اصل ہتھیار
خان سے لوگوں کو دیومالائی توقعات ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ چٹکی بجائیگا اور معاملات ٹھیک ہو جائیں گے۔
حکمت، دانائی اور تدبر ہی اس مشکل وقت میں رہنما اُصول ہو سکتے ہیں۔ جذباتیت، جملہ بازی اور فوری غصے کے اظہار سے مکمل اجتناب۔ مگر یہ سب کچھ کہاں سے لائیں۔ کس طرح بات کو دل میں سموئیں کہ اصل طاقت انسان کی جسمانی نہیں بلکہ ذہنی ہوتی ہے۔ فکر کی قوت سے معاملات کو پرکھنا اور پھر اُصولی حل نکال کر قائم رہنا ہی زندگی ہے۔ پر کس کو بتایا جائے۔
غنیم تو بھرپور تیاری میں سرحد پر تیار بیٹھا ہے۔ صرف اور صرف اشارہ ملنے کا منتظر ہے۔ امریکا اور اسرائیل کی بھرپور طاقت اس کے پیچھے ہے۔ ہندوستان کی ہر پالیسی میں درج ہے کہ ان کے ہمسائے میں پاکستان نہیں ہونا چاہیے۔ اس ملک کا وجود ہی ہندوستان کے لیے سوہان روح ہے۔ پھر آر ایس ایس کے پُرتشدد فلسفہ پر یقین رکھنے والی حکومت، جو بٹوارے کو تسلیم ہی نہیں کرتی۔ ہر ملک دشمن طاقت ہمارے خلاف یکسو۔ مگر ہم ہیں کہ وجود کے خطرے کو بھی سنجیدگی سے نہیں لے پارہے۔ وہی اندرونی چپقلش، وہی سیاسی کدورتیں، وہی سطحی سے مشیر اور وہی ذہنی بے فکری۔ پوری دنیا ہمارے معاملات کو تشویش اور خوف سے دیکھ رہی ہے۔ ہم خود کیا کر رہے ہیں یا کرتے رہے ہیں، اس پر دلیل سے بات ہونی چاہیے۔
ہمارے تمام مسائل کی چابی اندرونی حالات کو درست کرنے میں ہے۔ معیشت کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں ہے۔ معاشرے میں آزاد فکر کو بڑھاوا دینے میں ہے۔ اگر ملکی معاملات درست ہو گئے تو باہر کے معاملات میں حددرجہ توازن آجائیگا۔ ایک پاکستانی سفارتکار سے پوچھا کہ جناب خارجہ پالیسی کا اصل جوہر کیا ہوتا ہے۔ سفارتکار حددرجہ محب الوطن اور ایماندار انسان تھے۔ سوچ کر جواب دیا۔ طاقتور معیشت اور اندرونی طور پر مضبوط ملک ہی بیرونی خارجہ پالیسی کو فعال بنا سکتا ہے۔ اگر ریاست میں ہر طرف زبوں حالی ہو، تباہی ہو، تو ہم لاکھ نعرے لگالیں، نہ ہمارے دوست ہونگے اور نہ ہی کوئی ملک ہم پر اعتبارکرے گا۔ یہ سب کچھ گزشتہ ستر برس میں تو نہ ہوپایا۔ شائد مستقبل میں ہو جائے۔
پھر کوئٹہ کی ایک سرد شام یاد آئی۔ فضا میں ہیبت ناک طیاروں کی گھن گھرج، ائیرپورٹ پر امریکی فضائی طاقت کے بھرپور مظاہرے۔ 9/11 کے چند ہفتوں بعد کا واقعہ ہے۔ پوری دنیا افغانستان پر پَل پڑی تھی۔ ہم ان کے حلیف تھے۔ سفارتی اُصولوں کو بالائے طاق رکھ کر افغانستان کے ہمارے ملک میں سفیر تک کو گرفتار کر کے طشتری میں بیرونی طاقتوں کے سامنے پیش کر دیا تھا۔ معلوم تھا کہ افغانستان کی بدبختی آچکی ہے۔ ایک عمر رسیدہ بلوچ سردار سے ملاقات ہوئی۔ طالبان کے سخت مخالف، مگر ایک فقرہ ایسا کہہ گئے کہ کافی دن سوچتا رہا۔ "اگر افغانستان کی جنگ ہمارے ملک میں آگئی، تو پھر کیا ہو گا"۔ طالبان کی مذہبی شدت پسندی کا مخالف ہوں، ان کے اندر انسانی حقوق اور خواتین کی بے توقیری سے بھی اختلاف ہے۔
