یہ فرش پر بیٹھنے والے

میرا دل اور دماغ دونوں خالی خولی ہیں جو پڑھا جو لکھا وہ کہاں گیا معلوم نہیں حضرت مولانا روم کا ایک شعر یاد آتا ہے۔

Abdulqhasan@hotmail.com

میرا دل اور دماغ دونوں خالی خولی ہیں جو پڑھا جو لکھا وہ کہاں گیا معلوم نہیں حضرت مولانا روم کا ایک شعر یاد آتا ہے۔

علم را بر تن زنی مارے بود
علم را بر دل زنی یارے بود

مفہوم یہ ہے کہ علم جیسی نعمت سے جسم پروری کرو گے تو وہ سانپ بن کر تمہیں ڈس لے گا اگر اس علم کو دل میں بسا لو گے اور اس سے دل کی پرورش کرو گے تو یہ علم تمہارا ساتھی اور دوست ہو گا۔ تمہیں اکیلا نہیں چھوڑے گا۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ میں نے جو کچھ بھی پڑھا وہ نوکریوں اور اپنی پیشہ ورانہ کار گزاریوں میں صرف کر دیا دل کی دنیا کو اس سے دور رکھا اور اب اتنی مدت گزرنے پر بھی اکیلا ہوں تنہا ہوں اور وہ علم جو تن پروری کے لیے حاصل کیا تھا وہ اب اسے سانپ بن کر ڈس رہا ہے۔ وہ تن جس کی آسودگی زندگی کا مقصد رہی اور کامیاب بھی۔

اب جب دنیا کی لذتوں سے کچھ زیادہ رغبت نہیں رہی تو اس تن پروری پر شرم آتی ہے۔ موضوع بہت لمبا بھی ہو سکتا ہے میں نے اپنی اس خود ساختہ محرومی کا علاج ان بندوں میں دریافت کیا ہے جنہوں نے علم پر دل کے دروازے بند نہیں کیے تھے۔ میں نے ایک ایسی ہی شخصیت کو فون کیا۔ یہ پشاور میں حکمرانی کے بعد ریٹائرڈ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان کا اسم گرامی عبداللہ ہے وہ اس کے ساتھ ذات برادری وغیرہ کا کوئی لاحقہ نہیں لگاتے جس کسی نے کبھی ان کا نام سنا اس نے پوچھا کہ مزید تعارف تو جواب یہی ملا کہ بس 'عبداللہ'۔

کئی مشہور عہدوں پر سرفرازی کے بعد اب اپنا فرصت کا قیمتی وقت میرے جیسے بے وقعت لوگوں کو بھی دے دیتے ہیں اورضایع ہی کرتے ہیں۔ نئی حکومت پر بات ہو رہی تھی میں کوئی گستاخی بھی کر دیتا ہوں، سیاسی حکومت پر بات شروع کر دی تھی تو انھوں نے ایک ایم پی اے کا واقعہ سنایا جو غالباً ان کے علاقے ایبٹ آباد سے تعلق رکھتے تھے۔ اسمبلی کے اندر وہ اپنے ساتھی ارکان اسمبلی کی نشستوں کے سامنے فرش پر بیٹھتے تھے۔ بہت اصرار کے باوجود اپنی خالی کرسی پر نہیں بیٹھتے تھے کسی نے ضد کر کے پوچھا تو بتایا کہ میرے یہ سب ساتھی اراکین صبح صاف ستھرے غسل خانوں میں صاف شفاف پانی سے نہاتے ہیں اور پھر تیار ہوتے ہیں۔ مجھ سمیت میرے گاؤں کے لوگ جوہڑکے پانی پر زندگی بسر کرتے ہیں۔


غسل خانے کی ٹوٹی سے بہتا ہوا پانی ان کے لیے گویا ممنوع ہے ایک عجوبہ جو ان کے بڑے اونچے ساتھیوں کے لیے مخصوص ہے اس لیے میں ان (بظاہر) صاف ستھرے لوگوں کے ساتھ بیٹھنا برداشت نہیں کر سکتا۔ میں ان سے دور اس اسمبلی کے فرش پر ہی اچھا ہوں۔ عبداللہ صاحب یہ واقعہ سنا کر غالباً مجھے یہ بتانا چاہتے تھے کہ کون لوگ ہماری اسمبلیوں میں آئیں گے تو ہم انسانی زندگی بسر کر سکیں گے۔

