غصہ کس کا دشمن ہے
اصل مسئلہ تب ہوتا ہے جب ہم غصے کے درست انعکاس کا انتخاب نہیں کرتے
پی کے (اسرار، ہمارے ڈرائیور صاحب) اپنی موبائل اسکرین ٹوٹنے کے بعد ہونقوں کی طرح میری شکل دیکھے جارہے تھے۔ انہیں اب شرمندگی تو ہورہی تھی کہ ان کی تیز رفتاری کی وجہ سے باقی لوگ تنگ ہوئے سو ہوئے لیکن اپنے ہی موبائل کی اسکرین ٹوٹ جائے گی، اس کا تصور بھی انہوں نے نہیں کیا تھا۔ میرے منع کرنے کے باوجود بھی انہوں نے اگلی گاڑی کو اوور ٹیک کرنے کےلیے جو گاڑی تیز چلائی، تو نہ صرف گاڑی اچھلی بلکہ ڈیش بورڈ پر پڑا ان کا موبائل بھی گیئر کے نیچے لگے لوہے سے ٹکرا کر ٹوٹ گیا کیونکہ اس پر حفاظتی کور بھی موجود نہیں تھا۔
یہ صورتحال آج کی نہیں، روز ہی ہم سڑکوں پر غصے سے لال بھبھوکا چہرے دیکھتے ہیں جو اوورٹیک کے چکر میں کبھی ایک دوسرے سے دست و گریباں ہوتے ہیں تو کہیں مغلظات کا ایک طوفان بلند ہوتا ہے؛ گاڑیوں کا نقصان ہوتا ہے اور روپے پیسوں کا (میں تو یہی کہوں گی کہ) بھاؤ تاؤ چل رہا ہوتا ہے۔
جہاں گفتگو کی گنجائش نہ ہو، ظاہر ہے کہ وہاں ہاتھ ہی چلتے ہیں۔ آفس ہو یا گھر، اختلاف رائے کی گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے غصہ بھی آتا ہے اور ذہنی تفکر میں بھی اضافہ ہوتا ہے لیکن اصل مسئلہ تب ہوتا ہے جب ہم غصے کے درست انعکاس کا انتخاب نہیں کرتے۔
دلائل اور بحث میں بہت فرق ہوتا ہے۔ کسی بھی جگہ اگر آپ کسی بھی شخص کو کسی سے بحث کرتا ہوا دیکھ لیں تو سمجھ لیجیے کہ اس میں بہتر تعلقات بنانے کی صلاحیت صفر ہے کیونکہ جہاں بحث ہوگی وہیں پر غصہ اور جنونیت جنم لے گی۔
غصہ اپنے ساتھ بہت سی جنونیت لے کر آتا ہے، مسائل کو حل کرنے کے بجائے مسائل کو جنم دیتا ہے۔ اسی لیے اسلام میں بھی غصے کی ممانعت ہے اور حدیث نبویﷺ ہے کہ غصہ عقل کا دشمن ہے اور ایک آگ کی طرح ہے، اس لیے غصے کی حالت میں اگر کھڑے ہو تو بیٹھ جاؤ اور بیٹھے ہو تو لیٹ جاؤ (تاکہ غصہ اعصاب کو کوئی نقصان نہ پہنچاسکے)۔
اب اس چیز پر آجائیے کہ غصے کو کنٹرول کیسے کیا جائے؟ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ معمولی سی باتوں پر غصہ آتا ہے، تو جس شخص پر غصہ ہے، اس سے براہ راست بات کرکے اس کا نقطہ نظر سمجھیے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ صرف تعصب کی نظر سے دیکھ رہے ہوں۔ خود سے کسی چیز کا اندازہ نہ لگائیے بلکہ حقائق کا جائزہ لیجیے۔ منفی باتوں سے اجتناب، بحث و تکرار سے گریز، کشیدہ صورتحال اور جگہ سے چلے جانا اور دوسروں کا مؤقف سننا غصے سے نجات کے بہترین طریقے ہیں۔
لیکن یہ کبھی نہ بھولیے کہ غلط بات پر بھی آپ کی طرف سے معذرت اور جائز غصے کا اظہار نہ کرنا بھی بزدلی اوراخلاقی جرأت نہ ہونے کی علامت ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
یہ صورتحال آج کی نہیں، روز ہی ہم سڑکوں پر غصے سے لال بھبھوکا چہرے دیکھتے ہیں جو اوورٹیک کے چکر میں کبھی ایک دوسرے سے دست و گریباں ہوتے ہیں تو کہیں مغلظات کا ایک طوفان بلند ہوتا ہے؛ گاڑیوں کا نقصان ہوتا ہے اور روپے پیسوں کا (میں تو یہی کہوں گی کہ) بھاؤ تاؤ چل رہا ہوتا ہے۔
جہاں گفتگو کی گنجائش نہ ہو، ظاہر ہے کہ وہاں ہاتھ ہی چلتے ہیں۔ آفس ہو یا گھر، اختلاف رائے کی گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے غصہ بھی آتا ہے اور ذہنی تفکر میں بھی اضافہ ہوتا ہے لیکن اصل مسئلہ تب ہوتا ہے جب ہم غصے کے درست انعکاس کا انتخاب نہیں کرتے۔
دلائل اور بحث میں بہت فرق ہوتا ہے۔ کسی بھی جگہ اگر آپ کسی بھی شخص کو کسی سے بحث کرتا ہوا دیکھ لیں تو سمجھ لیجیے کہ اس میں بہتر تعلقات بنانے کی صلاحیت صفر ہے کیونکہ جہاں بحث ہوگی وہیں پر غصہ اور جنونیت جنم لے گی۔
غصہ اپنے ساتھ بہت سی جنونیت لے کر آتا ہے، مسائل کو حل کرنے کے بجائے مسائل کو جنم دیتا ہے۔ اسی لیے اسلام میں بھی غصے کی ممانعت ہے اور حدیث نبویﷺ ہے کہ غصہ عقل کا دشمن ہے اور ایک آگ کی طرح ہے، اس لیے غصے کی حالت میں اگر کھڑے ہو تو بیٹھ جاؤ اور بیٹھے ہو تو لیٹ جاؤ (تاکہ غصہ اعصاب کو کوئی نقصان نہ پہنچاسکے)۔
اب اس چیز پر آجائیے کہ غصے کو کنٹرول کیسے کیا جائے؟ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ معمولی سی باتوں پر غصہ آتا ہے، تو جس شخص پر غصہ ہے، اس سے براہ راست بات کرکے اس کا نقطہ نظر سمجھیے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ صرف تعصب کی نظر سے دیکھ رہے ہوں۔ خود سے کسی چیز کا اندازہ نہ لگائیے بلکہ حقائق کا جائزہ لیجیے۔ منفی باتوں سے اجتناب، بحث و تکرار سے گریز، کشیدہ صورتحال اور جگہ سے چلے جانا اور دوسروں کا مؤقف سننا غصے سے نجات کے بہترین طریقے ہیں۔
لیکن یہ کبھی نہ بھولیے کہ غلط بات پر بھی آپ کی طرف سے معذرت اور جائز غصے کا اظہار نہ کرنا بھی بزدلی اوراخلاقی جرأت نہ ہونے کی علامت ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