نئی حکومتوں کی تشکیل
الیکشن کے بادل چھٹ گئے، نواز حکومت ایک بار پھر آگئی ہے۔ پی ٹی آئی بھی اپنے بلند بانگ دعوؤں کے ساتھ خیبر پختون خوا...
الیکشن کے بادل چھٹ گئے، نواز حکومت ایک بار پھر آگئی ہے۔ پی ٹی آئی بھی اپنے بلند بانگ دعوؤں کے ساتھ خیبر پختون خوا کے میدان میں اتر آئی ہے۔
اچنبھے کی بات یہ ہوئی کہ تحریک انصاف کوً مسلم لیگ نواز اور پی پی پی کی متوازی حریف جماعت کے طور پر پیش کیا جاتا رہا اور ادھر یہ کراچی میں متحدہ کے دوبدو آ کھڑی ہوئی۔ پی ٹی آئی کا ہوا تخلیق کرنے سے رجحان یہ بنا کہ متنفر، بے سمت اور نئے پن کا شوقین ووٹ بینک اس جماعت کے کھاتے میں چلا گیا۔
گو کہ فیئر اینڈ فری کے دعوے کے تحت کرائے جانے والے اس الیکشن پر کم و بیش سب ہی سیاسی جماعتوں میں ''تحفظات'' کی انگلی اٹھانے پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے مگر ایک اور تعجب خیز سیاسی مماثلت یہاں بھی نظر آتی ہے کہ جیتنے والوں میں بھی تازگی اور جوش بظاہر نظر نہیں آ رہا چاہے جس کے حصے میں جیت کا جہاں اور جتنا بھی حلوہ آیا۔ اب نامعلوم یہ عوام کو کارکردگی دکھانے کا دباؤ ہے یا تلخی حالات کا ادراک یا پھر پی ٹی آئی کے دھرنوں برائے احتجاج و دھاندلی کی کرکری؟ لاہور سے کراچی اور اسلام آباد تک پی ٹی آئی کی اڑائی پالیسی اور جارحانہ مزاج سیاسی سیانوں کے نپے تلے بیانات اور انداز پہلے سے کافی مختلف ہیں یہاں تک کہ تبصروں کے رخ بھی کچھ ان معنوں میں ہو گئے:
نرالوں' کے نازک ہاتھوں کو چاند ستارے چھونے دو
دو چار 'الیکشن بھگتا کے' یہ بھی ہم جیسے ہو جائیں گے
آج کل پی ٹی آئی اپوزیشن کی پوزیشن میں ''چاند'' سے دو دو ہاتھ کرنے کی لگن میں مبتلا دکھائی دیتی ہے تاہم موجودہ 5سالہ مدت میں پی ٹی آئی اپنی اس حقیقت کو آشکار کریگی کہ آیا یہ واقعتاً روایتی سیاست میں اکھاڑ پچھاڑ بپا کرنیوالی سونامی ثابت ہوئی یا پھر سیاست کے میدان کا ایک مہرہ! پاکستان کی خاطر اس توقع کو خوش امیدی کی نذر کرتے ہیں باوجود اس کے کہ تبدیلی اور انقلاب کے نعروں سے اپنی جگہ بنانے والی اس پارٹی نے اپنے انداز سیاست سے لے کر انتخابات تک کسی منفرد روش کا مظاہرہ نہیں کیا اور کسی مثبت روایت کی بنیاد نہیں ڈالی (پارٹی کے بہی خواہوں کو پارٹی الیکشن کی مثال سے اس رائے کو رد کرنے کا پورا اختیار حاصل ہے) خصوصاً نئے پاکستان کا نعرہ لگا کر تو انھوں نے سنجیدہ حلقوں کو ایک ہیجان میں ڈال دیا تھا، پوش طبقات اور نوجوانوں کے جس ووٹ بینک کو میدان عمل میں لانے کی پی ٹی آئی دعویدار ہے اس کے سیاسی رویے میں رعونت چھلکتی صاف طور پر محسوس ہوئی ہے کہ ''اس بار ہم بھی نکلے ہیں'' یعنی عام طبقات کے فریضہ ووٹ کی ادائیگی سے اب تک جو سیاسی گند رواج پا چکا ہے اس کی صفائی اور اصلاح کرنے ''اب ہم نکلے ہیں''۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ الیکشن نتائج ان کی نازک اور جلد باز طبیعتوں پر انہونی بن کر ٹوٹے اس صدمے میں ان کی دھرنا سیاست کی وساطت سے جماعت اسلامی کو بھی کراچی کی سطح پر ٹمٹمانے کا موقع مل گیا اور انھوں نے بھی اپنے دل کے پھپھولے پھوڑ لیے۔
علاوہ ازیں خاں صاحب کی وہ باتیں جمہوری مزاج کے اعتبار سے زود ہضم معلوم نہیں ہوتیں جسے وہ اصولی سیاست کا نام دیتے ہیں۔ کراچی میں انھوں نے حالیہ الیکشن کے نتائج کی روشنی میں ایک بار پھر یہاں کی نمایندگی کا بیڑا اٹھانے والی جماعت سے جس انداز میں ٹکر لی وہ بھی اپنی جگہ سوالیہ نشان ہے کہ یہ آخر کن بنیادوں پر اپنی سیاسی انٹری دینا چاہتے تھے۔
ان کے دھرنوں کا سیاسی اقدام بھی ملک کی سیاسی فضا میں تحریک کی سیاسی پختگی کے بارے میں مثبت اظہار قائم نہیں کرتا۔ موصوف کو اب یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ انقلاب سے نظام نہیں چلتے ملک اصلاحات سے استحکام پذیر ہوتے ہیں جن کے لیے نظام کا تسلسل شرط ہے اور اس تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے اس کا حصہ بننا لازمی ہے نہ کہ آ گیا تے چھا گیا یعنی کلین سوئیپ کر دینے کا خواب اب جب کہ وہ اقتدار نشینوں کی فہرست میں شامل ہو گئے ہیں تو حکمت اور برداشت کا رویہ اپنائیں اس کے بعد کارکردگی فیصلہ بنائے گی کہ کسی اور کی بلے بلے ہو گی یا آپ کا بلا بلا ہو گا۔
متحدہ قومی موومنٹ کے حوالے سے یہ بات انتہائی اہم ہے کہ متحدہ بھی وہ جماعت تھی جسے اپنے ہی شہروں میں الیکشن کمپین کا موقع نہیں مل سکا تھا۔ اس کے ساتھ جو دو جماعتیں یعنی اے این پی اور پی پی پی اس صورت حال کا حصہ تھیں وہ اس صورت حال کو پیاری ہو گئیں۔ ایک کی سیاسی بساط لپٹ گئی اور ایک کی سمٹ گئی لیکن متحدہ وہ سخت جان ٹھہری جس نے اپنی تمام سیٹیں سنبھال رکھیں ماسوائے اس ایک نشست کے جو بقول متحدہ کے ترجمان کے انھوں نے پی ٹی آئی کو دان کر دی۔
اس موقعے پر ایک احتجاج بر محل ہے کہ بعض تجزیاتی دانشوروں اور دبنگ ٹائپ اینکرز نے کراچی کے حوالے سے ارشاد فرمایا کہ ''کراچی میں تو انتخابات ہوئے ہی نہیں'' ان کا یہ فرمانا متحدہ کو نمایندگی کے حوالے سے مشکوک ثابت کرنا اور کراچی کے انتخابات کو متنازعہ بنانا تو اپنی جگہ ایک مکمل سیاسی بحث ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ کراچی کے ان ووٹرز کی بھی توہین ہے جو بڑی سنجیدگی اور ذمے داری سے اپنی نمایندگی کا انتخاب کرنے نکلے تھے۔ یوں بھی انتخابات سے قبل ہی کراچی کی صورتحال گومگو کی غمازی کر رہی تھی اور ایم کیو ایم بڑی شدت سے سیاسی تنہائی کا شکار نظر آ رہی تھی۔
اقتدار میں شراکت کے طعنے سہتی اس جماعت کا المیہ ہی سیاسی تنہائی ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر ایک زبردست منظم اور جدید سیاسی سوچ رکھنے والی جماعت ہے لیکن اس کی مخالف سیاسی حرکیات اسے شہری سندھ اور لسانی جماعت کے پروپیگنڈے سے آزاد کرنے کو تیار نہیں حالانکہ ایم کیو ایم عشروں سے ملک گیر سطح پر قومی دھارے میں اپنی شمولیت کی بھرپور کوشش کر رہی ہے لیکن روایتی سیاست اور نام نہاد جمہوریت کے علمبردار اس کے سیاسی پھیلاؤ میں سخت مانع ہیں اور ہر حکومتی مدت میں اس کے مقابل کسی نئی دوسری یا تیسری بڑی سیاسی جماعت کا ہیولیٰ تشکیل کر دیا جاتا ہے۔ اگر متحدہ سیاسی شراکت سے علاوہ بھی مفاہمت کی پالیسی کو ترتیب دے خصوصاً اپنے لبرل اور سیکولر جماعت کے موقف کو پاکستان کے زمینی اور تاریخی حقائق سے ہم رنگ کر لے اور اپنے حق پرستی، مظلوموں کی ترجمان اور جاگیردارانہ نظام کی مخالفت کے ایجنڈے کی تشریح و تشہیر کو اشاعتی ذریعہ ابلاغ کے ذریعے ملکی سطح پر اجاگر کرے تو عوامی شعور کی طاقت یقینا آیندہ ان قوتوں کے خلاف مزاحم ہو سکتی ہے جو اسی خدشے کے پیش نظر ہر بار سیاست اور انتخاب کو شطرنج کا کھیل بنا دیتے ہیں۔