تباہی سے بچنے کیلئے وقت ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے

مستقبل میں کسی ممکنہ تباہ کن صورت حال سے بچنےکے لیے عالمی معیشت اور معاشرے میں از سر نو تبدیلیاں درکار ہیں۔


Magazine Report October 18, 2018
دنیا کی سطح کے درجہ حرارت میں ایک ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہو چکا ہے۔ فوٹو: فائل

موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب عالمی سطح پر تباہی و افراتفری کی ممکنہ صورت حال سے بچنے کے لیے معاشرے اور معیشت میں واضح تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔

اقوام متحدہ نے ایک تازہ رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ معاشروں میں لوگوں کے طرز زندگی اور اقتصادیات میں اتنی وسیع تر تبدیلیاں درکار ہیں کہ ان کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ رپورٹ میں تنبیہ کی گئی ہے کہ تباہ کن صورتحال سے بچنے کے لیے وقت ہاتھ سے نکلے جا رہا ہے۔

دنیا کی سطح کے درجہ حرارت میں ایک ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہو چکا ہے جو مختلف سمندروں کی سطح میں اضافے اور نتیجتاً تباہ کن شدت کے طوفانوں، سیلابوں، خشک سالی اور دیگر قدرتی آفات کی آمد کا سبب بن سکتا ہے۔

علاوہ ازیں اگر تبدیلیاں متعارف نہ کرائی گئیں، تو موجودہ رفتار سے دنیا کی سطح کے درجہ حرارت میں تین سے چار ڈگری تک کا اضافہ ممکن ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں پیشنگوئی کی گئی ہے کہ زہریلی 'گرین ہاؤس' گیسوں کے اخراج کی موجودہ رفتار کے تحت دنیا کے درجہ حرارت میں ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ تک کا اضافہ کم سے کم بھی سن 2030 تک جبکہ زیادہ سے زیادہ سن 2050 تک ممکن ہے۔

جنوبی افریقی شہر ڈربن کے 'انوائرمنٹ پلاننگ اینڈ کلائیمیٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ' کی سربراہ ڈیبرا روبرٹس کا کہنا ہے کہ فیصلہ سازی کے اعتبار سے آئندہ چند سال انسانی کی تاریخ کے اہم ترین سال ہیں۔ اسی طرح لندن کے 'امپیریئل کالج' میں ماحولیات سے متعلق محکمے کے ایک پروفیسر جم اسکیا کا کہنا ہے، ''ہم نے اپنا کام کر دیا ہے۔ اب یہ حکومتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اقدامات اٹھائیں۔''

'انٹر گورنمنٹل پینل فار کلائمیٹ چینج' کی یہ رپورٹ ایک ایسے موقع پر جاری کی گئی ہے جب دسمبر میں پولینڈ میں ایک کلائمیٹ سمٹ منعقد ہو رہی ہے۔ اس سربراہی اجلاس میں عالمی رہنماؤں پر کافی دباؤ ہو گا کہ وہ ضرر رساں گیسوں کے اخراج کو محدود کرنے کے لیے اہداف بڑھائیں اور ان پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔

پاکستان کی صورت حال: پاکستان 'گلوبل وارمنگ' یا عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا سبب بننے والی 'گرین ہاؤس' گیسوں کے عالمی سطح پر اخراج کا صرف ایک فیصد کا حصہ دار ہے تاہم اس کے باوجود موسمیاتی تبدیلیوں و درجہ حرارت میں اضافے سے پاکستان کی دو سو ملین سے زائد آبادی کو سب سے زیادہ خطرات لاحق ہیں۔ سن 2018 کے 'گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس' میں پاکستان ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے، جو موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔

جغرافیائی لحاظ سے پاکستان مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا کے وسط میں واقع ہے۔ پیش گوئیوں کے مطابق اسی خطے میں درجہ حرارت میں اضافے کی رفتار سب سے زیادہ رہے گی۔ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کی ایک سابقہ رپورٹ کے مطابق سن 2100 یا اس صدی کے اختتام تک اس خطے میں اوسط درجہ حرارت میں چار ڈگری سینی گریڈ تک کا اضافہ ممکن ہے۔

جرمن واچ نامی تھنک ٹینک کے 2018ء کے 'گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس' کے مطابق پچھلے قریب بیس برسوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے سبب پاکستان میں سالانہ بنیادوں پر 523.1 اموات اور مجموعی طور پر 10,462 اموات ریکارڈ کی گئیں۔ اس عرصے میں طوفان، سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کے سبب تقریباً چار بلین امریکی ڈالر کے برابر مالی نقصانات بھی ریکارڈ کیے گئے۔

1945ء میں پاکستان بھر میں چار لاکھ ہیکٹر زمین پر مینگرو کے جنگل تھے تاہم اب یہ رقبہ گھٹ کر ستر ہزار ہیکٹر تک رہ گیا ہے۔ مینگرو کے درخت سونامی جیسی قدرتی آفات کی صورت میں دفاع کا کام کرتے ہیں۔ کراچی میں سن 1945 میں آخری مرتبہ سونامی آیا تھا۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق بحر ہند میں کسی بڑے زلزلے کی صورت میں سونامی کی لہریں ایک سے ڈیڑھ گھٹنے میں کراچی پہنچ سکتی ہیں اور یہ پورے شہر کو لے ڈوبیں گی۔

پاکستان میں سن میں آنے والے سیلابوں کے نتیجے میں سولہ سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ سیلابی ریلوں نے ساڑھے اڑتیس ہزار اسکوائر کلومیٹر رقبے کو متاثر کیا اور اس کے مالی نقصانات کا تخمینہ دس بلین ڈالر تھا۔ کراچی سے تین برس قبل آنے والی 'ہیٹ ویو' یا شدید گرمی کی لہر نے فبارہ سو افراد کو لقمہ اجل بنا دیا۔ ماہرین کے مطابق مستقبل میں ایسے واقعات قدرتی آفات میں اضافہ ہوتا جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں