معاشی بحران پر قابو پانے کیلئے فوری اقدامات کی ضرورت
پاکستان کی موجودہ حکومت کوآئی ایم ایف کے پروگرام میں جانے تک حکومت کو متبادل انتظام کرنا ہے۔
DUBAI:
حکومت کی جانب سے بروقت اقدامات کرنے میں تاخیر کے باعث اقتصادی و مالی بحران قابو سے باہر ہوتا جا رہا ہے اور بگڑتی اقتصادی صورتحال کی وجہ سے ہر گزرتے دن کے ساتھ حکومتی اضطراب و پریشانی میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
ایک جانب مہنگائی زور پکڑ رہی ہے تو دوسری جانب ڈالر بپھرتا جارہا ہے جس کے اثرات تین روز قبل ہونیوالے ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت کے امیدواروں کی اپنے قائد عمران خان کی چھوڑی ہوئی نشستوں پر ناکامی کی صورت نمودار ہوچکے ہیں اور جن نشستوں پر تحریک انصاف کے امیدوار کامیاب ہوئے وہاں بھی عام انتخابات کے مقابلہ میں جیت کے مارجن میں بڑے پیمانے پر کمی واقع ہوئی ہے جو تحریک انصاف پر عوامی عدم اعتماد کا منہ بولتا اظہار ہے یہی نہیں بلکہ حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج نے تحریک انصاف کی دھرنا سیاست پر بھی سوال کھڑا کردیا ہے کیونکہ جن چار حلقوں کی بنیاد پر پاکستان تحریک انصاف نے دھرنا سیاست کی داغ بیل ڈالی تھی اور اسلام آباد میں ایک سو چھبیس روزہ دھرنا دیا اور اسلام آباد لاک ڈاون کیا گیا وہ چاروں حلقے آج بھی پاکستان مسلم لیگ(ن)کے پاس ہیں۔
ضمنی انتخابات میں شکست کے محرکات کا جائزہ لینے کے لئے وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں دی جانیوالی بریفنگ میںاگرچہ حکومتی مصروفیات اور پارٹی اختلافات کو شکست کی بنیادی وجہ قراردیا گیا ہے جبکہ تحریک انصاف کے بعض رہنما اس کا ملبہ میڈیا پر ڈال رہے ہیں اور میڈیا کی حکومت سے ناراضگی کو وجہ قرار دے رہے ہیں۔
حکومت کو ادراک ہونا چاہیئے کہ بائیس سال کی جدوجہد سے جاگنے والی عوام انہیں سونے نہیں دے گی اور عوام انہیں انکے وعدے یاد دلاتے رہیں گے اور ابھی بھی وقت ہے کہ حکومت سیاسی نعروں سے باہر آکر عوام کے دلوں میں جگائی گئی امنگوں کی ترجمانی کرے تاکہ عوام کو عملی طور پر ریلیف میسر آئے ورنہ جس تیزی کے ساتھ تبدیلی کی دعویدار حکومت کے خلاف عوام تیور بدل رہی ہے وہ حکومت کیلئے خطرے کی علامت ہے اور وہ جلد سڑکوں پر ہونگے۔ضمنی انتخابات کے امتحان میں شکست کے بعد ابھی ڈیڑھ دوماہ بعد حکومت کیلئے دوسرا امتحان آنے کو ہے کیونکہ ڈیڑھ دوماہ بعد موسم سرما آنے کو ہے اور گیس کا بحران انگڑائیاں لے رہا ہے۔
ایک جانب عام لوگ ہیں تو دوسری طرف برآمدی انڈسٹری ہے کیونکہ اگر گھریلو صارفین کیلئے گیس کی لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے تو عوامی ردعمل آئے گا اور اگر صنعتوں کیلئے گیس کی لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے تو برآمدی شعبوں کی پیداوار متاثر ہونے سے برآمدی سودے متاثر ہونگے اور ملکی برآمدات متاثر ہونے کا اندیشہ ہے، یہی وجہ ہے کہ ای سی سی کے اجلاس میں بھی اقتصادی ٹیم گیس لوڈ مینجمنٹ پلان پر سر جوڑ کر بیٹھے رہی ہے اور تفصیلی جائزہ کے بعد بالآخر ٹیکسٹائل، لیدر اور گارمنٹس سمیت پانچ زیرو ریٹڈ شعبوں کودسمبر تا فروری کے دوران سخت سردی کے موسم میں 100آر ایل این جی کی فراہمی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
