ضمنی الیکشن سسٹم کی جیت
یہی تبدیلی ہے کہ سیاسی جماعتیں یوں ہی فیئر طریقے سے اقتدار میں آئیں،صاف قیادت سامنے آتی رہے اور’’گند‘‘ فلٹرہوتا رہے۔
آخر کار پاکستان میں وہ دن آگیا جب سسٹم کی موجودگی کا احساس ہوا ۔ ضمنی الیکشن اس کی پہلی مثال ہے جس میں کہیں سرکار کی مداخلت نہیں دیکھنا پڑی، اسی سسٹم کے لیے ہم دعا کیا کرتے تھے۔
ماضی میں 2002ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ق کو برتری ملی، حکومت ملنے کے بعد قومی اسمبلی کی 11سیٹوں پر ضمنی الیکشن ہوئے، مسلم لیگ ق واضح اکثریت کے ساتھ ضمنی انتخاب بھی جیت گئی۔ 2008ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کو اقتدار ملا ،جون 2008 ء میں ضمنی انتخابات ہوئے۔ یہ ضمنی انتخابات قومی اسمبلی کی 8اور ملک کی چاروں صوبائی اسمبلیوں کی 30 نشستوں پر ہوئے، پیپلزپارٹی واضح اکثریت سے کامیاب رہی۔
2013ء کے عام انتخابات ہوئے مسلم لیگ ن کامیاب رہی، اُس کے فوری بعد 90دن کے اندر اندر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی 41 نشستوں پر ملک کے سب سے بڑے ضمنی انتخابات کے لیے پولنگ ہوئی جس میں قومی اسمبلی میں نون لیگ کو 5 ، پیپلزپارٹی کو 3، تحریک انصاف کو2، ایم کیو ایم، اے این پی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کو ایک ایک نشست پر برتری حاصل ہوئی اور صوبائی نشستوں پر بھی سابقہ ادوار کی طرح برسراقتدار جماعت کا ہی گراف اوپر رہا۔
اس سال 2018ء کے عام انتخابات ہوئے ، جس میں تحریک انصاف سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی اور اقتدار ملا۔ پھر ضمنی انتخاب ہوئے جس میں ملک بھر کی 35 قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر متعدد اُمیدوار کھڑے تھے۔ ان انتخابات کے نتائج عوام کے لیے حیرا ن کن ثابت ہوئے، کیوں کہ برسر اقتدار جماعت واضح اکثریت حاصل نہ کر سکی مثلاً قومی اسمبلی میں تحریک انصاف اور ن لیگ نے 4،4 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جب کہ ق لیگ نے دو اور ایم ایم اے نے ایک نشست جیتی۔ سندھ اسمبلی میں دونوں صوبائی نشستیں پیپلزپارٹی نے لیں، بلوچستان اسمبلی میں دونوں نشستیں اپوزیشن نے حاصل کیں، پنجاب اسمبلی کی 11 نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوئے جن میں سے 6 پر ن لیگ، 3 پر تحریک انصاف اور دوپر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔
خیبر پختونخوااسمبلی میں وزیراعلیٰ محمود خان کے آبائی ضلع سوات میں 2 نشستوں پر تحریک انصاف اپنی جیتی ہوئی نشستیں ہار گئی۔ پشاور میں بھی بیگم ثمر ہارون بلور جیت گئیں۔ خیبر پختونخوا میں صوبائی اسمبلی کی 9 نشستوں پر مقابلہ ہوا جن میں سے 6 پی ٹی آئی، 2 اے این پی اور ایک پر ن لیگ کامیاب ہوئی۔ تسلی اس بات پر ہو رہی ہے کہ اس سال سابقہ روایات ٹوٹ گئیں،کہیں حکومتی مشینری کے استعمال کی خبریں آئیں، نہ کہیں کسی حکومتی عہدیدار نے الیکشن مہم میں حصہ لیا۔ یہ ہے تبدیلی۔