مگر اس وقت کیا کسی نے اس نکتہ پر غور کیا تھا کہ اگر افغان جنگ، ہمارے معاشرے میں آگئی تو ہمارا وجود ہی لرز جائیگا۔ پھر یہ بھی دیکھا کہ آج سے ایک دہائی پہلے جب لاہور میں طالبان نے ایف آئی اے کے دفتر پر خودکش حملہ کیا، تو دھماکے کے صرف دس منٹ بعد شہر کی سب سے پُررونق سڑک مکمل طور پر ویران تھی۔ مال روڈ اتنی تنہا کبھی نظرنہ آئی جتنی اس دن تھی۔ لاہور کے شہری گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے تھے۔
ٹی وی چِلا رہے تھے کہ کہیں ایک اور دہشتگردی کا واقعہ نہ ہو جائے۔ اس وقت اس دانا بلوچ سردار کی آواز کان میں گونجنے لگی۔ اگر افغانستان کی جنگ ہمارے ملک میں آگئی تو کیا ہو گا۔ ہماری اندرونی اور بیرونی ناکام حکمتِ عملی کے درجنوں شواہد موجود ہیں۔ معاملہ صرف اس وجہ سے چل پایا ہے کہ فوج بھانپ گئی تھی کہ اندرونی خطرہ کا سر کچلنا اَزحد ضروری ہے۔ اس میں ہماری معیشت کیسے برباد ہوئی، ہماری ہزاروں جانیں کیسے ختم ہوئیں، اسکو سب جانتے ہیں۔ شائد اصل نقصان کی تفصیل صرف اور صرف ایک دو اداروں کے پاس ہے۔ دل ہلانے والی سچی کہانیاں اور ان کا ردِعمل۔
مگر نکتہ تو یہی ہے کہ اندرونی معاملات کو بہتر کیونکر کیا جائے۔کسی بھی سیاسی جماعت یا گروہ سے کوئی تعلق نہیں۔ سیاست اور سیاستدانوں کو بچپن سے اس درجہ نزدیک سے دیکھ چکا ہوں کہ اس شعبہ سے تقریباً لاتعلق ہو چکا ہوں۔ بہت دنوں کے تؤقف کے بعد ٹی وی کا ایک ٹاک شو دیکھا۔ عرض کرنا چاہوں گا کہ ٹی وی پر اس درجہ یکسانیت اور جہالت ہے کہ اب عرصے سے ٹی وی ٹاک شو نہیں دیکھتا۔ صرف اور صرف جانوروں کے چینل شوق سے دیکھتا ہوں۔ جس میں Animal Planet سرِفہرست ہے۔ مگر کل کا ٹاک شو بے حد تکلیف دہ تھا۔
ایک گرفتار شدہ سابق ڈی جی، ایل ڈی اے کے وکیل، صاف پانی کے متعلق جو حقائق بیان کر رہے تھے، وہ کرپشن نہیں بلکہ معاشی دہشتگردی کی محیرالعقول مثال تھی۔ سابق وزیراعلیٰ کی جانب سے دیے گئے ٹھیکے، صاف پانی کمپنی میں ان کی روزمرہ کی مداخلت، افسروں کی بے عزتی اور من پسند کمپنیوں کو مالی فائدہ پہنچانے کے ایسے دستاویزی ثبوت ٹی وی پر دکھائے جا رہے تھے کہ حیرت ہو رہی تھی۔ ایل ڈی اے کے بعد اس منظورنظر افسر کو صاف پانی کمپنی کا انچارج لگا دیا گیا۔
