ٹھنڈے چولہے
ایک عرصے سے یہ دستور چلا آرہا ہے کہ ہر نیا آنے والا حکمران خزانہ خالی ہونے کا رونا روتا ہے
دن بھر کالم کے موضوع کی تلاش میں رہتا ہوں اور رات گئے جب کبھی یہ تلاش ناکام ہوتی نظر آتی ہے تو نوکری کو داؤ پر لگا کر سو جاتا ہوں، اس امید میں کہ آنے والا کل آج سے مختلف ہو گا۔ یوں تو ان دنوں اخبار خبروں سے بھرے پڑے ہیں اور اشتہاروں کی کمی کی وجہ سے خبریں پہلے سے زیادہ ہوتی ہیں کیونکہ کاروبار پر سکتہ طاری ہے اور سابقہ حکومت کی ترقیاتی اسکیمیں نظر ثانی سے گزر رہی ہیں اور خزانہ خالی ہونے کی وجہ سے کوئی اشتہار انگیز نئی ترقیاتی اسکیم سامنے نہیں آرہی۔ چنانچہ اخبارات پر کڑکی کا زمانہ ہے لیکن کالم نویسوں پر شاید اس سے زیادہ کڑکی گزر رہی ہے ۔ یوں تو دیکھیں تو بڑے بڑے مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔مگر اس کے بارے میں کچھ عرض نہیں کیا جاسکتا اور عدالتوں سے باہر جو کچھ ہو رہا ہے اس پر عرضداشتیں جاری ہیں۔ ایسے حالات اور ان میں موضوعات کے قحط کا نتیجہ یہ ہے کہ ہفتہ میں ہر روز کی جگہ بمشکل تین چا ر روز میںکچھ عرض کرنے کا موقع ملتا ہے ۔ اگر کالم نہ لکھنا ہواور مضمون اورجواب مضمون سے حاضری لگ سکتی ہو تو مو ضوعات کی کوئی کمی نہیں ۔
ہماری نئی حکومت کچھوے کی چال چل رہی ہے اور ہم اس سے کسی تیزی کا مطالبہ بھی نہیں کر سکتے کیونکہ ان کو ہم نے خود منتخب کیا ہے، اب ان کو کچھ وقت تو دینا ہی پڑے گا تا کہ یہ اپنی جیت کے نشے سے نکل کر عوام کی منتخب حکومت کے طور پر کام شروع کر سکے ۔ ان سے ہر قسم کے مطالبے کیے جا سکتے ہیں اور ان مطالبوں کے ساتھ قوم ابھی اس انتظار میں ہے کہ حکمران پہلے اپنے وعدوں پر عمل درآمد کی کوئی صورت نکالیں تو عوام کے مطالبات کی باری بھی آئے۔
عوام کی روز مرہ استعمال اورضرورت کی اشیاء کی قیمتوں میں پہلے ہی اضافہ کر دیا گیا اور اب مژدہ سنایا جا رہا ہے کہ روپے کی بے قدری کی وجہ سے تیل کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہونے والا ہے یعنی حکومت جلتی پر تیل ڈالنے والی ہے ۔ اپنے ہاتھوں منتخب کر دہ حکمرانوں سے پہلے ہی کوئی بحث نہیں ہو سکتی، ان دکانداروں سے بھی بحث نہیں ہوپاتی وہ جواب میں تبدیلی آنے کی بات کر کے مذاق اڑاتے ہیں اور جب تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے گا تو ان کے پاس روز مرہ استعمال کی اشیاء میں اضافے کا ایک معقول بہانہ موجود ہو گا۔
ایک صاحب بتا رہے تھے کہ موجودہ حکومت نے مختلف مدوں میں اخراجات میںکمی کر کے ماہانہ کئی کروڑ کی بچت کی ہے، عوام حکومت کی بچت پالیسیوں کا سن کر خوش ہو رہے تھے کہ چلو کوئی تو ایسا حکمران ہے جو عوام کا پیسہ بے دردی سے لٹا نہیںرہا اور ملکی خزانے کی بچت بھی کر رہا ہے لیکن یہ بچت بھی حکومت کی بچت تک ہی محدود رہی ہے اور عوام جو یہ امید لگائے بیٹھے تھے ان کو اس بچت کا فائدہ ہو گا اور یہ حکومتی بچت کسی نہ کسی صورت میں عوام کو واپس کر دی جائے گی مگر روز مرہ کی اشیاء اور بجلی گیس کی قیمتوں میں متوقع اضافے نے عوام کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ حکومت کو بچت ہو یا نہ ہو عوام کی بچت کی کوئی صورت نہیں نکلتی۔
ایک عرصے سے یہ دستور چلا آرہا ہے کہ ہر نیا آنے والا حکمران خزانہ خالی ہونے کا رونا روتا ہے اور اس کے لیے اپنی پیشرو حکومت کو ذمے دار ٹھہراتا ہے۔ آمدنی میں اضافے کی کوشش کرنے کی جگہ جب بھی ضرورت پڑتی ہے تو آسان ترین نسخہ استعمال کیا جاتاہے اور وہ آسان نسخہ یہ ہے کہ عوام پر مزید ٹیکس لگا دیا جاتا ہے، عوامی جسم میں جب خون کے چند قطرے دکھائی دیتے ہیں تو ان کو پہلی فرصت میں ہی نچوڑنے کا منصوبہ بنا کر نچوڑ لیا جاتا ہے۔ یہ سب سے آسان طریقہ ہے جس میں کسی ماہر معاشیات کو کوئی زحمت نہیں کرنی پڑتی، دماغ کی جگہ کیلکولیٹر سے کام لیا جاتا ہے۔
ہمارے ماہرین نہ تومعاشی حالت کو بہتر بنانے کی کوئی قابل عمل صورت نکالتے ہیں اور نہ ہی حکومتی اخراجات میں معقول بچت کی کوشش کی جاتی ہے۔ جتنی مزید ضرورت پڑتی ہے وہ عوام سے وصول کر لی جاتی ہے۔ یہ بڑا آسان نسخہ ہے جو دنیا کی کسی کتاب میں تونہیں ملتا البتہ ہمارے ماہرین معاشیات کی ڈائریوں اور فائلوں میں اس کا تذکرہ موجود ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ہمارے سیاسی و غیر سیاسی حکمرانوں اور افسروں کی ملی بھگت سے یہ فیصلہ کر لیا گیا ہے کہ عوام کو اس قدر نڈھال کر دو کہ وہ کسی احتجاج کے قابل ہی نہ رہیں کوئی جہاں ہے جیسا ہے ویسے ہی اسی جگہ بیٹھ جائے ڈھیر ہو جائے۔ اس سلسلے میں بہت کچھ عرض کیا جاسکتا ہے مگر اس کے باوجود کہ حکومت نے پریس کو آزادی دی ہوئی ہے عقلمندی یہی ہے کہ ایاز قدر خود شناس کی حکمت عملی اختیار کی جائے۔
بہر حال حکومت بدل گئی ہے اور اس کی اطلاع کسی اور کو ملی ہو یا نہ میڈیا والوں کو ضرور مل گئی ہے، ان کے اشہارات اتنے کم کر دئے گئے ہیں کہ صحافتی کارکنوں کی تنخواہوں کے لیے مشکلات پیش آرہی ہیں۔ حکومت کوکوئی ایسا لا ئحہ عمل وضح کرنا ہو گا جس سے ملک میں کاروباری سرگرمیاں دوبارہ سے زور پکڑ جائیں کیونکہ جب تک ملک میں سرمایہ کاروں کوساز گارکاروباری فضاء فراہم نہیں کی جائے گی سرمایہ کاری ممکن نہیں ہو گی ۔ ملک میں صنعت کا پہیہ نہیں چل رہا، اس کے مسائل مختلف ہیں لیکن جامدصنعتی پہیے نے ملک کو جمود کا شکار کر دیا ہے۔ ملک کی معیشت کے ساتھ ساتھ میڈیا بھی تنزلی کا شکار ہو چکا ہے، اشتہارات کی انتہائی کمی کی وجہ سے اخباراور ٹیلیویژن مالی مشکلات میں گھر گئے ہیں، کارکن صحافیوں کے چولہے ٹھنڈے ہو چکے ہیں۔ ان ٹھنڈے چولہوں کو گرم کرنے میں حکومت کا کردار انتہائی اہم ہے اور ان ٹھنڈے چولہوں کو گرم کرنے کے لیے ان پر تیل ڈال دیا جائے تو صحافی کارکنان حکومت کے لیے دعا گو ہوں گے۔