اطلاعات کا طوفان کتنا فائدہ کتنا نقصان

جب تک ہم اصل مسئلے اور ذمہ داران پر توجہ نہیں دیں گے، یونہی پریشان رہیں گے اور دوسروں میں بھی مایوسی پھیلاتے رہیں گے

جب تک ہم اصل مسئلے اور ذمہ داران پر توجہ نہیں دیں گے، یونہی پریشان رہیں گے اور دوسروں میں بھی مایوسی پھیلاتے رہیں گے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

''ملک کے وزیراعظم کا سیکیورٹی پروٹوکول اور عوام کے پیسوں پر ہیلی کاپٹر میں پارلیمنٹ جانا ایک سوالیہ نشان!''

''غریب عوام کے پیسوں پر وزیراعظم اور ان کے مشیروں کو انواع و اقسام کے کھانے کھاتے ہوئے دیکھیے۔''

''بیکن ہاؤس میں جاری بے حیائی کے مناظر دیکھیے اور آگے بھیج کر اپنا فرض پورا کیجیے۔''

''ڈیڑھ سو بچوں کا اغوا اور حکومت کی خاموشی۔''

یہ سب باتیں یقیناً جانی پہچانی لگ رہی ہوں گی کیونکہ پچھلے دنوں نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ گھروں میں بھی بحث کا موضوع و مرکز یہی باتیں تھیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے آئیے کلمہ طیبہ کا مطلب ایک بار ذہن میں دوہرا لیتے ہیں یعنی ''نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں۔'' دل سے اس کلمہ کو پڑھ لینے کا مطلب ایک مسلمان کےلیے یہ ہے کہ اس کےلیے دستور صرف قرآن، اور شریعت صرف شریعتِ محمدیﷺ قابل عمل ہے۔ تو آئیے! اس معاملے میں بھی قرآن و سنت سے رہنمائی لیتے ہیں:

 

جھوٹ


اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو، ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے کیے پر پیشمانی اٹھاؤ۔ (الحجرات: 6)

اس نے نہ تو تصدیق کی نہ نماز ادا کی۔ (القیامہ :31)

اور نیک بات کی تصدیق کرتا رہے گا۔ (الّیل :6)

ان آیات کی روشنی میں ہر کوئی خود اپنا محاسبہ کر لے کہ وہ کتنا تصدیق کرکے بات کو آگے بڑھاتا ہے، چاہے وہ بات اسے کتنی ہی اہم کیوں نہ لگ رہی ہو؛ کیونکہ قرآن تو ہمیں نیک کاموں کی بھی تصدیق کرنے کا حکم دیتا ہے۔

بغیر تصدیق کے بات کو آگے بتانے سے قرآن سختی سے منع کرتا ہے چاہے وہ بات بچوں کے اغوا جیسا تشویشناک مسئلہ ہو یا بشری بی بی کے نکاح جیسا ذاتی معاملہ، لاپتہ افراد جیسا حساس معاملہ ہو یا بلوچ طالب علم والا افسوسناک واقعہ، غرض ہر معاملے میں تصدیق ضروری ہے۔

تصدیق نہ کرنے کی صورت میں آپ کی ایک معمولی کلک کتنے لوگوں تک اس جھوٹ کو پہنچا دیتی ہے اور اس کا اخلاقی و نفسیاتی اثر کیا ہوتا ہے، اس کا ذکر آگے آئے گا۔ صرف ایک معمولی مثال بچوں کے اغوا والی لے لیجیے کہ مسلسل ایسی خبریں سننے کے بعد عوام جب نفسیاتی طور پر مفلوج ہوگئے تو اطلاع ملی کہ وہ سب صرف افواہیں تھیں۔

 

غیبت/ بہتان/ الزام تراشی


سوشل میڈیا پر آزادی اظہار رائے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ بغیر سوچے سمجھے کسی کی بھی شخصیت کے بخیے ادھیڑ دیئے جائیں۔ یاد رکھیے کہ جس فرد کو آپ اس کی غیر موجودگی میں برا بھلا کہہ رہے ہیں، اگر وہ برائی اس موجود ہے تو یہ غیبت ہوگی لیکن اگر نہیں تو یہ اس فرد پر بہتان ہوگا جس کا وبال بہتان تراشی کرنے والے کےلیے دونوں جہانوں میں ہوگا۔


اسی طرح بغیر سوچے سمجھے کسی کو بھی طنزیہ یا تلخ جملے کہہ دینا یا مذاق اڑانا بھی وہ اعمال ہیں جن کی معافی جب تک بندہ نہ دے، تب تک اللہ تعالی بھی نہیں دیتے۔ اور پھر جو فرد کسی دوسرے کےلیے تکلیف کا باعث ہو وہ خود کیسے خوش رہ سکتا ہے؟

''تمہیں جو کچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہے، اور وہ تو بہت سی باتوں سے درگزر فرما دیتا ہے۔'' (الشوری: 30)

یاد رکھیے کہ جو برائیاں حقیقی زندگی میں قبیح ہیں، سوشل میڈیا پر بھی قبیح ہی رہتی ہیں۔ ماحول بدلنے سے ان کی قباحت میں کوئی کمی نہیں واقع ہوجاتی۔

 

مایوسی اور ناامیدی


اپنے دماغ سے غلط فہمی نکال دیجیے کہ سوشل میڈیا پر متعدد مسائل کی نشاندہی کرکے آپ لوگوں پر کوئی احسان کر رہے ہیں۔ بغیر سوچے سمجھے، بس مایوس کن خبروں پر خبریں دیئے چلے جانا اہل دانش کا شیوہ نہیں۔ ہمارے اسی انداز فکر اور طرزعمل کی وجہ سے اہم اور ضروری بات پس منظر میں چلی جاتی ہے جبکہ غیر اہم باتیں کچھ عرصہ گردش کرکے اطلاعات کے طوفان میں دب جاتی ہیں۔ اس بات کا ہم سب کو علم ہونا چاہیے کہ ہمارا اصل مسئلہ وزیراعظم کے سفر اور کھانے کے اخراجات نہیں بلکہ وہ کارکردگی ہے جو عوام کی امیدوں پر پانی پھیر رہی ہے۔ ہمارا مسئلہ خاتون اول کا پردہ اور دوسرا نکاح نہیں بلکہ لاپتا کیے جانے والے افراد ہیں جو ایک عام شخص کے ذہن میں سوال اٹھا رہے ہیں کہ وہ اب اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ ہمارا مسئلہ سخت ترین قوانین اور بڑھائے جانے والے ٹیکس نہیں بلکہ وہ صاحب اقتدار ہیں جنہیں ان قوانین اور ٹیکس سے استثنیٰ حاصل ہے۔ ہمارا مسئلہ پشاور یونیورسٹی کے طلبہ کا زخمی ہونا نہیں بلکہ عوام کے جان و مال کے تحفظ کے ضامن ادارے کی سفاکیت اور دیدہ دلیری ہے جو دن بدن بڑھتی چلی جارہی ہے۔ ہمارا مسئلہ ایک بستر پر دو مریضوں کا لٹایا جانا نہیں بلکہ وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے نوبت یہاں تک پہنچی ہے، یعنی انتظامیہ کی غفلت، لاپرواہی اور فنڈ میں خرد برد۔ جڑ کاٹنے کے بجائے شاخوں سے آپ چاہے ساری زندگی الجھتے رہیں، ہاتھ زخمی کرنے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔

جزئیات اور فروعات میں الجھ کر، جب تک ہم اصل مسئلے اور ذمہ داران کی طرف توجہ نہیں دیں گے، یونہی پریشان ہوتے رہیں گے اور دوسروں میں بھی مایوسی پھیلانے کا باعث بنیں گے۔ اسلام نے مایوسی کو کفر قرار دیا ہے تو اس کفر کو پھیلانے والوں پر وبال کیا ہوگا؟ اس کا اندازہ ذی عقل لوگ خود لگا سکتے ہیں۔

 