مجھے حضرت علیؓ کی یہ بات یاد آئی وہ دوسرے لوگوں یعنی عوام کے ساتھ کسی محفل میں تشریف فرما تھے کوئی سائل ملنے آیا تو اس نے کسی سے پوچھا امیر المومنین کون ہیں اس نے ایک طرف اشارہ کیا۔ سائل نے سلام کیا اور اس بدو مزاج شخص نے عرض کیا کہ ذرا اونچی جگہ پر تشریف رکھیں تو اجنبی ملاقاتیوں کو آسانی ہو اس پر دانش و حکمت کے اس کوہ گراں نے جواب دیا کہ جو فرش پر بیٹھتے ہیں وہ گرتے نہیں ہیں۔

آج کے نئے سیاسی حکمرانوں کی باتیں ہو رہی تھیں تو میرے مہربان نے فرمایا کہ ہاتھ پاؤں کچھ نہیں ہوتے وہ صرف فرمانبرداری کرتے ہیں اصل چیز دل ہے اور اس دل کے اندر عوام کے لیے جتنا درد ہو گا وہ انسان عام لوگوں کے لیے اتنا ہی بابرکت ہو گا۔ میں جب یہ باتیں یاد کر رہا تھا تو وزیر خزانہ بجٹ کے بارے میں کچھ فرما رہے تھے ان کے بلا سلوٹ لباس اور خوبصورت ٹائی دیکھ کر میں نے سوچا کہ یہ شخص میرا کیا بجٹ پیش کرے گا جو خود اپنی تراش خراش میں ہی مگن رہتا ہے۔ فارسی کا ایک بہت ہی مشہور شعر عرض کرتا ہوں، میری فارسیوں نے آپ کو بھی فارسی پڑھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اوپر درج مولانا کا شعر بھی فارسی میں ہی تھا۔ بہر حال یہ شعر یوں ہے جو ہمارے حکمرانوں کے بارے میں ہے۔

تو اے کبوتر بام حرم چہ می دانی
تپیدن دل مرغان رشتہ بر پارا

تو اے بلند بام ماڑیوں کے اوپر کھلی فضاؤں میں آزادانہ بیٹھنے والے کبوتر تمہیں کیا معلوم کہ زمین پر بندھے ہوئے پابند پرندوں کا کیا حال ہے۔ وہ کیسے تڑپ رہے ہیں۔

تاریخ میں صرف انھی حکمرانوں کے نام آتے ہیں جو زمین پر تڑپ تڑپ کر زندگی بسر کرنے والوں کی بات کرتے ہیں۔ میرے ذہن میں اس وقت نہ جانے کتنی مثالیں تڑپ رہی ہیں لیکن میرے کئی قارئین ان کو پڑھ کر دل تو گداز کرتے ہیں مگر کہتے ہیں کہ یہ تو پرانے وقتوں کے لوگ تھے کسی دوسرے مکتب کے تربیت یافتہ تھے لیکن مجھے یہ کوئی نہیں بتاتا کہ ان کے کتنے ہاتھ پاؤں تھے اور بدن میں کتنی غیر معمولی طاقت تھی۔ کیا ہمارا یہ ایم پی اے انھیں لوگوں میں سے ایک نہیں تھا جو بھری اسمبلی میں فرش پر فروکش ہوتا تھا۔ ہمارا کوئی بھی حکمران کیا آسمان سے اترا ہے جو ذاتی گھروں کو سرکاری خرچ پر سجاتا ہے جب کہ وہ خود شاید سرکار سے زیادہ دولت مند ہے لیکن چھوڑئیے ایسی دقیانوسی باتوں کو جو بھی حالات ہیں ان میں زندگی بسر کرنے یعنی کاٹنے کی ہمت کیجیے۔
Load Next Story