سعودی ولی عہد کی مشکلات میں اضافہ
جمال خاشقجی کو قتل کردیا گیا یا وہ ابھی زندہ ہیں اس کا جواب تو جلد یا بدیر سامنے آہی جائے گا
سعودی عرب کے ولی عہد شہزداہ محمد سلمان کچھ عرصہ قبل اس بات سے بالکل بے خبر تھے کہ ان کے ہاتھوں مشرق وسطیٰ کی ثقافت اور سیاست کو جس طرح تبدیل کروایا جا رہا ہے وہ مستقبل میں ان کے لیے کتنی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے ۔ اپنے سیاسی مخالفین وناقدین کی پرواہ کیے بغیر انھوں نے ملک کی سابقہ روایات کو یکسر بدلتے ہوئے نہ توکسی مخالف آواز پر کان دھرے اور نہ ہی ان قدامت پرست حلقوں کو خاطر میں لائے جو ملک پر روایتی انداز سے حکومت کے حامی تھے۔ دوسروں سے مختلف دکھائی دینے کے لیے کچھ کرکے دکھانا پڑتا ہے مگر ایسے معاشروں میں روایتی انداز سیاست ومعاشرت کو بدلنا انتہائی مشکل ہوتا ہے جہاں جمہوریت کے بجائے طویل بادشاہت یا آمریت کی جڑیں مضبوط ہوچکی ہوں۔
سعودی عرب کے موجودہ حکمران کو بہت سارے دیگر مسائل کے ساتھ یہ مسئلہ بھی درپیش تھا کہ مستقبل میں ان کے ملک کا ولی عہد، نائب ولی عہد اور بادشاہ کون ہو گا ؟ تاریخ بتاتی ہے کہ اپنے وقت کے ولی عہد شاہ فیصل اور شاہ سعود میں اختلافات شروع ہونے کے بعد شاہ سعود علاج کی غرض سے بیرون ملک روانہ ہوئے تو شاہ فیصل نے اپنی کابینہ کا اعلان کر دیا ۔طویل کش مکش کے بعد شاہ سعود کو جلا وطن ہونا پڑا اور شاہ فیصل نے ملک کی باگ ڈور سنبھال لی، لیکن ایک دن اچانک ان کے بھتیجے نے شاہی محل میں انھیں گولی کا نشانہ بنایا تو ان کی جگہ خالد بن عبدالعزیز تخت نشین ہوگئے ۔ شاہ فیصل کا گیارہ سالہ دور سعودی عرب میں بہت ساری تبدیلیاں لے کر آیا اور ان کا ملک پسماندگی کے بجائے خوشحالی کی جانب رواں دواں ہوا، لیکن امریکا کی طرفداری کی وجہ سے انھیں تنقیدکا بھی سامنا کرنا پڑا۔اب سے چند ماہ قبل تک شاہ فیصل کی طرح شاہ سلمان بن عبدالعزیزکو بھی اقتدارکی منتقلی کا مسئلہ درپیش تھا جس سے جان چھڑانے کے لیے انھوں نے سابق ولی عہد اوراپنے بھتیجے محمد بن نائف کو برطرف کرنے کے بعد اپنے بیٹے کو ولی عہد مقررکردیا تھا۔
نئے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے عہدہ سنبھالتے ہی جن انقلابی اصلاحات کا اعلان کیا ان میں تیل پر انحصار میں کمی اور غیر ملکیوں کے بجائے مقامی ہنر مند افراد کی تربیت اور ملازمت میں بہتری لانا شامل تھا۔ شاہ سلمان نے انسداد بدعنوانی کے تحت جو مہم شروع کی تھی اس کا مقصد کچھ سعودی شہزادوں ، وزرا ء اور کاروباری افراد کوگرفتار کرنا ہی نہیں تھا بلکہ ولی عہد کو اس بات کی کھلی چھٹی بھی دینا تھا کہ وہ اپنے معاشرے کو جس رنگ میں بھی ڈھالنا چاہیں اس کی انھیں پوری اجازت ہے جس کے بعد خواتین پر لگی ڈرائیونگ کی پابندی کو یکسر ختم کرکے انھوں نے پوری دنیا کو حیران کر دیا ، حالانکہ اس سے قبل اسی جرم کے تحت گرفتار ہونے والی خواتین کے سلسلے میں انھیں شدید تنقید کا سامنا تھا ۔صرف یہی نہیں تین دہائیوں سے فلموں پر عائد پابندی کو بھی ختم کر دیا گیا اور ملک میں کمرشل سینما کھولنے کے ساتھ بہت ساری دیگر سماجی سرگرمیوں کی اجازت بھی دے دی گئی جس پرکچھ حلقوں کی طرف سے تنقید اور مخالفت بھی ہوئی۔ ریاض میں پر اسرار حملے کے دوران استعمال ہونے والے ڈرون کی تباہی، شاہی محل کے آس پاس فائرنگ اور حفاظتی بنکر میں پناہ لے کر جان بچانے کی خبروں کے بعدجب ولی عہد کافی عرصے تک میڈیا کے سامنے نہ آئے تو چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں، لیکن ایک ماہ تک منظر سے غائب رہنے کے بعد ان کے قتل اور تختہ الٹنے کی خبر جھوٹی ثابت ہونے کے ساتھ یمن میںحوثی باغیوں سے لڑائی، بچوں کی بس پر حملہ، قطرکے آس پاس خندق کھودنے کی دھمکی ، اسرائیل کے حق میں بیانات اور روس کے دورے جیسی خبروں کے سہارے وہ ایک دفعہ پھر میڈیا کے مرکزی دھارے میں شامل ہوگئے۔
امریکی صدر نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے سعودی عرب کا دورہ کیا تو مشرق وسطیٰ میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں میں بھی تیزی آئی اور سعودی عرب کے ساتھ اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبوں پر بھی دستخط ہوئے ۔کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ لگ بھگ ڈیڑھ سال قبل ہونے والے اس دورے کے بعد امریکی صدرکے کہنے پر ہی بہت ساری داخلی اور خارجی تبدیلیاںشروع ہوئیں جو اب عروج تک پہنچ چکی ہیں، مگر ان تبدیلیوں اور امریکا سے دوستی کے رشتے کو سب سے بڑا دھچکا اس وقت لگا جب ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ہماری مدد کے بغیر سعودی حکومت دو ہفتے بھی نہیں چل سکتی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس خوفناک بیان کے بعد دنیا بھر کے صحافی سعودی فرماں رواکے جوابی بیان کا انتظار کرتے رہے مگر تین دن کی خاموشی کے بعد ان کی طرف سے جو بیان آیا وہ اس بات کا کھلا ثبوت تھا کہ وہ اپنے'' من چلے'' دوست کوکسی صورت ناراض نہیں کرنا چاہتے ۔
امریکی صدر کے دیے گئے پہلے بیان کو ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ ولی عہد محمد بن سلمان کے لیے اپنے ملک سے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرنے کے بعد امریکا میں قیام پذیر جمال خاشقجی کی گمشدگی اور قتل کی افواہیں نئی مصیبت بن کر سامنے آئیںاور ان کا دوست سمجھے جانے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک بار پھرمخالفین کی صف میں کھڑے نظر آئے۔ ترکی کی حکومت ہی اس بات پر زور دے رہی تھی کہ ان کے ملک میں قائم سعودی عرب کے سفارت خانے میں جانے والے جمال خاشقجی کو قتل کر دیا گیا ہے مگر سعودی حکومت اس واقعے سے مسلسل انکارکر رہی ہے۔ترکی کی حکومت اس کا ثبوت مانگنے کے ساتھ یہ الزام بھی عائد کر رہی ہے کہ سعودی عرب سے دو خصوصی طیاروں کے ذریعے انٹیلی جنس کے پندرہ اہل کاروں کو جمال خاشقجی کو قتل کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا ۔
جمال خاشقجی کو قتل کردیا گیا یا وہ ابھی زندہ ہیں اس کا جواب تو جلد یا بدیر سامنے آہی جائے گا،مگر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس واقعے پر جس طرح سخت نا پسندیدگی کا اظہار کیا ہے وہ سعودی ولی عہد کے لیے کوئی اچھا اشارہ اس لیے نہیں کہ مغربی میڈیا کے ساتھ مغرب کے مختلف سماجی ادارے اور افراد بھی ان کے ماضی کے حوالے سے اچھی رائے نہیں رکھتے۔ اگر یہ قتل ثابت ہو جاتا ہے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سعودی عرب کے حوالے سے مغربی پالیسیاں کتنی تبدیل ہوں گئی ؟ مغربی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ماضی میں مغرب نے سعودی بادشاہوں کی غلطیوں پر اندھا اعتماد کیا، لیکن اب امریکی صدر نے اس معاملے پر اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے اور برطانیہ کے فارن سیکریٹری جیرمی ہنٹ نے بھی ریاض سے فوری جواب پر زور دیا ہے ۔ کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس صورتحال میں ترکی سعودی عرب کے سفارت کار کو اپنے ملک سے چلے جانے کا حکم بھی دے سکتا ہے جس کے بعد اس خطے کے ساتھ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے لیے نئی مشکلات جنم لے سکتی ہیں۔