال ممکن ہوتی ہے۔
وطن عزیز کی چھیاسٹھ سالہ معاشی تاریخ کا جائزہ لیاجائے تو یہ معلوم ہو گا کہ پاکستانیوں کی فی کس آمدن میں جو اضافہ ہوا اس کے مقابلے میں منہگائی میں اضافہ اس سے کئی گنا زیادہ ہوتا رہا، جس کی وجہ سے غربت کی لکیر سے اوپر آنے کے تمام حیلے حربے دھرے کے دھرے رہ جاتے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق ملکی آبادی کا 60 فی صد ابھی تک خطِ غربت سے اوپر آنے میں مکمل طور پر ناکام ہے جب کہ دوسری جانب افراطِ زر میں ہر سال مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ معاشی ماہرین نے اس کی سیکڑوں وجوہات بیان کی ہیں جن میں سے کچھ اہم وجوہات ۔۔۔۔آبادی میں تیز ترین اضافہ، قدرتی وسائل میںبہ تدریج کمی، افراط زر، معاشی اور معاشرتی سطح پر بدعنوانی کا بڑھتا ہوا رجحان اور میرٹ کی پامالی ۔۔۔ وغیرہ ہیں جن کی وجہ سے آج ہم عالمی سطح پر ساتویں ایٹمی قوت ہونے کے باوجود بجلی جیسی اہم ضرورت سے محروم ہیں۔
معاشی اصطلاحوں کے کورگھ دھندوں میں الجھے بغیر اگر ہم سادہ الفاظ میں یہ کہ لیں کہ غربت کی لکیر سے نیچے تو غریب لوگ ہوتے ہی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں غربت کی نام نہاد لکیر سے اوپر بھی بہت دور تک غربت کے آثار نظر آتے ہیں۔ اس نرغے میں پھنسے ہوئے لوگوں کو عام زبان میں ''سفید پوش'' کہ کر وضع داری کے تقاضے تو پورے کر لیے جاتے ہیں لیکن ہوتے یہ بھی غریب لوگ ہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امارت تو اس سے کہیں دور بہت دور صدیوں کی مسافت پر ہوتی ہے جہاں تک ایمان داری سے پہنچتے پہنچتے کئی نسلوں کو سخت محنت اور جنگی بنیادوں پر بچت جیسی کٹھنائیوں سے گذرنا پڑتا ہے لیکن جھوٹ یہ بھی نہیں کہ اس منزل تک پہنچنے کے لیے جب ''شاٹ کٹ'' اپنائے جاتے ہیں تو پھر امارات بھی دنوں میں مل جاتی ہے اور معاشرے میں عزت و احترام بھی۔
غربت اور امارت کا ذکر اپنی جگہ لیکن ایک بات طے ہے کہ آج بھی پاکستان کی آبادی کا بہت بڑا حصہ دیانت داری کے ساتھ غربت سے امارت کی جانب سفر کرنے کا خواہاں ہے، اِس کا ایک واضح ثبوت حالیہ انتخابات کے نتائج ہیں۔ ملک کے غریب عوام نے بم دھماکوں کے خطرے کے باوجود گھر سے نکل کر جب میرٹ کی پامالی اور بدعنوانی کے خلاف اپنے حق رائے دہی کا بھرپور استعمال کیا تو ہارنے والوں کے ساتھ ساتھ جیتنے والے بھی حیران رہ گئے۔ نئی حکومت کو جو مینڈیٹ ملا ہے وہ زیادہ تر غریب اور سفید پوش طبقے نے ہی اِس امید پر دیا کہ ملک کی معاشی حالت بہتر ہو گی تو ان کی معاشی حالت بھی خود بہ خود بہتر ہو جائے گی۔
آئندہ چند دنوں میں نئی حکومت کے پہلے 100 دنوں کی بلی تھیلے سے باہر آنے والی ہے۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کی ابتر معاشی حالت کو سنوارنے کا یہ آخری موقع ہے اگر خدا نہ خواستہ یہ ہاتھ سے نکل گیا تو بس اللّٰہ ہی حافط ہے، صاحب ثروت طبقہ یہاں سے پرندوں کی طرح ہجرت کرنے میں ہر گز دیر نہیں لگائے گا، اِس لیے انتہائی ہوش مندی، صبر و تحمل، بردباری اور دور اندیشی کے ساتھ آگے بڑھنے کے سوا اب کوئی چارہ نہیں ہے۔
پاکستان کے غریب طبقے کی حالت زار کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں، اِس حالِ زار میں وہ تن خواہ دار طبقہ بھی شامل ہے جس کا ذریعۂ آمدن صرف اور صرف تن خواہ ہی ہوتی ہے اور جب لگی بندھی تن خواہ کا مہینہ پچاس ساٹھ دن کا ہو جائے اس طبقے کی خاموشی بھی سسکیوں میں بدل جاتی ہے۔ گزشتہ حکومت میں سرکاری اور نجی شعبہ سے اپنی خدمات کے عوض تن خواہ پانے والے ہزاروں ملازمین کی سسکیاں اس بات کی گواہ ہیں کہ انھوں نے کس کس طرح اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھا، اس لیے کم مراعات اور کم تن خواہ دار طبقے کو بھی اگر غریب طبقے میں شمار کر لیا جائے تو غربت کی تفسیر بیان کرنے والی کسی معاشی اصطلاح پر زد نہیں پڑے گی۔
نئے مالی سال 2013-14 کے لیے تیار کیے جانے والے سالانہ مالیاتی بجٹ میں نئی حکومت غربت کی چکی میں پسے ہوئے طبقے کو کیا مراعات اور سہولیات فراہم کرتی ہے؟ اس کا مفصل ذکر تو بجٹ اعلان کے بعد ہی ہو گا لیکن جس شدت کے ساتھ یہ طبقہ نئے بجٹ کا انتظار کر رہا ہے اُس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ نئی حکومت کے لیے یہ بجٹ ''اک آگ کا دریا ہے اور تیر کے جانا ہے'' کے مترادف ہو گا ۔ نئے بجٹ میں غریب اور تن خواہ دار طبقے سے بجٹ تیار کرنے والی ٹیم کیا وعدے کرتی ہے، کس طرح کی تسلیاں دیتی ہے؟ یہ مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہوگا جو بہ ہرحال کرنا پڑے گا۔ اگر یہ وعدے بھی طفل تسلیوں پر مبنی ہوئے تو اس بار حکومت کو ''فرینڈلی اپوزیشن'' کے بجائے حقیقی اپوزیشن سے پالا پڑنے والا ہے اور اس اپوزیشن کا ہم نوا ملک کا آزاد میڈیا اور متحرک عدالت عظمیٰ بھی ہو گی۔
ملک میں غربت کے حوالے سے بعض معتبر اور باوثوق سیاسی پنڈتوں نے تو ابھی سے کہنا شروع کر دیا ہے کہ اگر نئی حکومت نے بھی جانے والی حکومت کی طرح معاشی عدم استحکام سے نظریں چرانے اور اقربا پروری کی روش اختیار کر لی تو یہ حکومت اپنی مدت میعاد کا تیسرا بجٹ اسمبلی میں پیش کرنے سے قاصر رہے گی اور قوم کو ایک مرتبہ پھر اپنا مینڈیٹ دینا پڑے گا۔
پاکستان میں غربت اپنوں کی وجہ سے ہے، غیروں کی وجہ سے یا دونوں کی ملی بھگت سے ہے؟ اب اس بحث کی بجائے شاید یہ سوچنے کا وقت آ چکا ہے کہ پاکستان میں غربت کا فائدہ کس کو ہو رہا ہے؟ اگر یہ فائدہ غیروں کو ہے تو پھر حقیقی معنوں میں کشکول کو ہمیشہ کے لیے دفن کرکے خود کفالت کی مشکل راہ پر گام زن ہونے کی تیاری کرنا ہو گی۔ چین، جنوبی کوریا، ویت نام اور بھارت کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ ان ممالک نے کس طرح مشکل حالات میں اپنے مفادات کے لیے مشکل فیصلے کیے اور آج ان ہی فیصلوں کے ثمرات سمیٹتے نظر آ رہے ہیں۔
اگر پاکستان میں غربت کا فائدہ صاحبِ ثروت طبقات اور کرپٹ عناصر کو ہو رہا ہے تو پھر ان کے خلاف سخت اقدامات کرنے پڑیں گے، خواہ ان عناصر کے گناہوں کی فہرست کتنی بھی طویل ہو، اب مفاہمت اور مصلحت یا کسی بھی معاشی یا قانونی جواز کی آڑ میں انھیں معافی ہرگز نہیں ملنی چاہیے ورنہ دوسری صورت میں ملک کے اندر دیوار سے لگے غریب اور تن خواہ دار طبقے کو غربت مجبور کر دے گی کہ وہ آخری آپشن کے طور پر کچھ بھی کرنے پر مجبور ہور جائے۔
