لوڈشیڈنگ کا مسئلہ فوری توجہ کا متقاضی
پاکستان کو گوناگوں مسائل کا سامنا ہے لیکن سب سے اہم اور فوری حل طلب مسئلہ لوڈشیڈنگ کا ہے کیونکہ صنعتوں۔۔۔
پاکستان کو گوناگوں مسائل کا سامنا ہے لیکن سب سے اہم اور فوری حل طلب مسئلہ لوڈشیڈنگ کا ہے کیونکہ صنعتوں کا پہیہ جام ہونے سے ملک معاشی و اقتصادی طور پر تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے، ہزاروں صنعتوں کی بندش سے لاکھوں مزدور بے روزگار ہوچکے ہیں، 13 سے 19 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ نے تو حقیقت میں عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے، عوام کے دن کا چین اور رات کا سکون برباد ہوچکا ہے، قیامت خیز گرمی میں لوڈشیڈنگ کے تسلسل نے عوام کے ضبط کے سارے بندھن توڑ دیے، پنجاب،خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان میں لوڈشیڈنگ کے ستائے عوام سڑکوں پر احتجاج کرنے کے لیے نکل آئے اور بعض جگہوں پر یہ احتجاج پرتشدد صورت بھی اختیار کرگیا۔
فیصل آباد میں بجلی کی طویل بندش کے خلاف ہزاروں افراد نے مظاہرہ کیا اور فیسکو آفس کو آگ لگا دی، پولیس اور احتجاج کرنے والے مظاہرین کے درمیان جھڑپوں اور آنکھ مچولی کے دوران بعض مظاہرین گھروں میں چھپ گئے تو پولیس چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرتی ہوئی دیواریں پھلانگ کر اور دروازے توڑکراندر داخل ہوگئی اور خواتین اور بچوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا اور مظاہرین کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے گرفتارکرلیا۔ پولیس نے جس بے رحمی کا مظاہرہ کیا وہ انتہائی قابل مذمت فعل ہے۔
کیا ہم مہذب قوم کہلانے کے لائق ہیں؟ اسلام آباد، جہلم، خانیوال، حجرہ شاہ مقیم، اوکاڑہ، عارف والا، ننکانہ، سیدوالا، پاکپتن اور بوریوالا میں بھی احتجاج کیا گیا۔ خیبر پختونخوا میں بھی عوام نے بھرپور احتجاج کیا، مردان کے علاقے کاٹلنگ میں عوام نے گرڈ اسٹیشن پر حملہ کرکے توڑپھوڑ کی اور عملے کو زدوکوب کیا، پشاورکے گردونواح دیہات بڈھ بیر اور ریگی ملازئی، داؤد زئی، بڈھ بیر، یکہ توت، ورسک روڈ، حلقہ پی ایف چار، فقیر آباد، گلبرگ، خان مست کالونی، رشید آباد کے مکین بھی سڑکوں پر نکل آئے، رنگ روڈ، چارسدہ روڈ، ورسک روڈ اور دلہ زاک روڈ کو ٹریفک کے لیے بندکردیا، سوات کے علاقے مٹہ میں مظاہرین نے مینگورہ روڈ بند کردیا۔ سندھ بھر میں احتجاج کا سلسلہ بھی نہیں رک سکا،
کراچی کے علاقے گلشن حدید میں مکینوں نے نیشنل ہائی وے پر مظاہرہ کیا اور گاڑیوں پر پتھراؤ کیا، حیدرآباد میں ڈنڈا بردار افراد نے لطیف آباد یونٹ نمبر 2، 4، 5 قاسم آباد، ہالا ناکہ، کالی موری، لالو لاشاری، پریٹ آباد سمیت دیگر علاقوں میں مظاہرے کیے ، سکھر میں لطیف پارک کے علاقے میں بجلی کی بندش کے خلاف مظاہرہ ہوا، جیکب آباد میں بھی شہریوں نے مظاہرے کیے اور دھرنے دیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ احتجاج عوام کا بنیادی حق ہے لیکن اس میں تشدد کا عنصر ہرگز نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ املاک پوری قوم کی ملکیت ہیں۔ املاک کی توڑ پھوڑ اور ان کو جلانا کسی بھی طور مناسب عمل نہیں کہا جاسکتا ہے۔
دوسری جانب سندھ اسمبلی کے اجلاس میں نیشنل گرڈ سے کراچی کو 650 میگاواٹ بجلی بند کرنے کے بیان کے خلاف اور تونسہ چشمہ بیراج فوری طور پر بند کرنے کی قراردادیں متفقہ طور پر منظور کرلی گئیں۔ جب سیاستدان اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو جی بھر کر حکومت پر تنقید کرتے ہیں اور جب حکومت میں آتے ہیں تو کہتے ہیں لوڈشیڈنگ کا مسئلہ حل کرنے میں برسوں لگیں گے۔ سیاستدانوں کو فہم و فراست اور تدبر سے یہ مسئلہ فوری حل کرنے کی جانب توجہ دینی چاہیے۔ اسی حوالے سے ایک خوش آیند خبر بھی آئی ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف سے بھارت کے بجلی اور گیس سیکٹر کے ایک اعلیٰ سطح وفد نے ملاقات کی ہے، پاکستانی حکومت اس ضمن میں بھارت کا تعاون حاصل کرنے کی خواہاں ہے۔ ہمیں کہیں سے کسی سے بھی بجلی ملے، وہ لے لینی چاہیے تاکہ کاروبار زندگی اور صنعتوں کا پہیہ رواں ہوسکے۔
فیصل آباد میں بجلی کی طویل بندش کے خلاف ہزاروں افراد نے مظاہرہ کیا اور فیسکو آفس کو آگ لگا دی، پولیس اور احتجاج کرنے والے مظاہرین کے درمیان جھڑپوں اور آنکھ مچولی کے دوران بعض مظاہرین گھروں میں چھپ گئے تو پولیس چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرتی ہوئی دیواریں پھلانگ کر اور دروازے توڑکراندر داخل ہوگئی اور خواتین اور بچوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا اور مظاہرین کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے گرفتارکرلیا۔ پولیس نے جس بے رحمی کا مظاہرہ کیا وہ انتہائی قابل مذمت فعل ہے۔
کیا ہم مہذب قوم کہلانے کے لائق ہیں؟ اسلام آباد، جہلم، خانیوال، حجرہ شاہ مقیم، اوکاڑہ، عارف والا، ننکانہ، سیدوالا، پاکپتن اور بوریوالا میں بھی احتجاج کیا گیا۔ خیبر پختونخوا میں بھی عوام نے بھرپور احتجاج کیا، مردان کے علاقے کاٹلنگ میں عوام نے گرڈ اسٹیشن پر حملہ کرکے توڑپھوڑ کی اور عملے کو زدوکوب کیا، پشاورکے گردونواح دیہات بڈھ بیر اور ریگی ملازئی، داؤد زئی، بڈھ بیر، یکہ توت، ورسک روڈ، حلقہ پی ایف چار، فقیر آباد، گلبرگ، خان مست کالونی، رشید آباد کے مکین بھی سڑکوں پر نکل آئے، رنگ روڈ، چارسدہ روڈ، ورسک روڈ اور دلہ زاک روڈ کو ٹریفک کے لیے بندکردیا، سوات کے علاقے مٹہ میں مظاہرین نے مینگورہ روڈ بند کردیا۔ سندھ بھر میں احتجاج کا سلسلہ بھی نہیں رک سکا،
کراچی کے علاقے گلشن حدید میں مکینوں نے نیشنل ہائی وے پر مظاہرہ کیا اور گاڑیوں پر پتھراؤ کیا، حیدرآباد میں ڈنڈا بردار افراد نے لطیف آباد یونٹ نمبر 2، 4، 5 قاسم آباد، ہالا ناکہ، کالی موری، لالو لاشاری، پریٹ آباد سمیت دیگر علاقوں میں مظاہرے کیے ، سکھر میں لطیف پارک کے علاقے میں بجلی کی بندش کے خلاف مظاہرہ ہوا، جیکب آباد میں بھی شہریوں نے مظاہرے کیے اور دھرنے دیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ احتجاج عوام کا بنیادی حق ہے لیکن اس میں تشدد کا عنصر ہرگز نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ املاک پوری قوم کی ملکیت ہیں۔ املاک کی توڑ پھوڑ اور ان کو جلانا کسی بھی طور مناسب عمل نہیں کہا جاسکتا ہے۔
دوسری جانب سندھ اسمبلی کے اجلاس میں نیشنل گرڈ سے کراچی کو 650 میگاواٹ بجلی بند کرنے کے بیان کے خلاف اور تونسہ چشمہ بیراج فوری طور پر بند کرنے کی قراردادیں متفقہ طور پر منظور کرلی گئیں۔ جب سیاستدان اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو جی بھر کر حکومت پر تنقید کرتے ہیں اور جب حکومت میں آتے ہیں تو کہتے ہیں لوڈشیڈنگ کا مسئلہ حل کرنے میں برسوں لگیں گے۔ سیاستدانوں کو فہم و فراست اور تدبر سے یہ مسئلہ فوری حل کرنے کی جانب توجہ دینی چاہیے۔ اسی حوالے سے ایک خوش آیند خبر بھی آئی ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف سے بھارت کے بجلی اور گیس سیکٹر کے ایک اعلیٰ سطح وفد نے ملاقات کی ہے، پاکستانی حکومت اس ضمن میں بھارت کا تعاون حاصل کرنے کی خواہاں ہے۔ ہمیں کہیں سے کسی سے بھی بجلی ملے، وہ لے لینی چاہیے تاکہ کاروبار زندگی اور صنعتوں کا پہیہ رواں ہوسکے۔