’’بدترین حالات میں بہترین بجٹ ہے‘‘ ’’ مہنگائی بڑھے گی‘‘

مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا ایکسپریس فورم میں اظہار خیال

مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا ایکسپریس فورم میں اظہار خیال۔ فوٹو: ریاض احمد/ایکسپریس

GILGIT:
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں وفاقی حکومت کا بجٹ برائے مالی سال 2013-14ء گزشتہ روز پیش کیا ۔

''ایکسپریس ''میڈیا گروپ نے مذکورہ بجٹ کو سننے اور اس پر فوری تبصرہ کے لیے مختلف شعبہ جات سے ماہرین کو ایکسپریس فورم میں مدعو کیا تھا۔اظہار خیال کرنے والوںمیں صوبائی وزیر صنعت، تجارت و سرمایہ کاری چوہدری محمد شفیق ، سابق وزیر خزانہ پنجاب تنویر اشرف کائرہ ، چیئرمین آئی بی اے ڈیپارٹمنٹ اور ڈائریکٹر جنرل جامعہ پنجاب گوجرانوالہ کیپمس، ریجنل چیئرمین وفاق ایوان ہائے صنعت وتجارت اظہر سعید بٹ ، زرعی ماہر اور چیئرمین فارمرز ایسوسی ایٹس پاکستان طارق بچہ ، سابق چیف ایگزیکٹو لیسکو بریگیڈئیر( ریٹائرڈ) ریاض طور، سینئر وائس چیئرمین آل پاکستان کسٹمز کلیئرنگ ایجنٹس ایسوسی ایشن محمد امجد چوہدری ، جنرل سیکرٹری پاکستان ٹیکس بار ایسوسی ایشن رانا منیر حسین اور منظور احمد ملک سابق صدر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری شیخوپورہ شامل تھے ۔ ماہرین نے وفاقی بجٹ پر جو تبصرہ کیا اس کی تفصیل نذر قارئین ہے ۔

چوہدری محمد شفیق

( صوبائی وزیر صنعت ،تجارت و سرمایہ کاری)

میں سیاستدان ہونے کے ساتھ بزنس مین اور زمیندار بھی ہوں اور تمام مسائل کو سمجھتا ہوں، ہماری حکومت کو جو گھمبیر مسائل ورثے میں ملے ان کی موجودگی میں اس طرح کا شاندار بجٹ دینا قابل تعریف ہے، اس میں کوشش کی گئی ہے کہ عوامی فلاح کے لئے وسائل اکٹھے کئے جائیں۔ ہرشخص، فورم اور پارٹی کا حق ہے کہ اس پر تعمیری تنقید کرے۔ اس وقت ملک کو درپیش سب سے بڑا بحران توانائی کا ہے ۔ لوڈ شیڈنگ کے مسائل ہیں ، عوام کو گرمی برداشت کرنا پڑتی ہے، توانائی بحران سے معاشی بحران بھی پیدا ہوا ہے، انڈسٹری تباہ ہوچکی ہے، مزدور بے روزگار ہوئے ہیں، پانی کا مسئلہ پیدا ہوا اور زمینداروں کے ٹیوب ویل بھی بند ہیں جس کے باعث زراعت بھی تباہ ہوگئی ہے۔ اس وقت ہم نے جو بجٹ تیار کیا ہے اس میں خسارہ کم کرکے آئی ایم ایف سے جان چھڑانی ہے، یہ سب سامنے رکھ کر میرے قائد میاں نوازشریف نے بجٹ پیش کرنے کی کوشش کی ہے ، اس میرے قائد کا وژن ظاہر ہوتا ہے۔

میاں محمد شہباز شریف نے اپنے سابق دور میں پنجاب میں بہت سے تعمیری کام کئے ، گرین ٹریکٹر سکیم شروع کی جس میں بلا امتیاز پارٹی وابستگی و تعلق ٹریکٹر دیئے گئے۔ میں نے اپنے ہاتھ سے ایسے لوگوں کو ٹریکٹرکی چابیاں دیں جو میرے مخالف تھے، ایجوکیشن سیکٹر میں ذہین بچوں کو لیپ ٹاپ دیئے گئے، ایجوکیشن فیسٹیول منعقد کئے گئے جس سے نوجوانوں کو اپنی صلاحیتیں اجاگر کرنے کا موقع ملا۔ میرا تعلق پنجاب کی آخری تحصیل سے ہے جو کہ جنوبی پنجاب میں آتی ہے، جنوبی پنجاب کے لئے بھی شہباز شریف نے بہت کام کیا، وہاںدانش سکول بنائے، جو بچے ان سکولوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیںوہ غریبوں کے بچے ہیں جن کے پاس پہننے کے لئے کپڑے بھی نہیں ہیںان سکولوں میں کسی امیر کا بچہ نہیں پڑھتا۔ چاہے ایجوکیشن کا مسئلہ ہو یا زمیندار کا شہباز شریف نے ہر شعبے میں کام کیا۔

توانائی کے بحران کے حل کے لئے 500ارب روپے کا سرکلر ڈیبٹ 60روز میں ختم کرنا خوش آئند ہے۔ میاں نواز شریف نے تہیہ کررکھا ہے کہ قوم کے لئے کچھ کرنا ہے۔ اس وقت ریلوے کا بحران بہت بڑا ہے مگر ریلوے کے پاس بہت سے وسائل ہیں۔ ریلوے کی قیمتی جائیداد ہے جسے فروخت کرکے یا کوآپریٹو سسٹم بنا کر استعمال کیا جاسکتا ہے جس سے ریلوے بحران میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ دو دن پہلے ہماری پارٹی کی میٹنگ تھی جس میں زراعت پر بات ہوئی اور ترجیحات کا تعین کیا گیا۔

2005ء میں سابق وزیراعلیٰ پرویز الٰہی نے ایک زرعی بل پاس کروایا جو کہ بہت خطرناک ہے ، اس بل کے مطابق اگر زمیندار پر ٹیکس لگ گیا تو زمیندار تباہ ہوجائے گا ہم اس بل کو ختم کریں گے اور ایسا طریقہ لائیں گے کہ زمیندار پر بوجھ بھی نہ پڑے اور وہ ٹیکس بھی ادا کرے۔ اس وقت زراعت ایک انڈسٹری بن چکی ہے اور زمیندار پہلے سے بہت خوشحال ہے، یہی وجہ ہے کہ زمین کی لیز 35سے 40ہزار روپے فی ایکڑ سالانہ ہے جس زمیندار کے پاس ماضی میں سائیکل ہوا کرتا تھا اب اس کے پاس گاڑی ہے۔ زراعت پر ٹیکس دینا چاہیے اور ٹیکس جب فصل منڈی میں جائے تو وہاں پر کاٹا جاسکتا ہے۔



تنویر اشرف کائرہ

(سابق وزیر خزانہ پنجاب)

بجٹ میں ایک فیصد سیلز ٹیکس میںاضافہ سے ملک میں مہنگائی کا ریلہ آئے گا اورعام آدمی بہت مثاثر ہوگا۔ انہوں نے سبسڈی ختم کر رہے ہیں جس کے وجہ سے بجلی کی قیمت میں چھ روپے تک اضافہ کریں گے جو عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوگی۔ انہوں نے کہاکہ انہوں نے سرکلرڈیٹ کو ختم کرنے کی بات کی ہے لیکن یہ نہیں بتایاکہ وہ کس طرح ختم کریں گے، کیا نئے نوٹ چھاپیں گے، اس کے علاوہ تنخواہ دار طبقہ کے لئے بجٹ میں کوئی ریلیف نہیں ہے، تنخواہوں میں کم از کم دس سے پندرہ فیصد ا ضافہ کرناچاہیے تھا، پیپلزپارٹی نے اپنے پانچ سالہ دور میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ڈیڑھ سو فیصد اضافہ کیاتھا۔ بجٹ میں جو نئے منصوبے دئیے گئے ہیں ان پرعملدرآمد نہیں کرسکیں گے۔

اظہر سعید بٹ

( ریجنل چیئرمین وفاق ایوان ہائے صنعت وتجارت)

بجٹ میں صنعتکاروں اور کاروباری حضرات پر 600ارب روپے مزید ٹیکس آگیا ہے۔ ٹیکس ہدف جو پہلے 20سو ارب روپے تھا اب اسے بڑھا کر 24سو ارب روپے کردیا گیا ہے جس سے صنعتکار پر بوجھ مزید بڑھے گا۔ بجٹ میں بھی بھی زرعی ٹیکس کی بات نہیں کی گئی، ہم یہ نہیں کہتے کہ 5ایکڑ والوں سے ٹیکس لیا جائے مگر جو لاکھوں کے باغ بیچتے ہیں، سینکڑوں ایکڑ کے مالک ہیں ان سے تو ٹیکس لیا جائے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بزنس مینوں کی حکومت آگئی ہے مگر یہ ہماری بھول ہے، چلتی پھر بھی زمینداروں کی ہے ، ان کا ایک بندہ ایم پی اے ہے تو دوسرا سینیٹر اور تیسرا ایم این اے ہے ۔ اس وقت زرعی ٹیکس صرف 75کروڑ روپے وصول کیا جارہا ہے، اتنا بھی لینے کی ضرورت نہیں یہ بھی ختم کردیا جائے، ٹیکسوں کی بھرمار اور توانائی بحران سے مرے کو مارے شاہ مدار والی بات ہوگئی ہے۔ میرا ایک صنعتکار دوست بتارہا تھا کہ پچھلے سال اسے توانائی بحران کے باعث 3ارب روپے کا نقصان ہوا ہے اور اگلے سال اس کا گھر بھی بک جائے گا۔ ہمیں اپنے قائدین کے چہروں پر اداسی نہیں چاہیے، آج بجٹ پیش کرنے کے دوران لگ رہا تھا کہ پوری اسمبلی سوگ میں ہے۔ قائدین کو چاہیے کہ مسکرا کر حالات کا مقابلہ کریں، وہ مسکرائیں گے تو قوم مسکرائے گی ۔ ہماری خواہش ہے کہ ٹیکسوں کا بوجھ صنعتکاروں پر نہ پڑے۔

طارق بچہ

(زرعی ماہر اور چیئرمین فارمرز ایسوسی ایٹس پاکستان)

حقیقت پسندانہ بات یہ ہے کہ حکومت کو مشکلات کاسامنا اور مالی مسائل درپیش ہیں جس کے لیے اس نے مختلف اقدامات کاذکر کیا ہے ۔ لیکن افسوس ہے کہ جس شعبہ کا جی ڈی پی میں حکومتی اعدادو شمار کے مطابق 22سے 23 فیصد حصہ ہے اس کو اہمیت نہیں دی گئی ۔ بجٹ میں وفاقی حکومت نے پاکستان کے سب سے اہم شعبہ زراعت کا ذکر صرف پانی اور ڈیمز کی حد تک کیا ہے جو طویل المدتی منصوبے ہیں جن کافوری فائدہ نہیں ہوگا۔ مارک اپ کی شرح آٹھ فیصد کا اعلان اچھی بات ہے لیکن بہت اچھا ہوتا اگر زرعی قرضوں کی شرح بھی کم کرکے اس میں فرق حکومت خود برداشت کرتی لیکن افسوس اس کا بالکل ذکر نہیں کیاگیا۔ زراعت کے اس اہم شعبہ کے بارے میں اسلام آباد کے ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کو کوئی خیال نہیں۔ یہ ایک قسم کی آمرانہ سوچ ہے اگر وہ صرف ایک فون کال کے ذریعے کسانوں کی بات بھی سن لیتے تو اس بجٹ میں ہم بھی کچھ حصہ ڈال دیتے ۔

البتہ اچھا ہواکہ وہ صنعتی شعبہ جو اس کی آڑ میں ٹیکس سے بچنے کافائدہ اٹھا رہا تھا اسے نیٹ میں لانے کی بات کی گئی ہے ۔ ایگری کلچر ٹیکس سے کسی کو انکار نہیں ہے لیکن یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ انکم ٹیکس انکم پر ہی لگایا جاتا ہے۔ حکومت بتائے کہ اس نے ایسے کون سے اقدامات کیے ہیں جن کے نتیجے میں کسانوں کی انکم میں اضافہ ہوا ہو اور مقابلہ ہم بھارت سے کرتے ہیں ۔ اگر ملکی معیشت کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں تو پھر جب تک زراعت میں انویسٹمنٹ نہیں کریں گے دنیا بھر میں جتنے چاہیں انڈسٹریل زون بنالیں بات نہیں بنے گی ۔ یہ خیال کہ زراعت اٹھارویں آئنی ترمیم کے بعد صوبائی معاملہ ہوچکا غلط ہے ۔ دنیا بھر میں پالیسیاں وفاقی حکومتیں بناتی ہیں اور ان پر عمل درآمد صوبائی حکومتیں کرتی ہیں ۔ میری تجویز ہے کہ ساڑھے بارہ ایکڑ سے کم رقبے والے کسانوں کو بھی ترجیحی مارک اپ ریٹ دیں اور اس کا فرق حکومت خود ادا کرے ۔ بہر حال موجودہ حالات میں یہ بجٹ مناسب بجٹ قراردیاجاسکتا ہے۔ تاہم میرا اب بھی پہی کہنا ہے کہ وسائل کی تقسیم کریں تو ان شعبوں کو نہ بھولیں جو انکم دے رہے ہیں ۔