وکیل صاحب فرما رہے تھے کہ بیرونی کمپنیوں کے سی ای اوز، اس افسرکے پاس آکر کہتے تھے کہ ہمارے معاملات بالائی سطح پر طے پائے جاچکے ہیں لہذا ہمیں ٹھیکے دے دیے جائیں۔ کاغذ تو ہمیشہ سچ بولتا ہے۔ دستاویزی ثبوت تو کسی کی پرواہ نہیں کرتے۔ سابقہ حکومت کے ایک وزیر جو اس پروگرام میں موجود تھے، ان سے کوئی جواب بن نہیں پارہا تھا۔ دل پریشان ہو گیا۔ یہاں تک بتایا گیا کہ لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی میں ایک ٹن کوڑا اُٹھانے کا ریٹ طے کرنے کے بعد ٹھیکہ صرف آٹھ ڈالر میں مقامی لوگوں کو دیدیا گیا۔ یومیہ بنیاد پر سابقہ شفاف حکومت، اس کمپنی کو چونسٹھ ہزار ڈالر بوجہ دیتی رہی۔ اس ترک کمپنی کے تانے بانے بھی سابقہ وزیراعلیٰ سے جوڑے جارہے تھے۔
یہ معاشی جرائم کی تفتیش کا ابتدائی مرحلہ ہے۔ ایک محتاط ماہر معاشیات بتانے لگے کہ گزشتہ دس برس میں صرف پنجاب میں بیس سے پچیس ارب ڈالربطور رشوت وصول کیے گئے ہیں۔ دوبارہ سوال کرونگا کہ کیا پوچھ گچھ نہیں ہونی چاہیے۔ کیا ٹھوس ثبوتوں کی بدولت گرفتاریاں اور سزائیں نہیں ہونی چاہیے۔ کیا واقعی کرپشن کو روکنا سیاسی انتقام ہے۔ ابھی سی پیک کے معاملات کھلنے باقی ہیں۔ وہ بھی طلسم ہوشربا سطح کی کرپشن کی سچی کہانی ہے۔ صرف مٹی ڈالنے کا ٹھیکہ سات سو گنا مہنگا دیا گیا۔ پھر پیسے لے کر اسے معمولی ریٹ پر مقامی ٹھیکہ داروں کے حوالے کر دیا گیا۔
کیا چین سے یہ درخواست نہیں کرنی چاہیے کہ آپ ٹھیکوں کی تفصیل بتائیے تاکہ لوگوں کوعلم ہوکہ اس کی آڑمیں کتنی بھیانک معاشی دہشتگردی ہو رہی تھی۔ افسوس ہوتاہے۔ جب ہم ووٹ کی طاقت سے اپنے حکمران مقرر کریں اور وہ ہمارے ساتھ یہ واردات کر جائیں۔ بتائیے کس سے شکایت کریں۔ کہاں جائیں۔ کیا گریہ بھی نہ کریں۔ ہاں یہ ضرور عرض کرونگا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ سیاسی انتقام کی بو آئے۔ دھلائی اور ستھرائی میرٹ پر ہو تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔
ملک کی معاشی بربادی کیا ان دو مہینوں میں ہوئی ہے۔ ہرگز نہیں۔ جس طرح ملک کو لوٹا گیا ہے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے علاوہ کوئی فوری حل نہیں ہے۔ خیر ملائیشیا کا مردِآہن جسکے ملک کی کرنسی مکمل طور پر زمین بوس ہو چکی تھی، جسکے دروازے پر آئی ایم ایف کے لوگ قرض لے کر پہنچ چکے تھے۔ اس نے قرض لینے سے انکار کر دیا تھا۔ مگر پاکستان کا معاشی بحران، ملائیشیا کے اقتصافی بحران سے بہت گھمبیر ہے۔ مگر کیا یہ نہیں ہونا چاہیے کہ امپورٹ بل کو آدھا کر دیا جائے۔ پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ انسانی اور جانوروں کی درآمدی خوراک پر کیونکر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔
پُرتعیش اشیاء پر تین ہزار فیصد ٹیکس کیوں نہیں لگایا جاتا۔ امپورٹڈ گاڑیوں پر پابندی کیوں نہیں لگ سکتی۔ اَسد عمر ایک ذہین انسان ہیں۔ ان کی اقتصادی ٹیم کے متعلق سنجیدہ لوگوں کے ذہن میں بہت سے سوالیہ نشان ہیں۔ اَسد عمر صاحب کیوں امپورٹ بل کو آدھا نہیں کر سکتے۔ غیرمعمولی حالات میں غیرمعمولی فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ ابتدائی مرحلہ میں ایسا ہوتا دور دور تک نظر نہیں آرہا۔ شائد کچھ عرصے بعد یہ مشکل فیصلے ہوجائیں۔
خان سے لوگوں کو دیومالائی توقعات ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ چٹکی بجائیگا اور معاملات ٹھیک ہو جائیں گے۔ مگر لوگوں میں یاس اور پریشانی کا عنصر بڑھ رہا ہے۔ عمران خان ذاتی طور پر حددرجہ ایماندار انسان ہے۔ دشمن بھی اس کی اخلاقی برتری کا اعتراف کرتے ہیں۔ وقت ہے کہ اس طاقت کو عوام کے لیے ان فیصلوں پر صَرف کیا جائے، جن سے مہنگائی اور بیروزگاری کا جن بوتل میں قید ہو جائے۔ ساری قوم سانس بند کیے، محترم وزیراعظم کی طرف دیکھ رہی ہے۔
تاریخ کے اس مقام پر ہیں، جہاں ان کا ہر فیصلہ ہماری قسمت کو تبدیل کر دیگا۔ خان کو جس حالت میں ملک دیا گیا ہے، وہ حددرجہ مشکلات میں ہے۔ مگر یہ مرحلہ اچھی طرح عبور کرنا ہی تو قائدانہ صلاحیت کا اصل امتحان ہے۔ یہ امتحان، ایک بلا کی صورت میں موجودہ عمائدین کے سامنے کھڑا ہے۔ معاشی عدم استحکام کو آج بھی استحکام میں بدلا جا سکتا ہے۔ اس جنگ کے لیے دانائی اور حکمت ہی اصل ہتھیارہیں!
غنیم تو بھرپور تیاری میں سرحد پر تیار بیٹھا ہے۔ صرف اور صرف اشارہ ملنے کا منتظر ہے۔ امریکا اور اسرائیل کی بھرپور طاقت اس کے پیچھے ہے۔ ہندوستان کی ہر پالیسی میں درج ہے کہ ان کے ہمسائے میں پاکستان نہیں ہونا چاہیے۔ اس ملک کا وجود ہی ہندوستان کے لیے سوہان روح ہے۔ پھر آر ایس ایس کے پُرتشدد فلسفہ پر یقین رکھنے والی حکومت، جو بٹوارے کو تسلیم ہی نہیں کرتی۔ ہر ملک دشمن طاقت ہمارے خلاف یکسو۔ مگر ہم ہیں کہ وجود کے خطرے کو بھی سنجیدگی سے نہیں لے پارہے۔ وہی اندرونی چپقلش، وہی سیاسی کدورتیں، وہی سطحی سے مشیر اور وہی ذہنی بے فکری۔ پوری دنیا ہمارے معاملات کو تشویش اور خوف سے دیکھ رہی ہے۔ ہم خود کیا کر رہے ہیں یا کرتے رہے ہیں، اس پر دلیل سے بات ہونی چاہیے۔
