ضمنی الیکشن کے نتائج حکومت کیلئے خطرے کی گھنٹی
تحریک انصاف نے حکومت سنبھالنے کے دو ماہ بعد پنجاب میں بیوروکریسی کی نئی صف بندی کا آغاز کردیا ہے۔
ضمنی انتخابات کے نتائج نے اسمبلیوں میں سیاسی جماعتوں کی نمبر گیم پر تو کوئی خطرناک اثر نہیں ڈالا ہے تاہم سیاسی اثرات کے لحاظ سے ضمنی انتخابات بہت اہم ثابت ہوئے ہیں۔
برسر اقتدار تحریک انصاف 25 جولائی کے جنرل الیکشن میں جیتی گئی اپنی 3 قومی اور 2 پنجاب اسمبلی کی نشستیں ہار گئی ہے جن میں چیئرمین تحریک انصاف اور وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی جیتی گئی 2 نشستیں بھی ہاتھ سے نکل گئی ہیں۔ اپوزیشن ضمنی نتائج کو حکومت کی ناکامی قرار دیکر فتح کے شادیانے بجا رہی ہے تو دوسری جانب حکومتی وزراء بھی فرما رہے ہیں کہ ہماری حکومت نے مکمل''شرافت'' کا ثبوت دیا اور کسی قسم کی ''مداخلت''کے بغیر ضمنی الیکشن منعقد کروائے، وزیر اعظم نے کہہ دیا ہے کہ ''ضمنی الیکشن میں شکست کا اندازہ تھا''۔
اپوزیشن اور حکومتی طوطوں کی رٹ اپنی جگہ تاہم غیر جانبدار تجزیہ نگار اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ضمنی الیکشن کے نتائج حکومت کیلئے''وارننگ شارٹ'' ہیں۔دو ماہ کے دوران حکومت کو حکومت کرنا نہیں آرہا، مہنگائی کا سونامی غریبوں کو بہا کر لے جا رہا ہے، ڈالر آسمان سے باتیں کرنے لگا ہے، سوئی گیس کے بعد بجلی اور پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے کیلئے حکومت کی جانب سے عوام کو اتمام حجت کے طور پر جواز پیش کیئے جا رہے ہیں۔
بعض حکومتی افراد اور تحریک انصاف کے رہنما میڈیا کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں کہ ایک منصوبہ بندی کے تحت عوام میں مایوسی پیدا کی جا رہی ہے، تحریک انصاف کے ان ''افلاطونوں'' سے یہ تو پوچھا جائے کہ حکومت کے اقدامات کے نتیجہ میں کہیں دودھ اور شہد کے چشمے پھوٹ پڑے ہیں، غریب عوام کیلئے معاشی ریلیف فراہم کیا گیا ہے تو آج تک بے خبر میڈیا کو اس کی خبر کیوں نہیں دی گئی ہے، حکومتی ترجمانوں کو فوری طور پر نکمے میڈیا کو تحریک انصاف کے نئے پاکستان کی سیر کروانا چاہیے تا کہ وہ''سچ'' دکھا سکیں اور لکھ پائیں۔ ضمنی الیکشن کے حوالے سے سب سے زیادہ مرکز نگاہ این اے131 تھا جہاں مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے تحریک انصاف کے''نوزائیدہ'' رہنما ہمایوں اختر خان کو دس ہزار ووٹ سے زائد کی لیڈ سے شکست دے دی ہے۔
ہمایوں اختر چند ہفتے قبل تحریک انصاف میں شامل ہوئے ہیں لیکن ان کی بدقسمتی کہ تحریک انصاف کے ووٹر سے لے کر مقامی رہنما تک کسی نے بھی انہیں''قبول'' نہیں کیا اور نہ ہی ان کی انتخابی مہم میں این اے131 کے مقامی کھلاڑیوں کی پرجوش اور نیک نیتی والی شرکت دکھائی دی۔ ہمایوں اختر کے سیاسی مستقبل کیلئے شکست ایک بہت بڑا دھچکا ہے اور اب اگر انہیں سیاست بچانی ہے تو عمران خان کو درخواست کر کے کوئی حکومتی عہدہ لیکر''فیس سیونگ'' کرنا چاہیے۔
