35 کھرب 91 ارب روپے کا وفاقی بجٹ 142013 پیش کردیا گیا
گزشتہ دور حکومت میں معاشی استحکام کے لئے کسی بھی قسم کی پالیسی بنائی ہی نہیں گئی، وزیر خزانہ
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے آئندہ مالی سال کے لئے 35 کھرب 91 ارب کا وفاقی بجٹ پیش کردیا جس میں سیلزٹیکس کی شرح 16 فیصد سے بڑھا کر17 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ دفاع کےلئے 627 ارب اور توانائی کےشعبے کےلئے 225 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کرتے ہوئے سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ گزشتہ دور حکومت میں معاشی استحکام کے لئے کسی بھی قسم کی پالیسی بنائی ہی نہیں گئی، گزشتہ 5سال میں جی ڈی پی کی شرح 3 فیصد رہی، افراط زر کی شرح 13 فیصد رہی، عالمی مالیاتی اداروں سے خطیر قرض لینے کے باوجود ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 6.3 ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ 1481 ارب روپے کی ٹیرف سبسڈی ادا کرنے کے باوجود 500 ارب روپے کا سرکلر ڈیٹ ہے، بجٹ خسارہ 7 فیصد رہا، قرضوں کا حجم 255 فیصد بڑھا۔ معیشت کی زبوں حالی کے صحیح ادراک نے ہمارے عزم کو مزید مضبوط کیا ہے۔ جو بجٹ آج پیش کیا جارہا ہے وہ مسلم لیگ (ن) کے منشور کا آئینہ دار ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ وفاقی بجٹ کا حجم 35 کھرب 91 ارب روپے رکھا گیا ہے۔ وفاق کی جانب سے صوبوں کو قابل تقسیم محاصل سے 1502 ارب روپے دیئے جائیں گے۔ موجودہ بجٹ میں مالیاتی خسارے کا تخمینہ 2024 ارب روپے ہے تاہم اگلے مالی سال میں خسارہ 1651 روپے رہے گا جو کہ شرح نمو کے 6.3 فیصد ہے۔ توانائی کے شعبے میں سرکلر ڈیٹ کو 60 دن کی مدت میں ختم کیاجائے گا تاکہ ملک میں لوڈ شیڈنگ میں کمی شروع ہوجائے۔ نندی پور منصوبے کو نظرانداز کیا گیا اس کی ابتدائی قیمت 23 ارب روپے تھی، اب بڑھ کر 57 ارب روپے ہوگئی ہے، کاغذی کارروائی کے بعد یہ منصوبہ آئندہ 18 ماہ میں مکمل کرلیا جائے گا، پی ٹی سی ایل کی نجکاری کی مد میں 800 ملین ڈالر حاصل کئے جائیں گے، ترقیاتی بجٹ میں مجموعی طور پر 1155 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جن میں 540 ارب روپے وفاق خرچ کرے گا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت نے انکم سپورٹ فنڈ کو جاری رکھنےکا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت مستحق خاندانوں کو ایک ہزار روپے کی ماہانہ امداد سے بڑھا کر 1200 روپے کردی گئی ہے۔ ریلوے کے لئے 31 ارب روپے مختص کئے ہیں، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا گیا تاہم پنشن میں 10 فیصد اضافہ کیا گیا ہے اس کے علاوہ پنشن کی کم ازکم شرح3سے بڑھاکر 5 ہزار کردی گئی ہے۔ مقامی طور پر پیدا شدہ تیل اور درآمدی تیل پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ، درآمدی کینولا آئل پر400 روپے فی میٹرک ٹن ڈیوٹی عائد کرنے کی تجویز ہے۔ چھالیہ اور پان پر ڈیوٹی کی شرح 15 فیصدسے بڑھاکر20فیصدکرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ ملکی ڈراموں اور فلموں کی حوصلہ افزائی کےلئے غیر ملکی ڈرامہ سیریل پر فی قسط ایک لاکھ روپے جبکہ غیرملکی فلموں کی نمائش پر دس لاکھ روپے ٹیکس کی تجویز دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ کیبل ٹی وی آپریٹرز کو 15 کیٹیگریز میں تقسیم کرکے ان کے لئے لائسنس فیس میں 2500 روپے سے 24 ہزار 5 سو روپے تک اضافے کی تجویز دی۔ بہبود آبادی کے صوبائی منصوبوں کے لئے 8 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ پانی کے منصوبوں میں 59 ارب روپے خرچ کئے جائیں گے جس میں کچھی کینال، پٹ فیڈر، منگلا ڈیم کی اونچائی میں اضافہ اور دیگر منصوبے شامل ہیں، بجلی کی اضافی پیداوار کے لئے 225 ارب روپے خرچ کئے جائیں گے، اس میں نیلم جہلم، بھاشا ڈیم، تھرکول، چشمہ پروجیکٹ، الائی کھاو رمنصوبہ اور گدو پاور کی اپ گریڈیشن شامل ہیں جبکہ سستی بجلی کی پیداوار اور ملک کو آلودگی سے بچانے کیلئے بھی اقدامات کر رہے ہیں۔
