یہ اہل حکم……
چھ بجے وہ لولکل بس اسٹاپ سے کافی انتظار کے بعد کسی بس میں کھڑے ہونے یا لٹکنے میں کامیاب ہو جاتا ہے
ہم جانتے تھے اور بھی بہت سے لوگ جانتے تھے لیکن مانتے نہیں تھے کہ اس طرح ضرور ہوگا، اس طرح کے '' لوگوں '' میں معلوم نہیں کلہاڑی کہاں سے آئی، کون لایا، کپتان صاحب کے جان نثار ساتھی کہیں لائے یا خود انھوں نے کہیں سے اٹھائی مگر ہم نے صرف دیکھا کہ اسے پیروں پر مارا گیا یا پیر اس پر مارے گئے لیکن پھر لہو لہان ہوتے ہوئے ہم دیکھ رہے ہیں، دفاتر کے اوقات کار بدل کر وہ جو رہا سہا کام لوگ دفتروں میں سہواً یا عادتاً کر دیا کرتے تھے اب اس کی بھی ماں مر گئی اور باپ رنڈوا ہوگیا۔
لگتا ہے کہ جو نئے پاکستان کی تعمیر کے لیے نئے انجینئرز لائے گئے ہیں یہ کہیں دساور سے لائے گئے ہیں کہ ان کو یہ بھی پتہ نہیں کہ کارکنوں کا گھر وزیروں اور شہریوں کی طرح دفتر کے پاس نہیں ہو ۔ غالباً انھوں نے سارے کارکنوں کو اپنے پرقیاس کرتے ہوئے سوچا ہوگا کہ کارکنوں کا دفتر اور گھر بھی ایک ہی ہو تا کہ دفتر سے اٹھے باوردی ڈرائیور نے دروازہ کھولا اور گھر میں داخل ہو گئے یا دفتر سے اٹھے باوردی ڈرائیور نے گاڑی کا دروازہ کھولا ، ایک اے سی نکلا دوسرے اے سی کے ذریعے تیسرے اے سی تک پہنچ گئے۔ اللہ اللہ خیر صلا۔
لیکن اب ذرا اس کارکن کا سفر نامہ بھی ملاحظہ فرمائے جو صاحب کے جانے کے بعد دفتر سے نکلتا ہے، کچھ فاصلے پر بس اسٹاپ ہے اور درمیان میں بازار ہے اور اس کی جیب میں بیوی کی دی ہوئی اشائے صرف کی فہرست ہے چنانچہ دکان دکان ریڑھی ریڑھی اور اسٹور اسٹور پھر کر وہ اس فہرست کی تکمیل تو کر دیتا ہے، بیوی بچوں کی ممکنہ جھاڑ سے تو خود کو بچا لیتا ہے لیکن اس میں اس کا ایک گھنٹہ صرف ہوجاتا ہے۔
چھ بجے وہ لولکل بس اسٹاپ سے کافی انتظار کے بعد کسی بس میں کھڑے ہونے یا لٹکنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، بس تقریباً ایک گھنٹے میں اسے جنرل اڈے پر پہنچا دیتی ہے کیونکہ بس چلنے سے زیادہ وقت رکنے اور سواریاں اٹھانے میں صرف کرتی ہے۔ یوں ایک گھنٹہ اور لگ جاتا ہے، سات بجے اپنے گاؤں یا علاقے کی بس میں بیٹھ تو جاتا ہے لیکن بس کی سواریاں کم از کم ایک گھنٹے میں پوری ہو تی ہیں اورآٹھ بجے اس کی منزل مقصود تک روانگی ہو جاتی ہے۔ سواریاں اٹھانے اتارنے کا سلسلہ تو بس کے ساتھ ہوتا ہے، سو وہ نو بجے اپنے گاؤں یا رہائشی علاقے کی بس سے اترتا ہے اور ٹھیک دس بجے اپنے گھر پہنچ جاتا ہے۔ بیوی اس سے زیادہ اس کے تھیلے پر توجہ دیتی ہے اور پھر اس پر بھڑکتی ہے کہ وہ تو سب سے زیادہ ضروری چیزیں نہیں لایا ہے اور اگر لایا ہے تو وہ ناقص یا نقلی ہیں۔ ایک اور گھنٹہ اس چخ چخ میں بیت جاتا ہے، آخر کار اس کی معذرت پر بات ختم ہو جاتی ہے کہ آج پیسے نہیں تھے، کل کسی سے ادھار لے کر ساری چیزیں لادے گا، لگ بھگ گیارہ بجے جب اس پر عنودگی طاری ہو تی ہے، بیوی کھانا لاکر اس کے سامنے بیٹھتی ہے، اب لقمہ چباتے چباتے اسے نیند آجاتی ہے جو اصل میں نیند نہیں بے ہوشی ہوتی ہے ۔
