چاچا کب تک سنبھالے گا
ہمارے نئے پاکستان میں چاچا کس کس بات کو سنبھال لیتے ہیں اورکہاں بات آسمان تک جائے گی اور چاچا بھی ہاتھ جھاڑ لیں گے۔
WASHINGTON:
جب لیڈر جذبات میں بڑی بڑی پھینکنے لگتا ہے توایک چاچا کی ضرورت پڑتی ہے۔ جو میڈیا میں آکر قوم کو بتاتا ہے کہ اصل میں جوآپ نے سُنا ہے وہ ہمارے عظیم لیڈر نے کہا ہی نہیں اور جوکہا ہے وہ آپ کے گناہگارکانوں نے سُنا ہی نہیں۔ چاچا کا یہ قصہ مجھے رفیق بھائی نے سُنایا۔
اپنی بات کو سمجھانے کے لیے مثال بڑی دور سے لائے کہنے لگے کہ ایک بچے نے چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے کہا کہ آسمان سے کتوں کے رونے کی آوازیں آ رہی تھیں ۔سب لوگ حیرت سے لڑکے کا منہ تکنے لگے۔ سب کا منہ ایسے ہی کھُلا تھا جیسے ڈالرکی قیمت بڑھنے پر ہوگیا تھا۔ لڑکے نے اپنی بات کو سچ ثابت کرنے کے لیے قسم تک کھا لی۔کہنے لگا کہ خدا کی قسم کل میں نے آسمان سے کتوں کے رونے کی آواز سُنی ہے۔
اتنی بڑی قسم کے بعد کسی کے پاس کچھ کہنے کے لیے نہیں تھا، سب لوگ لڑکے کا منہ تکتے رہے۔ ہر ایک کے دل کی دھڑکن تیز ہوچکی تھی سب کو لگ رہا تھا کہ نیا پاکستان بن چکا ہے۔ لڑکے نے اپنی چائے ختم کی اور کندھے اُچکاتا ہوا چلا گیا۔جیسے اُس نے گورنر ہاؤس کو ایدھی سینٹر بنا دیا ہو۔ محلے کا یہ لڑکا اسی طرح کی پھینکاکرتا تھا۔ سب لوگ اُس کا منہ تکتے رہتے تھے۔ اکثر کو اس بات کا یقین تھا کہ یہ جھوٹ بولتا ہے، مگر لڑکے کا ایک چاچا تھا۔ رعب اور دبدبا ایسا تھا کہ کسی کی مجال نہیں تھی جو بھتیجے کو غلط ثابت کردے۔
ہر پھینکی ہوئی ڈورکو لپیٹنے کے لیے چاچا میدان میں اترجاتا تھا۔ جو باتوں باتوں میں لوگوں کو یقین دلا دیتا تھا کہ اُس کا بھتیجا جھوٹ نہیں بولتا۔ لڑکا ہوٹل سے چلاگیا تھا، سب لوگ آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ایک نے ویٹر سے نظریں بچا کرآہستہ سے کہا کہ ایسا ہوہی نہیں سکتا کہ آسمان سے کتوں کے رونے کی آوازیں آئیں کیونکہ کتا تو اڑنا نہیں جانتا تھا۔ سب لوگ باتیں سُنتے ہوئے بھی ادھر اُدھر دیکھ رہے تھے کہ کہیں کوئی چاچا کا مخبر سُن نہ لے اوراُسے لاپتہ نہ کردیا جائے۔
ایک صاحب نے کہا یہ لڑکا پچھلی بار بھی کہہ رہا تھا کہ میں نے دریا کے اوپر ہوا میں مچھلیاں ناچتے ہوئے دیکھی ہیں۔ ایک بڑے میاں نے کہا یہ لڑکا مجھے کہہ رہا تھا کہ میں نے پہاڑوں کو چلتے ہوئے دیکھا ہے۔ ابھی سب لوگ یہ ہی باتیں کر رہے تھے کہ لڑکے کا چاچا آگیا۔آج کے حساب سے یوں سمجھیں کہ جیسے کوئی ''ٹوئیٹ'' آگئی ہو۔ چاچا کو دور سے آتا دیکھ کر سب لوگ خاموش ہوگئے۔ چاچا جیسے ہی ہوٹل میں داخل ہوا، ملازم نے کرسی کو صاف کرنا شروع کردیا۔
