بجٹ الفاظ کا گورکھ دھندہ ہے مہنگائی کا طوفان آئے گا

سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافہ ناقابل قبول ہے، حکومت فیصلہ واپس لے، ایکسپریس کے زیراہتمام فورم میں تاجروں اورصنعت کاروں۔۔۔

امن و امان کے حوالے سے کوئی واضح بات نہیں کی گئی، ایکسپریس کے زیر اہتمام فورم میں تاجروں اور صنعت کاروں کا اظہار خیال۔ فوٹو : فائل

ISLAMABAD:
وفاقی بجٹ2013 کے حوالے سے روزنامہ ایکسپریس کے زیراہمتام ایک مذاکرے کا انعقاد کیا گیا جس میں مختلف شعبوں کے ماہرین نے اپنے خیالات کا اظہا رکیا کو قارئین کے لیے پیش خدمت ہے

حاجی شفیق الرحمن (سابق صدر کراچی چیمبر آف کامرس)

وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار کی تقریر سے تو ایسا لگتا ہے کہ ملک میں جاری کرپشن کو روکنے کے لیے حکومت کو فرشتے مل گئے ہیں اس ملک میں مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ ٹیکس کی چوری ہے حیرت انگیز طور پر بجٹ میں کرپشن کو روکنے کے حوالے سے حکومت کی جانب سے کوئی تجویز سامنے نہیں آئی جس لگتا ہے کہ حکومت ٹیکس چوری کو روکنے میں سنجیدہ نہیں ہے غریبوں کی بات تو کی گئی لیکن عملی طور پر اس بجٹ میں ان کے لیے کچھ نہیں ہے بھاری مینڈیٹ والی حکومت سے عام آدمی کو ریلیف ملنے کی توقع تھی جو پوری نہیں ہوسکی۔



ریلوے کی بحالی کے لیے31 ارب روپے مختص ضرور کیے گئے ہیں مگر اس سے ریلوے کی بحالی ممکن نہیں ہے اس بڑے قومی ادارے کو ٹرانسپورٹ مافیا نے تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے لیکن اس میں بھی سیاستدانوں کا بڑا ہاتھ ہے۔حکومت کی جانب سے شادی ہالوں پر جو ٹیکس عائد کرنے کی بات کی گئی ہے وہ کسی بھی صورت مناسب نہیں ہے اگر ٹیکس ہی عائد کرنا ہے تو ایسے شادی ہالوں پر کیا جائے جہاں تین سو یا اس سے زائد مہمانوں کے لیے بکنگ کرائی جاتی ہے۔ بظاہر تو وفاقی بجٹ الفاظ کا گورکھ دھندا معلوم ہوتا ہے، تعمیراتی شعبے پر فی اسکوئر فٹ 50 روپے کے نئے ٹیکس عائد ہونے سے غریب آدمی کو 100 فٹ کے گھر پر50 ہزار روپے کا اضافی ٹیکس کا بوجھ لاد دیا گیا ہے۔

احمد چنائے (چیف سی پی ایل سی)

بجٹ میں قیام امن اور دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے بظاہر کوئی اقدامات نظر نہیں آئے ہیں حالانکہ سندھ خیبرپختونخوا اور بلوچستان مستقل بدامنی کی زد میں ہیں یہ درست ہے کہ قیام امن کی ذمے داری صوبائی حکومتوں کی ہے لیکن وفاق کو بھی اس ضمن میں اپنی ذمے داریوں کا احساس کرتے ہوئے تینوں صوبوں میں مستقل بنیادوں پر قیام امن کے لیے بجٹ میں خصوصی فنڈ مختص کرنے کی ضرورت ہے، بجٹ میں سیلزٹیکس کی شرح میں ایک فیصد اضافے کے براہ راست منفی اثرات عام آدمی پر مرتب ہوں گے تاہم غیررجسٹرڈ افراد پر سیلزٹیکس کی شرح میں دو فیصد کا اضافہ، ہرسطح پر ودہولڈنگ ٹیکس کے نفاذ، خسارے میں کمی کے لیے بروئے کار لائے گئے اقدامات، سرکاری اداروں کے لیے نئی گاڑیوں کی خریداری پر پابندی عائد ہونے جیسے اقدامات لائق تحسین ہیں،



اسی طرح بجٹ میں متحرک جائیدادوں پر ٹیکس عائد ہونے سے دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کو فروغ حاصل ہوگا، انکم سپورٹ پروگرام جاری رکھنا اچھااقدام ہے لیکن اس پروگرام کے لیے کسی حد کا تعین ضروری نہیں ہے، اعلان کردہ وفاقی بجٹ اقدامات سے افراط زر کی شرح پر قابو نہیں پایا جاسکے گا بلکہ اس کی شرح میں اضافے کے خدشات موجود ہیں ۔ بدامنی سے متاثرہ صوبوں سندھ، کے پی کے اور بلوچستان میں صورتحال کوبہتر بنانے کے لیے بجٹ میں کتنے فنڈز رکھے گئے ہیں وزیر خزانہ نے اس حوالے سے کوئی ذکر نہیں کیا کیوں کہ ملک کی معاشی صورت حال کو بہتر بنانا ہے تو پھر اس کا دارومدار امن و امان سے منسلک ہے خاص طور پر کراچی جو کہ ملک کا معاشی حب ہے یہاں امن و امان کی صورتحال کو مستقل بنیادوں پر بہتر بنانا اور اسے برقرار رکھنا نہایت اہمیت کا حامل ہے۔

وفاقی بجٹ میں مختلف وزارتوں اور وزیر اعظم کے صوابدیدی فنڈز کو ختم کرنے کا اعلان بہت اچھا ہے اس سے کرپشن کے خاتمے میں مدد ملے گی جہاں تک500 ارب روپے کے زیر گردشی قرضوں کا تعلق ہے تو یہ معاملہ اتنا گھمبیر نہیں کہ حل نہ کیا جاسکے حکومت اس معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی اور یہ قرضہ ختم ہوجائے گا۔ جہاں تک رقم کے حاصل ہونے کی بات ہے تو حکومت تھری جی لائسنس کو شفاف طریقے سے فروخت کرے تو اس سے بھی 100 ارب روپے حاصل ہوجائیں گے۔

جاوید غوری (چیئرمین رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان)

وفاقی بجٹ میں بظاہر زرعی شعبے اور کاشتکاروں کو نظرانداز کیا گیا ہے پاکستان کی معشیت کا دارومدار زراعت پر منحصر ہے لیکن بجٹ میں نہ تو زرعی شعبے کی ترقی کے لیے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں اور نہ ہی کاشتکاروں کو درپیش بنیادی مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے یہ ہی وجہ ہے کہ رواں سال بھی پاکستانی باسمتی چاول کی برآمدات میں36 فیصد کی کمی ہوئی ہے، زرعی شعبے کے لیے ٹیکنالوجی کی منتقلی اور جدید مشینری کی درآمدات کو ڈیوٹی اور ٹیکس فری کرنا چاہیے کیونکہ بھارت کی نسبت پاکستان میں چاول کی فی ایکڑ پیداوار40 فیصد کم ہے۔



زرمبادلہ میں آمدنی بڑھانے کے لیے بجٹ میں زرعی شعبے کی ویلیو ایڈیشن کے فروغ کے لیے بھی کچھ نہیں کیا گیا ہے۔ چاول کے کاشتکاروں کوجو سب اہم مسائل درپیش ہیں ان میں اچھے اور معیاری بیجوں کی عدم فراہمی، پانی کا نہ ملنا اور بجلی کی عدم فراہمی شامل ہیں اور خاص طور پرفصلوں کی کاشت کے وقت بجلی کی بندش کے باعث وہ ٹیوب ویلوں کو نہیں چلاسکتے اور ڈیزل خرید کر ٹیوب ویل چلانا کسی طور ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح کھیت سے منڈی تک انفرااسٹرکچر نہ ہونے کے باعث کاشتکاروں کی پیداواری لاگت میں کئی گنا اضافہ ہوتا جارہا ہے، مقامی چاول کے برآمدکنندگان کو بین الاقوامی مارکیٹ میںمسابقت کے قابل بنانے کے لیے حکومت کو اعلان کردہ بجٹ اقدامات میں زرعی شعبے کا ازسر نو جائزہ لینا پڑے گا،

اگر چاول کے کاشتکاروں کو کیش نہیں بلکہ برآمدکنندگان کی ضمانت پر بلاسود قرضے جاری کیے جائیں تو پاکستان سے چاول کی برآمدات میں کئی گنا اضافہ ممکن ہوگا،بجٹ میں ایکسپورٹ پروسسنگ زون پر خصوصی توجہ مرکوز کی گئی ہے جہاں مزید نئی صنعتوں کے قیام کے لیے ترغیبات میں اضافہ کیا گیا مگر اس بات کو مد نظر نہیں رکھا گیا کہ پہلے سے قائم ایکسپورٹ پروسسنگ زونزکا مجموعی برآمدات میں کتنا حصہ ہے پہلے سے قائم ان زونز کے ذریعے انفرادی سطح پر لگژری گاڑیاں اور دیگر اشیا کی ڈیوٹی فری درآمدات کرکے اس کا ناجائز فائدہ اٹھایا گیا ہے۔