یہ ہیں تاریخ کے وہ واحد ضمنی الیکشن جس میں حکومت نے دخل اندازی نہیں کی ۔جہاں جہاں الیکشن ہوئے وہاں گرانٹ کا اعلان بھی نہیں کیا گیا، کہیں کوئی اسپتال بنانے کا اعلان نہیں کیا گیا، نہ کہیں کوئی ترقیاتی منصوبہ شروع کیا گیا، نہ اُس حلقے میں کوئی سڑک بنانے کا اعلان کیا ، نہ کہیں لوگوں کو خریدا گیا، نہ کہیں سودے بازی ہوئی اور نہ ہی کہیں پولیس انسپکٹر، ایکسائز انسپکٹر، لیبر انسپکٹر کو ووٹرز کو حراساں کرنے کی شکایت آئی۔
اس ملک کے عوام نے تو یہاں تک بھی دیکھا ہے کہ ڈپٹی کمشنرز کو آرڈکیے جاتے تھے کہ اگر الیکشن ہار گئے تو اُس کی چھٹی ہو جائے گی۔ ڈی سی اوز کو پوری سرکاری مشینری استعمال کرنے کے آرڈرز جاری کیے جاتے تھے۔
آج الیکشن کمیشن کس قدر طاقت ور دکھائی دے رہا ہے، اُس نے آئی جی کی تبدیلی کو روک دیا ہے، کیا نواز شریف دور میں کوئی ایسی مثال ہے۔ آپ تجاوزات اور قبضہ گروپ سے واگزار کرائی گئی زمینوں کے حوالے سے بات کر لیں، عمران خان نے کسی کی نہیں سنی، لوگوں نے کہا ایک ماہ انتظار کر لیں لیکن اُس نے اپنے ایجنڈے کو نہیں چھیڑا، وزیر اعلیٰ بھی کسی کا تبادلہ کرتے ہوئے ڈرتا ہے۔ کوئی بھی سسٹم سے باہر نہیں ہے ۔کوئی بھی غیر ضروری تبادلہ نہیں کر سکتا۔
ہم نے دیکھا کہ پولیس کو مخالفین پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔ اور پھر ہم نے یہ بھی دیکھا کہ مخالفین کو سرکاری اہلکار بھیج کر اُن پر دباؤ ڈالا جاتاتا کہ وہ حکومتی جماعت کے حق میں دستبردار ہو جائیں ورنہ نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہنا پڑتا! لیکن عوام نے دیکھا اس ضمنی الیکشن میں کسی ٹی وی چینل نے اس طرح کی کوئی خبر نہیں دکھائی، اگر یہ سب کچھ نہیں ہوا جو سابقہ حکومتوں کے دور میں ہوتا آیا ہے تو کیا یہ تبدیلی نہیں ہے؟
ہم نے اسی بات کو ہمیشہ سپورٹ کیا کہ فری اینڈ فیئر الیکشن کرائے جائیں، کہیں سے دھاندلی کا شور نہ سنا جائے اور نہ ہی کسی اُمیدوار کو الیکشن سسٹم پر اعتراض رہے کہ اُس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، یہی تبدیلی ہوگی۔
لہٰذا پاکستانیو!، میرے ہم وطنو! اور میرے ہمنوا دوستو! تھوڑا صبر کر لوعمران خان کو موقع دینا چاہیے۔ کیوں کہ اگر یہ شخص ناکام ہوا تو یقینا پاکستان ایک بار پھر انھی نااہلوں کے ہاتھوں میں چلا جائے گا جن سے جان چھوٹی ہے۔جنہوں نے ملک پر 28ہزار ارب روپے کا قرضہ چڑھا دیا ہے۔ جنہوں نے پاکستان کی معیشت برباد کر دی ہے، جنہوں اس ملک کی امپورٹ بڑھا کر برآمدات کو تباہ کر دیا ہے، جنہوں نے دنیا بھر میں پاکستان کو اکیلا کردیا ہے، اس قدر اکیلا کردیا ہے کہ ہمیں کوئی ملک ادھار میں چیزیں دینے کو تیار نہیں۔
جنہوں نے ہمسایوں کے ساتھ تعلقات میں اس قدر بگاڑ پیدا کردیا ہے کہ نئی آنے والی حکومت چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پارہی۔ جنہوں نے ریاست کے اندر ریاستیں قائم کر رکھی تھیں۔ جنہوں نے منشا بم جیسے قبضہ گروپ پال رکھے تھے۔ جنہوں نے اس قوم کی تعلیم پر توجہ نہیں دی،جنہوں نے صحت جیسی سہولیات سے عوام کو محروم رکھا۔ جو غریب آدمی کو چھت فراہم نہ کرسکے۔ اس لیے اس سیاسی منظر نامہ کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان سے چھوٹی موٹی باتوں پر اختلاف ہوسکتا ہے، مگر مجموعی طور پر صرف ایک ہی راستہ نظر آرہا ہے اور وہ ہے کہ عمران خان کے ہاتھ مضبوط کرو، اس کے ایجنڈے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔
کوئی احتجاج، کوئی دھرنا، کوئی جلسہ جلوس چھ ماہ تک کارگر نہیں ہوگا۔ اس وقت ملک اندرونی اور بیرونی بحران سے گزر رہا ہے، معیشت کا بھی بیڑا غرق ہے۔ عمران خان سے لاکھ اختلاف ہو لیکن اس کو مینڈیٹ ملا ہے اور اوپر سے اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں رکنیت کا حلف اٹھا کر اس مینڈیٹ پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ اس لیے اب ریاست، جمہوریت اور معیشت کی بہتری کا ایک ہی راستہ ہے کہ ''عمران خان کو مضبوط کرو''۔
فوج بھی یہی چاہتی ہے کہ ملک میں استحکام آئے، ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا فائدہ بھی اس میں ہے کہ عمران کو چلنے دیا جائے۔ اور میرے خیال میں جن عاقبت نا اندیشوں کا خیال ہے کہ اگلے دو تین ماہ میں عمران حکومت گر جائے گی وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں، عمران خان کی تحریک انصاف اب ہوائی جماعت نہیں ہے، کروڑوں ووٹروں کی مضبوط جماعت بن گئی ہے۔ اگر کسی نے عمران خان کو ہٹانے کی کوشش کی تو اس کا شدید ردعمل ہوگا۔ عمران کے حامی اور زیادہ طاقت سے اسے دوبارہ اقتدار میں لائیں گے۔ جب تک عمران کو پورا موقع نہیں ملتا۔ اس وقت تک تحریک انصاف کا جذبہ سرد نہیں ہوگا ۔
ہم بار بار یہی کہتے آئے ہیں کہ ہم کسی کے ساتھ نہیں، جو پاکستان کا سسٹم بہتر کرے گا ہم اُس کے ساتھ ہیں ، شکر ہے کہ اب سسٹم ملنا شروع ہو گیا ہے ۔ میں کئی بار اپنے کالموں میں لکھ چکا ہوں کہ ہم عمران خان کے سپورٹر نہیں ہیں لیکن ہم پاکستان کے سپورٹرضرور ہیں ۔ جو جماعت سسٹم دے گی ہم اُس کے ساتھ ہیں۔ ہم شخصیت پرستی کے بھی قائل نہیں ہیں۔
اس ضمنی الیکشن میں اسمبلیوں کو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا مگر اس سے سسٹم مضبوط دکھائی دے رہا ہے، ہم نے اسی کو مضبوط کرنا ہے۔آخر میں عوام سے صرف ایک سوال کہ گزشتہ روز ضمنی انتخاب میں نواز شریف کے پاس شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے ووٹ نہیں ڈالنے دیا گیا،کیا یہ تبدیلی نہیں؟
کیا یہ تبدیلی نہیں کہ موجودہ حکومت کی نگرانی میں ہونے والے پہلے بڑے انتخاب میں کسی قسم کاکوئی دنگا فساد نہیں ہوا اور نہ ہی کہیں سے کسی کی ہلاکت کی خبر سنی، ورنہ تو ہمارے اہل قلم اس طرح کے سیاسی دنگل میں ہلاکتوں پر نوحہ پڑھنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ میرے خیال میں یہی تبدیلی ہے کہ سیاسی جماعتیں یوں ہی فیئر طریقے سے اقتدار میں آئیں، صاف قیادت سامنے آتی رہے اور ''گند'' فلٹر ہوتا رہے۔ عوام بس تھوڑا انتظار کریں ، اس طرح کی بہت سے تبدیلیاں دیکھنے اور سننے کو ملیں گی۔
ماضی میں 2002ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ق کو برتری ملی، حکومت ملنے کے بعد قومی اسمبلی کی 11سیٹوں پر ضمنی الیکشن ہوئے، مسلم لیگ ق واضح اکثریت کے ساتھ ضمنی انتخاب بھی جیت گئی۔ 2008ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کو اقتدار ملا ،جون 2008 ء میں ضمنی انتخابات ہوئے۔ یہ ضمنی انتخابات قومی اسمبلی کی 8اور ملک کی چاروں صوبائی اسمبلیوں کی 30 نشستوں پر ہوئے، پیپلزپارٹی واضح اکثریت سے کامیاب رہی۔
2013ء کے عام انتخابات ہوئے مسلم لیگ ن کامیاب رہی، اُس کے فوری بعد 90دن کے اندر اندر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی 41 نشستوں پر ملک کے سب سے بڑے ضمنی انتخابات کے لیے پولنگ ہوئی جس میں قومی اسمبلی میں نون لیگ کو 5 ، پیپلزپارٹی کو 3، تحریک انصاف کو2، ایم کیو ایم، اے این پی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کو ایک ایک نشست پر برتری حاصل ہوئی اور صوبائی نشستوں پر بھی سابقہ ادوار کی طرح برسراقتدار جماعت کا ہی گراف اوپر رہا۔
اس سال 2018ء کے عام انتخابات ہوئے ، جس میں تحریک انصاف سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی اور اقتدار ملا۔ پھر ضمنی انتخاب ہوئے جس میں ملک بھر کی 35 قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر متعدد اُمیدوار کھڑے تھے۔ ان انتخابات کے نتائج عوام کے لیے حیرا ن کن ثابت ہوئے، کیوں کہ برسر اقتدار جماعت واضح اکثریت حاصل نہ کر سکی مثلاً قومی اسمبلی میں تحریک انصاف اور ن لیگ نے 4،4 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جب کہ ق لیگ نے دو اور ایم ایم اے نے ایک نشست جیتی۔ سندھ اسمبلی میں دونوں صوبائی نشستیں پیپلزپارٹی نے لیں، بلوچستان اسمبلی میں دونوں نشستیں اپوزیشن نے حاصل کیں، پنجاب اسمبلی کی 11 نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوئے جن میں سے 6 پر ن لیگ، 3 پر تحریک انصاف اور دوپر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔
خیبر پختونخوااسمبلی میں وزیراعلیٰ محمود خان کے آبائی ضلع سوات میں 2 نشستوں پر تحریک انصاف اپنی جیتی ہوئی نشستیں ہار گئی۔ پشاور میں بھی بیگم ثمر ہارون بلور جیت گئیں۔ خیبر پختونخوا میں صوبائی اسمبلی کی 9 نشستوں پر مقابلہ ہوا جن میں سے 6 پی ٹی آئی، 2 اے این پی اور ایک پر ن لیگ کامیاب ہوئی۔ تسلی اس بات پر ہو رہی ہے کہ اس سال سابقہ روایات ٹوٹ گئیں،کہیں حکومتی مشینری کے استعمال کی خبریں آئیں، نہ کہیں کسی حکومتی عہدیدار نے الیکشن مہم میں حصہ لیا۔ یہ ہے تبدیلی۔
یہ ہیں تاریخ کے وہ واحد ضمنی الیکشن جس میں حکومت نے دخل اندازی نہیں کی ۔جہاں جہاں الیکشن ہوئے وہاں گرانٹ کا اعلان بھی نہیں کیا گیا، کہیں کوئی اسپتال بنانے کا اعلان نہیں کیا گیا، نہ کہیں کوئی ترقیاتی منصوبہ شروع کیا گیا، نہ اُس حلقے میں کوئی سڑک بنانے کا اعلان کیا ، نہ کہیں لوگوں کو خریدا گیا، نہ کہیں سودے بازی ہوئی اور نہ ہی کہیں پولیس انسپکٹر، ایکسائز انسپکٹر، لیبر انسپکٹر کو ووٹرز کو حراساں کرنے کی شکایت آئی۔
اس ملک کے عوام نے تو یہاں تک بھی دیکھا ہے کہ ڈپٹی کمشنرز کو آرڈکیے جاتے تھے کہ اگر الیکشن ہار گئے تو اُس کی چھٹی ہو جائے گی۔ ڈی سی اوز کو پوری سرکاری مشینری استعمال کرنے کے آرڈرز جاری کیے جاتے تھے۔
آج الیکشن کمیشن کس قدر طاقت ور دکھائی دے رہا ہے، اُس نے آئی جی کی تبدیلی کو روک دیا ہے، کیا نواز شریف دور میں کوئی ایسی مثال ہے۔ آپ تجاوزات اور قبضہ گروپ سے واگزار کرائی گئی زمینوں کے حوالے سے بات کر لیں، عمران خان نے کسی کی نہیں سنی، لوگوں نے کہا ایک ماہ انتظار کر لیں لیکن اُس نے اپنے ایجنڈے کو نہیں چھیڑا، وزیر اعلیٰ بھی کسی کا تبادلہ کرتے ہوئے ڈرتا ہے۔ کوئی بھی سسٹم سے باہر نہیں ہے ۔کوئی بھی غیر ضروری تبادلہ نہیں کر سکتا۔
ہم نے دیکھا کہ پولیس کو مخالفین پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔ اور پھر ہم نے یہ بھی دیکھا کہ مخالفین کو سرکاری اہلکار بھیج کر اُن پر دباؤ ڈالا جاتاتا کہ وہ حکومتی جماعت کے حق میں دستبردار ہو جائیں ورنہ نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہنا پڑتا! لیکن عوام نے دیکھا اس ضمنی الیکشن میں کسی ٹی وی چینل نے اس طرح کی کوئی خبر نہیں دکھائی، اگر یہ سب کچھ نہیں ہوا جو سابقہ حکومتوں کے دور میں ہوتا آیا ہے تو کیا یہ تبدیلی نہیں ہے؟
ہم نے اسی بات کو ہمیشہ سپورٹ کیا کہ فری اینڈ فیئر الیکشن کرائے جائیں، کہیں سے دھاندلی کا شور نہ سنا جائے اور نہ ہی کسی اُمیدوار کو الیکشن سسٹم پر اعتراض رہے کہ اُس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، یہی تبدیلی ہوگی۔
لہٰذا پاکستانیو!، میرے ہم وطنو! اور میرے ہمنوا دوستو! تھوڑا صبر کر لوعمران خان کو موقع دینا چاہیے۔ کیوں کہ اگر یہ شخص ناکام ہوا تو یقینا پاکستان ایک بار پھر انھی نااہلوں کے ہاتھوں میں چلا جائے گا جن سے جان چھوٹی ہے۔جنہوں نے ملک پر 28ہزار ارب روپے کا قرضہ چڑھا دیا ہے۔ جنہوں نے پاکستان کی معیشت برباد کر دی ہے، جنہوں اس ملک کی امپورٹ بڑھا کر برآمدات کو تباہ کر دیا ہے، جنہوں نے دنیا بھر میں پاکستان کو اکیلا کردیا ہے، اس قدر اکیلا کردیا ہے کہ ہمیں کوئی ملک ادھار میں چیزیں دینے کو تیار نہیں۔
جنہوں نے ہمسایوں کے ساتھ تعلقات میں اس قدر بگاڑ پیدا کردیا ہے کہ نئی آنے والی حکومت چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پارہی۔ جنہوں نے ریاست کے اندر ریاستیں قائم کر رکھی تھیں۔ جنہوں نے منشا بم جیسے قبضہ گروپ پال رکھے تھے۔ جنہوں نے اس قوم کی تعلیم پر توجہ نہیں دی،جنہوں نے صحت جیسی سہولیات سے عوام کو محروم رکھا۔ جو غریب آدمی کو چھت فراہم نہ کرسکے۔ اس لیے اس سیاسی منظر نامہ کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان سے چھوٹی موٹی باتوں پر اختلاف ہوسکتا ہے، مگر مجموعی طور پر صرف ایک ہی راستہ نظر آرہا ہے اور وہ ہے کہ عمران خان کے ہاتھ مضبوط کرو، اس کے ایجنڈے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔
کوئی احتجاج، کوئی دھرنا، کوئی جلسہ جلوس چھ ماہ تک کارگر نہیں ہوگا۔ اس وقت ملک اندرونی اور بیرونی بحران سے گزر رہا ہے، معیشت کا بھی بیڑا غرق ہے۔ عمران خان سے لاکھ اختلاف ہو لیکن اس کو مینڈیٹ ملا ہے اور اوپر سے اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں رکنیت کا حلف اٹھا کر اس مینڈیٹ پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ اس لیے اب ریاست، جمہوریت اور معیشت کی بہتری کا ایک ہی راستہ ہے کہ ''عمران خان کو مضبوط کرو''۔
فوج بھی یہی چاہتی ہے کہ ملک میں استحکام آئے، ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا فائدہ بھی اس میں ہے کہ عمران کو چلنے دیا جائے۔ اور میرے خیال میں جن عاقبت نا اندیشوں کا خیال ہے کہ اگلے دو تین ماہ میں عمران حکومت گر جائے گی وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں، عمران خان کی تحریک انصاف اب ہوائی جماعت نہیں ہے، کروڑوں ووٹروں کی مضبوط جماعت بن گئی ہے۔ اگر کسی نے عمران خان کو ہٹانے کی کوشش کی تو اس کا شدید ردعمل ہوگا۔ عمران کے حامی اور زیادہ طاقت سے اسے دوبارہ اقتدار میں لائیں گے۔ جب تک عمران کو پورا موقع نہیں ملتا۔ اس وقت تک تحریک انصاف کا جذبہ سرد نہیں ہوگا ۔
ہم بار بار یہی کہتے آئے ہیں کہ ہم کسی کے ساتھ نہیں، جو پاکستان کا سسٹم بہتر کرے گا ہم اُس کے ساتھ ہیں ، شکر ہے کہ اب سسٹم ملنا شروع ہو گیا ہے ۔ میں کئی بار اپنے کالموں میں لکھ چکا ہوں کہ ہم عمران خان کے سپورٹر نہیں ہیں لیکن ہم پاکستان کے سپورٹرضرور ہیں ۔ جو جماعت سسٹم دے گی ہم اُس کے ساتھ ہیں۔ ہم شخصیت پرستی کے بھی قائل نہیں ہیں۔
اس ضمنی الیکشن میں اسمبلیوں کو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا مگر اس سے سسٹم مضبوط دکھائی دے رہا ہے، ہم نے اسی کو مضبوط کرنا ہے۔آخر میں عوام سے صرف ایک سوال کہ گزشتہ روز ضمنی انتخاب میں نواز شریف کے پاس شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے ووٹ نہیں ڈالنے دیا گیا،کیا یہ تبدیلی نہیں؟
کیا یہ تبدیلی نہیں کہ موجودہ حکومت کی نگرانی میں ہونے والے پہلے بڑے انتخاب میں کسی قسم کاکوئی دنگا فساد نہیں ہوا اور نہ ہی کہیں سے کسی کی ہلاکت کی خبر سنی، ورنہ تو ہمارے اہل قلم اس طرح کے سیاسی دنگل میں ہلاکتوں پر نوحہ پڑھنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ میرے خیال میں یہی تبدیلی ہے کہ سیاسی جماعتیں یوں ہی فیئر طریقے سے اقتدار میں آئیں، صاف قیادت سامنے آتی رہے اور ''گند'' فلٹر ہوتا رہے۔ عوام بس تھوڑا انتظار کریں ، اس طرح کی بہت سے تبدیلیاں دیکھنے اور سننے کو ملیں گی۔