سجدۂ شبّیرِ ذی وقار ؓ
آپؓ نے اپنے جدِامجد حضرت ابراہیم ؑ کی طرح آگ و خون کے دریا میں کود کر نمازِ عشق ادا فرمائی۔
رب کائنات کا حکم ہے کہ نماز میں زینت اختیار کرو۔ حضرت امام عالی مقام حسینؓ اپنے تمام خوب صورت رشتوں کے ہم راہ خود کو مزّین کیے، اپنے جد ِ امجد ابراہیمؑ کی طرح قربانی کے لیے میدان ِ کربلا میں حاضر تھے۔ زینت کا یہ انداز فرشتوں کو بھی حیران کرگیا۔ جنت کے شہزادے کی سج دھج ایسی ہی متوقع تھی۔ صراط ِ مستقیم کے راہی اسی شان کے ہوتے ہیں۔
اقامۃ الصلوٰۃ یعنی نماز کا قائم کرنا یہ ہے کہ آپ اللہ کی حاکمیت کو اپنی زندگی کے نظریاتی اور عملی گوشوں میں نافذ کریں۔ جب آپ معاشرے، معاش اور خاندان سے کٹتے ہوئے ہر اذان پر اللہ کے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں، تو گویا آپ اعلان کر دیتے ہیں کہ اگر ان تینوں میں سے کسی اکائی نے مجھے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے اصول و ضوابط کے برعکس دیگر اصالیب کی طرف مائل کیا تو میں ان سب اکائیوں کے برعکس اللہ کے ساتھ کھڑا ہو جاؤں گا۔ حضرت امام حسینؓ نے یزید کے مقابلے میں اقامۃ الصلوٰۃ کا بالکل یہی اسلوب اختیار کیا اور اپنے نانا رسول کریم ﷺ کی طرح اپنے رب کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔
خالص نظریات سے وضو کے بعد حضرت حسینؓ کو اقامۃ الصلوٰۃ کا فریضہ ادا کرنا تھا، جس کے متعلق، آپ ﷺ نے انہیں ان کی شہادت سے پہلے، خواب میں تلقین کی تھی۔ ابلیس اور اس کے حواری یزید نے آپ ؓ کو اس اقامۃ الصلوٰۃ ، سے باز رکھنے کی سرتوڑ کوشش کی۔ مسلسل مصیبتوں کے بعد آپ ؓ نے اقامۃ الصلوٰۃ کی آخری ادا کو سرانجام دیا۔ نماز سر پھیر نے پر تحلیل ہوتی ہے، لیکن کربلا میں اقامۃ الصلوٰۃ کا عمل سر کٹنے پر تمام ہوتا ہے۔
آپؓ نے اپنے جد ِ امجد حضرت ابراھیم ؑ کی طرح آگ و خون کے دریا میں کود کر نماز ِ عشق کی ادائی میں حضرت ابراھیم ؑ سے نسبت پائی۔ جب کہ یزید نے اقامۃ الصلوٰۃ سے بغاوت کرکے ابلیس اور نمرود سے رشتہ جوڑا۔ ابلیس نے بھی سجدے سے انکار کرکے ثابت کیا تھا کہ اس نے اپنی نماز کو اپنے نظریات اور عملی گوشوں پر قائم نہیں کیا۔ یزید نے بھی اپنی خواہش پرستی اور شیطانیت کے بدلے میں اقامۃ الصلوٰۃ کو ہمیشہ کے لیے کھو دیا۔ یوں ابلیس و یزید ہم جماعت ہوگئے۔
حضرت امام حسینؓ بھی مسلمان تھے اور یزید ملعون بھی خود کو مسلمان ہی کہتا تھا، مگر اقامۃ الصلوٰۃ میں حضرت امام حسینؓ، یزید پر ہر طرح سے بازی لے گئے اور نظریات و اعمال میں، اللہ کی حاکمیت ِ اعلی کی عمل داری کو درجۂ کمال تک پہنچا گئے۔
یزید نے آمریت کی راہ اپنائی اور اپنی معاشرتی زندگی میں، اللہ کی حاکمیت کی تسلیم کو چھوڑ کر اپنی مرضی کی راہ کو پسند و مسلط کیا۔ اور معاشرے کے ہم خیال لوگوں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا۔
نماز کو قائم کرتے ہوئے انسان معاشرتی، معاشی اور خاندانی زندگی کا ہی کوئی عمل کر رہا ہوتا ہے لیکن نظریاتی اور عملی گوشوں میں اقامۃ الصلوٰۃ کے اس عمل کے دوران اللہ کی موجودی کا احساس اور اللہ سے ڈرتے ہوئے اخروی ثواب و لذت سے آشنائی کا احساس اتنا متاثرکن ہوتا ہے کہ اللہ کے نزدیک بھی اس دوران، بہ ظاہر دنیاوی عمل گویا نماز ہی بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن ِ مجید میں نماز کے قائم کرنے کے متعلق احکامات نازل فرمائے ہیں۔
امام عالی مقام حسینؓ کے پاس ایک اختیار یہ بھی تو تھا کہ وہ یزید کی بات کو مان لیتے اور اپنی اور اپنے خاندان والوں کی زندگی کی ضمانت پاتے۔ مگر نماز ِ عشق کی قضا تو کسی صورت نہیں ہوتی۔ اور پھر امام حسینؓ کا یہ مقام ہی نہیں تھا کہ یہ نماز قضا چلی جاتی۔ ایسا ہونے پر، اللہ کی حاکمیت کے مقابلے میں شیطانیت اور آمریت بہ ظاہر جیت جاتی۔ ایسا کوئی عمل امام حسین ؓ کے شایان بھلا کیسے ہو سکتا تھا ؟
حضرت امام حسینؓ، انسانی زندگی میں حاکمیت ِ اعلی کی عمل داری کے نظریے پر کس قدر کاربند تھے، اس کا اندازہ آپ ؓ کے اس خط کے متن کے مختصر حوالے سے لگایا جاسکتا ہے جو، امام حسین ؓ نے اپنی شہادت سے پہلے، اہل ِ بصرہ کی طرف بھیجا تھا کہ : '' آپ لوگ دیکھ رہے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کی سنت مٹ رہی ہے اور بدعات پھیلائی جا رہی ہیں، میں تمہیں دعوت دیتا ہوں کہ اللہ کی کتاب اور سنت ِ رسول کریم ﷺ کی حفاطت کرو اور ان کے احکام کی تنفید کے لیے کوشش کرو۔''
آپؓ کے سارے ساتھی بھی محض بے کسی، بے بسی اور بہ امر مجبوری آپؓ کے ہم راہ نہیں تھے، بل کہ وہ پورے شعوری احساس اور بیداری کے ساتھ اپنی جانیں ہتھیلی پر لیے اللہ کے لیے، میدان ِ کربلا میں آپ ؓ کے ساتھ موجود تھے۔ اقامۃ الصلوٰۃ کے حسینی انداز کی جس قدر ضرورت آج ہے شاید ہی کبھی رہی ہوگی۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی نماز کو اپنے نظریاتی اور عملی گوشوں میں قائم کریں ورنہ تو یزید بھی خود کو مسلمان ہی کہتا تھا۔ اگر اقامۃ الصلوٰۃ کی صورت، اللہ کی حاکمیت کی عمل داری ہمارے نظریات و اعمال میں موج زن نہیں تو ہمیں اپنے نظریات اور اعمال کا ازسرنو جائزہ لینا چاہیے۔ تفسیر ِکربلا ہمیں اقامۃ الصلوٰۃ کے حسینی انداز کا یہی عظیم درس دے رہی ہے۔
اقامۃ الصلوٰۃ یعنی نماز کا قائم کرنا یہ ہے کہ آپ اللہ کی حاکمیت کو اپنی زندگی کے نظریاتی اور عملی گوشوں میں نافذ کریں۔ جب آپ معاشرے، معاش اور خاندان سے کٹتے ہوئے ہر اذان پر اللہ کے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں، تو گویا آپ اعلان کر دیتے ہیں کہ اگر ان تینوں میں سے کسی اکائی نے مجھے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے اصول و ضوابط کے برعکس دیگر اصالیب کی طرف مائل کیا تو میں ان سب اکائیوں کے برعکس اللہ کے ساتھ کھڑا ہو جاؤں گا۔ حضرت امام حسینؓ نے یزید کے مقابلے میں اقامۃ الصلوٰۃ کا بالکل یہی اسلوب اختیار کیا اور اپنے نانا رسول کریم ﷺ کی طرح اپنے رب کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔
خالص نظریات سے وضو کے بعد حضرت حسینؓ کو اقامۃ الصلوٰۃ کا فریضہ ادا کرنا تھا، جس کے متعلق، آپ ﷺ نے انہیں ان کی شہادت سے پہلے، خواب میں تلقین کی تھی۔ ابلیس اور اس کے حواری یزید نے آپ ؓ کو اس اقامۃ الصلوٰۃ ، سے باز رکھنے کی سرتوڑ کوشش کی۔ مسلسل مصیبتوں کے بعد آپ ؓ نے اقامۃ الصلوٰۃ کی آخری ادا کو سرانجام دیا۔ نماز سر پھیر نے پر تحلیل ہوتی ہے، لیکن کربلا میں اقامۃ الصلوٰۃ کا عمل سر کٹنے پر تمام ہوتا ہے۔
