ملازمت سے فارغ کیے جانے کا خدشہ سابق دور حکومت میں بھرتی لینگویج اور ڈرائنگ ٹیچرز کا احتجاج
اساتذہ کو میرٹ کے برخلاف سفارشی اورسیاسی بنیادوں پر بھرتی کیا گیا اور قواعد و ضوابط پورے نہیں کیے گئے ، محکمہ تعلیم
سابق صوبائی وزیرتعلیم پیرمظہرالحق کے دورمیں بغیر ٹیسٹ کے اسکول ٹیچرزکی اسامیوں پر بھرتی کیے گئے اساتذہ کی تنخواہوں کا معاملہ موجودہ حکومت اورمحکمہ تعلیم کیلیے درد سربن گیا ہے۔
نئی حکومت آتے ہی صوبائی محکمہ تعلیم نے این ٹی ایس پاس کرنیوالے جے ایس ٹی ، پی ایس ٹی اور ایچ ایس ٹی اساتذہ کی بھرتیوں کیلیے ان کی جگہ تعینات کیے گئے مذکورہ اساتذہ کو فارغ کرنے کے زبانی احکامات جاری کردیے ہیں جس کے بعد ان اساتذہ نے احتجاج کا راستہ اختیار کرلیاہے ، بدھ کو جے ایس ٹی ،پی ایس ٹی اور ایچ ایس ٹی اساتذہ کی اسامیوں پرتعینات تنخواہوں سے محروم سیکڑوں اساتذہ نے پریس کلب پرمظاہرہ کیا، مظاہرے میں خواتین اساتذہ کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی ، اساتذہ نے احتجاجی ریلی نکالتے ہوئے سندھ اسمبلی تک جانے کی کوشش بھی کی جس پر پولیس نے ان پرتشددکیا ، مظاہرین کو منتشرکرنے کیلیے پولیس نے ان پرلاٹھی چارج کیا اور آنسوگیس کے شیل فائر کیے گئے، دو درجن کے قریب مظاہرین کو حراست میں لے لیا گیا۔
اس دوران کئی گھنٹوں تک پریس کلب اور سندھ اسمبلی کی درمیانی شاہراہ میدان جنگ بنی رہی ، مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ حراست میں لیے گئے تمام اساتذہ کو رہا کیا جائے اور تنخواہوں کی فوری ادائیگی کی جائے اور اگر ایسا نہ ہوا تو ہمارا احتجاجی سلسلہ سندھ بھرمیں پھیل جائے گا، مذکورہ اساتذہ کوگزشتہ برس اکتوبر2012سے رواں سال مارچ میں سابق حکومت کے اختتامی ایام تک مختلف اوقات میں سندھی لینگویج ٹیچر، عربی لینگویج ٹیچرزاورڈرائنگ ٹیچرزکی اسامیوں پربھرتی کیاجاتارہااوریہ بھرتیاں کراچی میں ہر چند روز پر تبدیل ہونے والے مختلف ڈائریکٹراسکولزکے دستخطوں سے ہوتی رہیں، خالی اسامیوں سے زائد بھرتی ہونے والے افراد کو کراچی کے بعض سرکاری اسکولوں میں جے ایس ٹی کی اسامیوں پر تعینات کردیا گیا۔
محکمہ تعلیم سابق وزیر تعلیم کے دور میں بغیر تحریری ٹیسٹ کے بھرتی ہونے والے ان اساتذہ کو آفر لیٹرجاری کرتا رہا تاہم اے جی سندھ سے ان کی تنخواہیں جاری نہیں ہوسکیں، محکمہ تعلیم کے اعلیٰ افسرکے مطابق سابق حکومت سندھ 19مارچ کو رخصت ہوئی اورسروسز اسپتال سے 20 مارچ تک بعض امیدواروں کوآفر لیٹرکی بنیاد پر میڈیکل جاری ہوا جو حیرت انگیز ہے اور سابق حکومت کے جاتے جاتے وزارت تعلیم سرکاری اسکولوں میں بھرتیوں کے سلسلے میں آفر لیٹرجاری کرتی رہی ، نئی حکومت آئی اور این ٹی ایس پاس کرنے والے اساتذہ کو بھرتی کرنے کا مرحلہ آیا تو معلوم ہوا کہ بیشتراساتذہ تو انھی اسامیوں پر پہلے ہی تعینات ہیں جس کے بعدصوبائی سیکریٹری تعلیم فضل اللہ پیچوہونے چند روزقبل آرایس یو میں منعقدہ ایک اجلاس کے دوران ان اساتذہ کوفوری فارغ کرنے کے زبانی احکامات جاری کردیے جس کے بعد بھرتی کیے گئے متعلقہ اساتذہ نے بدھ سے احتجاج کاسلسلہ شروع کردیا اورسڑکوں پر نکل آئے۔
اساتذہ کا کہنا تھا کہ ان میں سے اکثرگزشتہ 10ماہ سے تنخواہوں سے محروم ہیں اسکول جارہے ہیں تاہم تنخواہیں نہ ملنے کے سبب ان کے گھروں میں فاقہ کشی کی نوبت آگئی ہے محکمہ تعلیم کے افسران ان سے روزگارچھین رہے ہیں، اعلیٰ حکام کو تحریری طور پر درخواستیں دی ہیں لیکن اس کے باوجود بھی کوئی شنوائی نہیں ہورہی لہٰذا اب ہمارے پاس احتجاج کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے ،دوسری جانب صوبائی محکمہ تعلیم کاموقف ہے کہ ان اساتذہ کومیرٹ کے برخلاف سفارشی اورسیاسی بنیادوں پر بھرتی کیا گیا ہے اور بھرتیوں میں قواعد ضوابط پورے نہیں کیے گئے ہیں۔