یہ ملازم کل دفتر جائے گا تو غصے سے بھرا ہوا ہوگا ،کام پہلے توکرے گا نہیں اور اگر کرے گا تو'' بیگار '' کی طرح کرے گا جو تقریبًا سارا ہی غلط ہوگا ۔ لیکن کر نا تو ہوتا ہے تاکہ ملک ترقی کرے اور وہ یقینًا ترقی کرے گا لیکن الٹی جانب ۔
کسی نے آج تک یہ پتہ نہیں لگایا کہ آخر یہ کچھ لوگ جو ملک و قوم اور عوام کا لانعام کی ازلی بدنصیبی سے '' اہل حکم '' ہو جاتے ہیں، ان کی '' مت '' اس مقام پر پہنچ کر کیوں ماری جاتی ہے کہ عام سمجھ بوجھ سے بھی عاری ہو جاتے ہیں کہ ''ناراض کارکن'' بھلے ہی بے بس ہو لیکن اپنے اوپر تو اس کا بس چلتا ہے۔
نہ لڑنا صبح سے غالب کیا ہوا اگر اس نے شدت کی
ہمارا بھی تو آخر زور چلتا ہے گریباں پر
اور جس کا زور صرف اپنے گریباں پر چلتا ہے، وہ پھاڑنے کے سوا اور کیا کرے گا ،
اس کے بجائے اگر ایک گھنٹہ کم کر دیا جاتا تو توقع کی جاسکتی تھی کہ خوش ہو کر وہ خلوص سے کام کرے، دو گھنٹے کا کام اگر کوئی دل سے چاہے تو ایک گھنٹے میں بھی ختم کر سکتا ہے اور پھر جب مالک کی طرف سے خوش ہو تو کیا کچھ نہیں کرے گا کیونکہ اس کے اندرایک گونہ اپنانیت پیدا ہو جاتی ہے لیکن اس کے برعکس اگر ناراض ہے تومالک کے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں کہ اس کے ہاتھ تیزی سے چلائے، وہ صرف اسے بٹھائے رکھ سکتا ہے کام نہیں کرا سکتا ہے ۔
ہمیں ایک ترکھان کا قصہ یاد آتا ہے جو اس نے ہمیں خود سنایا ہے۔ کہتا ہے کہ ہم ایک عمارت تعمیر کر رہے تھے۔ ٹھیکیدار نے کام زیادہ لینے کے لیے ہمیں تین بجے چھٹی دینے کا جوعام رواج تھا ، پانچ بجے تک کام کرنے کا حکم دیا تو ترکھانوں کاریگروں اور مزدوروں نے ایکا کرکے بارہ بجے سے ہی صرف ادھر ادھر ہلنا جلنا اور بظاہر مصروف لیکن کچھ بھی نہیں کرنا شروع کیا۔ مزدور یونہی اینٹیں یہاں وہاں پھینکنے، اٹھانے لگتے۔ معمار یونہی سیمنٹ اور مصالحہ یہاں وہاں ضایع کرنے لگتا بلکہ پورا مصالحہ ہی ریجکٹ کرکے نیا مصالحہ بنانے کا آرڈر کر دیتا اور خود دیوار پر بیٹھ کر انتظار کرتا ۔ ہم ترکھان آرے رندے اور لسولے تیز کرنے میں لگ جاتے بلکہ اکثر تو غلط چلا کر لکڑی کا بھی ستیا ناس کر دیتے۔ نگران کو دور سے دکھائی دیتا کہ ہم آرا چلا رہے ہیں لیکن اسے یہ نہیں دکھتا تھا کہ ہم آری لکڑی پر الٹا رکھ کر ادھر ادھر ہلا رہے ہیں، مزدور پانی کا پائپ توڑ دیتے اور پھر اس کی مرمت میں لگ جاتے بلکہ بعض اوقات تو ہم وہ کوازہ ہی گرادیتے تھے جس پر معمار کام کرتا تھا چنانچہ اس فالتو وقت میں ہم کام کے بجائے نقصان زیادہ پہنچا دیا کرتے تھے ۔
لیکن '' اہل حکم '' کو تو حکم نافذ کرنا ہوتا ہے، سو کر دیتے ہیں۔ اب اس نئے پاکستان کی بلڈنگ میں بھی اگر ایسے ہی ''حکم '' چلتے رہے تو ناراض کارکن کچھ بھی کر سکتے ہیں اور کچھ بھی نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ کام دل سے کیا جاتا ہے جسم تو صرف ایک اوزار ہے اور اوزار چلانے والا اگر نہ چاہے توکچھ بھی نہیں کر سکتا ہے لیکن یہ ہم کس سے کہہ رہے ہیں ؟ کہ اہل حکم کے تو کان ہی نہیں ہوتے، صرف منہ ہوتا ہے ۔