دنیا میں 821 ملین اور پاکستان میں 35 ملین افراد غذائی قلت کا شکار
عوام تک خوراک کی رسائی ممکن نہ بنائی گئی تو یہ تعداد مزید بڑھنے کا خدشہ ہے، جینیوو حسین
GILGIT:
اقوام متحدہ کی عالمی و پاکستان میں خوراک کی کمی کے حوالے سے جاری کردہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں 821 ملین افراد غذائی قلت کا شکار ہیں جن میں سے35ملین افراد کا تعلق پاکستان سے ہے۔
رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اگر فوری طور پر قدرتی وسائل میں کمی کا سلسلہ نہ روکا گیا اور عوام تک خوراک کی رسائی ممکن نہ بنائی گئی تو یہ تعداد مزید بڑھ جائے گی، یہ رپورٹ عالمی یوم خوراک کے موقع پراقوام متحدہ کے ذیلی ادارے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے تحت حیدرآباد کے مقامی ہوٹل میں ایک تقریب منعقد کرکے جاری کی گئی۔
دی اسٹیٹ آف فوڈ سیکیورٹی اینڈ نیوٹریشن ان دی ورلڈ کے نام سے جاری کی جانے والی رپورٹ پر بریفنگ دیتے ہوئے اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر کے حوالے سے فرسٹ پالیسی افسر جینیوو حسین نے بتایا کہ یہ رپورٹ انٹرنیشنل فنڈ فار ایگریکلچر ڈیولپمنٹ، یونیسیف، ورلڈ فوڈ پروگرام اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے تعاون اور معاونت سے تیار کی گئی ہے اور پہلی مرتبہ حیدرآباد میں اس حوالے سے تقریب کا انعقاد کیا گیا۔
انھوں نے بتایا کہ دنیا بھر میں ڈھائی ارب افراد قدرتی وسائل پر انحصار کرتے ہیں جن میں چھوٹے کسان، فشر مین اور چرواہے شامل ہیں جبکہ پاکستان میں قدرتی وسائل پر انحصار کرنے والوں میں 18 ملین چھوٹے کسان اور 14.6 ملین چرواہے اور فشر مین شامل ہیں، اسی طرح سندھ میں قدرتی وسائل پر انحصار کرنے والوں میں 2.4ملین کسان اور 5.9ملین چرواہے اور فشر مین شامل ہیں، انھوں نے کہا کہ دنیا بھر میں تیزی کے ساتھ قدرتی وسائل تباہی سے دوچار ہورہے ہیں جس کی وجہ سے بھوک اور غذائی قلت کا شکار افراد کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2002 میں غذائی قلت 25 فیصد تھی جو 2017 میں بڑھ کر 27 فیصد ہوگئی ہے جبکہ 2002 میں غذائی قلت سے متاثرہ افراد کی تعداد 34 فیصدتھی جو 2017 میں بڑھ کر 40 فیصد ہوگئی ہے، اس وقت پاکستان کے شہر اسلام آباد میں غذائی قلت کا شکار افراد کی تعداد 12 فیصد، پنجاب میں 14 فیصد، سندھ میں 22 فیصد، کے پی کے میں 20 فیصد، بلوچستان میں 40 فیصد، آزاد کشمیر میں 29 فیصد اور فاٹا میں 43 فیصد ہے جبکہ صرف سندھ کی بات کی جائے تو سندھ کے ڈویژن حیدرآباد میں 24 فیصد، کراچی میں 33 فیصد، لاڑکانہ میں 23 فیصد،میرپورخاص میں 23 فیصد اور سکھر میں 17 فیصد ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہمارے اقدامات اور ہمارا مستقبل کے نعرے کے تحت 2030ء تک غذائی قلت کو صفر کرنے کا ٹارگٹ مقرر کیا گیا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ ہمیں فوری طور پر موثر اقدامات کرنے چاہیے۔
سندھ زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مجیب صحرائی نے کہا کہ دنیا بھرمیں غذائی قلت کا شکار افراد کی تعداد میں اضافہ خطرے کی علامت ہے، ڈائریکٹر جنرل ایگریکلچر ایکسٹینشن سندھ ہدایت اللہ نے کہا کہ سندھ میں پانی کی قلت کی وجہ سے شعبہ زراعت کو مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
ڈائریکٹر جنرل ایگریکلچر ریسرچ سینٹر نور محمد بلوچ کا کہنا تھا کہ زراعت کے حوالے سے ہمیں کافی چیلنجز کا سامنا ہے، ہمیں بڑھتی ہوئی آبادی کے حساب سے اپنی پیداوار میں اضافے کے ساتھ نئی نئی پراڈکٹ متعارف کروانے کی ضرورت ہے۔
یونیسیف کے ڈاکٹر مظہر اقبال نے کہا کہ دنیا میں ہر 9 میں سے ایک شخص خوراک کی کمی کا شکار ہے جبکہ پاکستان باالخصوص سندھ میں صورتحال زیادہ خراب ہے، یہاں ہر دوسرا بچہ غذائی قلت کا شکار ہے، اس موقع پر ورلڈ فوڈ پروگرام کے سید خادم شاہ، سماجی رہنما پروفیسر مشتاق میرانی، یو این کے وحید جمالی و دیگر نے بھی خطاب کیا۔