آپؓ نے اپنے جد ِ امجد حضرت ابراھیم ؑ کی طرح آگ و خون کے دریا میں کود کر نماز ِ عشق کی ادائی میں حضرت ابراھیم ؑ سے نسبت پائی۔ جب کہ یزید نے اقامۃ الصلوٰۃ سے بغاوت کرکے ابلیس اور نمرود سے رشتہ جوڑا۔ ابلیس نے بھی سجدے سے انکار کرکے ثابت کیا تھا کہ اس نے اپنی نماز کو اپنے نظریات اور عملی گوشوں پر قائم نہیں کیا۔ یزید نے بھی اپنی خواہش پرستی اور شیطانیت کے بدلے میں اقامۃ الصلوٰۃ کو ہمیشہ کے لیے کھو دیا۔ یوں ابلیس و یزید ہم جماعت ہوگئے۔
حضرت امام حسینؓ بھی مسلمان تھے اور یزید ملعون بھی خود کو مسلمان ہی کہتا تھا، مگر اقامۃ الصلوٰۃ میں حضرت امام حسینؓ، یزید پر ہر طرح سے بازی لے گئے اور نظریات و اعمال میں، اللہ کی حاکمیت ِ اعلی کی عمل داری کو درجۂ کمال تک پہنچا گئے۔
یزید نے آمریت کی راہ اپنائی اور اپنی معاشرتی زندگی میں، اللہ کی حاکمیت کی تسلیم کو چھوڑ کر اپنی مرضی کی راہ کو پسند و مسلط کیا۔ اور معاشرے کے ہم خیال لوگوں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا۔
نماز کو قائم کرتے ہوئے انسان معاشرتی، معاشی اور خاندانی زندگی کا ہی کوئی عمل کر رہا ہوتا ہے لیکن نظریاتی اور عملی گوشوں میں اقامۃ الصلوٰۃ کے اس عمل کے دوران اللہ کی موجودی کا احساس اور اللہ سے ڈرتے ہوئے اخروی ثواب و لذت سے آشنائی کا احساس اتنا متاثرکن ہوتا ہے کہ اللہ کے نزدیک بھی اس دوران، بہ ظاہر دنیاوی عمل گویا نماز ہی بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن ِ مجید میں نماز کے قائم کرنے کے متعلق احکامات نازل فرمائے ہیں۔
امام عالی مقام حسینؓ کے پاس ایک اختیار یہ بھی تو تھا کہ وہ یزید کی بات کو مان لیتے اور اپنی اور اپنے خاندان والوں کی زندگی کی ضمانت پاتے۔ مگر نماز ِ عشق کی قضا تو کسی صورت نہیں ہوتی۔ اور پھر امام حسینؓ کا یہ مقام ہی نہیں تھا کہ یہ نماز قضا چلی جاتی۔ ایسا ہونے پر، اللہ کی حاکمیت کے مقابلے میں شیطانیت اور آمریت بہ ظاہر جیت جاتی۔ ایسا کوئی عمل امام حسین ؓ کے شایان بھلا کیسے ہو سکتا تھا ؟
حضرت امام حسینؓ، انسانی زندگی میں حاکمیت ِ اعلی کی عمل داری کے نظریے پر کس قدر کاربند تھے، اس کا اندازہ آپ ؓ کے اس خط کے متن کے مختصر حوالے سے لگایا جاسکتا ہے جو، امام حسین ؓ نے اپنی شہادت سے پہلے، اہل ِ بصرہ کی طرف بھیجا تھا کہ : '' آپ لوگ دیکھ رہے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کی سنت مٹ رہی ہے اور بدعات پھیلائی جا رہی ہیں، میں تمہیں دعوت دیتا ہوں کہ اللہ کی کتاب اور سنت ِ رسول کریم ﷺ کی حفاطت کرو اور ان کے احکام کی تنفید کے لیے کوشش کرو۔''
آپؓ کے سارے ساتھی بھی محض بے کسی، بے بسی اور بہ امر مجبوری آپؓ کے ہم راہ نہیں تھے، بل کہ وہ پورے شعوری احساس اور بیداری کے ساتھ اپنی جانیں ہتھیلی پر لیے اللہ کے لیے، میدان ِ کربلا میں آپ ؓ کے ساتھ موجود تھے۔ اقامۃ الصلوٰۃ کے حسینی انداز کی جس قدر ضرورت آج ہے شاید ہی کبھی رہی ہوگی۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی نماز کو اپنے نظریاتی اور عملی گوشوں میں قائم کریں ورنہ تو یزید بھی خود کو مسلمان ہی کہتا تھا۔ اگر اقامۃ الصلوٰۃ کی صورت، اللہ کی حاکمیت کی عمل داری ہمارے نظریات و اعمال میں موج زن نہیں تو ہمیں اپنے نظریات اور اعمال کا ازسرنو جائزہ لینا چاہیے۔ تفسیر ِکربلا ہمیں اقامۃ الصلوٰۃ کے حسینی انداز کا یہی عظیم درس دے رہی ہے۔