ملک احسان الحق

(چیئرمین آئی بی اے ڈیپارٹمنٹ اور ڈائریکٹر جنرل جامعہ پنجاب گوجرانوالہ کیمپس)

موجودہ حکومت کو دو ہفتے ہی ابھی ہوئے ہیں ویسے بھی عمومی طورپر بیوروکریسی ہی بجٹ بناتی ہے۔ اس کے باوجود اچھے اقدامات بھی کیے گئے ہیں۔ مثلا ً گردشی قرضے بڑی لعنت تھی ،ساٹھ یوم میں اسے ختم کرنے کا اعلان قابل تعریف ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ صوابدیدی فنڈز جن کا آڈٹ تھا نہ چیک، ان کو ختم کرنا بھی اچھی بات ہے ۔ میں تو تعلیم سے متعلق ہوں ۔ اس لیے میری نظر میں جب تک جی ڈی پی کا چار فیصد تعلیم کے لیے مختص نہیں ہوتا ہم تعلیم کے میدان میں کسی بھی ملک سے مقابلہ نہیں کرسکتے ۔بجٹ میں اگر توانائی کے دیگر وسائل کو بھی لے لیا جاتا تو بہتر ہوتا ، اسی طرح لائن لاسز پر قابو پانا بھی ضروری ہے۔ علاوہ ازیں تھرمل میں کرپشن پر قابو پانے کا ذکر کیاجانا چاہیے تھا ۔ ہمارا ملک دنیا کے ان چند ممالک میں سے ہے جن کا زراعت پر انحصا ر ہے ، ہمیں اسی کو بنیاد بنانا ہوگا ۔ مزید برآں فنی تعلیم بہت ضروری ہے اس کے کالج اور یونیورسٹیاں اب بھی کم ہیں ۔ ہمیں جنرل یونیورسٹیاں بنانے کے بجائے فنی یونیورسٹیاں بنانی چاہئیں ۔ان اداروں سے ہنر مند ورکر آئیں گے تو ملک کو فائدہ ہوگا ۔ ہائیر ایجوکیشن کمشن کے فنڈز میں اضافہ بھی اچھی بات ہے۔

بریگیڈیئر(ر)ریاض احمد طور

(سابق چیف ایگزیکٹو لیسکو )

نئی حکومت نے سولر اور ونڈو انرجی کے فروغ کے لیے ٹیکس کی چھوٹ دے کر مثبت اقدام کیا ہے۔اس عمل سے بجلی کے بحران پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ بجلی بحران کی اصل وجہ پیپلز پارٹی کے ماضی کے آئی پی پیز کے معاہدے ہیں جہاں سے سرکلر ڈیبٹ کا آغاز ہوا۔ سرکلر ڈیبٹ بیرون ملک سے نہیں آتا بلکہ سرکلر ڈیبٹ بجلی چوری،عدم ادائیگی ، فاٹا اور اندرون سندھ کے علاقوں سے بجلی کے بل وصول نہ کرنے اور بد انتظامی سے آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لیے 225 ارب روپے بجٹ میں رکھنا خوش آئند ہے ، تاہم مہذب معاشرے کے لیے یہ لمحہ فکریہ بھی ہے کہ ماضی کی غلطیوں کے باعث صحت اور تعلیم کے لئے محض 40یا43ارب مختص کرنا شرمندگی سے کم نہیں۔ انہوں نے کہا کہ نئی حکومت کا پرانے منصوبوں کو مکمل کرنے کا عزم نیک شگون ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آئی پی پیز کے معاہدے سنگین نقصان پہنچا رہے ہیں، یہ دنیا میں حیران کن ہیں کہ جب کوئی آئی پی پی بجلی نہ بھی بنائے تو حکومت اس کے باوجود ادائیگی کرتی رہے گی۔ انہوں نے سولر انرجی کے حوالے سے ماضی کی حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ سولر میٹریل کی بر آمد پر جو ٹیکس لگائے گئے وہ دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں ہیں جبکہ نئی حکومت کا اس حوالے سے ٹیکس ختم کرنے کا اعلان بہترین فیصلہ ہے۔ انہوں کہا کہ بجلی کے بحران کی ایک بڑی وجہ پاور سیکٹر میں بد انتظامی بھی ہے، آج تک واپڈا کے انجینئر سے محکمہ کی بہتری کے لیے کوئی کام نہیں لیا گیا ۔

محمد امجد چودھری

(سینئر وائس چیئرمین آل پاکستان کسٹمز کلیئرنگ ایجنٹس ایسوسی ایشن)

حکومت نے بدترین حالات میں بہترین بجٹ پیش کیا ہے جس پر وزیر اعظم میاں نواز شریف کو مبارکباد پیش کرتے ہیں ۔ انرجی سیکٹر میں سرمایہ کاری کیلئے 225ارب روپے مختص کرنا اور رکے ہوئے پاور پراجیکٹس پر کام شروع کرنے کا اعلان خوش آئند ہے لیکن اس حوالے سے فوری اقدامات کرنا ہوںگے کیونکہ توانائی بحران نے پوری معیشت کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ 500 ارب روپے کے سرکلر ڈیبٹ کا ساٹھ دن میں خاتمہ ہونے کہ صورت میں صنعت و تجارت کو ریلیف ملے گا ۔توانائی بحران کی وجہ سے قوم ذہنی بحران میں مبتلا ہوگئی ہے۔ تنخواہوں اور پنشن میں اضافے سے سرکاری ملازمین کو کچھ سہار املے گا۔ ریلوے ملک کا اہم ادارہ اور اثاثہ ہے اس کو کارپوریشن بنانے سے اس کے معاملات بہتر ہوں گے اور ملکی اثاثہ تباہ ہونے سے بچ جائے گا۔ لیکن حیران کن طور پر خسارے میںچلنے والی قومی ائیر لائن پی آئی اے کی بہتری یا اصلاحات کے حوالے سے کوئی اعلان نہیں کیاگیا۔

ہائیبرڈ گاڑیوں کی ڈیوٹی فری درآمد سے فیول سیونگ میں مدد ملے گی۔ سمگلنگ کے خاتمے کے بغیر کسٹمز میں ریونیو بڑھانے کے حوالے سے کوئی بھی اقدام فائدہ مند نہیں ہو سکتا۔ اگر حکومت پاک، افغان ٹریڈ کی آڑ میں ہونے والی سمگلنگ پر قابو پالے تو اس مد میں ہونیوالے محصولات میں تین گنا اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ گریجوایٹس کیلئے ماہانہ وظیفہ،انکم سپورٹ پروگرام، وزیراعظم لیب ٹاپ سکیم، ہائر ایجوکیشن کے فنڈز میں اضافہ، اقتصادی زونز میں ٹیکس کی چھوٹ پانچ سے بڑھاکر 10سال کرنا بہتر اقدامات ہیں، اس سے عوام کو ریلیف ملے گا اور معیشت میں بہتری آئے گی۔ایس آر او کلچر کے خاتمے کا اعلان خوش آئند ہے ۔ سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔ ونڈو اور سولر انرجی کے آلات کی ڈیوٹی فری درآمد سے متبادل ذرائع توانائی کو فروغ حاصل ہوگا۔



رانا منیر حسین

(جنرل سیکرٹری پاکستان ٹیکس بار ایسوسی ایشن )

قوم کو اس تجربہ کار وزیر خزانہ سے بہت زیادہ توقعات تھیں۔ حالیہ بجٹ ان توقعات پر پورا نہیں اترتا۔ اس سے بہت بہتر بجٹ پیش کیا جاسکتا تھا۔وزیر خزانہ کی باتوں میں تضاد ہے کیونکہ سیلز ٹیکس کی شرح بڑھا کر وہ مہنگائی پر کنٹرول نہیں کرسکتے۔ اس ایک فیصد سیلز ٹیکس کو پانچ سے ضرب دے لیں یعنی مہنگائی پانچ فیصد بڑھے گی۔ اسی طرح غیر رجسٹرڈ لوگوں سے سیلز ٹیکس زیادہ چارج کرنے والے نظام سے ہم پہلے ہی نقصان اٹھا چکے ہیں۔ جعلی انوائسز اسی نظام کا خاصہ ہیں۔ اس طریقے سے کرپشن میں مذید اضافہ ہوگا۔ جو لوگ 16 فیصد کاسٹ میں شامل کرلیتے تھے اب وہ 22 فیصد شامل کرلیں گے اور اس صورتحال میں مہنگائی25 فیصد بڑھ جائے گی۔ ٹیکس شادی ہالوں یا کلبوں پر نہیں لگایا گیا بلکہ ان لوگوں پر لگایا گیا ہے جو وہاں تقریبات کیا کریںگے۔

ہوٹل والے تو محض ٹیکس جمع کرکے حکومت تک پہنچائیں گے۔ اس بجٹ سے تاجروں اور صنعتکاروں کو ایمنسٹی یعنی چھوٹ کی بڑی توقعات تھیں جس سے روزگار میں بھی اضافہ ہونا تھا اسی طرح کاٹیج انڈسٹری کو کوئی ترغیب نہیں دی گئی۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی انڈسٹری میں بھارت میں بڑا غیر ملکی سرمایہ کمایا جارہا ہے جبکہ ہمارے ہاں اسے بہتر کرنے کے لئے کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔ اتنے بڑے ملک میں محض 25ہزار لوگوں کو تربیت اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ ہمارے ہاں زرعی ٹیکس تو پہلے سے موجود ہے لیکن لینے والا کوئی نہیں ۔ سرکاری ملازم ہمارے ہاں سب سے زیادہ پستا ہے انہیں تنخواہیں بڑھانے کی بڑی توقعات تھیں وہ طبقہ کہاں جائے گا، اسے کرپشن کرنے پر ہم خود مجبور کرتے ہیں۔ ایکسپورٹ سیکٹر بھی انرجی بحران کے باعث بری صورتحال کا شکار ہے اس کے لئے بھی کچھ نہیں کیا گیا۔

منظور ملک

(سابق صدر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری شیخوپورہ)

جب تک حکومت ٹیکس کا دائرہ کار نہیں بڑھائے گی اور نئے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں نہیں لایا جائے گا اس وقت تک بہتری نہیں آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ ٹیکس دیتے ہیں اب وہ ٹیکس دینے کے لیے تیار نہیں ہیں کیونکہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں کرپشن سے لوگ بہت تنگ آچکے ہیں لہٰذا حکومت ٹیکس ریفارمز لے کر آئے تاکہ معاملات ٹھیک ہوں اور ملک ترقی کرے۔ انہوں نے کہا کہ بلیک منی کو وائٹ کرنے کے لیے دی جانے والی رعائتیں بھی ختم کرنا ہوں گی تاکہ ٹیکس کی رقم میں اضافہ ہوسکے۔ موجودہ بجٹ کے بعد بھی مزید بجٹ آنے کے امکانات ہیں حکومت کو انڈسٹری کے لیے پالیسی بھی دینا ہوگی تاکہ بند ہونے والی پاکستانی انڈسٹری کو دوبارہ فعال کرکے ملکی صورتحال بہتر ہوسکے۔ واپڈا کے سسٹم میں 22ہزار 800میگاواٹ بجلی موجود ہے لیکن حاصل نہیں کی جارہی ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بہترین قوانین اور سسٹم موجود ہیں لیکن اصل مسئلہ مانیٹرنگ ہے، مانیٹرنگ نہ ہونے کی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور کرپشن بڑھتی ہے۔ ابھی تک ٹریبونلز موجود نہیں ہیں جس کی وجہ سے ایف بی آر کے ملازمین من مانی کرتے ہیں اور کرپشن کے ذریعے رقوم اکٹھی کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ قوانین بہت ہیں الفاظ بھی بہترین ہیں لیکن حقیقت میں عمل ہو تو بہتری آئے گی، اگر ایسا نہ کیا گیا تو ملکی صنعت بہتر نہیں ہوگی اور ملکی صنعت کی بہتری کے لیے اعلانات کے علاوہ اقدامات بھی کرنے ہوں گے۔
Load Next Story