ابھی یہ صرف ایک جملہ ہے جس کو تحریر بننے سے روکنا اور ترجیحی بنیادوں پر اس خیال کا رخ موڑنا ہو گا ورنہ طویل دورانیے کی لوڈ شیڈنگ، بیروزگار مزدوروں اور نوجوانوں کو جہادی کیمپوں میں جانے سے ہرگز روک نہیں سکے گی۔ پاکستان میں غربت کی لعنت سے چھٹکارا ہمارا فرض تو ہے ہی، اب اقوام عالم کو بھی اس بارے میں سوچنا ہو گا ورنہ عالمی امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ یہ ہی وہ نقطہ ہے جس کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے ہمیں سفارتی سطح پر سخت محنت کرنا پڑے گی۔
افراط زر
افراط زر (Inflation) معاشیات کی ایک اہم اصطلاح ہے۔ کسی ملک کا مرکزی بینک اگر مقررہ حد سے زیادہ کرنسی نوٹوں چھاپ لے اور اس کے نتیجے میں زر کی قدر میں کمی اور اشیاء کی قیمت میں اضافہ ہو جائے تو اس صورت حال کو افراط زر کہا جاتا ہے۔
یعنی '' کسی بھی معیشت میں موجود اشیاء (خریدوٖفروخت کے لیے تیار کی جانے والی اشیاء ) کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی شرح کو افراط زر کہا جائے گا'' ۔ یاد رہے افراط زر میں مسلسل اضافہ کا رجحان مہنگائی کی صورت میں سامنے آتا ہے، سرمایاداری نظام معیشت میں افراط زر کی موجودگی کو ایک قدرتی امر سمجھا جاتا ہے جو عمومی سطح پر اوسطاً 5 سے 6 فیصد سالانہ بتائی جاتی ہے۔
تاہم دیوالیہ ہو جانے والی معیشتوں میں افراط زر ہزار فی صد سے بھی تجاوز کرجاتا ہے، اس کو معقول حد میں رکھنا ہر ملک کے مرکزی بینک کی بنیادی ذمے داری ہوتی ہے۔ افراط زر کی بنیادی وجہ ایک ہی ہوتی ہے یعنی حکومت کا اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے زیادہ نوٹ چھاپنا ۔
افراط زر محصول
اس ٹیکس کو انفلیشن ٹیکس (tax inflation) بھی کہتے ہیں یہ ایک عجیب وغریب ٹیکس ہے جو کوئی شہری ادا نہیں کرتا مگر اس کے باوجود وصول ہو جاتا ہے اور حکومت پورا ٹیکس حاصل کرنے میں کامیاب رہتی ہے۔
دراصل یہ stealth tax اور hidden tax کی ایک قسم ہے جس کی عام آدمی کو سمجھ نہیںآتی۔ حکومت جب زیادہ نوٹ چھاپتی ہے تو اسے خرچ کرنے کے لیے رقم تو مل جاتی ہے لیکن اسکا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ملک میں افراط زر کی وجہ سے کرنسی کی( قدر) قوت خرید کم ہو جاتی ہے گو کہ اس طریقے سے حکومت ٹیکس نافذ کیے بغیر یہ ٹیکس وصول کر لیتی ہے اور اس کا نتیجہ عوام کو مہنگائی کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے جب حکومت نوٹ چھاپنے کی بجائے یہ ٹیکس نافذ کر کے وصول کرنے کی کوشش کرتی ہے تو حکومت کی مقبولیت میں جہاںکمی آتی ہے وہاں سرکاری اداروں کی کرپشن کی وجہ سے پورا ٹیکس بھی وصول نہیں ہو پاتا۔
یہ ٹیکس صرف currency Fiat پر ہی لاگو ہو سکتا ہے کیوں کہ ہارڈ کرنسی currency Hard میں افراط زر نہیں ہوتا اس لیے اس پر انفلیشن ٹیکس بھی نہیں لگ سکتا۔ اس ٹیکس سے سب سے زیادہ غریب طبقہ متاثر ہوتا ہے؟ آمدنی کے لحاظ سے غریبوں کو یہ ٹیکس زیادہ ادا کرنا پڑتا ہے اور امیروں کو کم، جب کہ تنخواہ دار طبقہ تو سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے کیوں کہ اس کی آمدنی مستقل ہوتی ہے۔ اسی طرح جس کے پاس زیادہ نقد رقم یا بانڈ ہوں گے وہ بھی اس ٹیکس سے زیادہ متاثر ہو گا۔