چاچا نے اپنی مونچھوں کو تاؤ دیا اور اپنی کمرکو مزید اکڑکر اپنے ہاتھ کو اٹھا کر سلام کہا۔ سب لوگوں نے زور سے سلام کا جواب دیا۔ سلام اشاروں میں تھا اور جواب سے ماحول گونج اٹھا۔جیسے ٹوئیٹ چھوٹی ہوتی ہے اور پھر بریکنگ نیوز بہت بڑی ہوتی ہے۔ اتنی دیر میں چاچا کے لیے چائے آگئی۔ جیسے چائے والے کو پہلے ہی سے معلوم تھا کہ صاحب آرہے ہیں اسے ہماری زبان میں آپ خود سے عزت بچانا بھی کہہ سکتے ہیں یا پھر ''معتبر'' لفظ ''خود احتسابی'' بھی کہہ لیجیے۔
اب سب لوگ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے کہ کون ہمت کرکے چاچا سے پوچھتا ہے کہ تمھارا بھتیجا جولمبی لمبی پھینک کرگیا ہے اُس کا حساب کون دے گا۔کاش وہاں نیب ہوتی جو چاچا کوکسی اسکول کا ٹیچر سمجھتی اور ہتھکڑی لگا کر ذلیل کرتی، مگر ہمارے یہاں کے چاچا ٹیچر نہیں ہوتے،اس لیے آج تک انھیں ہتھکڑی نہیں لگ سکی، لیکن کسی میں ہمت نہیں تھی۔ سب لوگ چاچا کے رعب سے واقف تھے۔کسی میں ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ پہلے تو سب لوگ ایک دوسرے کی شکل دیکھ رہے تھے۔ اب آنکھوں آنکھوں میں ایک دوسرے کواشارہ کرنے لگے کہ تم پوچھو، مگر کوئی ٹس سے مس نہیں ہوا۔ کوئی بھی اپنے اوپر 22 اگست کا دن نہیں لانا چاہتا تھا اور نہ جمعے کا دن جب فیصلے آتے ہیں، غریب ویٹر یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا۔
اُس نے ٹیبل کو صاف کرتے ہوئے چاچا سے کہا کہ ابھی آپ کا بھتیجا آیا تھا۔اس سے پہلے کہ ویٹرکچھ کہتا چاچا نے غصے سے اُسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔اُس سے پیسے تو نہیں لیے؟ اگر اُس سے پیسے لیے تو اچھا نہیں ہو گا۔ویٹر وہیں خاموش ہوگیا ۔پاکستانی محاورے کے مطابق ٹائرکی ساری ہوا نکل گئی۔ اُس کو بچانے کے لیے ایک صاحب بول پڑے کہ یہ بیچارا تو یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ آپ کے بھتیجے کے پاس اللہ نے کمال کی صلاحیت دی ہے۔ صاحب کے لہجے میں اتنی ہی چاشنی تھی جتنی پارٹی اجلاس میں لیڈرکے لیے چمچوں کی ہوتی ہے۔ چاچا یہ بات سنتے ہی اور اکڑگیا اور گرم گرم چائے کا گھونٹ لے کر فخر سے گردن ہلانے لگا، جیسے وہ رائیونڈ یا بنی گالہ میں موجود ہو۔ وہ صاحب پھر بولے کہ آج تو اُس نے کمال ہی کردیا۔اُس نے آسمان سے کتوں کے رونے کی آوازیں سُنی ہیں۔
چاچا کے حلق میں گھونٹ پھنس گیا، مگر اپنے وقارکو بھی برقرار رکھنا تھا۔ اس لیے مسکراتے ہوئے کہنے لگے کہ میرا بھتیجا بھی آدھا سچ بتاتا ہے۔ وہ بالکل صحیح بات کہہ رہا تھا۔ چاچا کو اب اپنے بھتیجے کا ڈراما سنبھالنا تھا۔ایک لمحے کے لیے تو سوچنے لگا کہ IMF سے قرضہ لینا آسان ہے یا بھتیجے کی ڈورکو سنبھالنا؟ چاچا کہنے لگے وہ گلی کے دوسری طرف تھا اور اُس کو آسمان سے آوازیں آرہی تھیں۔ اصل صورتحال میں نے دیکھی تھی۔کتے کے بچے گلی میں کھیل رہے تھے۔
میں نے دیکھا کہ ایک چیل بہت تیزی سے زمین کی طرف آرہی تھی، وہ کتے کے بچوں پر جھپٹی۔ایک کتے کے بچے کو چیل نے منہ میں دبایا اور دوسرے کو پنجے میں دبا کر تیزی سے اڑگئی ،کتے کے بچے رو رہے تھے۔ میرے بھتیجے نے چیل اورکتوں کو نہیں دیکھا صرف آواز سُنی تھی۔ اس لیے آپ سے کہہ رہا تھا۔ سب لوگوں کو چاچا کی بات کا یقین آگیا۔ چاچا نے اپنے بھتیجے کو ایک بار پھربچا لیا تھا۔ چاچا کے رعب اور دبدبے کے سامنے یہ بات سب نے مان لی۔ ایک صاحب نے کھڑے ہوکر فخر سے کہا ''میں کہہ رہا تھا کہ چاچا کا بھتیجا کبھی بڑی بڑی پھینک ہی نہیں سکتا۔''
چاچا صورتحال کو سمجھ چکے تھے فورا جلدی سے اٹھے اور اپنے بھتیجے کے پاس گئے ۔ بھتیجے سے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ محلے کے لوگ میرے رعب اور دبدبے سے ڈرتے ہیں، مگر اب بہت ہوچکی۔ جب تک تم زمین پر پھینکتے تھے میں سنبھال لیتا تھا، لیکن اب حد ہو چکی ہے۔ اب تم آسمان تک پہنچ گئے ہو، اس لیے آج کے بعد تم خود سنبھالنا۔ اب ہم بھی دیکھ لیتے ہیں کہ ہمارے نئے پاکستان میں چاچا کس کس بات کو سنبھال لیتے ہیں اورکہاں بات آسمان تک جائے گی اور چاچا بھی ہاتھ جھاڑ لیں گے۔
جب لیڈر جذبات میں بڑی بڑی پھینکنے لگتا ہے توایک چاچا کی ضرورت پڑتی ہے۔ جو میڈیا میں آکر قوم کو بتاتا ہے کہ اصل میں جوآپ نے سُنا ہے وہ ہمارے عظیم لیڈر نے کہا ہی نہیں اور جوکہا ہے وہ آپ کے گناہگارکانوں نے سُنا ہی نہیں۔ چاچا کا یہ قصہ مجھے رفیق بھائی نے سُنایا۔
اپنی بات کو سمجھانے کے لیے مثال بڑی دور سے لائے کہنے لگے کہ ایک بچے نے چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے کہا کہ آسمان سے کتوں کے رونے کی آوازیں آ رہی تھیں ۔سب لوگ حیرت سے لڑکے کا منہ تکنے لگے۔ سب کا منہ ایسے ہی کھُلا تھا جیسے ڈالرکی قیمت بڑھنے پر ہوگیا تھا۔ لڑکے نے اپنی بات کو سچ ثابت کرنے کے لیے قسم تک کھا لی۔کہنے لگا کہ خدا کی قسم کل میں نے آسمان سے کتوں کے رونے کی آواز سُنی ہے۔
اتنی بڑی قسم کے بعد کسی کے پاس کچھ کہنے کے لیے نہیں تھا، سب لوگ لڑکے کا منہ تکتے رہے۔ ہر ایک کے دل کی دھڑکن تیز ہوچکی تھی سب کو لگ رہا تھا کہ نیا پاکستان بن چکا ہے۔ لڑکے نے اپنی چائے ختم کی اور کندھے اُچکاتا ہوا چلا گیا۔جیسے اُس نے گورنر ہاؤس کو ایدھی سینٹر بنا دیا ہو۔ محلے کا یہ لڑکا اسی طرح کی پھینکاکرتا تھا۔ سب لوگ اُس کا منہ تکتے رہتے تھے۔ اکثر کو اس بات کا یقین تھا کہ یہ جھوٹ بولتا ہے، مگر لڑکے کا ایک چاچا تھا۔ رعب اور دبدبا ایسا تھا کہ کسی کی مجال نہیں تھی جو بھتیجے کو غلط ثابت کردے۔
ہر پھینکی ہوئی ڈورکو لپیٹنے کے لیے چاچا میدان میں اترجاتا تھا۔ جو باتوں باتوں میں لوگوں کو یقین دلا دیتا تھا کہ اُس کا بھتیجا جھوٹ نہیں بولتا۔ لڑکا ہوٹل سے چلاگیا تھا، سب لوگ آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ایک نے ویٹر سے نظریں بچا کرآہستہ سے کہا کہ ایسا ہوہی نہیں سکتا کہ آسمان سے کتوں کے رونے کی آوازیں آئیں کیونکہ کتا تو اڑنا نہیں جانتا تھا۔ سب لوگ باتیں سُنتے ہوئے بھی ادھر اُدھر دیکھ رہے تھے کہ کہیں کوئی چاچا کا مخبر سُن نہ لے اوراُسے لاپتہ نہ کردیا جائے۔
ایک صاحب نے کہا یہ لڑکا پچھلی بار بھی کہہ رہا تھا کہ میں نے دریا کے اوپر ہوا میں مچھلیاں ناچتے ہوئے دیکھی ہیں۔ ایک بڑے میاں نے کہا یہ لڑکا مجھے کہہ رہا تھا کہ میں نے پہاڑوں کو چلتے ہوئے دیکھا ہے۔ ابھی سب لوگ یہ ہی باتیں کر رہے تھے کہ لڑکے کا چاچا آگیا۔آج کے حساب سے یوں سمجھیں کہ جیسے کوئی ''ٹوئیٹ'' آگئی ہو۔ چاچا کو دور سے آتا دیکھ کر سب لوگ خاموش ہوگئے۔ چاچا جیسے ہی ہوٹل میں داخل ہوا، ملازم نے کرسی کو صاف کرنا شروع کردیا۔
چاچا نے اپنی مونچھوں کو تاؤ دیا اور اپنی کمرکو مزید اکڑکر اپنے ہاتھ کو اٹھا کر سلام کہا۔ سب لوگوں نے زور سے سلام کا جواب دیا۔ سلام اشاروں میں تھا اور جواب سے ماحول گونج اٹھا۔جیسے ٹوئیٹ چھوٹی ہوتی ہے اور پھر بریکنگ نیوز بہت بڑی ہوتی ہے۔ اتنی دیر میں چاچا کے لیے چائے آگئی۔ جیسے چائے والے کو پہلے ہی سے معلوم تھا کہ صاحب آرہے ہیں اسے ہماری زبان میں آپ خود سے عزت بچانا بھی کہہ سکتے ہیں یا پھر ''معتبر'' لفظ ''خود احتسابی'' بھی کہہ لیجیے۔
اب سب لوگ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے کہ کون ہمت کرکے چاچا سے پوچھتا ہے کہ تمھارا بھتیجا جولمبی لمبی پھینک کرگیا ہے اُس کا حساب کون دے گا۔کاش وہاں نیب ہوتی جو چاچا کوکسی اسکول کا ٹیچر سمجھتی اور ہتھکڑی لگا کر ذلیل کرتی، مگر ہمارے یہاں کے چاچا ٹیچر نہیں ہوتے،اس لیے آج تک انھیں ہتھکڑی نہیں لگ سکی، لیکن کسی میں ہمت نہیں تھی۔ سب لوگ چاچا کے رعب سے واقف تھے۔کسی میں ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ پہلے تو سب لوگ ایک دوسرے کی شکل دیکھ رہے تھے۔ اب آنکھوں آنکھوں میں ایک دوسرے کواشارہ کرنے لگے کہ تم پوچھو، مگر کوئی ٹس سے مس نہیں ہوا۔ کوئی بھی اپنے اوپر 22 اگست کا دن نہیں لانا چاہتا تھا اور نہ جمعے کا دن جب فیصلے آتے ہیں، غریب ویٹر یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا۔
اُس نے ٹیبل کو صاف کرتے ہوئے چاچا سے کہا کہ ابھی آپ کا بھتیجا آیا تھا۔اس سے پہلے کہ ویٹرکچھ کہتا چاچا نے غصے سے اُسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔اُس سے پیسے تو نہیں لیے؟ اگر اُس سے پیسے لیے تو اچھا نہیں ہو گا۔ویٹر وہیں خاموش ہوگیا ۔پاکستانی محاورے کے مطابق ٹائرکی ساری ہوا نکل گئی۔ اُس کو بچانے کے لیے ایک صاحب بول پڑے کہ یہ بیچارا تو یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ آپ کے بھتیجے کے پاس اللہ نے کمال کی صلاحیت دی ہے۔ صاحب کے لہجے میں اتنی ہی چاشنی تھی جتنی پارٹی اجلاس میں لیڈرکے لیے چمچوں کی ہوتی ہے۔ چاچا یہ بات سنتے ہی اور اکڑگیا اور گرم گرم چائے کا گھونٹ لے کر فخر سے گردن ہلانے لگا، جیسے وہ رائیونڈ یا بنی گالہ میں موجود ہو۔ وہ صاحب پھر بولے کہ آج تو اُس نے کمال ہی کردیا۔اُس نے آسمان سے کتوں کے رونے کی آوازیں سُنی ہیں۔
چاچا کے حلق میں گھونٹ پھنس گیا، مگر اپنے وقارکو بھی برقرار رکھنا تھا۔ اس لیے مسکراتے ہوئے کہنے لگے کہ میرا بھتیجا بھی آدھا سچ بتاتا ہے۔ وہ بالکل صحیح بات کہہ رہا تھا۔ چاچا کو اب اپنے بھتیجے کا ڈراما سنبھالنا تھا۔ایک لمحے کے لیے تو سوچنے لگا کہ IMF سے قرضہ لینا آسان ہے یا بھتیجے کی ڈورکو سنبھالنا؟ چاچا کہنے لگے وہ گلی کے دوسری طرف تھا اور اُس کو آسمان سے آوازیں آرہی تھیں۔ اصل صورتحال میں نے دیکھی تھی۔کتے کے بچے گلی میں کھیل رہے تھے۔
میں نے دیکھا کہ ایک چیل بہت تیزی سے زمین کی طرف آرہی تھی، وہ کتے کے بچوں پر جھپٹی۔ایک کتے کے بچے کو چیل نے منہ میں دبایا اور دوسرے کو پنجے میں دبا کر تیزی سے اڑگئی ،کتے کے بچے رو رہے تھے۔ میرے بھتیجے نے چیل اورکتوں کو نہیں دیکھا صرف آواز سُنی تھی۔ اس لیے آپ سے کہہ رہا تھا۔ سب لوگوں کو چاچا کی بات کا یقین آگیا۔ چاچا نے اپنے بھتیجے کو ایک بار پھربچا لیا تھا۔ چاچا کے رعب اور دبدبے کے سامنے یہ بات سب نے مان لی۔ ایک صاحب نے کھڑے ہوکر فخر سے کہا ''میں کہہ رہا تھا کہ چاچا کا بھتیجا کبھی بڑی بڑی پھینک ہی نہیں سکتا۔''
چاچا صورتحال کو سمجھ چکے تھے فورا جلدی سے اٹھے اور اپنے بھتیجے کے پاس گئے ۔ بھتیجے سے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ محلے کے لوگ میرے رعب اور دبدبے سے ڈرتے ہیں، مگر اب بہت ہوچکی۔ جب تک تم زمین پر پھینکتے تھے میں سنبھال لیتا تھا، لیکن اب حد ہو چکی ہے۔ اب تم آسمان تک پہنچ گئے ہو، اس لیے آج کے بعد تم خود سنبھالنا۔ اب ہم بھی دیکھ لیتے ہیں کہ ہمارے نئے پاکستان میں چاچا کس کس بات کو سنبھال لیتے ہیں اورکہاں بات آسمان تک جائے گی اور چاچا بھی ہاتھ جھاڑ لیں گے۔