معاشی جمود توڑنے کی تدبیر کیجیے
رواں مالی سال کے دوران معاشی اہداف حاصل نہیں ہوسکے ہیں، اسحاق ڈار
وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران معاشی اہداف حاصل نہیں ہوسکے ہیں، توانائی کے شعبے میں 500 ارب کے گردشی قرضے 60 روز میں ختم کردیں گے، ملکی قرضوں کاحجم 14 ہزار ارب روپے سے بھی تجاوزکرگیا ہے، آیندہ مالی سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ2.9 ارب ڈالراورکل بجٹ خسارہ 4.7 فیصد سے زائد ہوگا۔ معیشت ٹھیک ہوگی تودہشت گردی ختم ہوگی، بجٹ میں بوجھ بڑے لوگوں پر ڈالا جائے گا۔ آیندہ مالی سال معاشی ترقی کا ہدف 4.4 فیصد مقررکیا ہے، ترقیاتی بجٹ 1155ارب روپے رکھا ہے ۔
ان خیالات کا اظہارانھوں نے قومی اقتصادی سروے رپورٹ جاری کرتے ہوئے کیا۔ اقتصادی سروے رپورٹ کے مطالعے سے ملکی اقتصادیات کی جو تصویر ابھرتی ہے وہ روایتی طور پر جانے والے حکمرانوں کی عاقبت نااندیش اقتصادی پالیسیوں سے پیدا شدہ یاسیت، بے سمتی، کاسہ گدائی کی گردشوں ، مالیاتی، معاشی اور اقتصادی اہداف تک رسائی کی محرومی کی عجیب کہانیوں پر مشتمل دکھائی دیتی ہے اور تاویلات اورمعذرت خواہی کا دبستان کھلتا ہوا ملتا ہے۔ ہماری اقتصادی تاریخ کا در ''خزانہ خالی ہے '' کے سم سم سے کھلتا ہے اور پھر کسی نئے اقتصادی سروے کے انتظار میں آنکھیں بے تاب رہتی ہیں ۔
زیر تبصرہ ملکی معاشی منظر نامہ بھی کوئی نیا خوشنما کینوس نہیں ہے، وزیر خزانہ اسحاق ڈار بلاشبہ ایک منجھے ہوئے معاشی ماہر اور اقتصادی نشیب وفراز اور ملکی و غیر ملکی قرضوں کے شماریاتی جنگل کے دشوار گزار اور خمدار راستوں سے واقف ہیں انھوں نے بھی ملکی اقتصادی تصویر '' جیسی ہے جہاں ہے '' کی بنیاد پر قوم کے سامنے پیش کی ہے اب اس پر سوچ بچار اور اس کی روشنی میں نئے مالیاتی ، معاشی اور زری اہداف تک پہنچنے کی تدبیر ان کی حکومت کو کرنا ہے جس نے ملک کو لوڈ شیڈنگ سے لے کر قرضوں ، بدامنی اور بدعنوانی سے نجات سمیت عوام اور ملک کو درپیش دیگر سنگین مسائل و مصائب سے نکالنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔وزیر خزانہ کے بقول ن لیگ کی حکومت بجا طور پر'بزنس فرینڈلی'سمجھی جاتی ہے لیکن تاجر برادری کواس کا غلط فائدہ نہیں اٹھانے دیا جائے گا۔
یہ حقیقت چشم کشا ہے کہ جب اقتصادی ترقی کے اہداف ہی حاصل نہ ہوں تو قومی خوشحالی اور عوام کو ریلیف مہیا کرنے یا ٹرکل ڈاؤن کی جعلسازیوں کے سوا خلق خدا کو اور کیا ثمرات مل سکتے ہیں ۔اس وقت ملکی معیشت کو ایک رزق آشنا ناخدا کی ضرورت ہے ، ہوسکتا ہے وہ حکومت کو مل بھی گیا ہو، تاہم یاد رہے کہ معاصر میڈیا کی کھلی آنکھوں سے اقتصادی حقائق کے پردہ میں کوئی جمہوری حکومت اپنی ریاکاریوں کو اب چھپا نہیں سکتی،اقتصادی سروے سے کم از کم وہ راز فاش ہوجاتے ہیں جو عوام کی نظروںسے کافی عرصہ پوشیدہ رکھے جاتے ہیں۔
اسحاق ڈارنے کہا کہ معیشت میں بہتری کے لیے سخت اقدامات کرنا پڑیں گے، موجودہ معاشی صورت حال کی سب سے بڑی وجہ بجلی بحران ہے، لائن لاسز بہت زیادہ ہیں اور بجلی کے واجبات کی وصولی بھی مناسب شرح سے نہیں ہو رہی، اس سلسلے میں خصوصی اقدامات کیے جائیں گے۔ ان وعدوں کی مقررہ میعاد میں تکمیل ہونی چاہیے ۔اقتصادی سروے رپورٹ کے مطابق گزشتہ 5 سال میں زیرگردش قرضوں کی مدمیں1400 ارب روپے ادا کیے گئے اس وقت بھی گردشی قرضہ 500 ارب روپے ہے، حکومت آیندہ دوماہ میں اسے بھی ختم کردے گی، 1999 میں قرضوں کا حجم 3 ہزار ارب تک تھا، جب کہ مارچ 2013 تک یہ قرضے 13 ہزار ارب سے زائد ہوگئے ہیں ،حکومت آیندہ سال لیبر سروے کرائے گی۔ مالیاتی ڈسپلن قائم کیا جائے گا، کوشش ہوگی عوام پر بوجھ نہ ڈالا جائے۔ انھوں نے کہا کہ پُرانے قرضے کی ادائیگی کے لیے نیا قرضہ لینے میں کوئی بُرائی نہیں ہے۔ نئی حکومت کا بھیک مانگنے کا کوئی پروگرام نہیں ہے، یہ دلچسپ تقابلی بیان ہے۔
توقع تو یہ کی جا رہی تھی کہ نواز حکومت عالمی مالیاتی اداروں سے قرضوں کے حصول میں محتاط رہے گی اور دستیاب ملکی وسائل پر انحصار کرتے ہوئے کفایت شعاری کے ایک قومی کلچر کی بنیاد رکھے گی تاکہ ہم وطنوں کی افرادی قوت اور انسانی وسائل کے بہتر داخلی اور قومی سطح پر موثر استعمال سے معیشت کو استحکام بخشا جائے تاہم اگر صورتحال قرض لینے پر مجبور کررہی ہے تو قوم نے جہاں اتنے عرصے حکمرانوں کو قرض کی مے پیتے دیکھا ہے وہ اس حکومت کو بھی ایک چانس دے سکتی ہے ۔لیکن شرط یہ ہے کہ اہل وطن ملک کو بدامنی، مہنگائی،لوڈ شیڈنگ، کرپشن اور دہشت گردی سے نجات پاتے دیکھیں۔
اس حوالے سے نواز شریف حکومت کو کئی محاذوں پر سخت فیصلے کرنے پڑیں گے اور قانون کی حکمرانی کے قیام کے لیے وہ انتہائی حد تک بھی جانا چاہے تو قومی مفاد میں کسی طرف سے انگلی اٹھنے کا کوئی امکان نہیں ہوگا، کیونکہ ملکی سالمیت، قومی خود مختاری اور سیاسی و اقتصادی استحکام وطن عزیز کی بقا سے مشروط ہے۔ اقتصادی اور سماجی ترقی کے لیے کشکول بدست ایٹمی ملک کا تاثر اب ختم ہونا چاہیے۔حکومت کو عوام سے کیے گئے اپنے تمام وعدے پورے کرنے ہوں گے ۔اس ضمن میں بجلی کی پیداوار کے شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے کوئی تامل نہ کیا جائے۔ اگر واپڈا نے دیا میر بھاشا ڈیم کی تعمیر کا کام چھ ماہ میں شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے اور وزارت پانی و بجلی نے منصوبے کے لیے9ارب ڈالر کے مالی وسائل کے بندوبست کا دعویٰ بھی کیا ہے تو ماہرین کی تجاویز پر فوری اقدامات ہونے چاہئیں ۔
میڈیارپورٹ کے مطابق بھاشا ڈیم دس سال پہلے بنتا تو اس کی لاگت6 ارب ڈالر ہوتی لیکن4500میگاواٹ بجلی اور80لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کا حامل یہ ڈیم اب 14ارب ڈالر کی سرمایہ کاری مانگ رہا ہے۔ کیا اسے مجرمانہ غفلت نہ کہا جائے ۔ عوام برسوں سے بجلی اور پانی کو ترس رہے ہیں ادھر ڈیموں کی سیاست ہوتی رہی ۔بہر حال یہ خوش آیند اطلاع ہے کہ وزارت پانی و بجلی کے حکام کے بقول منصوبے کی تعمیر کے لیے 4 ارب ڈالرایشیائی ترقیاتی بینک، 2 ارب ڈالر امریکا، ایک ارب 50 کروڑ ڈالر غازی بروتھا بجلی گھرکی ضمانت اور ایک ارب50 کروڑ ڈالر فرینڈز آف ڈیمو کریٹک پاکستان سے لینے کی بات چیت مکمل کرلی گئی ہے ۔
وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار غلام مرتضیٰ جتوئی نے کہا ہے کہ قومی صنعتی پالیسی اور آٹو ڈویلپمنٹ پالیسی جلد متعارف کرائی جائے گی تاکہ ملکی صنعت کی درست سمت متعین کی جاسکے ، وفاقی وزیر نے کہاکہ ان کے دور وزارت میں عوام صنعتی میدان میں واضح تبدیلی محسوس کرینگے۔ تبدیلی کا احساس لازمی ہے ۔ صعنت و زراعت کو جدید بنیادوں پر ترقی دینے کی ضرورت ہے جس کے لیے لائیواسٹاکنگ اور ڈیری کی صنعت کو فروغ دے کر پاکستان اربوں ڈالر کما سکتا ہے ۔ زرعی شعبے میں کھیت، باغات اور منڈی تک رسائی کے لیے انفرااسٹرکچر کی فراہمی ناگزیر ہے، پاکستان زرعی اور ڈیری کے حوالے سے چھٹا اور پانچواں بڑا ملک ہے ، اس کے کسانوں ،مزارعین اور ہاریوں کی غربت اور پسماندگی ایک شرمناک داغ ہے،۔ معاشی ماہرین قومی سطح پر سبزی، پھل، گوشت اور ڈیری کی مصنوعات کی برآمد کی منظم منصوبہ بندی کریں تو لاکھوں کاشکار خاندان دیہات سے شہروں کو نقل مکانی کے بجائے اپنے گھر کو آباد اور اپنی سنہری دھرتی کو لہلہاتے گلستان اور نخلستان میں بدل سکتے ہیں ۔مگر بات تب بنے گی جب اقتصادی جمود ٹوٹے گا اور عوام کو قدم قدم پر معاشی ثمرات ملیں گے۔
ان خیالات کا اظہارانھوں نے قومی اقتصادی سروے رپورٹ جاری کرتے ہوئے کیا۔ اقتصادی سروے رپورٹ کے مطالعے سے ملکی اقتصادیات کی جو تصویر ابھرتی ہے وہ روایتی طور پر جانے والے حکمرانوں کی عاقبت نااندیش اقتصادی پالیسیوں سے پیدا شدہ یاسیت، بے سمتی، کاسہ گدائی کی گردشوں ، مالیاتی، معاشی اور اقتصادی اہداف تک رسائی کی محرومی کی عجیب کہانیوں پر مشتمل دکھائی دیتی ہے اور تاویلات اورمعذرت خواہی کا دبستان کھلتا ہوا ملتا ہے۔ ہماری اقتصادی تاریخ کا در ''خزانہ خالی ہے '' کے سم سم سے کھلتا ہے اور پھر کسی نئے اقتصادی سروے کے انتظار میں آنکھیں بے تاب رہتی ہیں ۔
