کہنے اور کرنے میں بڑا فرق ہے
ملک چلانے اور صرف تنقید کرنے میں بڑا فرق ہے۔ کہتے ہیں ناں کہ اونٹ پہاڑ تلے آکر ہی اپنی قامت کا اندازہ کرتا ہے۔
پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت کو ''مڈل کلاس کی پڑھی لکھی'' قیادت کہا جا رہا ہے۔ ہمارے دانشور اور کالم نگار اس بات کا بھرپور اظہار کررہے ہیں۔ مگر یہ بات درست ہوتے ہوئے بھی سو فی صد درست نہیں۔ نئی حکومت میں بڑے زمیندار، صنعت کار، سردار، مخدوم اور دیگر پارٹیوں کو چھوڑ کر آنے والے ابن الوقت بھی بکثرت موجود ہیں۔
ان میں وہ بھی شامل ہیں جو اپنی پرانی جماعتوں میں کرپشن کا باعث بھی رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان بہرصورت الیکشن جیتنے کے لیے اپنے اپنے حلقوں سے عموماً جیتنے والوں کو چنا جن کا تعلق ان جماعتوں سے گہرا اور پرانا تھا جن کو عمران خان ببانگ دہل بدعنوان کہتے تھے، مگر وہ کیونکہ اپنے حلقوں میں کامیاب تھے تو انھوں نے بھی ہوا کا رخ بدلتا دیکھ کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرلی اور پی ٹی آئی چیئرمین ان کی وجہ سے بالآخر وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوگئے۔ (واضح اکثریت نہ ہوتے ہوئے بھی) یہی نہیں انھوں نے اپنے دعوؤں کے برخلاف آزادانہ کامیاب ہونے والوں کو بھی اپنے ساتھ ملالیا اس کے باوجود انھیں دوسری کئی جماعتوں سے تعاون حاصل کرنا پڑا۔ بہر حال اب وہ ماشا اﷲ پی ٹی آئی کے چیئرمین ہی نہیں پوری قوم کے وزیراعظم بھی ہیں۔
اصل بات یہ نہیں کہ وہ کس طرح؟ کیسے؟ وزارت عظمیٰ تک پہنچے۔ بات در اصل ان کے وعدوں اور دعوؤں کی ہے کہ انھوں نے گزشتہ حکومتوں پر کس طرح اور کن کن باتوں پر تنقید کی۔ اگرچہ ابھی نئی حکومت کے سو دن مکمل نہیں ہوئے اصل صورتحال تو یہ مدت مکمل ہونے پر ہی سامنے آئے گی مگر کام کا آغاز ہی سے اس کے انجام کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ موجودہ حکومت کے سربراہ جب حزب اختلاف میں تھے اور حکمرانوں کو تنقید کا نشانہ بنانا ہی گویا ان کا کردار تھا۔ در حقیقت یہ تنقید غلط نہیں تھی ملک میں ہر طرف لوٹ مار مچی ہوئی تھی۔
حکمران کا دامن قطعی شفاف نہ تھا اس لیے ان کی تنقید بالکل درست لگتی تھی بلکہ تھی بھی۔ اس لیے عوام کا خیال تھا کہ اگر اس جماعت کو حکمرانی کا موقع ملا تو یہ ضرور ملک و عوام کو اس صورتحال سے نکالے گی کیونکہ اس جماعت کا انتخابی منشور بھی کرپشن کا ، بے روزگاری کا خاتمہ، تعلیم پر خصوصی توجہ دینا، بے گھر افراد کو گھر مہیا کرنا اور عام آدمی کو ضروریات زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم کرنا تھا۔
یہ وہ نعرے تھے جن کی وجہ سے 71 برس سے بے وقوف بنائے جانے والے عوام نے ایک بار پھر اعتماد کرلیا اور عوام (ووٹر) کی بڑی تعداد نے ان کا ساتھ دیا۔ (اگرچہ پوری اکثریت نے نہیں) اور بقول شخصے مڈل کلاس ملک میں پہلی بار اقتدار میں آگئی۔ مگر اس جماعت کے منشور میں بھی ملک سے جاگیرداری کے خاتمے کی کوئی شق نہ تھی لہٰذ کہاجاسکتا ہے کہ کیا جاگیردارانہ نظام کی موجودگی میں مڈل کلاس حکومت کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے؟ خود وزیراعظم کے ارد گرد ایسے لوگ موجود ہیں جو ان کے اعلان شدہ باتوں سے انحراف کررہے ہیں۔
چلیے ان کو تو چھوڑیے کہ وہ ماضی میں بطور ایم این اے یا حکومتی ارکان بہت سی سہولیات کے عادی رہے ہیں۔ مگر حیرت تو اس پر ہے کہ خود وزیراعظم نہ صرف بطور حزب مخالف اور انتخابی مہم کے دوران جو کہتے رہے جو دعوے کرتے ہے وہ خود اپنے دعوؤں کے خلاف عمل کررہے ہیں۔ مثلاً انھوں نے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ اگر اس کی حکومت (گزشتہ حکومت) کی طرح کبھی مجھے قرض لینا پڑا تو میں خودکشی کرلوںگا مگر کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلاؤںگا۔ مگر ہم سب کو معلوم ہے کہ تمام دوست ممالک سے قرض مانگا گیا اور ان کے انکار کے باعث آئی ایم ایف سے پہلے کی نسبت شدید شرائط پر بھی قرض مانگا اور لینا پڑ رہا ہے۔اب پھر وزیراعظم کا بیان آیا ہے کہ شاید آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا پڑے۔پر امید ہوں ،دوست ممالک سے مشاورت جاری ہے۔
موجودہ حکمران کی یوٹرن لینے کی عادت پرانی ہے جس کا مظاہرہ اقتدار میں آکر بھی کررہے ہیں۔ بقول وزیر اطلاعات عمران خان اپنی اقتدار کے ابتدائی تین ماہ میں کسی بھی ملک کا دورہ نہیں کریںگے مگر وہ سعودی عرب اور یو اے ای کا دورہ کرچکے ہیں اور شاید آیندہ ماہ چین کا بھی دورہ کریںگے۔ یہ بھی زور دے کر کہا جارہا تھا کہ وزیراعظم اور دیگر وزرا بیرونی دوروں پر خصوصی طیاروں سے نہیں بلکہ عام پروازوں سے جائیںگے لیکن وزیراعظم اپنے لیے مخصوص طیارے سے ان دوروں پر تشریف لے گئے۔ وزیر خارجہ بھی خصوصی طیارے سے افغانستان گئے۔
بنگالیوں اور افغان مہاجرین کو پاکستانی شہریت دینے کا اعلان کیا گیا اور ان دونوں نے کراچی میں وزیراعظم سے اظہار تشکر کے لیے ریلی بھی نکالی اور خوشی کا اظہار بھی کیا مگر رد عمل کے باعث وزیراعظم اپنے موقف سے دستبردار ہوگئے۔ انھوں نے بعد میں فرمایا کہ یہ بات ابھی زیر غور ہے کوئی باقاعدہ منصوبہ نہیں ہے۔ سی پیک پر تضاد بیان سے شکوک و شبہات پیدا ہوئے تو وزیراعظم کے مشیر کو اپنے الفاظ واپس لینے پڑے۔ اس کے بعد بھی وزیراعظم نے کوئٹہ کے دورے میں بیان دیا کہ حکومت سی پیک پر نظر ثانی کررہی ہے۔
پی ٹی آئی اقتدار میں آنے سے پہلے وی آئی پی کلچر کے سخت مخالف تھی اور اداروں میں سرکاری مداخلت کی بھی مگر خاور مانیکا کا کیس سب کے سامنے ہیں۔ سپریم کورٹ کی مداخلت پر یہ معاملہ طے ہوا۔ انتخابات کے بعد حزب مخالف کی طرف سے دھاندلی کا شور مچانے پر عمران خان نے کہاتھا کہ ہم ہر حلقہ (جس پر اعتراض ہو) کھولنے کے لیے تیار ہیں وہ تو نہ کھلے البتہ انھوں نے خود خواجہ سعد رفیق کی طرف سے ان کے حلقے میں گنتی روکنے کے لیے سپریم کوٹ سے حکم امتناعی لے لیا۔اس کے علاوہ بھی ان چند دنوں میں وعدوں سے انحراف کے کئی واقعات ہیں جن پر معتبر صحافی اور کالم نگار اپنی تحریروں میں برملا اظہار کررہے ہیں۔
اگر بات صرف یوٹرن'' کی ہوتی تو کوئی بات نہ تھی کہ موجودہ حکمران بھی انسان ہیں۔ فرشتہ نہیں کہ ان سے غلطی ممکن ہی نہیں۔ بات صرف یہ ہے کہ جب گزشتہ حکومت کو درمیان ہی میں فارغ کرکے دوبارہ انتخابات کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے کے ارادے تھے (جو پورے نہ ہوسکے) تو کم از کم اس مدت میں کوئی ہوم ورک تو کیا جاسکتا تھا۔ حکومت کے خلاف دھرنے کے دوران ہی کچھ افراد کی وزارت کے قلمدان کا ذکر بھی سامنے آچکا تھا پھر آخر ملکی معیشت ذرایع آمدنی اور پورے ملک میں بکھرے ہوئے قدرتی وسائل سے استفادہ کے لیے کوئی جامع منصوبہ بندی کیوں نہیں کی گئی۔
لوٹی دولت واپس لانے کا عزم تھا تو اس سلسلے میں پہلے سے کوئی پیش رفت کی ہوتی اور اقتدار میں آتے ہی اس پر عمل کرلیا جاتا تو کم از کم عوام پر مہنگائی کا بم تو نہ گرانا پڑتا۔کہنے کو تو آپ نے گیس اور بجلی کے نرخ بڑھائے ہیں مگر اس کو بنیاد بناکر ہر چیز کے دام از خود بڑھ گئے۔ 21 یا 22 کروڑ عوام میں سے چند لاکھ ٹیکس دیتے ہیں۔ اساتذہ، ملازمت پیشہ افراد کو تنخواہ ہی ٹیکس کٹ کر ملتی ہے ۔ صنعت کار، جاگیردار ٹیکس ادا کرنے میں سو حیلے بہانے بناتے ہیں۔اگر ان پر ٹیکس لگاکر وصول کرلیا جائے تو ہی ملکی معیشت کچھ نہ کچھ سنبھل جائے مگر ٹیکس بھی دینے والوں ہی کا بڑھایا گیا۔
چند بھینسیں اور سرکاری گاڑیاں فروخت کرکے آخر کار سرکاری خزانے میں کتنا اضافہ ہوگیا؟ بڑے بڑوں پر ہاتھ ڈالا جاتا تو فوری طور پر بہتر نتائج حاصل کیے جاسکتے تھے مگر یہ جب ہی ممکن تھا کہ اس کی منصوبہ بندی پہلے ہی کرلی جاتی۔ وزیراعظم بن جانا یا کسی جماعت کا اقتدار میں آجانا کافی نہیں اپنے ارادوں کی بروقت تکمیل اصل بات ہے۔
ملک چلانے اور صرف تنقید کرنے میں بڑا فرق ہے۔ کہتے ہیں ناں کہ اونٹ پہاڑ تلے آکر ہی اپنی قامت کا اندازہ کرتا ہے۔اب شاید حکمران جماعت کو بھی اندازہ ہوگیا ہوگا کہ کہنے اور کرنے میں کیا فرق ہوتا ہے اور کچھ کرنے کے لیے کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے مگر موجودہ صورتحال مایوس کن ہیں ، ہمت مرداں مددِ خدا اگر امید کا دامن نہ چھوڑا جائے اور باصلاحیت افراد سے ان کے مخصوص شعبوں میں مشاورت کے بعد کوئی کام شروع کیا جائے تو صاحبان اقتدار کے لیے کامیاب ہوں ، یہ اتنا مشکل بھی نہیں جتنا لوگ سمجھ رہے ہیں۔
ان میں وہ بھی شامل ہیں جو اپنی پرانی جماعتوں میں کرپشن کا باعث بھی رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان بہرصورت الیکشن جیتنے کے لیے اپنے اپنے حلقوں سے عموماً جیتنے والوں کو چنا جن کا تعلق ان جماعتوں سے گہرا اور پرانا تھا جن کو عمران خان ببانگ دہل بدعنوان کہتے تھے، مگر وہ کیونکہ اپنے حلقوں میں کامیاب تھے تو انھوں نے بھی ہوا کا رخ بدلتا دیکھ کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرلی اور پی ٹی آئی چیئرمین ان کی وجہ سے بالآخر وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوگئے۔ (واضح اکثریت نہ ہوتے ہوئے بھی) یہی نہیں انھوں نے اپنے دعوؤں کے برخلاف آزادانہ کامیاب ہونے والوں کو بھی اپنے ساتھ ملالیا اس کے باوجود انھیں دوسری کئی جماعتوں سے تعاون حاصل کرنا پڑا۔ بہر حال اب وہ ماشا اﷲ پی ٹی آئی کے چیئرمین ہی نہیں پوری قوم کے وزیراعظم بھی ہیں۔
اصل بات یہ نہیں کہ وہ کس طرح؟ کیسے؟ وزارت عظمیٰ تک پہنچے۔ بات در اصل ان کے وعدوں اور دعوؤں کی ہے کہ انھوں نے گزشتہ حکومتوں پر کس طرح اور کن کن باتوں پر تنقید کی۔ اگرچہ ابھی نئی حکومت کے سو دن مکمل نہیں ہوئے اصل صورتحال تو یہ مدت مکمل ہونے پر ہی سامنے آئے گی مگر کام کا آغاز ہی سے اس کے انجام کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ موجودہ حکومت کے سربراہ جب حزب اختلاف میں تھے اور حکمرانوں کو تنقید کا نشانہ بنانا ہی گویا ان کا کردار تھا۔ در حقیقت یہ تنقید غلط نہیں تھی ملک میں ہر طرف لوٹ مار مچی ہوئی تھی۔
حکمران کا دامن قطعی شفاف نہ تھا اس لیے ان کی تنقید بالکل درست لگتی تھی بلکہ تھی بھی۔ اس لیے عوام کا خیال تھا کہ اگر اس جماعت کو حکمرانی کا موقع ملا تو یہ ضرور ملک و عوام کو اس صورتحال سے نکالے گی کیونکہ اس جماعت کا انتخابی منشور بھی کرپشن کا ، بے روزگاری کا خاتمہ، تعلیم پر خصوصی توجہ دینا، بے گھر افراد کو گھر مہیا کرنا اور عام آدمی کو ضروریات زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم کرنا تھا۔
یہ وہ نعرے تھے جن کی وجہ سے 71 برس سے بے وقوف بنائے جانے والے عوام نے ایک بار پھر اعتماد کرلیا اور عوام (ووٹر) کی بڑی تعداد نے ان کا ساتھ دیا۔ (اگرچہ پوری اکثریت نے نہیں) اور بقول شخصے مڈل کلاس ملک میں پہلی بار اقتدار میں آگئی۔ مگر اس جماعت کے منشور میں بھی ملک سے جاگیرداری کے خاتمے کی کوئی شق نہ تھی لہٰذ کہاجاسکتا ہے کہ کیا جاگیردارانہ نظام کی موجودگی میں مڈل کلاس حکومت کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے؟ خود وزیراعظم کے ارد گرد ایسے لوگ موجود ہیں جو ان کے اعلان شدہ باتوں سے انحراف کررہے ہیں۔
چلیے ان کو تو چھوڑیے کہ وہ ماضی میں بطور ایم این اے یا حکومتی ارکان بہت سی سہولیات کے عادی رہے ہیں۔ مگر حیرت تو اس پر ہے کہ خود وزیراعظم نہ صرف بطور حزب مخالف اور انتخابی مہم کے دوران جو کہتے رہے جو دعوے کرتے ہے وہ خود اپنے دعوؤں کے خلاف عمل کررہے ہیں۔ مثلاً انھوں نے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ اگر اس کی حکومت (گزشتہ حکومت) کی طرح کبھی مجھے قرض لینا پڑا تو میں خودکشی کرلوںگا مگر کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلاؤںگا۔ مگر ہم سب کو معلوم ہے کہ تمام دوست ممالک سے قرض مانگا گیا اور ان کے انکار کے باعث آئی ایم ایف سے پہلے کی نسبت شدید شرائط پر بھی قرض مانگا اور لینا پڑ رہا ہے۔اب پھر وزیراعظم کا بیان آیا ہے کہ شاید آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا پڑے۔پر امید ہوں ،دوست ممالک سے مشاورت جاری ہے۔
موجودہ حکمران کی یوٹرن لینے کی عادت پرانی ہے جس کا مظاہرہ اقتدار میں آکر بھی کررہے ہیں۔ بقول وزیر اطلاعات عمران خان اپنی اقتدار کے ابتدائی تین ماہ میں کسی بھی ملک کا دورہ نہیں کریںگے مگر وہ سعودی عرب اور یو اے ای کا دورہ کرچکے ہیں اور شاید آیندہ ماہ چین کا بھی دورہ کریںگے۔ یہ بھی زور دے کر کہا جارہا تھا کہ وزیراعظم اور دیگر وزرا بیرونی دوروں پر خصوصی طیاروں سے نہیں بلکہ عام پروازوں سے جائیںگے لیکن وزیراعظم اپنے لیے مخصوص طیارے سے ان دوروں پر تشریف لے گئے۔ وزیر خارجہ بھی خصوصی طیارے سے افغانستان گئے۔
بنگالیوں اور افغان مہاجرین کو پاکستانی شہریت دینے کا اعلان کیا گیا اور ان دونوں نے کراچی میں وزیراعظم سے اظہار تشکر کے لیے ریلی بھی نکالی اور خوشی کا اظہار بھی کیا مگر رد عمل کے باعث وزیراعظم اپنے موقف سے دستبردار ہوگئے۔ انھوں نے بعد میں فرمایا کہ یہ بات ابھی زیر غور ہے کوئی باقاعدہ منصوبہ نہیں ہے۔ سی پیک پر تضاد بیان سے شکوک و شبہات پیدا ہوئے تو وزیراعظم کے مشیر کو اپنے الفاظ واپس لینے پڑے۔ اس کے بعد بھی وزیراعظم نے کوئٹہ کے دورے میں بیان دیا کہ حکومت سی پیک پر نظر ثانی کررہی ہے۔
پی ٹی آئی اقتدار میں آنے سے پہلے وی آئی پی کلچر کے سخت مخالف تھی اور اداروں میں سرکاری مداخلت کی بھی مگر خاور مانیکا کا کیس سب کے سامنے ہیں۔ سپریم کورٹ کی مداخلت پر یہ معاملہ طے ہوا۔ انتخابات کے بعد حزب مخالف کی طرف سے دھاندلی کا شور مچانے پر عمران خان نے کہاتھا کہ ہم ہر حلقہ (جس پر اعتراض ہو) کھولنے کے لیے تیار ہیں وہ تو نہ کھلے البتہ انھوں نے خود خواجہ سعد رفیق کی طرف سے ان کے حلقے میں گنتی روکنے کے لیے سپریم کوٹ سے حکم امتناعی لے لیا۔اس کے علاوہ بھی ان چند دنوں میں وعدوں سے انحراف کے کئی واقعات ہیں جن پر معتبر صحافی اور کالم نگار اپنی تحریروں میں برملا اظہار کررہے ہیں۔
اگر بات صرف یوٹرن'' کی ہوتی تو کوئی بات نہ تھی کہ موجودہ حکمران بھی انسان ہیں۔ فرشتہ نہیں کہ ان سے غلطی ممکن ہی نہیں۔ بات صرف یہ ہے کہ جب گزشتہ حکومت کو درمیان ہی میں فارغ کرکے دوبارہ انتخابات کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے کے ارادے تھے (جو پورے نہ ہوسکے) تو کم از کم اس مدت میں کوئی ہوم ورک تو کیا جاسکتا تھا۔ حکومت کے خلاف دھرنے کے دوران ہی کچھ افراد کی وزارت کے قلمدان کا ذکر بھی سامنے آچکا تھا پھر آخر ملکی معیشت ذرایع آمدنی اور پورے ملک میں بکھرے ہوئے قدرتی وسائل سے استفادہ کے لیے کوئی جامع منصوبہ بندی کیوں نہیں کی گئی۔
لوٹی دولت واپس لانے کا عزم تھا تو اس سلسلے میں پہلے سے کوئی پیش رفت کی ہوتی اور اقتدار میں آتے ہی اس پر عمل کرلیا جاتا تو کم از کم عوام پر مہنگائی کا بم تو نہ گرانا پڑتا۔کہنے کو تو آپ نے گیس اور بجلی کے نرخ بڑھائے ہیں مگر اس کو بنیاد بناکر ہر چیز کے دام از خود بڑھ گئے۔ 21 یا 22 کروڑ عوام میں سے چند لاکھ ٹیکس دیتے ہیں۔ اساتذہ، ملازمت پیشہ افراد کو تنخواہ ہی ٹیکس کٹ کر ملتی ہے ۔ صنعت کار، جاگیردار ٹیکس ادا کرنے میں سو حیلے بہانے بناتے ہیں۔اگر ان پر ٹیکس لگاکر وصول کرلیا جائے تو ہی ملکی معیشت کچھ نہ کچھ سنبھل جائے مگر ٹیکس بھی دینے والوں ہی کا بڑھایا گیا۔
چند بھینسیں اور سرکاری گاڑیاں فروخت کرکے آخر کار سرکاری خزانے میں کتنا اضافہ ہوگیا؟ بڑے بڑوں پر ہاتھ ڈالا جاتا تو فوری طور پر بہتر نتائج حاصل کیے جاسکتے تھے مگر یہ جب ہی ممکن تھا کہ اس کی منصوبہ بندی پہلے ہی کرلی جاتی۔ وزیراعظم بن جانا یا کسی جماعت کا اقتدار میں آجانا کافی نہیں اپنے ارادوں کی بروقت تکمیل اصل بات ہے۔
ملک چلانے اور صرف تنقید کرنے میں بڑا فرق ہے۔ کہتے ہیں ناں کہ اونٹ پہاڑ تلے آکر ہی اپنی قامت کا اندازہ کرتا ہے۔اب شاید حکمران جماعت کو بھی اندازہ ہوگیا ہوگا کہ کہنے اور کرنے میں کیا فرق ہوتا ہے اور کچھ کرنے کے لیے کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے مگر موجودہ صورتحال مایوس کن ہیں ، ہمت مرداں مددِ خدا اگر امید کا دامن نہ چھوڑا جائے اور باصلاحیت افراد سے ان کے مخصوص شعبوں میں مشاورت کے بعد کوئی کام شروع کیا جائے تو صاحبان اقتدار کے لیے کامیاب ہوں ، یہ اتنا مشکل بھی نہیں جتنا لوگ سمجھ رہے ہیں۔