اسی طرح جس نے کوئی رقم قرض دی ہوئی ہو گی وہ بھی نقصان میں رہے گا کیوں کہ قرض کی واپسی پر مہنگائی کی وجہ سے اسکی رقم کی قوت خرید گر چکی ہو گی ۔ اس ٹیکس سے کون فائدے میں رہتا ہے؟ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ قرض لینے والے فائدے میں ہوں گے کیوں کہ رقم کی قوت خرید گر جانے کی وجہ سے اب یہ رقم کم محنت کر کے کمائی جا سکتی ہے چوں کہ حکومت ہمیشہ مقروض ہوتی ہے اس لیے جب وہ زیادہ نوٹ چھاپتی ہے تو نہ صرف براہ راست اس کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے بل کہ پرانے قرضوں کا بوجھ بھی ہلکا ہو جاتا ہے۔
علاوہ ازیں بینک میں رکھی ہوئی رقم پر چوں کہ سود یا منافع ملتا رہتا ہے اس لیے یہ رقم افراط زر سے کم متاثر ہوتی ہے۔ لیکن پاکستان جیسے ملک میں جہاں حقیقی افراط زر، سود یا منافع سے بھی زیادہ ہوتا ہے اس لیے سرمایہ لگانے والے اکثروبیشتر نقصان میں ہی رہتے ہیں۔ مثلاًدس سال میں ڈیفنیس سیونگ سرٹیفیکٹ سے رقم کئی گنا تو ہو جاتی ہے مگرسوال یہ بھی ہے کہ اب یہ اتنا سونا نہیں خرید سکتی جتنا دس سال پہلے خرید سکتی تھی کیونکہ دس سال میں سونا افراط زر سے بھی زیادہ مہنگا ہو جاتا ہے۔اس کو بینکینگ کی زبان میں منفی شرح سود کہا جاتا ہے۔
پاکستان کی 49 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے ۔۔۔۔۔ اقوام متحدہ
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ترقیاتی پروگرام نے ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس 2013 رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کی 49 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔ پاکستان 186 ممالک کی فہرست میں 146 ویں نمبر پر ہے۔
رپورٹ کے مطابق'' پاکستانی سیاست صرف 100 خاندانوں کی میراث بن کر رہ گئی ہے، پاکستان کی حکومت کی حالیہ 5 سالہ کارکردگی ہر گز اچھی نہیں تھی، 2000 سے 2007 کے دوران پاکستان میں ہیومن ڈیویلپمنٹ انڈیکس میں 18.9 فی صد اضافہ ہوا جو سالانہ 2.7 فیصد بنتا ہے جب کہ 2008 سے 2012 کے دوران اس انڈیکس میں صرف 3.7 فیصد اضافہ ہوا جو 0.7 فیصد سالانہ بنتا ہے،گزشتہ تین سالوں میں تو اس انڈیکس میں صرف 0.2 فیصد سالانہ کا اضافہ دیکھا گیا''۔
دنیا بھر میں ناروے عام آدمی کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے پہلے نمبر پررہا، سری لنکا 92 ویں، بھارت 136 ویں اوربنگلہ دیش بھی پاکستان کے ساتھ ایک 146 ویں نمبرپررہا جب کہ نائجیریا سب سے نیچے 186ویں نمبر پر رہا۔ رپورٹ کے مطابق صحت اور تعلیم جیسے شعبوں پر پاکستان غریب افریقی ملک کانگو سے بھی کم خرچ کرتا ہے جب کہ کانگو صحت پر جی ڈی پی کا 1.2 فی صد اور تعلیم پر 6.2 فی صد خرچ کرتا ہے لیکن پاکستان میں صحت پر جی ڈی پی کا 0.8 فیصد اور تعلیم پر 1.8 فیصد خرچ کیا جاتا ہے۔