دریا سے نکال اور دریا میں ڈال

وہ شاخ آج کل ہی میں پھولوں سے لد جائے گی کیونکہ میں نے اس کی کونپلوں میں ’’کلیاں‘‘ دیکھ لی ہیں۔

barq@email.com

کوئی ایسا ویسا عام چالو قسم کا نہیں بلکہ ہمیں پکا پکا یقین بلکہ حق الیقین ہو گیا ہے کہ تھا جس کا انتظار وہ شاہکار نمودار اور آشکار ہونے والا ہے۔ یعنی تبدیلی کے معجزے سے نیا پاکستان اب بن کر رہے گا۔ پشتو میں ایک ٹپہ ہے کہ

سانگہ بہ نن صبا کے گل شی

مائے پہ سرکے سرے غوٹیٔ لیدلی دینہ

یعنی وہ شاخ آج کل ہی میں پھولوں سے لد جائے گی کیونکہ میں نے اس کی کونپلوں میں ''کلیاں'' دیکھ لی ہیں۔ بلکہ جس انداز سے ''نئے پاکستان'' کی تعمیر ہونے جا رہی ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ صرف ایک ہی نہیں بلکہ دو چار نئے پاکستان اور بھی ہم بنا سکیں گے۔ تا کہ اگر ایک ''پنکچر'' ہو جائے تو فوراً دوسرا لگایا جا سکے۔

اور یہ سب کچھ اس لیے ہمیں ممکن نظر آنے لگا ہے کہ ہم نے اپنے بزرگوں کا سینہ بہ سینہ، جیب بہ جیب اور دست بہ دست آنے والا خاندانی نسخہ اپنا لیا ہے جس کا نام ''چندہ'' ہے۔ جی ہاں۔

ابو کی لاڈلی پپو کا پیارا

اک میرا چندا اک مرا تارا

ہمارے بزرگوں نے اس ہمہ جہت، ہمہ مفت کم خرچ بالانشین ''چندے'' کو ایجاد کر کے ہمارے ہاتھ میں گویا گیدڑ سنگی یا سانپ کا منکہ یا گل بکاولی دیا ہوا ہے۔ یہ ایک ایسا نسخہ بلکہ تریاق ہے جو ہر مرض کا علاج، ہر سر کا تاج اور سدا بہار خراج ہے۔ کسی بھی وقت کسی بھی جگہ کسی بھی بات کو لے کر آپ اسے اسٹارٹ کر سکتے ہیں اور پھر دیکھیے انداز گل افشائی دینار و ریال و ڈالر و یورو پونڈ۔ روپیہ کو تو دفع کر دیجیے کہ وہ اب نہ کسی شمار میں ہے نہ قطار میں۔

یہ با ت تو خیر ابھی تحقیق طلب ہے اور اگر ہمارے ٹٹوئے تحقیق نے ہمارا ساتھ دیا کیونکہ آج کل وہ چند خواتین کی جانب سے ہراسگی یا ہراسمنٹ کا شکار ہے۔ تو ہم یہ پتہ بھی لگا لیں گے کہ چندے اور بھیک کا آپسی رشتہ کیا ہے۔ پہلے چندہ پیدا ہوا تھا یا بھیک نے جنم لیا تھا۔ اور کیا یہ ایک ہی والدین کا ''نتیجہ فکر'' ہیں یا الگ الگ ماں باپ کا کارنامہ ہیں۔ دونوں کا ڈی این اے یا قارورہ آپس میں ملتا ہے یا نہیں۔ کہیں ان دونوں کا رشتہ انڈے اور مرغی جیسا تو نہیں کہ انڈے کی پیدائش کے ساتھ ہی مرغی بھی اس کے پیٹ میں تھی اور مرغی کے پیٹ میں انڈہ موجود تھا؟

اس تحقیقی پراجیکٹ پر تو ہم بعد میں کام شروع کریں گے فی الحال اس آئیڈیا پر عش عش کرنے دیجیے کہ کیا پہلوان بلکہ رستم زمان قسم کا آئیڈیا ہے گویا


سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر

اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ میرے اس دعا کے بعد

یہ گھروں کی عمارتیں کیا چیز ہیں اگر کوئی چاہے تو مریخ پر یا زہرہ بائی ہاروت ماروت والی پر بھی عمارات کھڑی کر سکتا ہے۔

