ضمیر کا ضمیر
ایک انگریزی اخبار میں ایک تصویر شایع ہوئی ہے۔ یہ سنگاپور کے ہانگ لم پارک میں نصب ایک جعلی قبر پر نصب کتبے کی تصویر ہے۔
ایک انگریزی اخبار میں ایک تصویر شایع ہوئی ہے۔ یہ سنگاپور کے ہانگ لم پارک میں نصب ایک جعلی قبر پر نصب کتبے کی تصویر ہے۔ اس کے گرد بہت سے مظاہرین کھڑے احتجاج کر رہے ہیں۔ کتبے پر لکھا ہے ''آزادی اظہار''۔۔۔۔ ''جو ضابطے کی موت مر گئی۔ سن وفات 2013''۔ یہ احتجاج ان تازہ پابندیوں کے خلاف کیا جا رہا ہے جو آن لائن نیوز سائٹس پر حکومت نے نافذ کر دی ہیں۔
آزادی اظہار کی جو صورت حال بنگلہ دیش میں ہے اس کے بارے میں وہ لوگ اچھی طرح جانتے ہوں گے جو وہاں کے اخبارات دیکھتے رہتے ہیں یا انٹرنیٹ کے ذریعے آگاہی حاصل کرتے ہیں۔ محمود الرحمٰن ایک معروف اخبار ''امردیش'' کے ایڈیٹر ہیں۔ ان کے دفتر کو اسی سال 11 اپریل کو مہر بند کر دیا گیا اور اخبار بند ہو گیا۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے ہائی پروفائل سیاستدانوں کی کرپشن کو طشت ازبام کیا تھا۔ ان سیاستدانوں میں وزیر اعظم اور ان کے رشتے دار بھی شامل ہیں۔ محمود الرحمٰن نے گزشتہ فروری میں پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں 172 شہریوں کی ہلاکت پر بھی احتجاج کیا تھا۔ اخبار بند کیے جانے کے چھ روز کے بعد محمود الرحمٰن کو گرفتار کر لیا گیا۔
وہ ڈھاکہ میٹروپولیٹن پولیس کی تحویل میں تھے۔ قاسم پور جیل میں ان پر سخت تشدد کیا گیا۔ 18 اپریل 2013 کو انھیں بنگلہ بندھو شیخ مجیب میڈیکل یونیورسٹی منتقل کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اس تشدد کے دوران نہ صرف انھیں بجلی کے جھٹکے مارے گئے تھے بلکہ لوہے کے کیل بھی ان کے بدن میں ٹھونکے گئے تھے۔ اس کے بعد سے ان کے اہل خانہ عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں اور انسانی حقوق کے علمبردار لاحاصل مظاہرے کر رہے ہیں۔
ہمارے ہاں آزادی اظہار کی جو صورت ہے اسے دیکھ کر آپ یقیناً مطمئن ہوں گے۔ اس پر میں ذرا بعد میں بات کروں گا۔ آئیے پہلے ایک کتاب سے آپ کو ایک اقتباس سناتا ہوں کیونکہ اس کا مصنف ہی دراصل میرا آج کا موضوع ہے۔''ایک زمانہ وہ بھی تھا جب مرکزی سیکریٹری اطلاعات کی حیثیت میں الطاف گوہر 1597 روزناموں، ہفت روزوں، پندرہ روزہ رسالوں، ماہناموں اور دیگر جرائد کے ''حقیقی'' مدیر تھے۔۔۔۔ اور پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ کے علاقائی عہدیداران اپنے اپنے علاقوں کے جرائد کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر تھے۔ وہی یہ فیصلہ کرتے تھے کہ کس خبر کی مکمل کوریج کی جائے گی۔ کسے پلے ڈاؤن کیا جائے گا اور کسے بالکل ہی نظرانداز کر دینا چاہیے''۔
دو دن قبل یعنی 11 جون کو ہمارے ملک کے ایک انتہائی جری اور بے باک صحافی جناب ضمیر نیازی کی نویں برسی تھی۔ یہ اقتباس انھی کی ایک کتاب "Press in Chains" سے لیا گیا ہے۔ یہ کتاب 1986ء میں کراچی پریس کلب نے شایع کی تھی کیونکہ کوئی بھی ناشر اسے چھاپنے کو تیار نہیں تھا۔ اس میں صحافتی ظلم اور جبر کی کئی کہانیاں درج ہیں۔ مثلاً جنرل ضیاء الحق کے آمرانہ دور میں صحافیوں کو کوڑے مارے جانے کا ذکر ضمیر نیازی نے یوں کیا ہے ''13 مئی 1978ء برصغیر کی صحافتی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا۔ اس روز چار صحافیوں کو سمری ملٹری کورٹ کے حکم پر کوڑے مارے گئے۔ ان میں مسعود اللہ خان، اقبال احمد جعفری، خاور نعیم ہاشمی اور نثار زیدی شامل تھے''۔
اس کے بعد بھی نہ تو آزادی اظہار کی کم بختی ختم ہوئی اور نہ ہی ضمیر نیازی کا قلم رکا۔ انھوں نے متعدد کتابیں اسی جہاد کی نذر کر دیں۔ 1992ء میں "The Press Under Siege"" شایع ہوئی اور اس کے دو برس کے بعد ایک اور کتاب "The Web of Censorship" ۔ کچھ کتابیں اردو میں بھی لکھیں جن میں ایک پاک بھارت ایٹمی دھماکوں کے حوالے سے تھی۔ اس کا نام تھا ''زمین کا نوحہ''۔
ہمارے ہاں آج آزادی صحافت کی صورت حال اس لحاظ سے بہت بہتر ہے کہ حکومتی جبر کی داستان کم و بیش تمام ہو چکی اور یہ اسی طویل اور صبر آزما جدوجہد کا ثمر ہے جس کا آغاز ضمیر نیازی جیسے نڈر اور بے باک صحافیوں نے کیا تھا۔ کالم کے آغاز میں، میں نے سنگاپور اور بنگلہ دیش کے جو حوالے دیے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ میڈیا کے اس دور میں بھی آزادی اظہار کو روکنے کے لیے ناپسندیدہ حربے استعمال ہو رہے ہیں۔ حتیٰ کہ بہیمانہ تشدد بھی روا رکھا جا رہا ہے۔
سرکار ہمارے ہاں ان کاموں سے باز آچکی لیکن حقیقت یہ ہے کہ جبر کی یہ داستان ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ بہت سے گروہ، ادارے اور ایجنسیاں اب یہی کام کر رہی ہیں۔ ان کے بارے میں نہ تو کھل کے بتایا جاتا ہے اور نہ ہی لکھا جاتا ہے۔ شاید آنے والے زمانے میں کوئی اور ضمیر نیازی یہ حوصلہ دکھائے۔اب میں آپ کو ضمیر نیازی مرحوم کی اخلاقی عظمت کا ایک چھوٹا سا قصہ سناتا ہوں۔ یہ 1992ء کی بات ہے۔ میں ان دنوں صحافت کے فارغ التحصیل طلبہ کی تنظیم ''کوجا'' کا صدر تھا۔ ہم نے ایک بڑے ہوٹل میں ایک تقریب منعقد کی جس میں صحافت میں نمایاں خدمات انجام دینے والے صحافیوں کو ایوارڈز دیے گئے۔
تقریب کے مہمان خصوصی آج کے ایک معتبر اور بہت ہی بزرگ صحافی تھے۔ وہ اس وقت اے پی این ایس کے صدر بھی تھے۔ ایوارڈ وصول کرنے والوں میں اہم ترین شخصیت جناب ضمیر نیازی کی تھی۔ وہ ایک بیماری کے باعث برس ہا برس تک آسانی سے چل پھر نیہں سکتے تھے لیکن ازراہ عنایت وہ اس تقریب میں شامل ہوئے۔ ان کے ایوارڈ لینے کی باری آئی تو جناب مہمان خصوصی نے ان کی پذیرائی کے لیے اپنے طور پر ایک کیش ایوارڈ کا بھی اعلان کر دیا جسے ضمیر نیازی صاحب نے خاموشی سے قبول کر لیا۔
اس تقریب کے کچھ دنوں کے بعد مجھے نیازی مرحوم کا ایک خط موصول ہوا۔ ایک انتہائی دلکش خط تحریر میں انھوں نے لکھا تھا۔۔۔۔۔ ''۔۔۔۔۔یہ حقیر فقیر بہت معمولی انسان ہے۔ زندگی میں ایسا کوئی کارنامہ بھی انجام نہیں دیا۔ بس یہ آپ دوستوں کی عنایت ہے جو آپ لوگوں نے بانس پر چڑھا رکھا ہے۔ البتہ اپنے فرائض کی ادائیگی، اپنے محدود علم اور اس سے بھی زیادہ صلاحیت کے باوجود، کوشش ضرور کی ہے۔ کہاں تک کامیابی ہوئی یہ فیصلہ تو آپ احباب ہی کر سکتے ہیں۔
ایک طالب علم ہوں اور زندگی کی آخری سانسوں تک طالب علم رہوں گا۔ جن کی تعداد اب خاصی محدود رہ گئی ہے۔۔۔۔۔ ایک آخری گزارش۔۔۔۔۔''۔
اور یہ ''آخری گزارش'' یہ تھی کہ انھوں نے اعلیٰ اخلاقی قدروں کا مظاہرہ کرتے ہوئے ازراہ مروت ان بزرگ صحافی سے تو وہ رقم وصول کر لی تھی لیکن وہ ایک خوددار شخص تھے۔ اس لیے انھوں نے ایک چیک کی صورت میں وہ پوری رقم اس خط کے ہمراہ ''کوجا'' کو بطور عطیہ واپس کر دی۔ یہ ضمیر نیازی کے ضمیر کا فیصلہ تھا۔
آزادی اظہار کی جو صورت حال بنگلہ دیش میں ہے اس کے بارے میں وہ لوگ اچھی طرح جانتے ہوں گے جو وہاں کے اخبارات دیکھتے رہتے ہیں یا انٹرنیٹ کے ذریعے آگاہی حاصل کرتے ہیں۔ محمود الرحمٰن ایک معروف اخبار ''امردیش'' کے ایڈیٹر ہیں۔ ان کے دفتر کو اسی سال 11 اپریل کو مہر بند کر دیا گیا اور اخبار بند ہو گیا۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے ہائی پروفائل سیاستدانوں کی کرپشن کو طشت ازبام کیا تھا۔ ان سیاستدانوں میں وزیر اعظم اور ان کے رشتے دار بھی شامل ہیں۔ محمود الرحمٰن نے گزشتہ فروری میں پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں 172 شہریوں کی ہلاکت پر بھی احتجاج کیا تھا۔ اخبار بند کیے جانے کے چھ روز کے بعد محمود الرحمٰن کو گرفتار کر لیا گیا۔
وہ ڈھاکہ میٹروپولیٹن پولیس کی تحویل میں تھے۔ قاسم پور جیل میں ان پر سخت تشدد کیا گیا۔ 18 اپریل 2013 کو انھیں بنگلہ بندھو شیخ مجیب میڈیکل یونیورسٹی منتقل کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اس تشدد کے دوران نہ صرف انھیں بجلی کے جھٹکے مارے گئے تھے بلکہ لوہے کے کیل بھی ان کے بدن میں ٹھونکے گئے تھے۔ اس کے بعد سے ان کے اہل خانہ عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں اور انسانی حقوق کے علمبردار لاحاصل مظاہرے کر رہے ہیں۔
ہمارے ہاں آزادی اظہار کی جو صورت ہے اسے دیکھ کر آپ یقیناً مطمئن ہوں گے۔ اس پر میں ذرا بعد میں بات کروں گا۔ آئیے پہلے ایک کتاب سے آپ کو ایک اقتباس سناتا ہوں کیونکہ اس کا مصنف ہی دراصل میرا آج کا موضوع ہے۔''ایک زمانہ وہ بھی تھا جب مرکزی سیکریٹری اطلاعات کی حیثیت میں الطاف گوہر 1597 روزناموں، ہفت روزوں، پندرہ روزہ رسالوں، ماہناموں اور دیگر جرائد کے ''حقیقی'' مدیر تھے۔۔۔۔ اور پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ کے علاقائی عہدیداران اپنے اپنے علاقوں کے جرائد کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر تھے۔ وہی یہ فیصلہ کرتے تھے کہ کس خبر کی مکمل کوریج کی جائے گی۔ کسے پلے ڈاؤن کیا جائے گا اور کسے بالکل ہی نظرانداز کر دینا چاہیے''۔
دو دن قبل یعنی 11 جون کو ہمارے ملک کے ایک انتہائی جری اور بے باک صحافی جناب ضمیر نیازی کی نویں برسی تھی۔ یہ اقتباس انھی کی ایک کتاب "Press in Chains" سے لیا گیا ہے۔ یہ کتاب 1986ء میں کراچی پریس کلب نے شایع کی تھی کیونکہ کوئی بھی ناشر اسے چھاپنے کو تیار نہیں تھا۔ اس میں صحافتی ظلم اور جبر کی کئی کہانیاں درج ہیں۔ مثلاً جنرل ضیاء الحق کے آمرانہ دور میں صحافیوں کو کوڑے مارے جانے کا ذکر ضمیر نیازی نے یوں کیا ہے ''13 مئی 1978ء برصغیر کی صحافتی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا۔ اس روز چار صحافیوں کو سمری ملٹری کورٹ کے حکم پر کوڑے مارے گئے۔ ان میں مسعود اللہ خان، اقبال احمد جعفری، خاور نعیم ہاشمی اور نثار زیدی شامل تھے''۔
اس کے بعد بھی نہ تو آزادی اظہار کی کم بختی ختم ہوئی اور نہ ہی ضمیر نیازی کا قلم رکا۔ انھوں نے متعدد کتابیں اسی جہاد کی نذر کر دیں۔ 1992ء میں "The Press Under Siege"" شایع ہوئی اور اس کے دو برس کے بعد ایک اور کتاب "The Web of Censorship" ۔ کچھ کتابیں اردو میں بھی لکھیں جن میں ایک پاک بھارت ایٹمی دھماکوں کے حوالے سے تھی۔ اس کا نام تھا ''زمین کا نوحہ''۔
ہمارے ہاں آج آزادی صحافت کی صورت حال اس لحاظ سے بہت بہتر ہے کہ حکومتی جبر کی داستان کم و بیش تمام ہو چکی اور یہ اسی طویل اور صبر آزما جدوجہد کا ثمر ہے جس کا آغاز ضمیر نیازی جیسے نڈر اور بے باک صحافیوں نے کیا تھا۔ کالم کے آغاز میں، میں نے سنگاپور اور بنگلہ دیش کے جو حوالے دیے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ میڈیا کے اس دور میں بھی آزادی اظہار کو روکنے کے لیے ناپسندیدہ حربے استعمال ہو رہے ہیں۔ حتیٰ کہ بہیمانہ تشدد بھی روا رکھا جا رہا ہے۔
سرکار ہمارے ہاں ان کاموں سے باز آچکی لیکن حقیقت یہ ہے کہ جبر کی یہ داستان ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ بہت سے گروہ، ادارے اور ایجنسیاں اب یہی کام کر رہی ہیں۔ ان کے بارے میں نہ تو کھل کے بتایا جاتا ہے اور نہ ہی لکھا جاتا ہے۔ شاید آنے والے زمانے میں کوئی اور ضمیر نیازی یہ حوصلہ دکھائے۔اب میں آپ کو ضمیر نیازی مرحوم کی اخلاقی عظمت کا ایک چھوٹا سا قصہ سناتا ہوں۔ یہ 1992ء کی بات ہے۔ میں ان دنوں صحافت کے فارغ التحصیل طلبہ کی تنظیم ''کوجا'' کا صدر تھا۔ ہم نے ایک بڑے ہوٹل میں ایک تقریب منعقد کی جس میں صحافت میں نمایاں خدمات انجام دینے والے صحافیوں کو ایوارڈز دیے گئے۔
تقریب کے مہمان خصوصی آج کے ایک معتبر اور بہت ہی بزرگ صحافی تھے۔ وہ اس وقت اے پی این ایس کے صدر بھی تھے۔ ایوارڈ وصول کرنے والوں میں اہم ترین شخصیت جناب ضمیر نیازی کی تھی۔ وہ ایک بیماری کے باعث برس ہا برس تک آسانی سے چل پھر نیہں سکتے تھے لیکن ازراہ عنایت وہ اس تقریب میں شامل ہوئے۔ ان کے ایوارڈ لینے کی باری آئی تو جناب مہمان خصوصی نے ان کی پذیرائی کے لیے اپنے طور پر ایک کیش ایوارڈ کا بھی اعلان کر دیا جسے ضمیر نیازی صاحب نے خاموشی سے قبول کر لیا۔
اس تقریب کے کچھ دنوں کے بعد مجھے نیازی مرحوم کا ایک خط موصول ہوا۔ ایک انتہائی دلکش خط تحریر میں انھوں نے لکھا تھا۔۔۔۔۔ ''۔۔۔۔۔یہ حقیر فقیر بہت معمولی انسان ہے۔ زندگی میں ایسا کوئی کارنامہ بھی انجام نہیں دیا۔ بس یہ آپ دوستوں کی عنایت ہے جو آپ لوگوں نے بانس پر چڑھا رکھا ہے۔ البتہ اپنے فرائض کی ادائیگی، اپنے محدود علم اور اس سے بھی زیادہ صلاحیت کے باوجود، کوشش ضرور کی ہے۔ کہاں تک کامیابی ہوئی یہ فیصلہ تو آپ احباب ہی کر سکتے ہیں۔
ایک طالب علم ہوں اور زندگی کی آخری سانسوں تک طالب علم رہوں گا۔ جن کی تعداد اب خاصی محدود رہ گئی ہے۔۔۔۔۔ ایک آخری گزارش۔۔۔۔۔''۔
اور یہ ''آخری گزارش'' یہ تھی کہ انھوں نے اعلیٰ اخلاقی قدروں کا مظاہرہ کرتے ہوئے ازراہ مروت ان بزرگ صحافی سے تو وہ رقم وصول کر لی تھی لیکن وہ ایک خوددار شخص تھے۔ اس لیے انھوں نے ایک چیک کی صورت میں وہ پوری رقم اس خط کے ہمراہ ''کوجا'' کو بطور عطیہ واپس کر دی۔ یہ ضمیر نیازی کے ضمیر کا فیصلہ تھا۔