محکمہ تعلیم کا کارنامہ مریم مختار کالج میں 200 طالبات اور ایک بھی استاد نہیں

لیاقت آباد میں ایک سال قبل شروع کیے جانیوالے کالج میں تدریسی و غیر تدریسی عملہ تعینات ہی نہیں کیاگیا

کالج شروع ہونے سے پہلے ہی بجلی کا تقریباً 32 لاکھ روپے کا بل ہے جو ادا نہیں کیا گیا،اساتذہ کا مستقل انتظام کررہے ہیں،پرنسپل۔ فوٹو: فائل

SYDNEY:
فلائنگ آفیسر شہیدمریم مختارکے نام سے منسوب گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج لیاقت آباد میں اساتذہ کی تعیناتی کے بغیر داخلے ہی دے دیے گئے جس کے باعث 200 سے زائد طالبات کا مستقبل داؤ پر لگ گیا۔

محکمہ تعلیم سندھ شہید فلائنگ آفیسر مریم مختار گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج لیاقت آباد میں تدریسی و غیر تدریسی عملہ تعینات کرنے میں ناکام ہوگیا، عملے کی کمی کے باعث طالبات اپنی مدد آپ کے تحت پڑھائی کرنے لگیں،مل جل کر نصاب میں موجود مواد ایک دوسرے کوسمجھانے لگیں ایک سال قبل شروع کیے جانے والے کالج میں مرکزی داخلہ پالیسی کے علاوہ اوپن میرٹ پر داخلے دیے گئے ہیں کالج میں رواں ماہ یکم اکتوبر سے کلاسزبھی شروع ہوگئی ہیں لیکن ایک بھی ٹیچر نہ ہونے کے باعث طلبا کا زیادہ تر وقت باتوں میں گزر جاتا ہے،محکمہ کالجزنے مذکورہ کالج میں 14 فروری 2018 میں پرنسپل کوتو تعینات کردیا لیکن دیگر عملہ تعینات کرنابھول گیا۔

کالج پرنسپل ثمینہ شاہد نے ایکسپریس کو بتایا کہ جس دن میں نے بطور پرنسپل اس کالج میں قدم رکھا تو تو عجیب ہی صورتحال تھی،کالج کی بلڈنگ تو شاندار تعمیر کی گئی ہے لیکن بجلی اور گیس موجود نہیں کالج شروع ہونے سے پہلے ہی بجلی کا تقریباً 32 لاکھ روپے کا بل ہے جو ادا نہیں کیا گیا، تمام صورتحال سے متعلق ریجنل ڈائریکٹر کو آگاہ کرچکے ہیں، ہنگامی بنیاد پر طالبات کو پڑھانے کیلیے کچھ ریٹائر پروفیسرز کی مدد لی جارہی ہے،جو وقتی طور پر اب طالبات کو تعلیم سے روشناس کررہے ہیں لیکن مستقل عملہ نہ ہونے کے سبب طالبات تذبذب کا شکار ہیں،میری کوشش ہوتی ہے کہ پری انجینئرنگ اور میڈیکل کو ملا کر ایک کلاس مسلسل لوں۔


دوسری جانب گیارہویں جماعت کی طالبہ جیسیکا اعجاز نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا میں نے کیپ فارم کے ذریعے اس کالج میں داخلہ لیاتھا اور جب مجھے علم ہوا کہ میرا داخلہ مریم مختار کالج میں ہوا ہے تو میں یہ سن کر بہت خوش ہوئی تھی کیونکہ میری خواہش ہے کہ میں مریم مختار کی طرح فلائنگ آفیسر بنوں کیوں کہ میں مریم مختار سے بہت زیادہ متاثر ہوں لیکن جب میں اس کالج میں آئی تو بہت زیادہ نا امید ہوئی کیونکہ اس کالج میں نا تو استاد ہیں اور نہ ہی عملہ ہے،ابھی تک ہماری سائنس کی لیب بھی نہیں ہوئی۔

جیسیکا نے مزید کہاکہ صرف کالج کی پرنسپل ہیں جو ہمیں پڑھا دیتی ہیں یا ہمارے لیے اساتذہ کا انتظام کرتی رہتی ہیں لیکن جب مختلف اساتذہ آکر پڑھاتے ہیں تو ہمارا دماغ مسلسل ادھر ادھر اور تذبذب کا شکار رہتا ہے پوری طرح سے سمجھ نہیں آتاایک سوال کے جواب میں جیسیکا نے کہا کہ جب ٹیچرکلاس میں نہیں ہوتے تو ہم طالبات آپس میں باتیں کرکے اپنا وقت گزارتے ہیں۔

ریجنل ڈائریکٹر کالجز محمد معشوق بلوچ کا کہنا ہے کہ فوری طور پر اساتذہ کا پروپوزل دیدیا ہے،کالج میں دوسرے کالج کا غیر تدریسی عملہ شفٹ کرنے کا پروپوزل بھی تیار ہے تمام معاملات ایک ہفتے میں حل ہو جائیں گے جس کے بعد طالبات اپنی کلاسز وقت پر لے سکیں گی،طالبات نے کہا کہ کیا یہ کراچی کے طلبا کاتعلیمی قتل نہیں؟، تعلیمی سال کا قیمتی وقت ضائع ہورہاہے۔
Load Next Story