پنجاب حکومت نے گزشتہ روز آئندہ 8 ماہ کے بجٹ کا اعلان کردیا ہے، جنوبی پنجاب کو وافر فنڈز فراہم کیئے گئے ہیں جبکہ کوشش کی گئی ہے کہ کم آمدن والوں پر زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے۔2 ہزار ارب روپے مالیت کے صوبائی بجٹ میں کسی نئے میگا ترقیاتی منصوبہ کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کا موقف ہے کہ یہ 8 ماہ کا بجٹ ہمارے انتخابی منشور کی مکمل عکاسی نہیں کرتا کیونکہ ہم نے تو سابقہ حکومت کے ادھورے معاملات کو ٹیک اوور کرتے ہوئے آٹھ ماہ کا بجٹ تیار کیا ہے، آئندہ سال جو بجٹ تیار ہوگا وہ ہمارے منشور کا ترجمان ہوگا۔ تحریک انصاف کی حکومت کا موقف اپنی جگہ لیکن آج کے دن تک تو یہی تاثر پایا جاتا ہے کہ معاشی محاذ پر تحریک انصاف کو مسلسل شکست کا سامنا ہے، وفاقی وزیر خزانہ جب یہ کہے گا کہ''دنیا کے سامنے کشکول لیکر پھر رہا ہوں'' تو پھر عام آدمی اپنے معاشی مستقبل کے جلد سدھار کی امید کیسے کر سکتا ہے۔
پنجاب میں نفاذ کیلئے نیا بلدیاتی نظام تیار کر لیا گیا ہے اور آئندہ چند ہفتوں میں اسے نافذ کرنے کیلئے قانونی تقاضے بھی مکمل کر لئے جائیں گے تاہم موجودہ بلدیاتی نظام کے سٹیک ہولڈرز اتنی آسانی کے ساتھ حکومت کو یہ سب کرنے نہیں دیں گے، قوی امکان ہے کہ ایک بڑی تعداد میں بلدیاتی نمائندے عدالتوں میں آئینی رٹ پٹیشن دائر کریں گے اور حکم امتناعی کی درخواست بھی کریں گے۔ پنجاب کے سینئر وزیر عبدالعلیم خان نے نئے بلدیاتی نظام کی تیاری اور عمران خان کے وژن کو اس میں محور بنانے کیلئے دن رات محنت کی ہے، تمام زاویوں سے حقائق اور اعدادوشمار کا جائزہ لینے کے بعد مسودہ قانون تیار کیا جا رہا ہے۔
مشرف دور کا بلدیاتی نظام تو پھر بھی کچھ فعال اور فائدہ مند تھا لیکن ن لیگ کے دور میں تو بلدیاتی اداروں کو عضو معطل بنا دیا گیا تھا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان جس نوعیت کا بلدیاتی نظام چاہتے ہیں اور عبدالعلیم خان نے سردار عثمان بزدار کو آن بورڈ لیتے ہوئے جو مجوزہ قانون تیار کیا ہے اگر وہ اپنی اصل روح اور درکار مالی وسائل کے ساتھ لانچ ہو گیا تو پاکستان میں ایک بڑا معاشی اور سماجی انقلاب ضرور آ سکتا ہے۔ تحریک انصاف کو بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے بھی ایک بڑا چیلنج درپیش ہے کہ اس کے پاس ضلعی و تحصیل سطح پر بلدیاتی عہدوں کیلئے موزوں امیدوار ''وافر'' تعداد میں دستیاب نہیں ہیں تاہم یونین کونسل کی سطح پر تحریک انصاف کے پاس بہت سی آپشنز موجود ہیں۔ ضمنی الیکشن کے بعد اب تحریک انصاف کیلئے لاہور میں بلدیاتی الیکشن میں بڑی کامیابی حاصل کرنا مزید مشکل ہوگا لہذا تحریک انصاف کی قیادت کو اس بارے ابھی سے حکمت عملی طے کر لینا چاہیے۔
''دیر آید درست آید''، تحریک انصاف نے حکومت سنبھالنے کے دو ماہ بعد پنجاب میں بیوروکریسی کی نئی صف بندی کا آغاز کردیا ہے۔14 صوبائی محکموں کے سیکرٹریز سمیت 5 ڈویژنل کمشنرز کو تبدیل کردیا گیا ہے،آئندہ چند روز میں سیکرٹری، کمشنر اور ڈی جی کے عہدے پر مزید تبادلے ہوں گے جس کے بعد ڈی پی اوز اور ڈپٹی کمشنرز کے تقرر وتبادلے کا مرحلہ شروع ہوگا۔ چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب پہلے ہی تبدیل کیے جا چکے ہیں۔
دو ماہ سے پنجاب حکومت بالخصوص وزیر اعلی سردار عثمان بزدار جس شدید اور سخت تنقید کا شکار تھے اس کی ایک بڑی وجہ نگران دور حکومت کی تعینات کردہ بیوروکریسی بھی تھی جس میں اکثریت ن لیگ کے کافی قریب سمجھی جاتی ہے۔ چیف سیکرٹری پنجاب یوسف نسیم کھوکھر اور آئی جی پنجاب پولیس امجد سلیمی دونوں ہی بڑے محنتی اور فعال افسر سمجھے جاتے ہیں، یہ نہ تو پتھر ہیں اور نہ ہی موم بلکہ یہ ٹیم ورک پر یقین رکھتے ہیں لہذا وہ اپنی ٹیم کو ساتھ لیکر چلتے ہوئے تحریک انصاف کی حکومت کیلئے فائدہ مند ثابت ہوں گے، حکومت کی پالیسیاں کامیاب ہوں گی تو عوام کو بھی فائدہ ہوگا۔