اقوام متحدہ کی عالمی و پاکستان میں خوراک کی کمی کے حوالے سے جاری کردہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں 821 ملین افراد غذائی قلت کا شکار ہیں جن میں سے35ملین افراد کا تعلق پاکستان سے ہے۔
رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اگر فوری طور پر قدرتی وسائل میں کمی کا سلسلہ نہ روکا گیا اور عوام تک خوراک کی رسائی ممکن نہ بنائی گئی تو یہ تعداد مزید بڑھ جائے گی، یہ رپورٹ عالمی یوم خوراک کے موقع پراقوام متحدہ کے ذیلی ادارے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے تحت حیدرآباد کے مقامی ہوٹل میں ایک تقریب منعقد کرکے جاری کی گئی۔
دی اسٹیٹ آف فوڈ سیکیورٹی اینڈ نیوٹریشن ان دی ورلڈ کے نام سے جاری کی جانے والی رپورٹ پر بریفنگ دیتے ہوئے اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر کے حوالے سے فرسٹ پالیسی افسر جینیوو حسین نے بتایا کہ یہ رپورٹ انٹرنیشنل فنڈ فار ایگریکلچر ڈیولپمنٹ، یونیسیف، ورلڈ فوڈ پروگرام اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے تعاون اور معاونت سے تیار کی گئی ہے اور پہلی مرتبہ حیدرآباد میں اس حوالے سے تقریب کا انعقاد کیا گیا۔
انھوں نے بتایا کہ دنیا بھر میں ڈھائی ارب افراد قدرتی وسائل پر انحصار کرتے ہیں جن میں چھوٹے کسان، فشر مین اور چرواہے شامل ہیں جبکہ پاکستان میں قدرتی وسائل پر انحصار کرنے والوں میں 18 ملین چھوٹے کسان اور 14.6 ملین چرواہے اور فشر مین شامل ہیں، اسی طرح سندھ میں قدرتی وسائل پر انحصار کرنے والوں میں 2.4ملین کسان اور 5.9ملین چرواہے اور فشر مین شامل ہیں، انھوں نے کہا کہ دنیا بھر میں تیزی کے ساتھ قدرتی وسائل تباہی سے دوچار ہورہے ہیں جس کی وجہ سے بھوک اور غذائی قلت کا شکار افراد کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2002 میں غذائی قلت 25 فیصد تھی جو 2017 میں بڑھ کر 27 فیصد ہوگئی ہے جبکہ 2002 میں غذائی قلت سے متاثرہ افراد کی تعداد 34 فیصدتھی جو 2017 میں بڑھ کر 40 فیصد ہوگئی ہے، اس وقت پاکستان کے شہر اسلام آباد میں غذائی قلت کا شکار افراد کی تعداد 12 فیصد، پنجاب میں 14 فیصد، سندھ میں 22 فیصد، کے پی کے میں 20 فیصد، بلوچستان میں 40 فیصد، آزاد کشمیر میں 29 فیصد اور فاٹا میں 43 فیصد ہے جبکہ صرف سندھ کی بات کی جائے تو سندھ کے ڈویژن حیدرآباد میں 24 فیصد، کراچی میں 33 فیصد، لاڑکانہ میں 23 فیصد،میرپورخاص میں 23 فیصد اور سکھر میں 17 فیصد ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہمارے اقدامات اور ہمارا مستقبل کے نعرے کے تحت 2030ء تک غذائی قلت کو صفر کرنے کا ٹارگٹ مقرر کیا گیا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ ہمیں فوری طور پر موثر اقدامات کرنے چاہیے۔
سندھ زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مجیب صحرائی نے کہا کہ دنیا بھرمیں غذائی قلت کا شکار افراد کی تعداد میں اضافہ خطرے کی علامت ہے، ڈائریکٹر جنرل ایگریکلچر ایکسٹینشن سندھ ہدایت اللہ نے کہا کہ سندھ میں پانی کی قلت کی وجہ سے شعبہ زراعت کو مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
ڈائریکٹر جنرل ایگریکلچر ریسرچ سینٹر نور محمد بلوچ کا کہنا تھا کہ زراعت کے حوالے سے ہمیں کافی چیلنجز کا سامنا ہے، ہمیں بڑھتی ہوئی آبادی کے حساب سے اپنی پیداوار میں اضافے کے ساتھ نئی نئی پراڈکٹ متعارف کروانے کی ضرورت ہے۔
یونیسیف کے ڈاکٹر مظہر اقبال نے کہا کہ دنیا میں ہر 9 میں سے ایک شخص خوراک کی کمی کا شکار ہے جبکہ پاکستان باالخصوص سندھ میں صورتحال زیادہ خراب ہے، یہاں ہر دوسرا بچہ غذائی قلت کا شکار ہے، اس موقع پر ورلڈ فوڈ پروگرام کے سید خادم شاہ، سماجی رہنما پروفیسر مشتاق میرانی، یو این کے وحید جمالی و دیگر نے بھی خطاب کیا۔