مثلاً جب چندے کی بات چلی تو ہم نے بھی سوچا کہ ہم بھی اس کار خیر میں اپنا حصہ ڈالیں آخر پاکستانی ہونے کے بعد مسلمان ہونے کے ناطے یہ ''جرمانہ'' تو ہم پر بھی بنتا ہے۔ لیکن جب جیب میں ہاتھ ڈالا تو نیستی کے بچھو نے ایسا ڈنک مارا کہ فوراً ہاتھ نکالنا پڑا۔ اس وقت ہم نے سوچا کاش ہماری بھی آٹھ دس لاکھ یا پچاس ساٹھ ستر لاکھ تنخواہ ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا۔ ہم کتنی سہولت سے آدھی تنخواہ نذر کر دیتے لیکن سچ کہا ہے بزرگوں نے کہ اے خالی ہاتھ تو ہی میرا دشمن ہے بلکہ شیطان ہے کہ ''نیکی'' کا کام نہیں کرنے دے رہے ہو۔

اور یہ تو نہایت ہی مستند قسم کی نیکی ہے کہ اس کا تعلق ''دریا'' سے بھی ہے کتنے مبارک اور خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اپنی نصف نصف یا پوری پوری تنخواہیں نیکی بنا کر ''دریا'' میں ڈال رہے ہیں۔

سو وہ تجویز جو ہمارے ذہن میں پک رہی تھی اب پک کر تیار ہو گئی ہے یعنی اپنے پہ یہ قیاس کر کے ہم سوچ رہے ہیں کہ آج اگر حکومت ملک کے تمام لوگوں کی تنخواہ مقرر کر دے یا کوئی دوسرا ذریعہ آمدن تھما دے، تو کون ہو گا جو اپنی آدھی تنخواہ یا تھوڑی سی آمدن کسی منصوبے کے چندے یعنی دریا میں ڈالنا پسند نہیں کرے گا۔

اور تو اور چشم گل چشم عرف سوائن فلو جیسے ناہنجار نابکار، خدائی خوار، کنجوس مکھی چوس اور سراسر منحوس نے بھی یہ بات سنی تو اس نے حاتم طائی کی قبر پر دل ہی دل میں لات مارتے ہوئے کہا کہ میں تو آدھی سے بھی زیادہ تنخواہ دے دوں گا۔

بہرحال سرکاری اور تنخواہ دار اور آمدن سرکار سے وابستہ لوگوں کا یہ جذبہ حب الوطنی بلکہ جذبۂ ڈیمی یا چندی دیکھ کر ہماری تو آنکھیں بھر آئیں۔ ہم تو ویسے ہی بچاروں پر ایسے ویسے پڑے پڑے شک کر رہے تھے اور وہ کتنے ''دیالو'' نکلے۔

ہاں جن کی تنخواہیں یا ٹھیکے یا دوسرے دھندے نہیں ہیں جن سے چندے کے دھندے میں شرکت کر سکیں ان کے لیے بھی ہمارے پاس تجویز ہے۔ انسان تو اپنی استطاعت کا پابند ہوتا ہے نقد نہیں ہیں تو اپنی دعائیں ''چندے'' میں ڈال دیں کہ دعاؤں میں بھی بڑی برکت ہوتی ہے۔ اگر جن لوگوں سے ہم دعاؤں کا چندہ دینے کی اپیل کر رہے ہیں، ان کی دعائیں کچھ زیادہ قابل اعتبار اور مستجاب نہیں ہیں، اگر ہوتیں تو وہ بھی آدھی تنخواہ کے تو مالک ہوتے پوری بھوک سے نہ لڑ رہے ہوتے۔ لیکن پھر بھی کوشش کرنے میں حرج ہی کیا ہے۔ تنخواہوں والوں کی طرح ان کی اپنی جیبوں سے بھی کیا جائے گا دے ہی ڈالیں دعا۔

بہر حال آخری بات یہ کہ آخر میں کچھ بھی نہیں۔ سوائے اس کے کہ دریا سے نکال اور دریا میں ڈال۔
Load Next Story