ڈالر 1 روپیہ 32 پیسے مہنگا اسٹاک مارکیٹ 28 ماہ کی کم ترین سطح پر

ڈالر کی قیمت 133 روپے تک پہنچ گئی، اسٹاک ایکس چینج میں مندی شرح سود اور افراط زر بڑھنے کی پیش گوئی سے ہوئی

اسٹاک ایکس چینج میں مندی شرح سود اور افراط زر بڑھنے کی پیش گوئی سے ہوئی (فوٹو: انٹرنیٹ)

ڈالر کی قیمت کو مستقل پر لگے ہوئے ہیں، پیر کو ڈالر مزید ایک روپیہ 32 پیسے مہنگا ہوگیا اور اس کی قیمت 133 روپے تک پہنچ گئی جب کہ اسٹاک مارکیٹ مندی کے سبب 28 ماہ کی کم ترین سطح پر آگئی۔

امریکا کی جانب سے پاکستان کے لیے آئی ایم ایف قرضہ پروگرام میں مداخلت کی خبروں کی وجہ سے زرمبادلہ کی دونوں مارکیٹوں میں روپے کی بے قدری کا تسلسل پیر کو بھی جاری رہا، انٹربینک مارکیٹ میں کاروبار کا آغاز ڈالر کی قدر 3 پیسے کی کمی سے 131 روپے 90 پیسے پر آنے سے ہوا لیکن اس کے کچھ ہی وقفے بعد ڈالر کے انٹربینک ریٹ یک دم 1 روپے 95 پیسے کے اضافے سے 133 روپے 88 پیسے کی سطح پر پہنچ گیا تاہم کاروبار کے اختتام تک روپے کی قدر میں کچھ ریکوری ہوئی اور ڈالر کی قدر 1 روپے 32 پیسے کے اضافے سے 133 روپے 25 پیسے پر بند ہوا۔

ادھر اوپن کرنسی مارکیٹ میں کاروبار کے آغاز پر ڈالر کی قدر 132 روپے 30 پیسے تھی لیکن انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی اڑان کی وجہ سے اوپن مارکیٹ میں بھی ڈالر کی قدر ایک موقع پر بڑھ کر 133 روپے 50 پیسے کی سطح تک پہنچ گئی تھی تاہم اختتام پر ڈالر کا اوپن مارکیٹ ریٹ 1 روپے کے اضافے سے133 روپے 30 پیسے پر بند ہوا۔ اس طرح سے انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر کے درمیان صرف 5 پیسے کا فرق رہ گیا۔

فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر ملک بوستان کے مطابق آئی ایم ایف کی نظر میں سی پیک منصوبوں یورو بانڈز سکوک کے قرضوں کی وجہ سے پاکستان کی قرضوں کی ادائیگیوں کی صلاحیت کم ہونے اطلاعات زیرگردش ہیں جس کی وجہ سے مایوسی بڑھ گئی ہے اور لوگوں نے اپنے سرمائے کو محفوظ بنانے کی غرض سے ڈالر کی فروخت روک کر خریداری سرگرمیاں بڑھادی ہیں اور ڈالر مہنگا ہوگیا۔

ملک بوستان نے کہا کہ پاکستان کو اگر آئی ایم ایف سے قرضہ نہیں ملتا تو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ سال 1998ء میں بھی ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 40 کروڑ ڈالر رہ گئے تھے اور اس وقت سمندر پار مقیم پاکستانیوں کی جانب سے 3 ماہ میں 2 ارب ڈالر کی ترسیلات موصول ہوئیں اور اگلے 3 سال 2001ء تک پاکستان نے دوست ممالک کے تعاون اور اپنے وسائل سے 8 ارب ڈالر حاصل کیے جس کے بعد پاکستان پر عائد عالمی پابندیاں بھی ہٹالی گئی تھیں۔

افراط زر اور شرح سود میں اضافے کی پیشگوئی، اسٹاک مارکیٹ میں بدترین مندی


دریں اثنا آئی ایم ایف کی پاکستان کے حوالے سے نئے معاشی تجزیے میں جون 2019ء تک افراط زر کی اوسط شرح 14 فیصد اور شرح سود 15 فیصد تک پہنچنے کی پیشگوئی کے سبب پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں پیر کو بھی بدترین مندی رونما ہوئی جس سے 100 انڈیکس 28 ماہ کی کم ترین سطح پر پہنچ گیا، 72.50 فیصد حصص کی قیمتیں گرگئیں جبکہ سرمایہ کاروں کے127 ارب روپے سے زائد کا سرمایہ ڈوب گیا۔

کاروباری دورانیے میں غیرملکیوں اور مقامی انسٹی ٹیوشنز کی جانب سے فروخت کی بڑھتی ہوئی شدت کی وجہ سے ایک موقع پر انڈیکس میں 1243 پوائنٹس تک کی کمی بھی ہوئی تاہم اختتامی لمحات میں نچلی قیمتوں آئے ہوئے حصص کی خریداری سرگرمیوں کے باعث مندی کی شدت میں کمی واقع ہوئی۔

ماہرین اسٹاک کا کہنا تھا کہ اگر آئی ایم ایف کے معاشی تجزیے کے مطابق افراط زر اور قرضوں پر سود کی شرح بڑھ جائے گی تو اسٹاک مارکیٹ میں درج کمپنیوں کی آمدنی اور منافع بھی بری طرح متاثر ہوگا اور سرمایہ کاری کے شعبوں کے لیے یہ تجزیہ مایوسی کاباعث بنا۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مارکیٹ میں صرف چھوٹے اسٹاکس میں سرگرمیاں نظر آئیں لیکن یہ سرگرمیاں بھی مختصرالمدت تھیں۔

مندی کے سبب کاروبار کے اختتام پر کے ایس ای 100 انڈیکس 750.36 پوائنٹس کی کمی سے 36767.57 ہوگیا جبکہ کے ایس ای 30 انڈیکس 410.46 پوائنٹس کی کمی سے 17846.45، کے ایم آئی 30 انڈیکس 1314.72 پوائنٹس کی کمی سے 62086.88 اور پی ایس ایکس کے ایم آئی انڈیکس 348.24 پوائنٹس کی کمی سے 18047.77 ہوگیا۔

کاروباری حجم گزشتہ جمعہ کی نسبت 22.22 فیصد زائد رہا اور مجموعی طور پر 16 کروڑ 55 لاکھ 15 ہزار 80 حصص کے سودے ہوئے جبکہ کاروباری سرگرمیوں کا دائرہ کار 371 کمپنیوں کے حصص تک محدود رہا جن میں 83 کے بھائو میں اضافہ، 269 کے داموں میں کمی اور 19 کی قیمتوں میں استحکام رہا۔

 
Load Next Story