زیر تبصرہ ملکی معاشی منظر نامہ بھی کوئی نیا خوشنما کینوس نہیں ہے، وزیر خزانہ اسحاق ڈار بلاشبہ ایک منجھے ہوئے معاشی ماہر اور اقتصادی نشیب وفراز اور ملکی و غیر ملکی قرضوں کے شماریاتی جنگل کے دشوار گزار اور خمدار راستوں سے واقف ہیں انھوں نے بھی ملکی اقتصادی تصویر '' جیسی ہے جہاں ہے '' کی بنیاد پر قوم کے سامنے پیش کی ہے اب اس پر سوچ بچار اور اس کی روشنی میں نئے مالیاتی ، معاشی اور زری اہداف تک پہنچنے کی تدبیر ان کی حکومت کو کرنا ہے جس نے ملک کو لوڈ شیڈنگ سے لے کر قرضوں ، بدامنی اور بدعنوانی سے نجات سمیت عوام اور ملک کو درپیش دیگر سنگین مسائل و مصائب سے نکالنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔وزیر خزانہ کے بقول ن لیگ کی حکومت بجا طور پر'بزنس فرینڈلی'سمجھی جاتی ہے لیکن تاجر برادری کواس کا غلط فائدہ نہیں اٹھانے دیا جائے گا۔
یہ حقیقت چشم کشا ہے کہ جب اقتصادی ترقی کے اہداف ہی حاصل نہ ہوں تو قومی خوشحالی اور عوام کو ریلیف مہیا کرنے یا ٹرکل ڈاؤن کی جعلسازیوں کے سوا خلق خدا کو اور کیا ثمرات مل سکتے ہیں ۔اس وقت ملکی معیشت کو ایک رزق آشنا ناخدا کی ضرورت ہے ، ہوسکتا ہے وہ حکومت کو مل بھی گیا ہو، تاہم یاد رہے کہ معاصر میڈیا کی کھلی آنکھوں سے اقتصادی حقائق کے پردہ میں کوئی جمہوری حکومت اپنی ریاکاریوں کو اب چھپا نہیں سکتی،اقتصادی سروے سے کم از کم وہ راز فاش ہوجاتے ہیں جو عوام کی نظروںسے کافی عرصہ پوشیدہ رکھے جاتے ہیں۔
اسحاق ڈارنے کہا کہ معیشت میں بہتری کے لیے سخت اقدامات کرنا پڑیں گے، موجودہ معاشی صورت حال کی سب سے بڑی وجہ بجلی بحران ہے، لائن لاسز بہت زیادہ ہیں اور بجلی کے واجبات کی وصولی بھی مناسب شرح سے نہیں ہو رہی، اس سلسلے میں خصوصی اقدامات کیے جائیں گے۔ ان وعدوں کی مقررہ میعاد میں تکمیل ہونی چاہیے ۔اقتصادی سروے رپورٹ کے مطابق گزشتہ 5 سال میں زیرگردش قرضوں کی مدمیں1400 ارب روپے ادا کیے گئے اس وقت بھی گردشی قرضہ 500 ارب روپے ہے، حکومت آیندہ دوماہ میں اسے بھی ختم کردے گی، 1999 میں قرضوں کا حجم 3 ہزار ارب تک تھا، جب کہ مارچ 2013 تک یہ قرضے 13 ہزار ارب سے زائد ہوگئے ہیں ،حکومت آیندہ سال لیبر سروے کرائے گی۔ مالیاتی ڈسپلن قائم کیا جائے گا، کوشش ہوگی عوام پر بوجھ نہ ڈالا جائے۔ انھوں نے کہا کہ پُرانے قرضے کی ادائیگی کے لیے نیا قرضہ لینے میں کوئی بُرائی نہیں ہے۔ نئی حکومت کا بھیک مانگنے کا کوئی پروگرام نہیں ہے، یہ دلچسپ تقابلی بیان ہے۔
توقع تو یہ کی جا رہی تھی کہ نواز حکومت عالمی مالیاتی اداروں سے قرضوں کے حصول میں محتاط رہے گی اور دستیاب ملکی وسائل پر انحصار کرتے ہوئے کفایت شعاری کے ایک قومی کلچر کی بنیاد رکھے گی تاکہ ہم وطنوں کی افرادی قوت اور انسانی وسائل کے بہتر داخلی اور قومی سطح پر موثر استعمال سے معیشت کو استحکام بخشا جائے تاہم اگر صورتحال قرض لینے پر مجبور کررہی ہے تو قوم نے جہاں اتنے عرصے حکمرانوں کو قرض کی مے پیتے دیکھا ہے وہ اس حکومت کو بھی ایک چانس دے سکتی ہے ۔لیکن شرط یہ ہے کہ اہل وطن ملک کو بدامنی، مہنگائی،لوڈ شیڈنگ، کرپشن اور دہشت گردی سے نجات پاتے دیکھیں۔
اس حوالے سے نواز شریف حکومت کو کئی محاذوں پر سخت فیصلے کرنے پڑیں گے اور قانون کی حکمرانی کے قیام کے لیے وہ انتہائی حد تک بھی جانا چاہے تو قومی مفاد میں کسی طرف سے انگلی اٹھنے کا کوئی امکان نہیں ہوگا، کیونکہ ملکی سالمیت، قومی خود مختاری اور سیاسی و اقتصادی استحکام وطن عزیز کی بقا سے مشروط ہے۔ اقتصادی اور سماجی ترقی کے لیے کشکول بدست ایٹمی ملک کا تاثر اب ختم ہونا چاہیے۔حکومت کو عوام سے کیے گئے اپنے تمام وعدے پورے کرنے ہوں گے ۔اس ضمن میں بجلی کی پیداوار کے شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے کوئی تامل نہ کیا جائے۔ اگر واپڈا نے دیا میر بھاشا ڈیم کی تعمیر کا کام چھ ماہ میں شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے اور وزارت پانی و بجلی نے منصوبے کے لیے9ارب ڈالر کے مالی وسائل کے بندوبست کا دعویٰ بھی کیا ہے تو ماہرین کی تجاویز پر فوری اقدامات ہونے چاہئیں ۔
میڈیارپورٹ کے مطابق بھاشا ڈیم دس سال پہلے بنتا تو اس کی لاگت6 ارب ڈالر ہوتی لیکن4500میگاواٹ بجلی اور80لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کا حامل یہ ڈیم اب 14ارب ڈالر کی سرمایہ کاری مانگ رہا ہے۔ کیا اسے مجرمانہ غفلت نہ کہا جائے ۔ عوام برسوں سے بجلی اور پانی کو ترس رہے ہیں ادھر ڈیموں کی سیاست ہوتی رہی ۔بہر حال یہ خوش آیند اطلاع ہے کہ وزارت پانی و بجلی کے حکام کے بقول منصوبے کی تعمیر کے لیے 4 ارب ڈالرایشیائی ترقیاتی بینک، 2 ارب ڈالر امریکا، ایک ارب 50 کروڑ ڈالر غازی بروتھا بجلی گھرکی ضمانت اور ایک ارب50 کروڑ ڈالر فرینڈز آف ڈیمو کریٹک پاکستان سے لینے کی بات چیت مکمل کرلی گئی ہے ۔
وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار غلام مرتضیٰ جتوئی نے کہا ہے کہ قومی صنعتی پالیسی اور آٹو ڈویلپمنٹ پالیسی جلد متعارف کرائی جائے گی تاکہ ملکی صنعت کی درست سمت متعین کی جاسکے ، وفاقی وزیر نے کہاکہ ان کے دور وزارت میں عوام صنعتی میدان میں واضح تبدیلی محسوس کرینگے۔ تبدیلی کا احساس لازمی ہے ۔ صعنت و زراعت کو جدید بنیادوں پر ترقی دینے کی ضرورت ہے جس کے لیے لائیواسٹاکنگ اور ڈیری کی صنعت کو فروغ دے کر پاکستان اربوں ڈالر کما سکتا ہے ۔ زرعی شعبے میں کھیت، باغات اور منڈی تک رسائی کے لیے انفرااسٹرکچر کی فراہمی ناگزیر ہے، پاکستان زرعی اور ڈیری کے حوالے سے چھٹا اور پانچواں بڑا ملک ہے ، اس کے کسانوں ،مزارعین اور ہاریوں کی غربت اور پسماندگی ایک شرمناک داغ ہے،۔ معاشی ماہرین قومی سطح پر سبزی، پھل، گوشت اور ڈیری کی مصنوعات کی برآمد کی منظم منصوبہ بندی کریں تو لاکھوں کاشکار خاندان دیہات سے شہروں کو نقل مکانی کے بجائے اپنے گھر کو آباد اور اپنی سنہری دھرتی کو لہلہاتے گلستان اور نخلستان میں بدل سکتے ہیں ۔مگر بات تب بنے گی جب اقتصادی جمود ٹوٹے گا اور عوام کو قدم قدم پر معاشی ثمرات ملیں گے۔