ہمارے تمام مسائل کی چابی اندرونی حالات کو درست کرنے میں ہے۔ معیشت کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں ہے۔ معاشرے میں آزاد فکر کو بڑھاوا دینے میں ہے۔ اگر ملکی معاملات درست ہو گئے تو باہر کے معاملات میں حددرجہ توازن آجائیگا۔ ایک پاکستانی سفارتکار سے پوچھا کہ جناب خارجہ پالیسی کا اصل جوہر کیا ہوتا ہے۔ سفارتکار حددرجہ محب الوطن اور ایماندار انسان تھے۔ سوچ کر جواب دیا۔ طاقتور معیشت اور اندرونی طور پر مضبوط ملک ہی بیرونی خارجہ پالیسی کو فعال بنا سکتا ہے۔ اگر ریاست میں ہر طرف زبوں حالی ہو، تباہی ہو، تو ہم لاکھ نعرے لگالیں، نہ ہمارے دوست ہونگے اور نہ ہی کوئی ملک ہم پر اعتبارکرے گا۔ یہ سب کچھ گزشتہ ستر برس میں تو نہ ہوپایا۔ شائد مستقبل میں ہو جائے۔
پھر کوئٹہ کی ایک سرد شام یاد آئی۔ فضا میں ہیبت ناک طیاروں کی گھن گھرج، ائیرپورٹ پر امریکی فضائی طاقت کے بھرپور مظاہرے۔ 9/11 کے چند ہفتوں بعد کا واقعہ ہے۔ پوری دنیا افغانستان پر پَل پڑی تھی۔ ہم ان کے حلیف تھے۔ سفارتی اُصولوں کو بالائے طاق رکھ کر افغانستان کے ہمارے ملک میں سفیر تک کو گرفتار کر کے طشتری میں بیرونی طاقتوں کے سامنے پیش کر دیا تھا۔ معلوم تھا کہ افغانستان کی بدبختی آچکی ہے۔ ایک عمر رسیدہ بلوچ سردار سے ملاقات ہوئی۔ طالبان کے سخت مخالف، مگر ایک فقرہ ایسا کہہ گئے کہ کافی دن سوچتا رہا۔ "اگر افغانستان کی جنگ ہمارے ملک میں آگئی، تو پھر کیا ہو گا"۔ طالبان کی مذہبی شدت پسندی کا مخالف ہوں، ان کے اندر انسانی حقوق اور خواتین کی بے توقیری سے بھی اختلاف ہے۔
مگر اس وقت کیا کسی نے اس نکتہ پر غور کیا تھا کہ اگر افغان جنگ، ہمارے معاشرے میں آگئی تو ہمارا وجود ہی لرز جائیگا۔ پھر یہ بھی دیکھا کہ آج سے ایک دہائی پہلے جب لاہور میں طالبان نے ایف آئی اے کے دفتر پر خودکش حملہ کیا، تو دھماکے کے صرف دس منٹ بعد شہر کی سب سے پُررونق سڑک مکمل طور پر ویران تھی۔ مال روڈ اتنی تنہا کبھی نظرنہ آئی جتنی اس دن تھی۔ لاہور کے شہری گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے تھے۔
ٹی وی چِلا رہے تھے کہ کہیں ایک اور دہشتگردی کا واقعہ نہ ہو جائے۔ اس وقت اس دانا بلوچ سردار کی آواز کان میں گونجنے لگی۔ اگر افغانستان کی جنگ ہمارے ملک میں آگئی تو کیا ہو گا۔ ہماری اندرونی اور بیرونی ناکام حکمتِ عملی کے درجنوں شواہد موجود ہیں۔ معاملہ صرف اس وجہ سے چل پایا ہے کہ فوج بھانپ گئی تھی کہ اندرونی خطرہ کا سر کچلنا اَزحد ضروری ہے۔ اس میں ہماری معیشت کیسے برباد ہوئی، ہماری ہزاروں جانیں کیسے ختم ہوئیں، اسکو سب جانتے ہیں۔ شائد اصل نقصان کی تفصیل صرف اور صرف ایک دو اداروں کے پاس ہے۔ دل ہلانے والی سچی کہانیاں اور ان کا ردِعمل۔