البتہ مارچ تا نومبر کے عام دنوں میں پچاس فیصد آر ایل این جی اور پچاس فیصد سوئی گیس فراہم ہوگی۔ اب اگر حکومت پہلی سردیوں میں گیس کے بحران سے دوچار ہوتی ہے تو یہ حکومتی کارکردگی اور گورننس پر ایک اور بڑا سوال ہوگا۔ کیونکہ حکومت نے ملک کو درپیش مالی بحران کے حل میں غیرضروری تاخیر سے کام لیا ہے اب اگرچہ آئی ایم ایف،عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے ساتھ ساتھ دوست ممالک سے امداد کے تمام آپشنز پر کام تیزکردیا ہے اور اس وقت بھی وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب و وفاقی سیکرٹری توانائی چین میں موجود ہیں اور وفاقی سیکرٹری خزانہ چین میں مشترکہ ورکنگ گروپ کے اجلاس میں شریک ہیں جبکہ وزیراعظم عمران خان بھی آئندہ ماہ کے پہلے عشرے چین جا رہے ہیں جہاں دونوں ممالک کے درمیان اہم معاہدوں پر دستخط متوقع ہیں مگر ان پروگرام کے میچیور ہونے میں وقت لگے گا اور حالات ہیں کہ دن بدن قابو سے باہر ہوتے دکھائی دے رہے ہیں اور پاکستان کو آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانے تک بھی ملک کو چلانے کیلئے کم ازکم دو سے تین ارب ڈالر درکار ہیں۔
پاکستان کی موجودہ حکومت کوآئی ایم ایف کے پروگرام میں جانے تک حکومت کو متبادل انتظام کرنا ہے کیونکہ پاکستان کے درآمدی بل میں آئل امپورٹ بل کا حصہ بہت زیادہ ہے اور صرف یو اے ای سے سالانہ 4.75 ارب ڈالر مالیت کا تیل درآمد کیا جاتا ہے۔ لہٰذا اگر پاکستان سعودی عرب کے ساتھ ساتھ یو اے ای سے بھی ادھار ادائیگیوں پر تیل حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو حکومت کو درپیش مالی دباو میں خاطر خواہ کمی واقع ہوگی ۔
دوسری جانب حکومت کی جانب سے 182 ارب روپے اضافی ٹیکس عائد کرنے اور چالیس ارب روپے کی ٹیکس ریلیف دینے کیلئے سمری کی بھی لاء ڈویژن سے توثیق ہو چکی ہے اور اس کا بھی اگلے چند روز میں باضابطہ نوٹیفکیشن جاری ہونے کی توقع ہے جس کے ذریعئے چھ ہزار کے لگ بھگ اشیاء پر عائد ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی دو فیصد سے بڑھا کر تین فیصد کئے جانیکی توقع ہے۔ اس اقدام سے ایف بی آر کو پچاس ارب روپے سے زائد کا اضافی ریونیو حاصل ہوگا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی کی مد میں ایف بی آر کو 80 ارب روپے کا ریونیو حاصل ہو رہا تھا لیکن اب یہ شرح دو فیصد سے بڑھا کر تین فیصد کرنے سے اس مد میں حاصل ہونے والا ریونیو 130 ارب روپے کے لگ بھگ ہوجائے گا۔
اسی طرح ایف بی آر کی جانب سے مجموعی طور پر آٹھ سو سے زائد اشیاء پر ریگولیٹری ڈیوٹی کی شرح اوسطً پانچ فیصد بڑھائی جا رہی ہے جبکہ تین سو سے زائد نئی اشیائپر ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی جارہی ہے اس اقدام سے ایف بی آر کو ساٹھ ارب روپے کے لگ بھگ اضافی ریونیو حاصل ہوگا مگر اس سے حکومت پر عوامی دباؤ بڑھے گا اور پھر آئی ایم ایف سے آٹھ سے دس ارب ، ایشیائی ترقی بینک سے سات ارب اور عالمی بینک سے دو ارب ڈالر قرضہ لینا ہے انکی اپنی شرائط ہونگی۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جو تنقید تحریک انصاف اس سے پہلے ن لیگ کی حکومت پر کرتی آئی ہے وہ دن دور نہیں جب خود اسی تنقید کی زد میں ہوگی۔وزیراعظم عمران خان پوری طرح متحرک ہیں لیکن اسکے ساتھ حکومتی ٹیم کو بھی جان مارنا ہوگی اور قیادت کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلنا ہوگا۔