2013-14 کے لئے کل ریونیو کا تخمینہ3420 ارب رکھا گیا ہے، ایسے افراد کو ٹیکس نیٹ میں لایا جا رہا ہے جو اب تک اس سے باہر تھے، صنعتی اور کاروباری بجلی کے کنکشن رکھنے والے غیر رجسٹرڈ افراد پر پانچ فیصد کی شرح سے اضافی سیلز ٹیکس وصول کیا جائے گا، رجسٹریشن پر اضافی ٹیکس ختم ہو جائے گا۔ ہوٹل، کلب اور شادی ہال میں تقریبات کا انعقاد کرنے والوں سے ٹیکس وصول کیا جائے گا اس کے علاوہ سیلری ٹیکس کو بھی متناسب بنایا جارہا ہے۔ تنخواہ دار طبقےکے لئے 2 نئے ٹیکس سلیبوں کا اضافہ کیا جا رہا ہے، جس کے تحت سالانہ 5 لاکھ روپے کمانے والے پر 5 فیصد انکم ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ خصوصی اقتصادی زون میں ٹیکس کی چھوٹ 5 سال سے بڑھا کر 10 کرنے کی تجویز ہے۔ پورے ملک میں بجلی کی کمی سنگین مسئلہ بن چکا ہے اس لئے توانائی کے متبادل ذرائع کا استعمال بہت ضروری ہے، شمسی توانائی سے چلنے والی ٹیوب ویل، انرجی سیور، ٹیوب لائٹ اور دیگر سامان پر کسٹم ڈیوٹی ختم کی جارہی ہے۔ پرتعیش گاڑیوں پر ٹیکس کی چھوٹ ختم کر دی گئی ہے، 1200 سی سی تک بائبرڈ گاڑیوں کی درآمد پر تمام قسم کے ٹیکس ختم کئے جارہے ہیں۔ 1200 سے 1800 سی سی تک کی گاڑیوں پر 50 فیصد جبکہ 1801 سے 2500 سی سی تک کی گاڑیوں پر 25 فیصد ٹیکس چھوٹ دی جارہی ہے۔ رمضان المبارک میں 2 ارب روپے کا ریلیف بجٹ فراہم کیا جائے گا۔
ایچ ای سی کیلئے 39 ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ بیرونی اسکالر شپس کو بڑھا کر 6250 کردیا گیا ہے، ایکسپورٹ پروسسنگ زون کی پالیسی کا جائزہ لیا جائے گا اور مزید زونز تعمیر کئے جائیں گے۔ صوبوں کو وفاقی حکومت کی جانب سے 23 فیصد زائد وسائل فراہم کئے جائیں گے۔ وزیراعظم کے یوتھ ٹریننگ پروگرام کے تحت ماسٹرز تک کے 25 برس کے نوجوانوں کو حکومتی دفاتر اور دیگر مراکز میں ایک سال کے لئے بھرتی کیا جائےگا اور انہیں 10 ہزار روپے وظیفہ دیا جائے گا۔ یوتھ اسکل پروگرام کے تحت 25 ہزار مڈل پاس نوجوانوں کو 25 مختلف شعبوں میں تربیت دی جائے گی، جس کے تمام اخراجات حکومت برداشت کرے گی، اسمال بزنس لون اسکیم کے تحت 50 ہزار نوجوانوں کو ایک لاکھ سے 20 لاکھ روپے تک کا قرض فراہم کیا جائے گا جس پر 8 فیصد مارک اپ وصول کیا جائے گا دیگر مارک اپ حکومت ادا کرے گی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجونوں میں لیپ ٹاپ کی تقسیم کے لئے 3 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب میں ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے طلبا کی فیس حکومت ادا کی جائے گی۔
پنجاب کی طرح دیگرصوبوں میں آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم شروع کی جا ئے گی، جس کے تحت ملک بھر میں 500 مکانات پر مشتمل ایک ہزار کالونیاں تعمیر کی جائیں گی۔5 ارب روپے سے قرض حسنہ کی اسکیم جاری کی جارہی ہے جس پر کوئی مارک اپ نہیں ہوگا اور اس سے استفادہ حاصل کرنے والوں میں 50 فیصد خواتین ہوں گی۔ قومی سلامتی کے دو ایجنسیوں کے علاوہ وزیراعظم سمیت تمام وزارتوں کے صوابدیدی فنڈز پر مکمل طور پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ وزیر اعظم ہاؤس کے اخراجات میں 44 فیصد کمی کی جائے گی جبکہ وزارتوں کو 30 فیصد اخراجات کم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے جس سے40 ارب روپے کی بچت ہوگی، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے علاوہ تمام وزارتوں میں نئی گاڑیوں کی خریداری پر پابندی ہوگی۔
قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کرتے ہوئے سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ گزشتہ دور حکومت میں معاشی استحکام کے لئے کسی بھی قسم کی پالیسی بنائی ہی نہیں گئی، گزشتہ 5سال میں جی ڈی پی کی شرح 3 فیصد رہی، افراط زر کی شرح 13 فیصد رہی، عالمی مالیاتی اداروں سے خطیر قرض لینے کے باوجود ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 6.3 ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ 1481 ارب روپے کی ٹیرف سبسڈی ادا کرنے کے باوجود 500 ارب روپے کا سرکلر ڈیٹ ہے، بجٹ خسارہ 7 فیصد رہا، قرضوں کا حجم 255 فیصد بڑھا۔ معیشت کی زبوں حالی کے صحیح ادراک نے ہمارے عزم کو مزید مضبوط کیا ہے۔ جو بجٹ آج پیش کیا جارہا ہے وہ مسلم لیگ (ن) کے منشور کا آئینہ دار ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ وفاقی بجٹ کا حجم 35 کھرب 91 ارب روپے رکھا گیا ہے۔ وفاق کی جانب سے صوبوں کو قابل تقسیم محاصل سے 1502 ارب روپے دیئے جائیں گے۔ موجودہ بجٹ میں مالیاتی خسارے کا تخمینہ 2024 ارب روپے ہے تاہم اگلے مالی سال میں خسارہ 1651 روپے رہے گا جو کہ شرح نمو کے 6.3 فیصد ہے۔ توانائی کے شعبے میں سرکلر ڈیٹ کو 60 دن کی مدت میں ختم کیاجائے گا تاکہ ملک میں لوڈ شیڈنگ میں کمی شروع ہوجائے۔ نندی پور منصوبے کو نظرانداز کیا گیا اس کی ابتدائی قیمت 23 ارب روپے تھی، اب بڑھ کر 57 ارب روپے ہوگئی ہے، کاغذی کارروائی کے بعد یہ منصوبہ آئندہ 18 ماہ میں مکمل کرلیا جائے گا، پی ٹی سی ایل کی نجکاری کی مد میں 800 ملین ڈالر حاصل کئے جائیں گے، ترقیاتی بجٹ میں مجموعی طور پر 1155 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جن میں 540 ارب روپے وفاق خرچ کرے گا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت نے انکم سپورٹ فنڈ کو جاری رکھنےکا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت مستحق خاندانوں کو ایک ہزار روپے کی ماہانہ امداد سے بڑھا کر 1200 روپے کردی گئی ہے۔ ریلوے کے لئے 31 ارب روپے مختص کئے ہیں، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا گیا تاہم پنشن میں 10 فیصد اضافہ کیا گیا ہے اس کے علاوہ پنشن کی کم ازکم شرح3سے بڑھاکر 5 ہزار کردی گئی ہے۔ مقامی طور پر پیدا شدہ تیل اور درآمدی تیل پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ، درآمدی کینولا آئل پر400 روپے فی میٹرک ٹن ڈیوٹی عائد کرنے کی تجویز ہے۔ چھالیہ اور پان پر ڈیوٹی کی شرح 15 فیصدسے بڑھاکر20فیصدکرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ ملکی ڈراموں اور فلموں کی حوصلہ افزائی کےلئے غیر ملکی ڈرامہ سیریل پر فی قسط ایک لاکھ روپے جبکہ غیرملکی فلموں کی نمائش پر دس لاکھ روپے ٹیکس کی تجویز دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ کیبل ٹی وی آپریٹرز کو 15 کیٹیگریز میں تقسیم کرکے ان کے لئے لائسنس فیس میں 2500 روپے سے 24 ہزار 5 سو روپے تک اضافے کی تجویز دی۔ بہبود آبادی کے صوبائی منصوبوں کے لئے 8 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ پانی کے منصوبوں میں 59 ارب روپے خرچ کئے جائیں گے جس میں کچھی کینال، پٹ فیڈر، منگلا ڈیم کی اونچائی میں اضافہ اور دیگر منصوبے شامل ہیں، بجلی کی اضافی پیداوار کے لئے 225 ارب روپے خرچ کئے جائیں گے، اس میں نیلم جہلم، بھاشا ڈیم، تھرکول، چشمہ پروجیکٹ، الائی کھاو رمنصوبہ اور گدو پاور کی اپ گریڈیشن شامل ہیں جبکہ سستی بجلی کی پیداوار اور ملک کو آلودگی سے بچانے کیلئے بھی اقدامات کر رہے ہیں۔
2013-14 کے لئے کل ریونیو کا تخمینہ3420 ارب رکھا گیا ہے، ایسے افراد کو ٹیکس نیٹ میں لایا جا رہا ہے جو اب تک اس سے باہر تھے، صنعتی اور کاروباری بجلی کے کنکشن رکھنے والے غیر رجسٹرڈ افراد پر پانچ فیصد کی شرح سے اضافی سیلز ٹیکس وصول کیا جائے گا، رجسٹریشن پر اضافی ٹیکس ختم ہو جائے گا۔ ہوٹل، کلب اور شادی ہال میں تقریبات کا انعقاد کرنے والوں سے ٹیکس وصول کیا جائے گا اس کے علاوہ سیلری ٹیکس کو بھی متناسب بنایا جارہا ہے۔ تنخواہ دار طبقےکے لئے 2 نئے ٹیکس سلیبوں کا اضافہ کیا جا رہا ہے، جس کے تحت سالانہ 5 لاکھ روپے کمانے والے پر 5 فیصد انکم ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ خصوصی اقتصادی زون میں ٹیکس کی چھوٹ 5 سال سے بڑھا کر 10 کرنے کی تجویز ہے۔ پورے ملک میں بجلی کی کمی سنگین مسئلہ بن چکا ہے اس لئے توانائی کے متبادل ذرائع کا استعمال بہت ضروری ہے، شمسی توانائی سے چلنے والی ٹیوب ویل، انرجی سیور، ٹیوب لائٹ اور دیگر سامان پر کسٹم ڈیوٹی ختم کی جارہی ہے۔ پرتعیش گاڑیوں پر ٹیکس کی چھوٹ ختم کر دی گئی ہے، 1200 سی سی تک بائبرڈ گاڑیوں کی درآمد پر تمام قسم کے ٹیکس ختم کئے جارہے ہیں۔ 1200 سے 1800 سی سی تک کی گاڑیوں پر 50 فیصد جبکہ 1801 سے 2500 سی سی تک کی گاڑیوں پر 25 فیصد ٹیکس چھوٹ دی جارہی ہے۔ رمضان المبارک میں 2 ارب روپے کا ریلیف بجٹ فراہم کیا جائے گا۔
ایچ ای سی کیلئے 39 ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ بیرونی اسکالر شپس کو بڑھا کر 6250 کردیا گیا ہے، ایکسپورٹ پروسسنگ زون کی پالیسی کا جائزہ لیا جائے گا اور مزید زونز تعمیر کئے جائیں گے۔ صوبوں کو وفاقی حکومت کی جانب سے 23 فیصد زائد وسائل فراہم کئے جائیں گے۔ وزیراعظم کے یوتھ ٹریننگ پروگرام کے تحت ماسٹرز تک کے 25 برس کے نوجوانوں کو حکومتی دفاتر اور دیگر مراکز میں ایک سال کے لئے بھرتی کیا جائےگا اور انہیں 10 ہزار روپے وظیفہ دیا جائے گا۔ یوتھ اسکل پروگرام کے تحت 25 ہزار مڈل پاس نوجوانوں کو 25 مختلف شعبوں میں تربیت دی جائے گی، جس کے تمام اخراجات حکومت برداشت کرے گی، اسمال بزنس لون اسکیم کے تحت 50 ہزار نوجوانوں کو ایک لاکھ سے 20 لاکھ روپے تک کا قرض فراہم کیا جائے گا جس پر 8 فیصد مارک اپ وصول کیا جائے گا دیگر مارک اپ حکومت ادا کرے گی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجونوں میں لیپ ٹاپ کی تقسیم کے لئے 3 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب میں ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے طلبا کی فیس حکومت ادا کی جائے گی۔
پنجاب کی طرح دیگرصوبوں میں آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم شروع کی جا ئے گی، جس کے تحت ملک بھر میں 500 مکانات پر مشتمل ایک ہزار کالونیاں تعمیر کی جائیں گی۔5 ارب روپے سے قرض حسنہ کی اسکیم جاری کی جارہی ہے جس پر کوئی مارک اپ نہیں ہوگا اور اس سے استفادہ حاصل کرنے والوں میں 50 فیصد خواتین ہوں گی۔ قومی سلامتی کے دو ایجنسیوں کے علاوہ وزیراعظم سمیت تمام وزارتوں کے صوابدیدی فنڈز پر مکمل طور پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ وزیر اعظم ہاؤس کے اخراجات میں 44 فیصد کمی کی جائے گی جبکہ وزارتوں کو 30 فیصد اخراجات کم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے جس سے40 ارب روپے کی بچت ہوگی، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے علاوہ تمام وزارتوں میں نئی گاڑیوں کی خریداری پر پابندی ہوگی۔