مگر نکتہ تو یہی ہے کہ اندرونی معاملات کو بہتر کیونکر کیا جائے۔کسی بھی سیاسی جماعت یا گروہ سے کوئی تعلق نہیں۔ سیاست اور سیاستدانوں کو بچپن سے اس درجہ نزدیک سے دیکھ چکا ہوں کہ اس شعبہ سے تقریباً لاتعلق ہو چکا ہوں۔ بہت دنوں کے تؤقف کے بعد ٹی وی کا ایک ٹاک شو دیکھا۔ عرض کرنا چاہوں گا کہ ٹی وی پر اس درجہ یکسانیت اور جہالت ہے کہ اب عرصے سے ٹی وی ٹاک شو نہیں دیکھتا۔ صرف اور صرف جانوروں کے چینل شوق سے دیکھتا ہوں۔ جس میں Animal Planet سرِفہرست ہے۔ مگر کل کا ٹاک شو بے حد تکلیف دہ تھا۔
ایک گرفتار شدہ سابق ڈی جی، ایل ڈی اے کے وکیل، صاف پانی کے متعلق جو حقائق بیان کر رہے تھے، وہ کرپشن نہیں بلکہ معاشی دہشتگردی کی محیرالعقول مثال تھی۔ سابق وزیراعلیٰ کی جانب سے دیے گئے ٹھیکے، صاف پانی کمپنی میں ان کی روزمرہ کی مداخلت، افسروں کی بے عزتی اور من پسند کمپنیوں کو مالی فائدہ پہنچانے کے ایسے دستاویزی ثبوت ٹی وی پر دکھائے جا رہے تھے کہ حیرت ہو رہی تھی۔ ایل ڈی اے کے بعد اس منظورنظر افسر کو صاف پانی کمپنی کا انچارج لگا دیا گیا۔
وکیل صاحب فرما رہے تھے کہ بیرونی کمپنیوں کے سی ای اوز، اس افسرکے پاس آکر کہتے تھے کہ ہمارے معاملات بالائی سطح پر طے پائے جاچکے ہیں لہذا ہمیں ٹھیکے دے دیے جائیں۔ کاغذ تو ہمیشہ سچ بولتا ہے۔ دستاویزی ثبوت تو کسی کی پرواہ نہیں کرتے۔ سابقہ حکومت کے ایک وزیر جو اس پروگرام میں موجود تھے، ان سے کوئی جواب بن نہیں پارہا تھا۔ دل پریشان ہو گیا۔ یہاں تک بتایا گیا کہ لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی میں ایک ٹن کوڑا اُٹھانے کا ریٹ طے کرنے کے بعد ٹھیکہ صرف آٹھ ڈالر میں مقامی لوگوں کو دیدیا گیا۔ یومیہ بنیاد پر سابقہ شفاف حکومت، اس کمپنی کو چونسٹھ ہزار ڈالر بوجہ دیتی رہی۔ اس ترک کمپنی کے تانے بانے بھی سابقہ وزیراعلیٰ سے جوڑے جارہے تھے۔
یہ معاشی جرائم کی تفتیش کا ابتدائی مرحلہ ہے۔ ایک محتاط ماہر معاشیات بتانے لگے کہ گزشتہ دس برس میں صرف پنجاب میں بیس سے پچیس ارب ڈالربطور رشوت وصول کیے گئے ہیں۔ دوبارہ سوال کرونگا کہ کیا پوچھ گچھ نہیں ہونی چاہیے۔ کیا ٹھوس ثبوتوں کی بدولت گرفتاریاں اور سزائیں نہیں ہونی چاہیے۔ کیا واقعی کرپشن کو روکنا سیاسی انتقام ہے۔ ابھی سی پیک کے معاملات کھلنے باقی ہیں۔ وہ بھی طلسم ہوشربا سطح کی کرپشن کی سچی کہانی ہے۔ صرف مٹی ڈالنے کا ٹھیکہ سات سو گنا مہنگا دیا گیا۔ پھر پیسے لے کر اسے معمولی ریٹ پر مقامی ٹھیکہ داروں کے حوالے کر دیا گیا۔