حکومت کی جانب سے بروقت اقدامات کرنے میں تاخیر کے باعث اقتصادی و مالی بحران قابو سے باہر ہوتا جا رہا ہے اور بگڑتی اقتصادی صورتحال کی وجہ سے ہر گزرتے دن کے ساتھ حکومتی اضطراب و پریشانی میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
ایک جانب مہنگائی زور پکڑ رہی ہے تو دوسری جانب ڈالر بپھرتا جارہا ہے جس کے اثرات تین روز قبل ہونیوالے ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت کے امیدواروں کی اپنے قائد عمران خان کی چھوڑی ہوئی نشستوں پر ناکامی کی صورت نمودار ہوچکے ہیں اور جن نشستوں پر تحریک انصاف کے امیدوار کامیاب ہوئے وہاں بھی عام انتخابات کے مقابلہ میں جیت کے مارجن میں بڑے پیمانے پر کمی واقع ہوئی ہے جو تحریک انصاف پر عوامی عدم اعتماد کا منہ بولتا اظہار ہے یہی نہیں بلکہ حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج نے تحریک انصاف کی دھرنا سیاست پر بھی سوال کھڑا کردیا ہے کیونکہ جن چار حلقوں کی بنیاد پر پاکستان تحریک انصاف نے دھرنا سیاست کی داغ بیل ڈالی تھی اور اسلام آباد میں ایک سو چھبیس روزہ دھرنا دیا اور اسلام آباد لاک ڈاون کیا گیا وہ چاروں حلقے آج بھی پاکستان مسلم لیگ(ن)کے پاس ہیں۔
ضمنی انتخابات میں شکست کے محرکات کا جائزہ لینے کے لئے وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں دی جانیوالی بریفنگ میںاگرچہ حکومتی مصروفیات اور پارٹی اختلافات کو شکست کی بنیادی وجہ قراردیا گیا ہے جبکہ تحریک انصاف کے بعض رہنما اس کا ملبہ میڈیا پر ڈال رہے ہیں اور میڈیا کی حکومت سے ناراضگی کو وجہ قرار دے رہے ہیں۔
حکومت کو ادراک ہونا چاہیئے کہ بائیس سال کی جدوجہد سے جاگنے والی عوام انہیں سونے نہیں دے گی اور عوام انہیں انکے وعدے یاد دلاتے رہیں گے اور ابھی بھی وقت ہے کہ حکومت سیاسی نعروں سے باہر آکر عوام کے دلوں میں جگائی گئی امنگوں کی ترجمانی کرے تاکہ عوام کو عملی طور پر ریلیف میسر آئے ورنہ جس تیزی کے ساتھ تبدیلی کی دعویدار حکومت کے خلاف عوام تیور بدل رہی ہے وہ حکومت کیلئے خطرے کی علامت ہے اور وہ جلد سڑکوں پر ہونگے۔ضمنی انتخابات کے امتحان میں شکست کے بعد ابھی ڈیڑھ دوماہ بعد حکومت کیلئے دوسرا امتحان آنے کو ہے کیونکہ ڈیڑھ دوماہ بعد موسم سرما آنے کو ہے اور گیس کا بحران انگڑائیاں لے رہا ہے۔
ایک جانب عام لوگ ہیں تو دوسری طرف برآمدی انڈسٹری ہے کیونکہ اگر گھریلو صارفین کیلئے گیس کی لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے تو عوامی ردعمل آئے گا اور اگر صنعتوں کیلئے گیس کی لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے تو برآمدی شعبوں کی پیداوار متاثر ہونے سے برآمدی سودے متاثر ہونگے اور ملکی برآمدات متاثر ہونے کا اندیشہ ہے، یہی وجہ ہے کہ ای سی سی کے اجلاس میں بھی اقتصادی ٹیم گیس لوڈ مینجمنٹ پلان پر سر جوڑ کر بیٹھے رہی ہے اور تفصیلی جائزہ کے بعد بالآخر ٹیکسٹائل، لیدر اور گارمنٹس سمیت پانچ زیرو ریٹڈ شعبوں کودسمبر تا فروری کے دوران سخت سردی کے موسم میں 100آر ایل این جی کی فراہمی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
البتہ مارچ تا نومبر کے عام دنوں میں پچاس فیصد آر ایل این جی اور پچاس فیصد سوئی گیس فراہم ہوگی۔ اب اگر حکومت پہلی سردیوں میں گیس کے بحران سے دوچار ہوتی ہے تو یہ حکومتی کارکردگی اور گورننس پر ایک اور بڑا سوال ہوگا۔ کیونکہ حکومت نے ملک کو درپیش مالی بحران کے حل میں غیرضروری تاخیر سے کام لیا ہے اب اگرچہ آئی ایم ایف،عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے ساتھ ساتھ دوست ممالک سے امداد کے تمام آپشنز پر کام تیزکردیا ہے اور اس وقت بھی وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب و وفاقی سیکرٹری توانائی چین میں موجود ہیں اور وفاقی سیکرٹری خزانہ چین میں مشترکہ ورکنگ گروپ کے اجلاس میں شریک ہیں جبکہ وزیراعظم عمران خان بھی آئندہ ماہ کے پہلے عشرے چین جا رہے ہیں جہاں دونوں ممالک کے درمیان اہم معاہدوں پر دستخط متوقع ہیں مگر ان پروگرام کے میچیور ہونے میں وقت لگے گا اور حالات ہیں کہ دن بدن قابو سے باہر ہوتے دکھائی دے رہے ہیں اور پاکستان کو آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانے تک بھی ملک کو چلانے کیلئے کم ازکم دو سے تین ارب ڈالر درکار ہیں۔
پاکستان کی موجودہ حکومت کوآئی ایم ایف کے پروگرام میں جانے تک حکومت کو متبادل انتظام کرنا ہے کیونکہ پاکستان کے درآمدی بل میں آئل امپورٹ بل کا حصہ بہت زیادہ ہے اور صرف یو اے ای سے سالانہ 4.75 ارب ڈالر مالیت کا تیل درآمد کیا جاتا ہے۔ لہٰذا اگر پاکستان سعودی عرب کے ساتھ ساتھ یو اے ای سے بھی ادھار ادائیگیوں پر تیل حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو حکومت کو درپیش مالی دباو میں خاطر خواہ کمی واقع ہوگی ۔
دوسری جانب حکومت کی جانب سے 182 ارب روپے اضافی ٹیکس عائد کرنے اور چالیس ارب روپے کی ٹیکس ریلیف دینے کیلئے سمری کی بھی لاء ڈویژن سے توثیق ہو چکی ہے اور اس کا بھی اگلے چند روز میں باضابطہ نوٹیفکیشن جاری ہونے کی توقع ہے جس کے ذریعئے چھ ہزار کے لگ بھگ اشیاء پر عائد ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی دو فیصد سے بڑھا کر تین فیصد کئے جانیکی توقع ہے۔ اس اقدام سے ایف بی آر کو پچاس ارب روپے سے زائد کا اضافی ریونیو حاصل ہوگا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی کی مد میں ایف بی آر کو 80 ارب روپے کا ریونیو حاصل ہو رہا تھا لیکن اب یہ شرح دو فیصد سے بڑھا کر تین فیصد کرنے سے اس مد میں حاصل ہونے والا ریونیو 130 ارب روپے کے لگ بھگ ہوجائے گا۔
اسی طرح ایف بی آر کی جانب سے مجموعی طور پر آٹھ سو سے زائد اشیاء پر ریگولیٹری ڈیوٹی کی شرح اوسطً پانچ فیصد بڑھائی جا رہی ہے جبکہ تین سو سے زائد نئی اشیائپر ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی جارہی ہے اس اقدام سے ایف بی آر کو ساٹھ ارب روپے کے لگ بھگ اضافی ریونیو حاصل ہوگا مگر اس سے حکومت پر عوامی دباؤ بڑھے گا اور پھر آئی ایم ایف سے آٹھ سے دس ارب ، ایشیائی ترقی بینک سے سات ارب اور عالمی بینک سے دو ارب ڈالر قرضہ لینا ہے انکی اپنی شرائط ہونگی۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جو تنقید تحریک انصاف اس سے پہلے ن لیگ کی حکومت پر کرتی آئی ہے وہ دن دور نہیں جب خود اسی تنقید کی زد میں ہوگی۔وزیراعظم عمران خان پوری طرح متحرک ہیں لیکن اسکے ساتھ حکومتی ٹیم کو بھی جان مارنا ہوگی اور قیادت کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلنا ہوگا۔