برسر اقتدار تحریک انصاف 25 جولائی کے جنرل الیکشن میں جیتی گئی اپنی 3 قومی اور 2 پنجاب اسمبلی کی نشستیں ہار گئی ہے جن میں چیئرمین تحریک انصاف اور وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی جیتی گئی 2 نشستیں بھی ہاتھ سے نکل گئی ہیں۔ اپوزیشن ضمنی نتائج کو حکومت کی ناکامی قرار دیکر فتح کے شادیانے بجا رہی ہے تو دوسری جانب حکومتی وزراء بھی فرما رہے ہیں کہ ہماری حکومت نے مکمل''شرافت'' کا ثبوت دیا اور کسی قسم کی ''مداخلت''کے بغیر ضمنی الیکشن منعقد کروائے، وزیر اعظم نے کہہ دیا ہے کہ ''ضمنی الیکشن میں شکست کا اندازہ تھا''۔
اپوزیشن اور حکومتی طوطوں کی رٹ اپنی جگہ تاہم غیر جانبدار تجزیہ نگار اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ضمنی الیکشن کے نتائج حکومت کیلئے''وارننگ شارٹ'' ہیں۔دو ماہ کے دوران حکومت کو حکومت کرنا نہیں آرہا، مہنگائی کا سونامی غریبوں کو بہا کر لے جا رہا ہے، ڈالر آسمان سے باتیں کرنے لگا ہے، سوئی گیس کے بعد بجلی اور پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے کیلئے حکومت کی جانب سے عوام کو اتمام حجت کے طور پر جواز پیش کیئے جا رہے ہیں۔
بعض حکومتی افراد اور تحریک انصاف کے رہنما میڈیا کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں کہ ایک منصوبہ بندی کے تحت عوام میں مایوسی پیدا کی جا رہی ہے، تحریک انصاف کے ان ''افلاطونوں'' سے یہ تو پوچھا جائے کہ حکومت کے اقدامات کے نتیجہ میں کہیں دودھ اور شہد کے چشمے پھوٹ پڑے ہیں، غریب عوام کیلئے معاشی ریلیف فراہم کیا گیا ہے تو آج تک بے خبر میڈیا کو اس کی خبر کیوں نہیں دی گئی ہے، حکومتی ترجمانوں کو فوری طور پر نکمے میڈیا کو تحریک انصاف کے نئے پاکستان کی سیر کروانا چاہیے تا کہ وہ''سچ'' دکھا سکیں اور لکھ پائیں۔ ضمنی الیکشن کے حوالے سے سب سے زیادہ مرکز نگاہ این اے131 تھا جہاں مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے تحریک انصاف کے''نوزائیدہ'' رہنما ہمایوں اختر خان کو دس ہزار ووٹ سے زائد کی لیڈ سے شکست دے دی ہے۔
ہمایوں اختر چند ہفتے قبل تحریک انصاف میں شامل ہوئے ہیں لیکن ان کی بدقسمتی کہ تحریک انصاف کے ووٹر سے لے کر مقامی رہنما تک کسی نے بھی انہیں''قبول'' نہیں کیا اور نہ ہی ان کی انتخابی مہم میں این اے131 کے مقامی کھلاڑیوں کی پرجوش اور نیک نیتی والی شرکت دکھائی دی۔ ہمایوں اختر کے سیاسی مستقبل کیلئے شکست ایک بہت بڑا دھچکا ہے اور اب اگر انہیں سیاست بچانی ہے تو عمران خان کو درخواست کر کے کوئی حکومتی عہدہ لیکر''فیس سیونگ'' کرنا چاہیے۔
پنجاب حکومت نے گزشتہ روز آئندہ 8 ماہ کے بجٹ کا اعلان کردیا ہے، جنوبی پنجاب کو وافر فنڈز فراہم کیئے گئے ہیں جبکہ کوشش کی گئی ہے کہ کم آمدن والوں پر زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے۔2 ہزار ارب روپے مالیت کے صوبائی بجٹ میں کسی نئے میگا ترقیاتی منصوبہ کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کا موقف ہے کہ یہ 8 ماہ کا بجٹ ہمارے انتخابی منشور کی مکمل عکاسی نہیں کرتا کیونکہ ہم نے تو سابقہ حکومت کے ادھورے معاملات کو ٹیک اوور کرتے ہوئے آٹھ ماہ کا بجٹ تیار کیا ہے، آئندہ سال جو بجٹ تیار ہوگا وہ ہمارے منشور کا ترجمان ہوگا۔ تحریک انصاف کی حکومت کا موقف اپنی جگہ لیکن آج کے دن تک تو یہی تاثر پایا جاتا ہے کہ معاشی محاذ پر تحریک انصاف کو مسلسل شکست کا سامنا ہے، وفاقی وزیر خزانہ جب یہ کہے گا کہ''دنیا کے سامنے کشکول لیکر پھر رہا ہوں'' تو پھر عام آدمی اپنے معاشی مستقبل کے جلد سدھار کی امید کیسے کر سکتا ہے۔
پنجاب میں نفاذ کیلئے نیا بلدیاتی نظام تیار کر لیا گیا ہے اور آئندہ چند ہفتوں میں اسے نافذ کرنے کیلئے قانونی تقاضے بھی مکمل کر لئے جائیں گے تاہم موجودہ بلدیاتی نظام کے سٹیک ہولڈرز اتنی آسانی کے ساتھ حکومت کو یہ سب کرنے نہیں دیں گے، قوی امکان ہے کہ ایک بڑی تعداد میں بلدیاتی نمائندے عدالتوں میں آئینی رٹ پٹیشن دائر کریں گے اور حکم امتناعی کی درخواست بھی کریں گے۔ پنجاب کے سینئر وزیر عبدالعلیم خان نے نئے بلدیاتی نظام کی تیاری اور عمران خان کے وژن کو اس میں محور بنانے کیلئے دن رات محنت کی ہے، تمام زاویوں سے حقائق اور اعدادوشمار کا جائزہ لینے کے بعد مسودہ قانون تیار کیا جا رہا ہے۔
مشرف دور کا بلدیاتی نظام تو پھر بھی کچھ فعال اور فائدہ مند تھا لیکن ن لیگ کے دور میں تو بلدیاتی اداروں کو عضو معطل بنا دیا گیا تھا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان جس نوعیت کا بلدیاتی نظام چاہتے ہیں اور عبدالعلیم خان نے سردار عثمان بزدار کو آن بورڈ لیتے ہوئے جو مجوزہ قانون تیار کیا ہے اگر وہ اپنی اصل روح اور درکار مالی وسائل کے ساتھ لانچ ہو گیا تو پاکستان میں ایک بڑا معاشی اور سماجی انقلاب ضرور آ سکتا ہے۔ تحریک انصاف کو بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے بھی ایک بڑا چیلنج درپیش ہے کہ اس کے پاس ضلعی و تحصیل سطح پر بلدیاتی عہدوں کیلئے موزوں امیدوار ''وافر'' تعداد میں دستیاب نہیں ہیں تاہم یونین کونسل کی سطح پر تحریک انصاف کے پاس بہت سی آپشنز موجود ہیں۔ ضمنی الیکشن کے بعد اب تحریک انصاف کیلئے لاہور میں بلدیاتی الیکشن میں بڑی کامیابی حاصل کرنا مزید مشکل ہوگا لہذا تحریک انصاف کی قیادت کو اس بارے ابھی سے حکمت عملی طے کر لینا چاہیے۔
''دیر آید درست آید''، تحریک انصاف نے حکومت سنبھالنے کے دو ماہ بعد پنجاب میں بیوروکریسی کی نئی صف بندی کا آغاز کردیا ہے۔14 صوبائی محکموں کے سیکرٹریز سمیت 5 ڈویژنل کمشنرز کو تبدیل کردیا گیا ہے،آئندہ چند روز میں سیکرٹری، کمشنر اور ڈی جی کے عہدے پر مزید تبادلے ہوں گے جس کے بعد ڈی پی اوز اور ڈپٹی کمشنرز کے تقرر وتبادلے کا مرحلہ شروع ہوگا۔ چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب پہلے ہی تبدیل کیے جا چکے ہیں۔
دو ماہ سے پنجاب حکومت بالخصوص وزیر اعلی سردار عثمان بزدار جس شدید اور سخت تنقید کا شکار تھے اس کی ایک بڑی وجہ نگران دور حکومت کی تعینات کردہ بیوروکریسی بھی تھی جس میں اکثریت ن لیگ کے کافی قریب سمجھی جاتی ہے۔ چیف سیکرٹری پنجاب یوسف نسیم کھوکھر اور آئی جی پنجاب پولیس امجد سلیمی دونوں ہی بڑے محنتی اور فعال افسر سمجھے جاتے ہیں، یہ نہ تو پتھر ہیں اور نہ ہی موم بلکہ یہ ٹیم ورک پر یقین رکھتے ہیں لہذا وہ اپنی ٹیم کو ساتھ لیکر چلتے ہوئے تحریک انصاف کی حکومت کیلئے فائدہ مند ثابت ہوں گے، حکومت کی پالیسیاں کامیاب ہوں گی تو عوام کو بھی فائدہ ہوگا۔