عتیق میر (چیئرمین آل کراچی تاجر اتحاد)

مسلم لیگ ن کو عوام نے بھاری مینڈیٹ دے کر منتخب کرایا مگر حکومت نے بجٹ کے ذریعے ناقابل برداشت مہنگائی کو لپیٹ کر اسی عوام کے منہ پر دے مارا ہے، پہلی بار بھاری خسارے پر مبنی بجٹ پیش کیا گیا ہے جس کے بعد کسی بہتری کی امید نہیں کی جاسکتی، دو دہائیوں سے پاکستانی معیشت دانوں کی جانب سے بجٹ نہیں بنایا جارہا ہے بلکہ یہ بجٹ کوئی اور بناتا ہے خاص طور پر موجود وزیر خزانہ اسحق ڈار کے پاس تو بجٹ بنانے کا وقت ہی نہیں تھا وزیر خزانہ نے یہ بجٹ بنایا نہیں بلکہ سنایا ہے۔



سودی قرضے بجٹ کی ادائیگیوں کا ایک بڑا حصہ ہیں جب تک امن و امان کی صورت حال کو بہتر نہیں بنایا جاتا اس وقت تک تمام تر اقدامات لاحاصل ہیں، کراچی کی معیشت پر ہی ہمیشہ وفاقی بجٹ تیار کیے جاتے رہے ہیں مگر اس بار ایسا نہیں ہے کراچی میں ہی باقاعدہ ٹیکس کلچر اور ٹیکس نیٹ موجود ہے بجٹ میں عوام کو صرف خواب دکھائے گئے یہ بجٹ مفروضوں پر مبنی ہے۔ بجلی کے بحران پر قابو پانے کے حوالے سے دعوے تو بہت کیے گئے ہیں لیکن ایسا ہوتا ممکن نظر نہیں آرہا ہے۔

سیلز ٹیکس کی شرح سولہ سے17 فیصد کرکے حکومت نے مہنگائی کے طوفان کو دعوت دی گئی ہے حکومت اس فیصلے کو فوری طور پر واپس لے۔ کراچی میں مستقل طور پر ایمرجنسی نافذ ہے جس کا خاتمہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔کراچی کے ٹیکس کلچر کو مستقل بنیادوں پر قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل کانفرنس منعقد کی جائے خسارے میں چلنے والے اداروں میں اصلاحات متعارف کرائی جائیں ۔

عبداﷲ ذکی (چیئرمین پاکستان سوپ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن)


مسلم لیگ کی حکومت نے اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کیے بغیر انتہائی جلدبازی میں بجٹ پیش کیا ہے جس میں ٹیکس نیٹ میں توسیع کے حوالے سے کوئی نظام وضع نہیں کیا گیا ہے، پہلے سے قائم ایکسپورٹ پروسسنگ زونز میں طویل عرصے سے بدعنوانیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان پروسسنگ زونز کو مکمل طور پر فعال کرے اس حوالے سے فوری اقدامات کیے جانے چاہیں، پی ٹی سی ایل کی نجکاری کو طویل عرصہ گزر چکا ہے مگر ابھی تک اتصالات نے80 کروڑ ڈالر کے واجبات ادا نہیں کیے ہیں حکومت کو یہ رقم ملنے سے کافی ریلیف ملے گا وزیر خزانہ نے اپنی بجٹ تقریر میں بھی اس حوالے سے ذکر کیا ہے کہ حکومت کو یہ واجبات اسی سال مل جائیں گے۔



بجٹ میں سیلز ٹیکس کی شرح میں ایک فیصد اضافے کا اعلان کسی طور بھی درست نہیں ہے کیوں کہ اس سے مہنگائی میں بے پناہ اضافہ ہوگا جس کے نتیجے میں عام آدمی متاثر ہوگا جب کہ کاروباری لاگت میں بھی ڈھائی فیصد تک اضافہ ہوجائے گا تاجر برادری تو حکومت سے یہ مطالبہ کررہی تھی کہ سیلز ٹیکس کی شرح کو16 فیصد سے کم کرکے10 فیصد کردیا جائے مگر اس میں بغیر اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے اضافہ کردیا گیا ہے۔ مالیاتی خسارے پر قابو پانے کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ ادارے جن کی وجہ سے حکومت پر مالیاتی بوجھ بڑھ رہا ہے ان کی نجکاری کا عمل تیز کردے کیونکہ وصول شدہ ٹیکسوں کو انہی خسارے میں چلنے والے ادارون پر خرچ کیا جارہا ہے۔

ملک محمد بوستان (چیئرمین ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان)

بجٹ کے بیشتر اقدامات اگرچہ حوصلہ افزا ہیں لیکن ترسیلات زر میں اضافے کے لیے سمندرپار مقیم پاکستانیوں کے لیے کسی قسم کی ترغیب نہیں دی گئی ہے، سرکاری سطح پر گڈگورننس کی صورت میں سال 2020ء تک ترسیلات زر20 ارب ڈالر تک پہنچانا ممکن ہے۔

اعلان کردہ بجٹ میں سیکرٹ فنڈز کا خاتمہ، تین مرلہ ہاوسنگ کالونیوں کے قیام، لیپ ٹاپ اسیکم، طلبا کے لیے اسکالرشپس اسکیم خوش آئند ہے جس کے مطلوبہ نتائج بہرصورت حاصل ہوجائیں گے تاہم حکومت کی جانب سے سیلز ٹیکس کی شرح سترہ فیصد کرنا غیر منصفانہ اقدام ہے۔



پاکستان میں رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان کی مجموعی تعداد22 لاکھ ہے جس میں15 لاکھ تنخواہ دار ملازمین شامل ہیں نتیجتاًً صرف سات لاکھ افراد ٹیکس ادا کرتے ہیں لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ ایف بی آر کو پابند بنائے کہ وہ ٹیکس نیٹ کے دائرہ کار کو وسعت دینے کے لیے ہنگامی ایکشن پلان تشکیل دے۔

گوادر پورٹ کی ترقی سے چین اور وسط ایشیا کی ریاستوںتک پاکستان کو براہ راست تجارتی فروغ ملے گا۔ انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ میں پروفیشنلز کی خدمات حاصل کرنے، موٹروے نظام کی توسیع، مائیکرو فنانسنگ کے تحت ایک لاکھ سے20 لاکھ روپے تک کے قرضوں کی اسکیم، چین کے تعاون سے ریلوے کے نظام میں بہتری پر مشتمل اقدامات لائق تحسین ہیں، مختصر وقت میں تیار کیے گئے اس بجٹ کے مطلوبہ نتائج آئندہ سال نظر آنا شروع ہوجائیں گے تاہم وفاقی حکومت کو کراچی میں قیام امن کے لیے اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہوگا۔

عباس اکبر علی (چیئرمین پاکستان اسٹیل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن)

پاکستان میں فی فرد سالانہ اسٹیل کی کھپت بڑھانے کے لیے حکومت کو یکساں کاروباری مواقع فراہم کرنا ہوں گے، وفاقی بجٹ میں اسٹیل انڈسٹری کی ترقی کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا جو انتہائی مایوس کن بات ہے ، افسوس اس بات پر ہے کہ ہر حکومت نے اس اہم انڈسٹری پر کبھی کوئی توجہ نہیں دی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی اسٹیل انڈسٹری ڈیڑھ سو سال پرانی ٹیکنالوجی پر چل رہی ہے جدید ٹیکنالوجی کی عدم دستیابی کے باعث سالانہ 800 میگاواٹ بجلی کے علاوہ قدرتی گیس اور پانی ضایع ہورہا ہے، پاکستان کی اسٹیل میلٹر انڈسٹری کا ڈھانچہ کسی عجائب خانے میں رکھنے کے لیے آئیڈیل ہے۔

وفاقی بجٹ میں اگر اس شعبے پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے یکساں کاروباری مواقع فراہم کیے جاتے تو نجی شعبے کی بیشتراسٹیل کی صنعتوں میں زیر التوا توسیع منصوبے دوبارہ شروع کیے جاسکتے تھے اور اس شعبے میں غیر ملکی سرمایہ آمد کے ساتھ نئی صنعتوں کا قیام بھی ممکن تھا اسٹیل انڈسٹری پر سرکاری توجہ نہ ہونے کے باعث پاکستان میں3 لاکھ ٹن استعداد کا حامل کوئی اسٹیل پلانٹ قائم نہیں ہوسکا ہے۔



