مسیحا کی تلاش …

اس سماج میں کونسا ایسا شہر ہے کہ جس کا پرسہ نہ دیا جائے، جس معاشرے کا ہر گھر مقتل اور ہر کنبہ درد و الم کی تصویر ہو...


شہلا حسن June 12, 2013

اس سماج میں کونسا ایسا شہر ہے کہ جس کا پرسہ نہ دیا جائے، جس معاشرے کا ہر گھر مقتل اور ہر کنبہ درد و الم کی تصویر ہو، وہاں بھلا احساس مند کیسے تلاش کیے جائیں، وہ حقائق کیسے بیان کیے جائیں کہ جن کی حقیقت آشکار ہونے سے بچنے والے بھی زندہ در گور کیے جانے کے اندیشے میں مبتلا ہو جائیں، یہ کیسا خوف اور دہشت کا بازار ہے کہ جہاں زندگی نہایت ارزاں بنا دی گئی ہے، یہ کیسا ملک ہے جہاں کا ہر شہر دوسرے سے لا علم رہتا ہے مگر پھر بھی کراہتا رہتا ہے، کہیں غربت منہ کھولے مذاق اڑا رہی ہے تو کہیں دہشت کی گولیاں نہتے فرد کو لہو لہان کرتی ہوئی نامعلوم جگہوں پر سکون سے خراٹے بھر رہی ہوتی ہیں جب کہ قانون نا معلوم کی ایف آئی آر کاٹ کر عام فرد کو اطمینان کی لولی پوپ دینے میں مصروف عمل ہے، پاکستان میں قیامت برپا ہونا کوئی نئی بات نہیں رہی، آئے روز شہروں میں قیامت برپا ہوتی ہے، لوگ مرنے اور بچھڑنے والے پیاروں پر سسکتے ہیں مگر پھر بے نام سہارے کے تحت از سر نو زندگی شروع کر دی جاتی ہے۔

سانحہ علمدار روڈ، سانحہ عباس ٹاؤن، سانحہ گوجرہ یا پھر پشاور سے منسلک بستیاں جہاں انسانی جان گاجر مولی سے زیادہ سستی کر دی جائے تو زندہ رہنے والوں پر خوف طاری نہ ہو تو کیا ہو؟ اب بھلا بلوچستان کے ان لاپتہ افراد کو کیسے بھلایا جا سکتا ہے، جن کے انتظار میں ان کے لواحقین کی متلاشی نگاہیں پتھر ہونے کے قریب ہیں، مگر کوئی نہیں جو ان کی پکار پر کان دھرے۔ ملک کے حالات ایسی منظر کشی کرتے نظر آتے ہیں جس سے قیامت صغری کا تصور آنکھوں میں بس جاتا ہے، ہر سو چیخ و پکار، آہ و بکا، آشکبار آنکھیں، پریشان پیشانی، پیاروں کے کھونے کا ملال، کوئی یتیم ہوا تو کوئی مسکین، تاحال نہ تھمنے والے آنسو ان بے اماؤں کا مقدر بنائے جا رہے ہیں، گو یہ وہ لوگ ہیں جو زندگی کی قدر کرنا چاہتے ہیں۔

ہر فرد ''ہل من ناصر ینصرنا'' کی مانند بے حس بیاباں میں مدد کو پکار رہا ہے مگر کوئی نہیں جو اس کی آواز پر داد رسی کرے، کوئی نہیں جو ان کے پیارے لوٹائے، اب بھلا سوچیے اس خانماں خراب سماج میں کون ادھورے سپنے سجائے گا؟ جب تنکا تنکا جوڑ کر بنایا گیا آشیانہ ہی بکھر جائے، غم و اندوہ میں گرفتاروں کے سر پر چادر اور پیروں میں جوتے ہی نہ رہیں تو ان کا ہر پل مرنا ہی تو ٹھہرے گا، ہر آہٹ پر دم توڑتی ہوئی آنکھیں جب پرنم ہونے لگیں تو بھلا وہ معاشرے کیونکر توانا قدروں کے امین کہلائے جا سکتے ہیں، یہ بے حس معاشرے کی وہ منظر کشی ہے جس میں سوائے ندامت اور پچھتاوے کے کچھ نہیں مل رہا، اگر حکمرانوں اور عوام کا دم بھرنے والی سیاسی جماعتیں یہ سمجھتی ہیں کہ ان کے مذمتی بیان اور امداد کے اعلانات کسی کی اجڑی کوکھ کو آباد، کسی بیوہ کو سہارا یا کسی یتیم کو بہتر مستقبل دے سکتے ہیں؟

تو یاد رکھا جائے کہ حکمران اور سیاسی جماعتیں تو دھوکے اور فریب میں رہ سکتی ہیں مگر تاریخ کے حقائق بے رحمانہ طور پر ان کا احتساب کرتے رہتے ہیں، یہ تاریخ اور سماجی شعور کا وہ پہلو ہے جو کسی بیان یا مذمت سے حقائق کو جھٹلا نہیں سکتا۔ اگر حکمران یا عوام کے حقوق کا واویلا مچانے والی سیاسی جماعتیں یہ سمجھتی ہیں کہ، امداد کے نام پر چند ٹکے دے کر وہ جاتی ہوئی سانسیں لوٹا نے، کسی زندگی میں توانا لہر دوڑا نے، کسی ماتھے سے یتیمی کی شکنیں ہٹا نے، روتی آنکھوں کے آنسو پونچھنے، یا کسی ڈہارس کو تقویت دینے کے قابل ہیں۔ تو یہ حکمران اور سیاسی جماعتوں کا وہ فریب ہے جس سے عوام بخوبی آگاہ ہیں، اور جلد یا بدیر عوام اپنے طور پر روز محشر سجانے پر مجبور ہوں گے۔

سوال یہ ہے کہ تنگ نظر سوچ، لسانیت کی وبا اور اور قومیتوں کے احساس محرومی کا جن کیونکر اب تک قابو میں نہیں آسکا ہے، ان وجوہات کا مختصر جائزہ لیا جائے تو ہمیں تاریخ کے وہ اوراق کھنگالنے پڑیں گے، جن کی سیاہی کو ماند کرنے کی کوششیں تا حال جاری ہیں، پاکستان کے وجود کے بعد ہی چند عاقبت نا اندیش اداروں کی یہ کوشش رہی کہ اس ملک کو مذہب کی چادر میں لپیٹ کر مقدس گائے بنا دیا جائے، اس سوچ اور کوشش میں سب سے بڑی رکاوٹ قائد اعظم خود بنے، جو کہ جلد ہی قوم کو روتا چھوڑ کر دار فانی سے کوچ کر گئے، پھر کیا تھا، وہ قوتیں جنہوں نے پاکستان بننے کی مخالفت کرتے ہوئے کانگریس کی حمایت کی تھی اقتدار کے ایوانوں کے کرتا دھرتا سے جا ملیں اور اپنی وفاداری کا دم بھرتے ہوئے اقتداری قوتوں کے اس قدم پر لبیک کہا جو کہ ان کے مفادات کو تقویت پہنچاتا تھا،

ان کوششوں میں ریاست کے تین ستون یعنی مذہبی اکابرین، جاگیردار اور عسکری اشرافیہ نے مل کر پاکستان کی نئی تعریف مرتب کی، جس میں بعد کو ترمیم کر کے شدت پسند قومیتی عنصر کو بھی اپنا ہمنوا بنایا گیا، جو کہ آج بھی کسی نہ کسی شکل میں قوموں کے حقوق کی صورت عام فرد کو نظر آتی ہیں، ایوبی مارشل لا نے شدت پسند مذہبی عنصر کو اقتدار کا حصہ بنانے کی شروعات کی جس کا ثمر پاکستانی اشرافیہ کو 1973ء کے آئین میں مذہبی ریاست کرانے کی صورت میں ملا، حالانکہ تاریخی اور عوامی نمایندگی کے حقائق بتاتے ہیں کہ73ء کی اسمبلی میں قطعی طور سے پاکستانی عوام نے شدت پسند مذہبی عنصر کو نا پسند کرتے ہوئے ان کے بر عکس روشن خیال اور اعتدال پسند نمایندوں کو اسمبلی میں بھیجا تھا،

تاریخ اس ضمن میں پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے عوامی نمایندگی کے بر عکس آئین میں مذہبی اسٹیٹ بنانے کے سوال پر آج بھی حیران و پریشان ہے، کہ اکثریت رکھنے والی پیپلز پارٹی نے کیونکر اقلیتی جماعتوں کی بات مان کر ملک کو آئینی طور سے ایسی الجھن میں مبتلا کر دیا کہ جس سے ہم آج تک جان نہیں چھڑا پائے ہیں، محض یہی وجہ تھی کہ شدت پسند مذہبی عنصر نے آئین کا سہارا لے کر بھٹو کے خلاف1977ء میں تمام تنگ نظر لسانی، مذہبی قوتوں کو جمع کر کے نظام مصطفی نافذ کرنے کی تحریک چلائی اور انتخابات میں دھاندلی کے جواز سے ملک کے عوام کو دھوکہ دیا، جب کہ دوسری جانب فوجی آمر ضیاء نے اس تحریک کا سہارا لے کر منتخب وزیر اعظم کو اقتدار سے نہ صرف الگ کیا بلکہ اپنی پسند کا عدالتی فیصلہ کروا کر بھٹو کو پھانسی دلوائی، پھر نہ کسی کو نظام مصطفیٰ یاد رہا اور نہ کسی کو عوام کے جمہوری اور آئینی حقوق... ہاں البتہ ضیاء کے آمرانہ دور میں مذہبی انتہا پسندی کے ساتھ لسانی سوچ نے فروغ پایا اور یوں ملک کے شہروں میں کہیں جاگ پنجابی جاگ اور کہیں مہاجر، بلوچی اور سندھی حقوق کی انتہا پسند تحاریک نے سر ابھارا تو کہیں جہاد کے نام پر امریکی ڈالروں کے سہارے شدت پسند جہادی پیدا کیے گئے۔

اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ جنرل ضیاء کے دور حکومت میں ایم آر ڈی (تحریک بحالی جمہوریت) کے نام سے سیاسی جماعتوں نے اتحاد بنا کر تحریک شروع کی، گو یہ تحریک زیادہ موثر تو نہ ہو سکی، مگر اس تحریک کے سیاسی اثرات کی وجہ سے جنرل ضیاء الحق کو اسلام کا نام استعمال کرتے ہوئے ریفرنڈم کرانا پڑا، جس میں ضیاء آمر اور فوجی اشرافیہ کی حمایت یافتہ مذہبی، لسانی اور قومیت کا دم بھرنے والی قوتوں نے ضیاء کا ساتھ دے کر اسے پانچ سال کے لیے غیر جمہوری طور پر صدر منتخب کروایا، اسی انتہا پسند سوچ کے تحت 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کروائے گئے،

جس نے پوری قوم کو برادری ازم اور فرقوں میں بانٹ دیا، جو آج تک قوم کا پیچھا نہیں چھوڑ رہی، اور لوگ لسانی اور مذہبی بنیادوں پر روز نا معلوم گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں، جب کہ سیاسی، مذہبی اور لسانی جماعتیں لاشوں پر اپنی سیاست کی عمارت کھڑی کر کے عوام کے حقوق کا سودا کرنے میں مصروف عمل ہیں، جب کہ عوام انصاف کے اس نظام کے متلاشی ہیں جو انھیں سانس لینے کی آزادی دلائے، وہ عدلیہ کی آزادی کا وہ رخ دیکھنے کے متمنی ہیں، جس سے لہو لہو ہونے والے شہر اور قصبے بچ سکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں