اردو الفاظ کی ادائیگی میں اغلاط کی بھرمار
صریر خامہ سے لے کر گفتگو کے آہنگ پر نظر کی جائے تو اس میں بلا کی کشش موجود تھی۔
PYONGYANG:
قائد اعظم نے پاکستان کے قیام کے وقت جس زبان کا انتخاب کیا وہ اردو تھی۔ انھوں نے تین مرتبہ یہ الفاظ دہرائے کہ پاکستان کی قومی زبان اردو، اردو اور صرف اردو ہوگی۔ان پر اردو داں طبقے کا کوئی دباؤ نہ تھا اور نہ ہی وہ کسی قسم کا دباؤ قبول کرنے والی شخصیت تھے۔ بلکہ ان کی بالغ نظری اور دور بینی کا یہ فیصلہ تھا کہ جس نے تمام صوبوں کو اپنے نازک لہجے اور آہنگ کے ذریعے مضبوطی سے جوڑ رکھا ہے۔
تقسیم ہند کے بعد پاکستان کے ریڈیو اسٹیشن نے زیڈ اے بخاری کی نگہبانی میں نشریات شروع کیں جو ہر معیار پر پوری اترتی تھیں۔ صریر خامہ سے لے کر گفتگو کے آہنگ پر نظر کی جائے تو اس میں بلا کی کشش موجود تھی۔
ڈرامہ ہو، نظم یا نثر، لوگ باقاعدگی سے اس کو سنا کرتے تھے اور جب پی ٹی وی کی نشریات کا آغاز ہوا تو اسلم اظہر نے بھی اس حسن کو کم از کم جاری رکھنے کی کوشش کی اور اس فن کو آگے بڑھایا۔ مگر جمہوریت اور آمریت کی آمیزش سے جس کلچر کا احیا کیا گیا تو پھر اردو زبان کی زبوں حالی کا آغاز ہوا۔
میڈیائی خبروں کے اعتبار سے نہ سہی زبان اور بیان کے اعتبار سے اردو زبان پر ہر شخص نے طبع آزمائی شروع کی اور نت نئی تبدیلیاں بغیر کسی علم اور ثبوت کے جاری رکھی ہیں اور اب صورتحال کچھ اس نہج پر آ چکی ہے کہ اب ٹوکنا ضروری ہو چکا ہے۔ اردو زبان پر جن شعرا، ادبا اور تنقید نگاروں نے زبان میں شیرینی بکھیری ہے اور جابجا کشش کے جواہر سے زبان کو مرصع کیا ہے ان کا احسان ماننا بھی ضروری ہے یہ عمل صرف آتشؔؔ اور ناسخؔؔ کا نہیں بلکہ رثائی ادب کے ستاروں کی بھی کاوشیں ہیں۔ جس کا اعتراف مولانا الطاف حسین حالیؔ نے بھی کیا ہے جوکبھو اب کبھی ہے۔ ایک مصرع جو رثائی ادب سے مستعار ہے ''بلبلیں مجھ سے گلستاں کا سبق یاد کریں۔''
2010ء کے بعد جس الیکٹرانک میڈیا کی آمد ہوئی ہے، تو اردو الفاظ کی ادائیگی میں اغلاط کی بھرمار ہو چکی ہے خصوصاً اضافت اور تشدید میں بے شمار غلطیاں موجودہ اینکرز فرماتے ہیں اور ان کی اصلاح کرنے والا کوئی نہیں، خصوصاً تشدید کی غلطیوں سے بیشتر حضرات نابلد ہیں۔ تشدید کا استعمال ایک لفظ کو دہرانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
یہ عربی سے مستعار ہے، بالکل ایسے جیسے انگریزی زبان میں بیٹنگ (Batting) کرنے کے لیے دو بار (T) ٹی کو استعمال کیا جاتا ہے، مثال کے طور پر لفظ مسودہ پڑھتے وقت ''و'' کو دو مرتبہ ادا کرنا ہو گا کیونکہ واؤ پر ''تشدید'' ہے۔ (Masawwadah) مگر اس کو یوں بیان کیا جا رہا ہے مسودہ جس کو انگریزی میں ڈاکومنٹ (Document)کہتے ہیں بس رواداری میں بغیر زبان کی مستند ادائیگی کے ادا کیا جا رہا ہے اور تشدید اور زیادہ تر بے موقع اضافت لگائی جاتی ہے اس سے استفادہ کرتے ہوئے تشدید کا سہارا لیا اور ادائیگی کو نہایت بلیغ مقام پر بٹھا دیا۔ جو عربی زبان کا طرہ امتیاز ہے۔ مگر اینکر پرسن اس جہاز کو ڈبو کے ہی دم لیتے ہیں اور یہاں اضافت سے کام لیتے ہیں اور انداز تکلم بھی ایسا کہ جیسے انھوں نے کوئی غلطی نہ فرمائی ہو۔ اگر عوام سے روبرو ہونے سے قبل ان کی کوئی کلاس لے لی جاتی تو بہتر ہوتا کیونکہ سامعین عموماً (تشدید) کو غلط تکلم خیال کرتے ہیں اور اپنی اصلاح پر مجبور نہیں ہوتے ہیں ،گویا اردو زبان کے ساتھ جہالت برتی جا رہی ہے اور حلف اٹھانے کو حلف اٹھانا اور جانے کیا کیا کہتے ہیں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ زیڈ اے بخاری والد مرحوم پروفیسر مجتبیٰ حسین سے کوئٹہ ملنے آئے تھے تو میں بھی جناب کی آمد پر سلام کرنے پہنچا تو آپ نے برجستہ یہ شعر پڑھا:
تخت اپنا ہے مگر وقت نہیں ہے اپنا
وقت آیا تو ہمیں لوگ سلیماں ہوں گے
بات توکافی پرانی ہے 1987ء کی مگر وہ اس نئی روش پر جو میڈیا نے اپنائی تھی خاصے ناخوش تھے۔ چلیے کہیں طرز سخن کسی اور شاہراہ کی جانب نہ مڑ جائے بالکل سخن اسی جانب رواں رہے جدھر کا قصد ہے تو زیادہ بہتر ہو گا اور اس علمی بحث کو جاری رکھنے سے عوام کو نہ صرف فائدہ ہو گا بلکہ چلتے چلتے زبان کی خدمت بھی۔ الیکٹرانک میڈیا کے ایک اور لفظ پر ہم گفتگو کرتے ہیں، ویسے تو ایک پوری کتاب مرتب ہو سکتی ہے اگر اغلاط کو زیر بحث لایا جائے۔ میڈیا نے الفاظ کو توڑکر بولنے اور لکھنے کی روایت شروع کی، مگر ادبی حلقوں کی طرف سے اس روایت کو ناپسند گردانا گیا، سو اہم چینلوں نے تو اپنی راہ بدل دی مگر ابھی بھی بہت سے چینل اسی رسم کے وفادار بنے ہوئے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ یہ نہایت حسین ندرت خیال ہے وہ لفظ ہے ''گفتگو'' کا۔
گفت فارسی زبان کا لفظ ہے اور اس کا مصدر ہے گفتن بات چیت کرنا۔ اس کا مصدرگوید یہ فارسی گرامرکی ترکیب ہے لہٰذا یہ ترتیب جو انیسؔ و دبیرؔ، آتشؔ اور ناسخؔ نے کی ہے وہ ٹی وی سے منسلک منسوخ کرنے کا مجاز نہیں ہیں۔ مندرجہ بالا شعرا نے تلک کو تک میں بدلا بتلاؤ کو بتاؤ بنایا ، آج جو اردو بولی جا رہی ہے۔
اس میں ناقدان ادب کی دسترس شامل ہے، ان کے اسمائے گرامی کے یہ صفحات متحمل نہیں ہو سکتے کیونکہ یہ طویل ادبی اور علمی گفتگو ہو گی مگر فی الوقت جو زبان میڈیا پر لکھی جا رہی ہے تمام لوگ اس بگڑی زبان سے متفق نہیں کیونکہ گفت کو الگ اور ''گو'' الگ لکھنا نہ صرف اردو زبان کے لحاظ سے مہمل ہے بلکہ یہ غیر شائستہ انداز بیان ہے کیونکہ گفت کے معنی بولنے کے ہوئے مگر ''گو'' اردو زبان میں فضلے کو کہتے ہیں لہٰذا اس کو کوئی ناقد صاد نہیں کر سکتا۔ بات صرف یہیں پر ختم نہ ہوئی بلکہ اردو زبان پر ایک ضرب یوں لگائی گئی ہے کہ مسالے کو مصالحہ بنا دیا گیا، بالکل ایسے جیسے کوئی صالح کو صالحہ بنا دے بلکہ اس سے بھی بدتر جب کہ مسالے میں ص کی آواز غالب نہیں ہے مگر افسوس کی بات ہے کہ ادبا اور شعرا نے اس غلط بیانی پر قلم نہ اٹھایا لہٰذا مجبوراً حسرت موہانی کے اس شعر پر تحریر کو ختم کرنا پڑتا ہے کہ:
جنوں کا نام خرد رکھ دیا خرد کا جنوں
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
قائد اعظم نے پاکستان کے قیام کے وقت جس زبان کا انتخاب کیا وہ اردو تھی۔ انھوں نے تین مرتبہ یہ الفاظ دہرائے کہ پاکستان کی قومی زبان اردو، اردو اور صرف اردو ہوگی۔ان پر اردو داں طبقے کا کوئی دباؤ نہ تھا اور نہ ہی وہ کسی قسم کا دباؤ قبول کرنے والی شخصیت تھے۔ بلکہ ان کی بالغ نظری اور دور بینی کا یہ فیصلہ تھا کہ جس نے تمام صوبوں کو اپنے نازک لہجے اور آہنگ کے ذریعے مضبوطی سے جوڑ رکھا ہے۔
تقسیم ہند کے بعد پاکستان کے ریڈیو اسٹیشن نے زیڈ اے بخاری کی نگہبانی میں نشریات شروع کیں جو ہر معیار پر پوری اترتی تھیں۔ صریر خامہ سے لے کر گفتگو کے آہنگ پر نظر کی جائے تو اس میں بلا کی کشش موجود تھی۔
ڈرامہ ہو، نظم یا نثر، لوگ باقاعدگی سے اس کو سنا کرتے تھے اور جب پی ٹی وی کی نشریات کا آغاز ہوا تو اسلم اظہر نے بھی اس حسن کو کم از کم جاری رکھنے کی کوشش کی اور اس فن کو آگے بڑھایا۔ مگر جمہوریت اور آمریت کی آمیزش سے جس کلچر کا احیا کیا گیا تو پھر اردو زبان کی زبوں حالی کا آغاز ہوا۔
میڈیائی خبروں کے اعتبار سے نہ سہی زبان اور بیان کے اعتبار سے اردو زبان پر ہر شخص نے طبع آزمائی شروع کی اور نت نئی تبدیلیاں بغیر کسی علم اور ثبوت کے جاری رکھی ہیں اور اب صورتحال کچھ اس نہج پر آ چکی ہے کہ اب ٹوکنا ضروری ہو چکا ہے۔ اردو زبان پر جن شعرا، ادبا اور تنقید نگاروں نے زبان میں شیرینی بکھیری ہے اور جابجا کشش کے جواہر سے زبان کو مرصع کیا ہے ان کا احسان ماننا بھی ضروری ہے یہ عمل صرف آتشؔؔ اور ناسخؔؔ کا نہیں بلکہ رثائی ادب کے ستاروں کی بھی کاوشیں ہیں۔ جس کا اعتراف مولانا الطاف حسین حالیؔ نے بھی کیا ہے جوکبھو اب کبھی ہے۔ ایک مصرع جو رثائی ادب سے مستعار ہے ''بلبلیں مجھ سے گلستاں کا سبق یاد کریں۔''
2010ء کے بعد جس الیکٹرانک میڈیا کی آمد ہوئی ہے، تو اردو الفاظ کی ادائیگی میں اغلاط کی بھرمار ہو چکی ہے خصوصاً اضافت اور تشدید میں بے شمار غلطیاں موجودہ اینکرز فرماتے ہیں اور ان کی اصلاح کرنے والا کوئی نہیں، خصوصاً تشدید کی غلطیوں سے بیشتر حضرات نابلد ہیں۔ تشدید کا استعمال ایک لفظ کو دہرانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
یہ عربی سے مستعار ہے، بالکل ایسے جیسے انگریزی زبان میں بیٹنگ (Batting) کرنے کے لیے دو بار (T) ٹی کو استعمال کیا جاتا ہے، مثال کے طور پر لفظ مسودہ پڑھتے وقت ''و'' کو دو مرتبہ ادا کرنا ہو گا کیونکہ واؤ پر ''تشدید'' ہے۔ (Masawwadah) مگر اس کو یوں بیان کیا جا رہا ہے مسودہ جس کو انگریزی میں ڈاکومنٹ (Document)کہتے ہیں بس رواداری میں بغیر زبان کی مستند ادائیگی کے ادا کیا جا رہا ہے اور تشدید اور زیادہ تر بے موقع اضافت لگائی جاتی ہے اس سے استفادہ کرتے ہوئے تشدید کا سہارا لیا اور ادائیگی کو نہایت بلیغ مقام پر بٹھا دیا۔ جو عربی زبان کا طرہ امتیاز ہے۔ مگر اینکر پرسن اس جہاز کو ڈبو کے ہی دم لیتے ہیں اور یہاں اضافت سے کام لیتے ہیں اور انداز تکلم بھی ایسا کہ جیسے انھوں نے کوئی غلطی نہ فرمائی ہو۔ اگر عوام سے روبرو ہونے سے قبل ان کی کوئی کلاس لے لی جاتی تو بہتر ہوتا کیونکہ سامعین عموماً (تشدید) کو غلط تکلم خیال کرتے ہیں اور اپنی اصلاح پر مجبور نہیں ہوتے ہیں ،گویا اردو زبان کے ساتھ جہالت برتی جا رہی ہے اور حلف اٹھانے کو حلف اٹھانا اور جانے کیا کیا کہتے ہیں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ زیڈ اے بخاری والد مرحوم پروفیسر مجتبیٰ حسین سے کوئٹہ ملنے آئے تھے تو میں بھی جناب کی آمد پر سلام کرنے پہنچا تو آپ نے برجستہ یہ شعر پڑھا:
تخت اپنا ہے مگر وقت نہیں ہے اپنا
وقت آیا تو ہمیں لوگ سلیماں ہوں گے
بات توکافی پرانی ہے 1987ء کی مگر وہ اس نئی روش پر جو میڈیا نے اپنائی تھی خاصے ناخوش تھے۔ چلیے کہیں طرز سخن کسی اور شاہراہ کی جانب نہ مڑ جائے بالکل سخن اسی جانب رواں رہے جدھر کا قصد ہے تو زیادہ بہتر ہو گا اور اس علمی بحث کو جاری رکھنے سے عوام کو نہ صرف فائدہ ہو گا بلکہ چلتے چلتے زبان کی خدمت بھی۔ الیکٹرانک میڈیا کے ایک اور لفظ پر ہم گفتگو کرتے ہیں، ویسے تو ایک پوری کتاب مرتب ہو سکتی ہے اگر اغلاط کو زیر بحث لایا جائے۔ میڈیا نے الفاظ کو توڑکر بولنے اور لکھنے کی روایت شروع کی، مگر ادبی حلقوں کی طرف سے اس روایت کو ناپسند گردانا گیا، سو اہم چینلوں نے تو اپنی راہ بدل دی مگر ابھی بھی بہت سے چینل اسی رسم کے وفادار بنے ہوئے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ یہ نہایت حسین ندرت خیال ہے وہ لفظ ہے ''گفتگو'' کا۔
گفت فارسی زبان کا لفظ ہے اور اس کا مصدر ہے گفتن بات چیت کرنا۔ اس کا مصدرگوید یہ فارسی گرامرکی ترکیب ہے لہٰذا یہ ترتیب جو انیسؔ و دبیرؔ، آتشؔ اور ناسخؔ نے کی ہے وہ ٹی وی سے منسلک منسوخ کرنے کا مجاز نہیں ہیں۔ مندرجہ بالا شعرا نے تلک کو تک میں بدلا بتلاؤ کو بتاؤ بنایا ، آج جو اردو بولی جا رہی ہے۔
اس میں ناقدان ادب کی دسترس شامل ہے، ان کے اسمائے گرامی کے یہ صفحات متحمل نہیں ہو سکتے کیونکہ یہ طویل ادبی اور علمی گفتگو ہو گی مگر فی الوقت جو زبان میڈیا پر لکھی جا رہی ہے تمام لوگ اس بگڑی زبان سے متفق نہیں کیونکہ گفت کو الگ اور ''گو'' الگ لکھنا نہ صرف اردو زبان کے لحاظ سے مہمل ہے بلکہ یہ غیر شائستہ انداز بیان ہے کیونکہ گفت کے معنی بولنے کے ہوئے مگر ''گو'' اردو زبان میں فضلے کو کہتے ہیں لہٰذا اس کو کوئی ناقد صاد نہیں کر سکتا۔ بات صرف یہیں پر ختم نہ ہوئی بلکہ اردو زبان پر ایک ضرب یوں لگائی گئی ہے کہ مسالے کو مصالحہ بنا دیا گیا، بالکل ایسے جیسے کوئی صالح کو صالحہ بنا دے بلکہ اس سے بھی بدتر جب کہ مسالے میں ص کی آواز غالب نہیں ہے مگر افسوس کی بات ہے کہ ادبا اور شعرا نے اس غلط بیانی پر قلم نہ اٹھایا لہٰذا مجبوراً حسرت موہانی کے اس شعر پر تحریر کو ختم کرنا پڑتا ہے کہ:
جنوں کا نام خرد رکھ دیا خرد کا جنوں
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے