ہم شادیانے بجائیں گے
زمین سے بلند ہوکر آسمانوں میں اڑنے کا انسانی خواب اتنا پرانا ہے جتنا خود باشعور انسان۔
یہ جولائی 1969 کے دن تھے جب ساری دنیا سانس روکے بیٹھی تھی۔ ہر طرف غلغلہ تھا کہ انسان چاند پر قدم رکھنے والا ہے۔ ہمارے یہاں اور متعدد دوسرے ملکوں میں ان لوگوں کی کمی نہیں تھی جو توبہ تلا کررہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ قربِ قیامت کے دن ہیں۔
بوڑھی عورتیں مذہبی حوالے دے رہی تھیں اور اچھے خاصے پڑھے لکھے مرد اسے محض یہود و نصاریٰ کا پروپیگنڈہ قرار دے رہے تھے۔ کہاں خاک کا پتلا انسان اور کہاں چاند، جس کے نظر آنے اور نہ آنے پر ہمارے رمضان، عید اور بقر عید کا انحصار ہوتا ہے۔ پاکستان ایسے ملکوں میں دو اور کبھی کبھی تین عیدیں ہوجاتی ہیں۔
یہ وہ دن تھے جب میں وائس آف امریکا کی اردو سروس کے لیے اس کے کراچی آفس میں کام کررہی تھی۔ اس وقت تک دہشت گردوں نے اپنا روئے منور نہیں دکھایا تھا اور کسی کو کسی سے خطرہ نہ تھا۔ امریکی قونصلیٹ میں جشن کا سماں تھا۔ بڑی بڑی اسکرینوں پر انسان کے چاند پر اترنے اور اس کے چہل قدمی کے زندہ مناظر دکھانے کی تیاریاں تھیں۔ ہم سب جوش سے بھرے ہوئے تھے۔ ایک طرف ویتنام پر امریکی مظالم کا غم تھا، دوسری طرف انسان کی یہ عظیم الشان کامیابی تھی۔
ان ہی دنوں بارہ سالہ لڑکے رک کو دعوت دی گئی کہ وہ ہیوسٹن کی ٹسل لیگ میں شریک ہوکر اپنے کھیل کا مظاہرہ کرے۔ یہ ایک شاندار موقع تھا جو اسے مل رہا تھا لیکن اس سے کہیں بڑی بات یہ تھی کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ کیپ کانورال، فلوریڈا میں مہمان بلایا گیا تھا جہاں سے اس کا باپ نیل آرمسٹرانگ چاند کے سفر پر روانہ ہونے والا تھا۔
رک اب 61 برس کا ہوچکا ہے اور دیانت دار ی سے یہ کہتا ہے کہ میں خوش نہیں تھا۔
آرمسٹرانگ کے چاند پر اترنے کی پچاسویں سالگرہ قریب آرہی ہے اور اس سالگرہ کے بارے میں امریکیوں میں جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ آرمسٹرانگ کے دونوں بیٹوں رک اور مارک کو احساس ہے کہ یہ ان دونوں کے لیے اور خاندان کے قریبی افراد اور دوستوں کے لیے کتنا بڑا واقعہ ہے۔ وہ اس شخص کے بیٹے ہیں جس نے دنیا میں پہلی مرتبہ چاند پر قدم رکھا تھا۔ ان کے باپ کا ابھی 6 برس پہلے انتقال ہوا ہے۔ ان کے پاس اپنے باپ کے 3 ہزار نوادرات ہیں جنھیں وہ نیلام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان نوادرات کو نیلام کرنے کے فیصلے پر وہ بہت مشکل سے پہنچے ہیں۔ ان کے لیے باپ کی ہر چیز ایک مقدس یادگار ہے۔ اپنی ماں سے طویل گفتگو کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ چیزیں اگر ان کے پاس رہیں تو بہت احتیاط کے ساتھ ڈبوں میں بند رہیں گی اور کوئی نہیں جانے گا کہ ان کی اصل اہمیت کیا ہے۔ ان میں آرمسٹرانگ کے میڈل، اس کے لکھے ہوئے خط اور چاند کی سرزمین پر اس کی کھینچی ہوئی تصویریں اور ایسی ہی دوسری متعدد یادگار اشیاء ہیں۔
بیٹوں کا کہنا ہے کہ ہم بہت مشکل سے اس فیصلے پر پہنچے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ ڈیڈ کی زندگی میں ہم نے اس بارے میں نہ کچھ سوچا تھا اور نہ ڈیڈ سے کوئی گفتگو کی تھی۔ وہ جب چاند کے سفر پر گئے تو ہم دونوں بچے تھے اور ہمارے لیے ان کا سفر، ایک عام سفر تھا۔ وہ پروازوں پر جاتے رہتے تھے اور پھر واپس آجاتے۔ ہمیں نہ ان خطرات کا اندازہ تھا اور نہ اس بات کا کہ چاند پر جانا اور پھر وہاں سے واپس آجانا کس قدر پُرخطر ہوسکتا ہے۔ ڈیڈ نے اور ان کے دوسرے ساتھیوں نے سفر پر روانہ ہونے سے پہلے متعدد پکچر پوسٹ کارڈ پر دستخط کیے۔ یہ دراصل ایک طرح کا ''انشورنس'' تھا۔ وہ اگر واپس نہ آتے تو یہ پکچر پوسٹ کارڈ لاکھوں میں فروخت ہوتے۔
آرمسٹرانگ اپنے ساتھ رائٹ برادران کے اس طیارے کے چند ٹکڑے ساتھ لے گیا تھا جو انھوں نے 1903میں انسان کی پہلی پرواز میں اڑایا تھا۔ کہنے کو 1903سے 1969 کے درمیان صرف 66 برس کا فرق ہے لیکن ان 66 برسوں کے دوران انسان نے کیسی زقندیں لگائیں۔ وہ انسان جو سو اور پچاس گز کی اڑان کو ایک عظیم کارنامہ سمجھتا تھا، وہ لاکھوں میل کا سفر کرکے چاند پر جاپہنچا تھا اور وہاں سے بخیریت واپس آگیا تھا۔
رک اور مارک کا کہنا ہے کہ جب ڈیڈ گھر آئے تو انھوں نے ہمیں حیرت انگیز اور طلسماتی کہانیاں نہیں سنائیں، جن کے ہم منتظر تھے۔ انھوں نے ہم سے پوچھا کہ ہم نے گھر کے کام کاج میں مما کا کتنا ہاتھ بٹایا تھا، لان کی گھاس کو تراشا تھا یا نہیں اور اسی طرح کی دوسری باتیں جو اس سے پہلے بھی وہ ہم سے کرتے تھے۔
آرمسٹرانگ کے بچوں کے ساتھی ایک دوسرے کو اشارے کرکے بتاتے تھے کہ ان کے ڈیڈ چہل قدمی کے لیے چاند پر گئے تھے۔ ہم یہ سنتے اور ہمارے سینے فخر سے پھول جاتے۔ اس لیے کہ دوسروں کے ڈیڈ کو یہ موقع میسر نہیں آیا تھا۔ وہ تو بس گھر کے پائیں باغ یا شہر کے کسی پارک میں جاکر چہل قدمی کرسکتے تھے۔
آرمسٹرانگ کے لڑکے ابھی بچے تھے لیکن وہ جوش و خروش اور وہ جشن کوئی بھلا نہیں سکتا جو دنیا کے ان گنت انسانوں نے منایا تھا۔ ٹیلی ویژن کے اسکرین پر سفید و سیاہ تصویریں دکھائی دے رہی تھیں، اپالو گیارہ کا چاند کی سطح پر اترنا اور پھرا سپیس سوٹ پہنے ہوئے اس شخص کا باہر آنا جس کو یہ اعزاز حاصل ہوا تھا کہ وہ ہم سب کی نیابت اور نمایندگی کرتے ہوئے چاند کی مٹی پر اپنا پہلا قدم رکھے۔ پھر ریڈیائی لہروں کو چیرتی ہوئی لاکھوں میل دور سے ایک آواز آئی تھی ''یہ ایک انسان کے لیے ایک چھوٹا سا قدم ہے، لیکن بنی نوع انسان کے لیے یہ ایک بہت بڑی چھلانگ ہے''۔
یہ امریکی خلانورد نیل آرمسٹرانگ کی آواز تھی اور یہ 20 جولائی 1969 کی تاریخ تھی۔ انسان کے ہزاروں برس پرانے خواب کو تعبیر مل گئی تھی۔ تمام تصوراتی کہانیاں سچ ہوگئی تھیں، وہ انسان جو الف لیلہ، طلسم ہوشربا اور دوسری ان گنت کہانیوں میں کبھی جادوئی قالین اور کبھی اڑن کھٹولے پر اڑتا ہوا دوسرے شہروں میں جا پہنچتا تھا۔ ایچ جی ویلز اور جولیزورن جیسی سائنسی کہانیاں لکھنے والے جو اپنے ہیرو کو کبھی چاند پر اتارتے تھے اور کبھی کسی نامعلوم سیارے کے سفر پر روانہ کردیتے تھے، وہ سب کہانیاں، داستانیں سچ ہوگئی تھیں۔
زمین سے بلند ہوکر آسمانوں میں اڑنے کا انسانی خواب اتنا پرانا ہے جتنا خود باشعور انسان۔ یونانی، ہندوستانی، مصری اور دوسری تہذیبوں کی دیومالا پڑھی جائیں، کوئی اڑتا ہوا لنکا جارہا ہے اور کوئی کوہ اولمپس کی خبر لارہا ہے۔ اس نے پرندوں کی طرح اڑنے کی کیسی کوششیں نہیں کیں۔ کوئی مہم جو اپنے شانوں سے بڑے بڑے پر باندھ کر کسی بلند مینار سے کود رہا ہے اور جان سے جارہا ہے۔ کسی نے بڑے بڑے غباروں میں بیٹھ کر زمانے کی سیر کی۔ 'دنیا کے گرد 80 دن' ایک ایسی ہی خیالی مہم جوئی کا قصہ ہے، جسے آج دنیا بھر کے بچے اپنی اپنی زبانوں میں ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں۔ اس ناول پر بننے والی فلمیں بچوں کے ساتھ بڑے بھی دیکھتے ہیں اور لطف لیتے ہیں۔
یوں تو پرواز کرنے کی کوششوں میں بہت سے نام آتے ہیں لیکن آج سے 560 برس پہلے یہ نابغہ روزگار شخص لیونارڈو ڈائونچی تھا جسے ہم میں سے بیشتر لوگ اس کی ناقابل فراموش روغنی تصویروں کے حوالے سے جانتے ہیں، کم لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ وہ پائے کا انجینئر بھی تھا اور اس نے اڑنے والی مشینوں کے خاکے بنائے، پرندوں کے پر کس طرح کام کرتے ہیں، ان کی تفصیلات لکھیں، اس کے خاکے بنائے اور اپنے پیچھے ایسا سرمایہ چھوڑ گیا جو بیش قیمت ہے، صرف ان خاکوں اور ان کی تفصیلات کے چند ورق لاکھوں کروڑوں ڈالروں میں فروخت ہوتے ہیں۔ چند برس پہلے مائیکرو سوفٹ کے بل گیٹس نے ایسے ہی چند ورق لاکھوں ڈالر میں خریدے ہیں۔
آرمسٹرانگ انسانی جستجو، ذہانت، تجربے اور تحقیق کی ایک طویل زنجیر کی کڑی تھا۔ اس زنجیر کی ہر کڑی اپنی جگہ نہایت اہم ہے۔ رائٹ بھائیوں کے نام ہم کیسے بھلا سکتے ہیں، جنھوں نے پہلی مرتبہ اپنی بنائی ہوئی خلائی مشین سے چند سو گز کی اڑان بھری تھی۔ یہ بہت پرانا قصہ نہیں، صرف 100 اور 110 برس پہلے کی بات ہے جب انسان کے ہزاروں برس پرانے خواب کو تعبیر مل گئی تھی اور اس کے 60 برس بعد انسان نے چاند پر پہلا قدم رکھا تھا۔ آرمسٹرانگ نے غلط تو نہیں کہا تھا کہ ''یہ انسان کے لیے ایک چھوٹا سا قدم ہے لیکن بنی نوع انسان کے لیے یہ ایک بہت بڑی چھلانگ ہے۔''
چند ہفتوں بعد آرمسٹرانگ کے نوادرات نیلام ہوجائیں گے اور یہ نوادرات دوسرے بہت سے لڑکوں اور نوجوانوں کے سینوں میں مریخ سے پرے جانے کی خواہش اور ولولہ بیدار کریں گے۔ وہ پرواز کرتے رہیں، زقندیں لگاتے رہیں اور ہم دو اور تین عیدیں مناکر شادیانے بجاتے رہیں۔
بوڑھی عورتیں مذہبی حوالے دے رہی تھیں اور اچھے خاصے پڑھے لکھے مرد اسے محض یہود و نصاریٰ کا پروپیگنڈہ قرار دے رہے تھے۔ کہاں خاک کا پتلا انسان اور کہاں چاند، جس کے نظر آنے اور نہ آنے پر ہمارے رمضان، عید اور بقر عید کا انحصار ہوتا ہے۔ پاکستان ایسے ملکوں میں دو اور کبھی کبھی تین عیدیں ہوجاتی ہیں۔
یہ وہ دن تھے جب میں وائس آف امریکا کی اردو سروس کے لیے اس کے کراچی آفس میں کام کررہی تھی۔ اس وقت تک دہشت گردوں نے اپنا روئے منور نہیں دکھایا تھا اور کسی کو کسی سے خطرہ نہ تھا۔ امریکی قونصلیٹ میں جشن کا سماں تھا۔ بڑی بڑی اسکرینوں پر انسان کے چاند پر اترنے اور اس کے چہل قدمی کے زندہ مناظر دکھانے کی تیاریاں تھیں۔ ہم سب جوش سے بھرے ہوئے تھے۔ ایک طرف ویتنام پر امریکی مظالم کا غم تھا، دوسری طرف انسان کی یہ عظیم الشان کامیابی تھی۔
ان ہی دنوں بارہ سالہ لڑکے رک کو دعوت دی گئی کہ وہ ہیوسٹن کی ٹسل لیگ میں شریک ہوکر اپنے کھیل کا مظاہرہ کرے۔ یہ ایک شاندار موقع تھا جو اسے مل رہا تھا لیکن اس سے کہیں بڑی بات یہ تھی کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ کیپ کانورال، فلوریڈا میں مہمان بلایا گیا تھا جہاں سے اس کا باپ نیل آرمسٹرانگ چاند کے سفر پر روانہ ہونے والا تھا۔
رک اب 61 برس کا ہوچکا ہے اور دیانت دار ی سے یہ کہتا ہے کہ میں خوش نہیں تھا۔
آرمسٹرانگ کے چاند پر اترنے کی پچاسویں سالگرہ قریب آرہی ہے اور اس سالگرہ کے بارے میں امریکیوں میں جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ آرمسٹرانگ کے دونوں بیٹوں رک اور مارک کو احساس ہے کہ یہ ان دونوں کے لیے اور خاندان کے قریبی افراد اور دوستوں کے لیے کتنا بڑا واقعہ ہے۔ وہ اس شخص کے بیٹے ہیں جس نے دنیا میں پہلی مرتبہ چاند پر قدم رکھا تھا۔ ان کے باپ کا ابھی 6 برس پہلے انتقال ہوا ہے۔ ان کے پاس اپنے باپ کے 3 ہزار نوادرات ہیں جنھیں وہ نیلام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان نوادرات کو نیلام کرنے کے فیصلے پر وہ بہت مشکل سے پہنچے ہیں۔ ان کے لیے باپ کی ہر چیز ایک مقدس یادگار ہے۔ اپنی ماں سے طویل گفتگو کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ چیزیں اگر ان کے پاس رہیں تو بہت احتیاط کے ساتھ ڈبوں میں بند رہیں گی اور کوئی نہیں جانے گا کہ ان کی اصل اہمیت کیا ہے۔ ان میں آرمسٹرانگ کے میڈل، اس کے لکھے ہوئے خط اور چاند کی سرزمین پر اس کی کھینچی ہوئی تصویریں اور ایسی ہی دوسری متعدد یادگار اشیاء ہیں۔
بیٹوں کا کہنا ہے کہ ہم بہت مشکل سے اس فیصلے پر پہنچے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ ڈیڈ کی زندگی میں ہم نے اس بارے میں نہ کچھ سوچا تھا اور نہ ڈیڈ سے کوئی گفتگو کی تھی۔ وہ جب چاند کے سفر پر گئے تو ہم دونوں بچے تھے اور ہمارے لیے ان کا سفر، ایک عام سفر تھا۔ وہ پروازوں پر جاتے رہتے تھے اور پھر واپس آجاتے۔ ہمیں نہ ان خطرات کا اندازہ تھا اور نہ اس بات کا کہ چاند پر جانا اور پھر وہاں سے واپس آجانا کس قدر پُرخطر ہوسکتا ہے۔ ڈیڈ نے اور ان کے دوسرے ساتھیوں نے سفر پر روانہ ہونے سے پہلے متعدد پکچر پوسٹ کارڈ پر دستخط کیے۔ یہ دراصل ایک طرح کا ''انشورنس'' تھا۔ وہ اگر واپس نہ آتے تو یہ پکچر پوسٹ کارڈ لاکھوں میں فروخت ہوتے۔
آرمسٹرانگ اپنے ساتھ رائٹ برادران کے اس طیارے کے چند ٹکڑے ساتھ لے گیا تھا جو انھوں نے 1903میں انسان کی پہلی پرواز میں اڑایا تھا۔ کہنے کو 1903سے 1969 کے درمیان صرف 66 برس کا فرق ہے لیکن ان 66 برسوں کے دوران انسان نے کیسی زقندیں لگائیں۔ وہ انسان جو سو اور پچاس گز کی اڑان کو ایک عظیم کارنامہ سمجھتا تھا، وہ لاکھوں میل کا سفر کرکے چاند پر جاپہنچا تھا اور وہاں سے بخیریت واپس آگیا تھا۔
رک اور مارک کا کہنا ہے کہ جب ڈیڈ گھر آئے تو انھوں نے ہمیں حیرت انگیز اور طلسماتی کہانیاں نہیں سنائیں، جن کے ہم منتظر تھے۔ انھوں نے ہم سے پوچھا کہ ہم نے گھر کے کام کاج میں مما کا کتنا ہاتھ بٹایا تھا، لان کی گھاس کو تراشا تھا یا نہیں اور اسی طرح کی دوسری باتیں جو اس سے پہلے بھی وہ ہم سے کرتے تھے۔
آرمسٹرانگ کے بچوں کے ساتھی ایک دوسرے کو اشارے کرکے بتاتے تھے کہ ان کے ڈیڈ چہل قدمی کے لیے چاند پر گئے تھے۔ ہم یہ سنتے اور ہمارے سینے فخر سے پھول جاتے۔ اس لیے کہ دوسروں کے ڈیڈ کو یہ موقع میسر نہیں آیا تھا۔ وہ تو بس گھر کے پائیں باغ یا شہر کے کسی پارک میں جاکر چہل قدمی کرسکتے تھے۔
آرمسٹرانگ کے لڑکے ابھی بچے تھے لیکن وہ جوش و خروش اور وہ جشن کوئی بھلا نہیں سکتا جو دنیا کے ان گنت انسانوں نے منایا تھا۔ ٹیلی ویژن کے اسکرین پر سفید و سیاہ تصویریں دکھائی دے رہی تھیں، اپالو گیارہ کا چاند کی سطح پر اترنا اور پھرا سپیس سوٹ پہنے ہوئے اس شخص کا باہر آنا جس کو یہ اعزاز حاصل ہوا تھا کہ وہ ہم سب کی نیابت اور نمایندگی کرتے ہوئے چاند کی مٹی پر اپنا پہلا قدم رکھے۔ پھر ریڈیائی لہروں کو چیرتی ہوئی لاکھوں میل دور سے ایک آواز آئی تھی ''یہ ایک انسان کے لیے ایک چھوٹا سا قدم ہے، لیکن بنی نوع انسان کے لیے یہ ایک بہت بڑی چھلانگ ہے''۔
یہ امریکی خلانورد نیل آرمسٹرانگ کی آواز تھی اور یہ 20 جولائی 1969 کی تاریخ تھی۔ انسان کے ہزاروں برس پرانے خواب کو تعبیر مل گئی تھی۔ تمام تصوراتی کہانیاں سچ ہوگئی تھیں، وہ انسان جو الف لیلہ، طلسم ہوشربا اور دوسری ان گنت کہانیوں میں کبھی جادوئی قالین اور کبھی اڑن کھٹولے پر اڑتا ہوا دوسرے شہروں میں جا پہنچتا تھا۔ ایچ جی ویلز اور جولیزورن جیسی سائنسی کہانیاں لکھنے والے جو اپنے ہیرو کو کبھی چاند پر اتارتے تھے اور کبھی کسی نامعلوم سیارے کے سفر پر روانہ کردیتے تھے، وہ سب کہانیاں، داستانیں سچ ہوگئی تھیں۔
زمین سے بلند ہوکر آسمانوں میں اڑنے کا انسانی خواب اتنا پرانا ہے جتنا خود باشعور انسان۔ یونانی، ہندوستانی، مصری اور دوسری تہذیبوں کی دیومالا پڑھی جائیں، کوئی اڑتا ہوا لنکا جارہا ہے اور کوئی کوہ اولمپس کی خبر لارہا ہے۔ اس نے پرندوں کی طرح اڑنے کی کیسی کوششیں نہیں کیں۔ کوئی مہم جو اپنے شانوں سے بڑے بڑے پر باندھ کر کسی بلند مینار سے کود رہا ہے اور جان سے جارہا ہے۔ کسی نے بڑے بڑے غباروں میں بیٹھ کر زمانے کی سیر کی۔ 'دنیا کے گرد 80 دن' ایک ایسی ہی خیالی مہم جوئی کا قصہ ہے، جسے آج دنیا بھر کے بچے اپنی اپنی زبانوں میں ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں۔ اس ناول پر بننے والی فلمیں بچوں کے ساتھ بڑے بھی دیکھتے ہیں اور لطف لیتے ہیں۔
یوں تو پرواز کرنے کی کوششوں میں بہت سے نام آتے ہیں لیکن آج سے 560 برس پہلے یہ نابغہ روزگار شخص لیونارڈو ڈائونچی تھا جسے ہم میں سے بیشتر لوگ اس کی ناقابل فراموش روغنی تصویروں کے حوالے سے جانتے ہیں، کم لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ وہ پائے کا انجینئر بھی تھا اور اس نے اڑنے والی مشینوں کے خاکے بنائے، پرندوں کے پر کس طرح کام کرتے ہیں، ان کی تفصیلات لکھیں، اس کے خاکے بنائے اور اپنے پیچھے ایسا سرمایہ چھوڑ گیا جو بیش قیمت ہے، صرف ان خاکوں اور ان کی تفصیلات کے چند ورق لاکھوں کروڑوں ڈالروں میں فروخت ہوتے ہیں۔ چند برس پہلے مائیکرو سوفٹ کے بل گیٹس نے ایسے ہی چند ورق لاکھوں ڈالر میں خریدے ہیں۔
آرمسٹرانگ انسانی جستجو، ذہانت، تجربے اور تحقیق کی ایک طویل زنجیر کی کڑی تھا۔ اس زنجیر کی ہر کڑی اپنی جگہ نہایت اہم ہے۔ رائٹ بھائیوں کے نام ہم کیسے بھلا سکتے ہیں، جنھوں نے پہلی مرتبہ اپنی بنائی ہوئی خلائی مشین سے چند سو گز کی اڑان بھری تھی۔ یہ بہت پرانا قصہ نہیں، صرف 100 اور 110 برس پہلے کی بات ہے جب انسان کے ہزاروں برس پرانے خواب کو تعبیر مل گئی تھی اور اس کے 60 برس بعد انسان نے چاند پر پہلا قدم رکھا تھا۔ آرمسٹرانگ نے غلط تو نہیں کہا تھا کہ ''یہ انسان کے لیے ایک چھوٹا سا قدم ہے لیکن بنی نوع انسان کے لیے یہ ایک بہت بڑی چھلانگ ہے۔''
چند ہفتوں بعد آرمسٹرانگ کے نوادرات نیلام ہوجائیں گے اور یہ نوادرات دوسرے بہت سے لڑکوں اور نوجوانوں کے سینوں میں مریخ سے پرے جانے کی خواہش اور ولولہ بیدار کریں گے۔ وہ پرواز کرتے رہیں، زقندیں لگاتے رہیں اور ہم دو اور تین عیدیں مناکر شادیانے بجاتے رہیں۔