بجٹ میں گوادر پورٹ کی ترقی کے حوالے سے تو بات کی گئی ہے لیکن حکومت آگے بڑھتے ہوئے گوادر تا مغربی چین100 کلو میٹر تک کی چوڑی پٹی100 سال کے لیے چین کے حوالے کردے تو اس سے پاکستان میں جو ترقی ہوگی وہ ہمارے آنے والی نسلوں کو فائدہ پہنچائے گی پھر یہ چین کی ذمے داری ہوگی کہ وہ یہاں سڑکوں کا جال بچھائے گا، پانی لائے گا، بجلی فراہم کرے گا، گیس کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرے گا اور سب سے بڑھ کریہ کہ لاکھوں پاکستانیوں کو اس کے ان اقدامات کے نیتجے میں روزگار کے مواقع میسرآئیں گے۔

بجٹ میں سترہ فیصد سیلز ٹیکس اور غیر رجسٹرڈ پر2 فیصد اضافہ تشویشناک اقدام ہے اس سے دستاویزی صنعتیں خسارے میں جائیں گی۔ کیونکہ کہ ریٹیلرز اور ڈسٹری بیوٹرز کی ایک بڑی تعداد سیلز ٹیکس میں رجسٹر نہیں ہے جس کی وجہ سے صنعتوں کو اضافی ادائیگیاں کرنا پڑئیں گی۔

شرجیل جمال (وائس چیئرمین پاکستان اکانومی فورم)

بجٹ موجودہ وزیر خزانہ نے نہیں بلکہ نوکر شاہی کا مرتب کردہ ہے جس کے اقدامات خالصتاً لولی پاپ ہیں بجٹ اقدامات کے ذریعے معیشت میں تو بہتری کا امکان نہیں ہے لیکن اسمگلنگ کو فروغ ضرور حاصل ہوگا، جن اشیا پر سیلز تیکس کی شرح میں اضافہ کیا گیا ان کا تمام تر بوجھ ایک عام آدمی پر پڑے گا بجٹ میں ریسرچ اینڈڈیولپمنٹ پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے اگر صرف زرعی شعبے میں تحقیق کے منصوبے شروع کیے جائیں تو پاکستان میں زرعی انقلاب لایا جاسکتا ہے، وفاقی بجٹ میں صرف ایکسپورٹ پروسسنگ زونز کی ترغیبات بڑھانے کی بات کی گئی ہے حالانکہ ان زونز کا اب تک مجموعی برآمدات میں 10 فیصد بھی حصہ نہیں ہے۔

بجٹ اقدامات سے یہ ہی محسوس ہوتا ہے کہ نئے صنعتی زونز کا قیام صرف پنجاب میں ہی عمل میں آئے گا، ایف بی آر میں سالانہ سات سو ارب روپے کا ریونیو چوری کیا جارہا ہے اور اس چوری میں خالصتاً ایک نجی ادارہ پاکستان ریونیو آٹومیشن کا کردار سب سے زیادہ ہے( پرال) نے پورے ایف بی آر کو ہائی جیک کررکھا ہے یہ ادارہ ملک بھر کی مالیاتی معلومات کو مینوپلیٹ کرتا ہے۔ فی الوقت پاکستان کسٹم ٹیرف 8 ڈیجٹ پر مشتمل ہے لیکن ایس آراو کلچر ختم کرنے سے یہ ڈیجٹ 14 ہوجائیں گے۔



بجٹ میں قرضوں کی اسکیم، شادی ہالوں پر ٹیکس عائد کرنے، گوادر پورٹ کی ترقی اچھے اقدامات ہیں لیکن گوادر پورٹ کی ترقی اسی صورت میں ممکمن ہے جب بلوچستان میں مستقل بنیادوں پر امن قائم کیا جائے، موجودہ حالات میں گوادر پورٹ کی ترقی ممکن نہیں ہے یہ بات سب جانتے ہیں کہ بلوچستان کے حالات خراب کرنے میں کچھ عالمی فیکٹر ملوث ہیں ، بجٹ میں تعلیم کے حوالے سے بھی کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔

ہمارے ملک میں اس وقت دہرا نظام تعلیم رائج ہے امیر کے بچے کے لیے اور تعلیم غریب کے لیے اور ہے اس حوالے سے حکومت کی یہ ذمے داری تھی کہ وہ بجٹ میں تعلیمی اصلاحات متعارف کراتی۔ بجٹ میں سیکرٹ فنڈ کے استعمال پر اگرچہ پابندی عائد کردی گئی ہے لیکن بجٹ دستاویز تیار کرنے والے ادارے ایف بی آر کا سیکرٹ فنڈ موجود ہے جس کے بارے میں وزیر خزانہ نے یہ وضاحت نہیں کی کہ یہ فنڈ بھی ختم کردیا گیا ہے یا نہیں۔
Load Next Story