احتساب اور انتقام میں کیسے فرق کیا جائے

ویسے تو احتساب کے عمل کو سب سے پہلے ن لیگ نے ہی گندا کیا تھا۔


مزمل سہروردی October 15, 2018
[email protected]

ملک میں جاری احتساب پر بہت شور ہے۔سوال یہ بھی ہے کہ احتساب اور انتقام میں کیا فرق ہے۔ اور کب احتساب انتقام بن جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت سادہ معاملہ ہے ْ اگر احتساب ٹارگٹڈ ہو گا، مخصوص لوگوں کا ہوگا تو یہ انتقام سمجھا جائے گا۔

اگر پاناما میں چار سو سے زائد لوگوں کے نام تھے اور صرف اکیلے نواز شریف کی جے آئی ٹی بنائی جائے گی، اکیلے نواز شریف کے خلاف ریفرنس قائم ہونگے تو یہ عمل کتنا بھی جائز ہو اسے انتقام ہی سمجھا جائے گا۔ کیونکہ ملک میں پاناما کے باقی ملزم آزاد پھر رہے ہیں۔

اگر نوازشریف کی دفعہ یہ اصول تھا کہ سب سے پہلے وزیر اعظم کا احتساب ہونا چاہیے تو اب ا سی اصول کے تحت سب سے پہلے وزیر اعظم عمران خان کا احتساب کیوں نہیں ہو رہا۔ عوام جاننا چاہتے ہیں کہ نیب میں ان کے خلاف جو انکوائریاں زیر التوا ہیں ۔ وہ کیوں سست رفتار سے چل رہی ہیں۔ کیا بنا ہیلی کاپٹر کیس کا اور دوسرے کیسز کا۔ لوگ سوال کر رہے ہیں کہ نیب پنجاب میں جو تیزیاں اور پھرتیاں نظرآ رہی ہیں وہ سندھ کے پی اور بلوچستان میں کیوں نظر نہیں آرہی تھیں۔ اس سے قبل جب سندھ میں تیزی تھی تو پنجاب اور دوسرے صوبوں میں سست رفتار تھی۔ کہیں نہ کہیں یہ سوال موجود ہے کہ احتساب کی چاروں صوبوں میں رفتار اور پالیسی یکساں کیوں نہیں رہتی۔

ویسے تو احتساب کے عمل کو سب سے پہلے ن لیگ نے ہی گندا کیا تھا۔ جب سیف الرحمن کے احتساب کمیشن نے ن لیگ کے سیاسی مخالفین کو ٹارگٹ کیا۔ سیف الرحمن کے احتساب کمیشن کو آج بھی برے اور منفی الفاظ میں ہی یاد کیا جاتا ہے اسی لیے وہ بعد میں زرداری کے پاؤں میں گر کر معافیاں بھی مانگتے رہے اور پھر اس قدر متنازعہ اور بدنام ہو گئے کہ پاکستان سے کوچ کر گئے۔ لوگوں کو انتقام کا نشانہ بنانے والے سیف الرحمن جب خود اس شکنجہ میں پھنس گئے تو ان کے پاس رونے اور پچھتاوے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا۔

اسی طرح مشرف نے بھی احتساب کو سیاسی مخالفین کو ٹارگٹ کرنے کے لیے استعمال کیا۔ ان کے دور کا احتساب بھی پاکستان کی تاریخ میں کوئی سنہری حروف سے نہیں لکھا اور یاد کیا جا سکتا۔ انھوں نے نیب کو اپنے مخصوص سیاسی مخالفین کو ٹارگٹ کے لیے استعمال کیا۔ جب لوگ ان کے اقتدار پر ایمان لے آتے تو ان کو جان کی امان مل جاتی تھی۔ ورنہ جان شکنجے میں پھنسی رہتی تھی۔ اس سارے عمل نے بھی ملک میں احتساب کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ شاید وہی بری ساکھ ا ٓج بھی نیب کا پیچھا کر رہی ہے۔اور نیب کے لیے یاد ماضی عذاب ہے یا رب بنا ہوا ہے۔

آج کل آمدن سے زائد اثاثوں کا بھی بہت شور ہے۔ ایک منطق یہ ہے کہ جب احتساب کرنے والے اداروں کو کسی کے خلاف کچھ نہیں ملتا تو آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا کیس بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لوگ سوال کر رہے ہیں کہ آمدن سے زائد اثاثے صرف مخصوص لوگوں کے ہی چیک کیوں کیے جا رہے ہیں۔ اگر آمدن سے زائد اثاثے چیک کرنے ہیں تو پورے پاکستان کے یکساں کریں۔ آج وہ اصول کیوں نہیں ہے کہ احتساب پہلے حکمرانوں کا ہوگا۔

سوال موجود ہے کہ کیا حکومت کے تمام ذمے داران دودھ کے دھلے ہیں۔ ان سب کے اثاثے آمدن کے مطابق ہیں۔ اس دلیل میں وزن ہے کہ پاکستان میں ستر سال سے ٹیکس کا جو نظام موجود رہا ہے، اس میں کسی کے اثاثے آمدن کے مطابق نہیں۔ لوگ ٹیکس چوری کرتے رہے ہیں۔ کس کس کو پکڑیں گے۔ اسی لیے آمدن سے زائد اثاثے کے قانون کا امتیازی استعمال احتساب سے زیادہ انتقام کی بو دے رہا ہے۔

اگر آمدن سے زائد اثاثے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ تو احتساب کے ادارے کو ایک مکمل یکسوئی سے یہ کام کرنا چاہیے۔ بائیس کروڑ لوگوں کے بلا تفریق اثاثے چیک کیے جائیں۔ کسی کو کوئی معافی نہیں ہونی چاہیے۔ جو اپنے آمدن اور اثاثے نہ ثابت کر سکے۔ اس کو سزا دی جائے۔ لیکن پھر سوال یہ ہوگا کہ کس کس کو پکڑیں گے۔

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ شہباز شریف کی گرفتاری اور اس کے بعد ان کے بیٹے سلمان شہباز کو نوٹسز نے ملک میں احتساب کے نظام پر کئی سوال پیدا کر دیے ہیں۔ لوگ اس سب کو نہ صرف شک بلکہ انتقام کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ احتساب کے اداروں کو ملک کے مفاد میں اپنی پالیسیوں کا از سر نو جائزہ لینے ہو گا۔ اس ملک میں صرف اپوزیشن کے احتساب کو ہمیشہ سے ہی شک کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ اور آیندہ بھی دیکھا جائے گاْ مزہ تو تب آئے گا جب حکومت کے لوگوں کو پکڑا جائے گا۔

احتساب اور انتقام کے اس کھیل میں احتساب کرنے والے ادارے صرف قصور وار نہیں ہیں۔ بلکہ نظام انصاف بھی برابر کا قصور وار ہے۔ سوال ہے کہ صرف نواز شریف کے خلاف ریفرنس ہی خاص اسپیڈ سے کیوں چل رہے ہیں۔ باقی ریفرنس کیوں سست روی کا شکار ہیں۔ بے شک نیب نے سب ریفرنسز کی برق رفتار ی سے سماعت کی درخواست کی ہے لیکن اس کی یہ درخواست مانی نہیں جا رہی۔ ایک ریفرنس کی سماعت روز ہو رہی ہے باقی سنے ہی نہیں جا رہے۔ اس کو بھی احتساب نہیں انتقام ہی کہا جائے گا۔ جب تک سب ریفرنس یکساں رفتار سے نہیں سنے جائیں گے نظام انصاف پر سوالات اٹھتے رہیں گے۔ یا سب ریفرنس نواز شریف کے ریفرنس کی اسپیڈ سے سنے جائیں یا نواز شریف کا ریفرنس بھی باقی ریفرنسز کی اسپیڈ سے سنا جائے۔

حال ہی میں سپریم جیوڈیشل کونسل نے ایک جج کو فارغ کیا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سپریم جیوڈیشل کونسل جیسا اہم ادارہ ملک میں کئی سال غیر فعال رہا۔ محترم چیف جسٹس صاحب نے یہ خوشخبری سنائی ہے کہ ملک میں ججز کا احتساب شروع ہو گیا ہے۔ ورنہ اس سے پہلے تو محترم جج صاحبان کو مقدس گائے کی حیثیت حاصل تھی۔ سپریم جیوڈیشل کونسل میں بہت سے ججز کے خلاف بہت سی درخواستیں زیر التوا ہیں۔ لوگ ان کے بارے میں بھی سوال کر رہے ہیں۔ عام آدمی کی عزت بھی کسی ادارے سے کم نہیں ہونی چاہیے۔اگر سپریم جیو ڈ یشل کونسل نے بھی بس اس ایک کاروائی کے بعد خاموشی اختیار کر لی تو اس پر بھی سوالیہ نشان باقی رہیں گے۔

آج کل ہتھکڑیوں کا بھی بہت شور ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا نیب کے ملزمان کو ہتھکڑیاں لگانی چاہیے کہ نہیں۔ یہ کوئی دہشتگرد نہیں۔ کوئی سنگین مجرم نہیں ہیں۔ وائٹ کالر جرائم کے ملزم ہیں۔ ہتھکڑی کا کلچر ختم ہونا چاہیے۔ یہ انسانیت کی تذلیل ہے۔ جو بری ہوجاتے ہیں ان کی تذلیل کیسے واپس کی جائے گی۔ جب تک جرم ثابت نہ ہو جائے ملزم کو بے گناہ ہی سمجھا جاتا ہے۔

پاکستان میں لوگ باشعور ہو گئے ہیں۔ وہ احتساب اور انتقام کو سمجھتے ہیں۔ نہ کل ایسا کوئی احتساب کامیاب ہوا تھا، نہ آج ایسا کوئی احتساب کامیاب ہوگا۔ نہ کل ایسا کرنیو الوں کو نیک نامی ملی تھی۔ نہ آج ایسا کرنے والوں کو کوئی نیک نامی ملے گی۔ کل بھی مخصوص احتساب انتقام تھا۔ آج بھی انتقام ہی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