بے حیائی/ تعصب


یاد رکھیے کہ عامیانہ اور فحش مواد، چاہے وہ بیکن ہاؤس کے بے حیائی کی حدوں کو عبور کرتے طلبا و طالبات ہوں (ایسے اسکولوں میں اپنے بچوں کو پڑھانے والے والدین آپ سے زیادہ ان حقائق سے واقف ہیں) یا بیہودہ کامیڈی کلپس، اخلاق باختہ تصاویر ہوں یا نازیبا و فحش کیپشن والی پوسٹس، غرض بے حیائی کا منظر دکھاتی کوئی بھی پوسٹ یا ویڈیو آپ کےلیے خدانخواستہ گناہ جاریہ بن سکتی ہے (گناہ کرنے والوں کو تو صرف اس گناہ کی سزا ملے گی لیکن اسے آگے پھیلا کر باقی لوگوں کی حیا متاثر کرنے اور مجرمانہ ذہن کے حامل لوگوں کو جرم کی نئی راہیں دکھانے والوں کےلیے دوہرا وبال ہوگا)۔ اسی طرح فرقہ وارانہ جھگڑے اور تعصب و نفرت پھیلاتی پوسٹوں سے ہر ممکن اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ہر پوسٹ بھی آپ کےلیے روز حشر گواہی دے گی۔ اب یہ گواہی ہمارے حق میں ہوگی یا خدانخواستہ مخالفت میں، اس کا اندازہ ہر کوئی اپنی سوشل میڈیا پروفائل دیکھ کر لگاسکتا ہے۔

 

گناہوں کی تشہیر


نبی محترمﷺ نے گناہوں اور جرائم کی تشہیر سے سختی سے منع فرمایا ہے کیونکہ یہ چیز نہ صرف مایوسی پھیلانے کا سبب بنتی ہے بلکہ مجرمانہ ذہن کے لوگوں کو جرم کرنے کی نئی راہیں بھی سجھاتی ہے۔ گناہوں کی تشہیر سے جتنی سختی سے منع کیا، اتنی ہی شدت سے تاکید مظلوم کا ساتھ دینے اور ظالم کا ہاتھ روکنے کے حوالے سے کی۔ لیکن ہم ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں اتنے مصروف ہوجاتے ہیں کہ مظلوم کی مدد کرنے کا وقت ہی نہیں نکال پاتے۔

 

ہم کیا کرسکتے ہیں؟


سب سے پہلے تو سوشل میڈیا کا کام کرنے کا طریقے اور اس کے ذریعے پھیلائی جانے والی مایوسی اور بےحیائی کے پس پردہ عوامل پر تحقیق کیجیے۔ اس کے بعد اہم اور غیر اہم پوسٹس کی حدبندی کیجیے۔ ہر وہ پوسٹ غیر اہم ہے جو پڑھنے والے کو عملی اصول دینے سے قاصر ہو۔ مثلاً مشرقی وسطی کے متاثرین کی کربناک تصاویر شیئر کرنے کے بجائے اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کےلیے متعلقہ ممالک کے سفارت خانوں/ قونصل خانوں کے فون نمبر اور ای میل ایڈریسز وائرل کیے جاسکتے ہیں۔

مختلف پولز اور سروے کروا کر، جم غفیر کی رائے اپنے مؤقف کے حق میں کرتے ہوئے، اس کی بنیاد پر مختلف پلیٹ فارمز پر آواز اٹھا سکتے ہیں؛ لوگوں اور واقعات پر بحث و تبصرے کے بجائے نئے خیالات و افکار پر سوچنے کےلیے لوگوں کو راغب کرسکتے ہیں۔ مفید مقابلے منعقد کروا سکتے ہیں۔ غرض ہر ایسے کام پر سوچ سکتے ہیں جو لوگوں میں مثبت سوچ پروان چڑھانے کے ساتھ انہیں عمل پر اکسائے۔

بصورتِ دیگر جو آگ ہم دوسروں کےلیے جلا رہے ہیں، اس کے شعلوں سے خود کو بھی نہیں بچا پائیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story