نئی حکومت آتے ہی صوبائی محکمہ تعلیم نے این ٹی ایس پاس کرنیوالے جے ایس ٹی ، پی ایس ٹی اور ایچ ایس ٹی اساتذہ کی بھرتیوں کیلیے ان کی جگہ تعینات کیے گئے مذکورہ اساتذہ کو فارغ کرنے کے زبانی احکامات جاری کردیے ہیں جس کے بعد ان اساتذہ نے احتجاج کا راستہ اختیار کرلیاہے ، بدھ کو جے ایس ٹی ،پی ایس ٹی اور ایچ ایس ٹی اساتذہ کی اسامیوں پرتعینات تنخواہوں سے محروم سیکڑوں اساتذہ نے پریس کلب پرمظاہرہ کیا، مظاہرے میں خواتین اساتذہ کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی ، اساتذہ نے احتجاجی ریلی نکالتے ہوئے سندھ اسمبلی تک جانے کی کوشش بھی کی جس پر پولیس نے ان پرتشددکیا ، مظاہرین کو منتشرکرنے کیلیے پولیس نے ان پرلاٹھی چارج کیا اور آنسوگیس کے شیل فائر کیے گئے، دو درجن کے قریب مظاہرین کو حراست میں لے لیا گیا۔
اس دوران کئی گھنٹوں تک پریس کلب اور سندھ اسمبلی کی درمیانی شاہراہ میدان جنگ بنی رہی ، مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ حراست میں لیے گئے تمام اساتذہ کو رہا کیا جائے اور تنخواہوں کی فوری ادائیگی کی جائے اور اگر ایسا نہ ہوا تو ہمارا احتجاجی سلسلہ سندھ بھرمیں پھیل جائے گا، مذکورہ اساتذہ کوگزشتہ برس اکتوبر2012سے رواں سال مارچ میں سابق حکومت کے اختتامی ایام تک مختلف اوقات میں سندھی لینگویج ٹیچر، عربی لینگویج ٹیچرزاورڈرائنگ ٹیچرزکی اسامیوں پربھرتی کیاجاتارہااوریہ بھرتیاں کراچی میں ہر چند روز پر تبدیل ہونے والے مختلف ڈائریکٹراسکولزکے دستخطوں سے ہوتی رہیں، خالی اسامیوں سے زائد بھرتی ہونے والے افراد کو کراچی کے بعض سرکاری اسکولوں میں جے ایس ٹی کی اسامیوں پر تعینات کردیا گیا۔
محکمہ تعلیم سابق وزیر تعلیم کے دور میں بغیر تحریری ٹیسٹ کے بھرتی ہونے والے ان اساتذہ کو آفر لیٹرجاری کرتا رہا تاہم اے جی سندھ سے ان کی تنخواہیں جاری نہیں ہوسکیں، محکمہ تعلیم کے اعلیٰ افسرکے مطابق سابق حکومت سندھ 19مارچ کو رخصت ہوئی اورسروسز اسپتال سے 20 مارچ تک بعض امیدواروں کوآفر لیٹرکی بنیاد پر میڈیکل جاری ہوا جو حیرت انگیز ہے اور سابق حکومت کے جاتے جاتے وزارت تعلیم سرکاری اسکولوں میں بھرتیوں کے سلسلے میں آفر لیٹرجاری کرتی رہی ، نئی حکومت آئی اور این ٹی ایس پاس کرنے والے اساتذہ کو بھرتی کرنے کا مرحلہ آیا تو معلوم ہوا کہ بیشتراساتذہ تو انھی اسامیوں پر پہلے ہی تعینات ہیں جس کے بعدصوبائی سیکریٹری تعلیم فضل اللہ پیچوہونے چند روزقبل آرایس یو میں منعقدہ ایک اجلاس کے دوران ان اساتذہ کوفوری فارغ کرنے کے زبانی احکامات جاری کردیے جس کے بعد بھرتی کیے گئے متعلقہ اساتذہ نے بدھ سے احتجاج کاسلسلہ شروع کردیا اورسڑکوں پر نکل آئے۔
اساتذہ کا کہنا تھا کہ ان میں سے اکثرگزشتہ 10ماہ سے تنخواہوں سے محروم ہیں اسکول جارہے ہیں تاہم تنخواہیں نہ ملنے کے سبب ان کے گھروں میں فاقہ کشی کی نوبت آگئی ہے محکمہ تعلیم کے افسران ان سے روزگارچھین رہے ہیں، اعلیٰ حکام کو تحریری طور پر درخواستیں دی ہیں لیکن اس کے باوجود بھی کوئی شنوائی نہیں ہورہی لہٰذا اب ہمارے پاس احتجاج کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے ،دوسری جانب صوبائی محکمہ تعلیم کاموقف ہے کہ ان اساتذہ کومیرٹ کے برخلاف سفارشی اورسیاسی بنیادوں پر بھرتی کیا گیا ہے اور بھرتیوں میں قواعد ضوابط پورے نہیں کیے گئے ہیں۔