کیا چین سے یہ درخواست نہیں کرنی چاہیے کہ آپ ٹھیکوں کی تفصیل بتائیے تاکہ لوگوں کوعلم ہوکہ اس کی آڑمیں کتنی بھیانک معاشی دہشتگردی ہو رہی تھی۔ افسوس ہوتاہے۔ جب ہم ووٹ کی طاقت سے اپنے حکمران مقرر کریں اور وہ ہمارے ساتھ یہ واردات کر جائیں۔ بتائیے کس سے شکایت کریں۔ کہاں جائیں۔ کیا گریہ بھی نہ کریں۔ ہاں یہ ضرور عرض کرونگا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ سیاسی انتقام کی بو آئے۔ دھلائی اور ستھرائی میرٹ پر ہو تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔
ملک کی معاشی بربادی کیا ان دو مہینوں میں ہوئی ہے۔ ہرگز نہیں۔ جس طرح ملک کو لوٹا گیا ہے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے علاوہ کوئی فوری حل نہیں ہے۔ خیر ملائیشیا کا مردِآہن جسکے ملک کی کرنسی مکمل طور پر زمین بوس ہو چکی تھی، جسکے دروازے پر آئی ایم ایف کے لوگ قرض لے کر پہنچ چکے تھے۔ اس نے قرض لینے سے انکار کر دیا تھا۔ مگر پاکستان کا معاشی بحران، ملائیشیا کے اقتصافی بحران سے بہت گھمبیر ہے۔ مگر کیا یہ نہیں ہونا چاہیے کہ امپورٹ بل کو آدھا کر دیا جائے۔ پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ انسانی اور جانوروں کی درآمدی خوراک پر کیونکر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔
پُرتعیش اشیاء پر تین ہزار فیصد ٹیکس کیوں نہیں لگایا جاتا۔ امپورٹڈ گاڑیوں پر پابندی کیوں نہیں لگ سکتی۔ اَسد عمر ایک ذہین انسان ہیں۔ ان کی اقتصادی ٹیم کے متعلق سنجیدہ لوگوں کے ذہن میں بہت سے سوالیہ نشان ہیں۔ اَسد عمر صاحب کیوں امپورٹ بل کو آدھا نہیں کر سکتے۔ غیرمعمولی حالات میں غیرمعمولی فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ ابتدائی مرحلہ میں ایسا ہوتا دور دور تک نظر نہیں آرہا۔ شائد کچھ عرصے بعد یہ مشکل فیصلے ہوجائیں۔
خان سے لوگوں کو دیومالائی توقعات ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ چٹکی بجائیگا اور معاملات ٹھیک ہو جائیں گے۔ مگر لوگوں میں یاس اور پریشانی کا عنصر بڑھ رہا ہے۔ عمران خان ذاتی طور پر حددرجہ ایماندار انسان ہے۔ دشمن بھی اس کی اخلاقی برتری کا اعتراف کرتے ہیں۔ وقت ہے کہ اس طاقت کو عوام کے لیے ان فیصلوں پر صَرف کیا جائے، جن سے مہنگائی اور بیروزگاری کا جن بوتل میں قید ہو جائے۔ ساری قوم سانس بند کیے، محترم وزیراعظم کی طرف دیکھ رہی ہے۔
تاریخ کے اس مقام پر ہیں، جہاں ان کا ہر فیصلہ ہماری قسمت کو تبدیل کر دیگا۔ خان کو جس حالت میں ملک دیا گیا ہے، وہ حددرجہ مشکلات میں ہے۔ مگر یہ مرحلہ اچھی طرح عبور کرنا ہی تو قائدانہ صلاحیت کا اصل امتحان ہے۔ یہ امتحان، ایک بلا کی صورت میں موجودہ عمائدین کے سامنے کھڑا ہے۔ معاشی عدم استحکام کو آج بھی استحکام میں بدلا جا سکتا ہے۔ اس جنگ کے لیے دانائی اور حکمت ہی اصل ہتھیارہیں!