بی جے پی کا اصل چہرہ

بظاہر ایسا لگتا ہے جیسے پارٹی کی پرانی قیادت نے اس فیصلے کے خلاف مزاحمت کی تھی۔

بھارت میں سیاست اب ممکن ہے پہلے جیسی نہ رہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اپنا ایجنڈا تبدیل کر دیا ہے۔ اب اس نے ''نرم ہندوتوا'' کے نظریئے کو چھوڑ، کر جس پر وہ اب تک گامزن تھی، خالص فرقہ وارنہ طرز عمل اختیار کر لیا ہے۔ پارٹی نے سخت مؤقف والے گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو 2014ء میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے لیے اپنے پینل کا سربراہ بنا دیا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ اس کے سیکولرازم پر یقین کے بارے میں جو گو مگو کی کیفیت تھی وہ اب یکسر ختم ہوگئی ہے۔ اب یہ برہنہ ہندوازم ہے جسے سب دیکھ سکتے ہیں۔

بظاہر ایسا لگتا ہے جیسے پارٹی کی پرانی قیادت نے اس فیصلے کے خلاف مزاحمت کی تھی۔ ان میں سب سے بلند قامت ایل کے ایڈوانی نے تو پارٹی کے تمام مناصب سے احتجاجاً استعفیٰ بھی دیدیا ہے تاہم غیر ذمے دار نوجوان لیڈر کسی معقول نکتہ نظر کو قبول کرتے نظر نہیں آتے۔ ان کے نزدیک کم سے کم جو وہ کر سکتے ہیں، وہ ہے ایک تیز دھار فرقہ ورانہ سیاست۔ ایڈوانی نے پس دیوار بار بار خبردار کیا کہ مودی بھارت کی نمایندگی کے لیے ایک مناسب شخص نہیں ہے۔

ماحول اس وقت اور زیادہ تلخ ہو جائے گا جب بی جے پی کھلم کھلا ''ہندو راشٹریا'' کا پرچار شروع کرے گی۔ یہ درست ہے کہ اس کا نظریہ ملکی آئین کے سراسر منافی ہے جس میں درج ہے کہ ملک سیکولر جمہوری ہو گا، لیکن بی جے پی نے آئین کی کوئی پروا نہیں کی۔ اب آیندہ یہ بھی ہو گا کہ لفظ سیکولرازم کا مطلب ہی بدل دیا جائے اور اس کی ایسی تعبیر کی جائے کہ کوئی خواہ کتنا ہی فرقہ پرست کیوں نہ ہو وہ بھی سیکولر ہونے کا دعویٰ کر سکے گا۔

لہٰذا مودی نے اس منصب کو قبول کرنے پر جو تقریر کی، اس میں کانگریس کے خلاف جس شدت سے اظہار خیال کیا گیا، وہ تو قابل فہم ہے کیونکہ کانگریس ملک کی سب سے بڑی پارٹی ہے اور اس کو سیکولرازم سے جوڑا جاتا ہے۔ مودی کی تمنا تھی کہ کانگریس منظر سے ہی غائب ہو جائے تا کہ بی جے پی اور کانگریس کے اختلافات کا جھگرا ہی ختم ہو جائے۔ بی جے پی ایک خالص ہندو جماعت جب کہ کانگریس کی اسناد سیکولرازم کی ہیں۔

ممکن ہے ایسا نہ ہو سکے لیکن بے جے پی نے بڑی شدومد سے اپنا کام شروع کر دیا ہے جو ریاست کو ہر قسم کے سیکولرازم سے پاک کرنا چاہتی ہے۔ آزادی کے بعد سے بلکہ اس سے بھی بہت پہلے سے آزادی کی جو جدوجہد جاری تھی، اس کی بنیاد اس تصور پر تھی کہ آزاد ہندوستان میں فرقہ ورانہ یا ذات پات کی بنیاد پر کسی سے کوئی امتیازی سلوک نہ کیا جائے۔ تحریک آزادی میں شریک لیڈر انڈیا کی تقسیم پر رضا مند ہو گئے لیکن وہ سیاست کو مذہب کے ساتھ خلط ملط کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ گویا سیکولر ازم بھارت کے اس ڈھانچے کا سنگ میل تھا جو آزادی کے بعد بھارت تعمیر کرنا چاہتا تھا۔ یہ اگرچہ ایک مثالی کوشش نہیں تھی تاہم اس نے ملک کو متحد رکھا اور فرقہ ورانہ منافرت کی اجازت نہ دی گئی۔

اس عمل کے دوران قوم نے تسلیم کیا کہ فرقہ ورایت کی حامل طاقتوں اور سیکولر عناصر میں بہت دوری ہے۔ لیکن اس کا نتیجہ ایک صحت مند سرگرمی کے طور پر بھی برآمد ہوا۔ سیکولر سیاسی پارٹیاں بی جے پی سے دور ہٹ گئیں، جس کی بنا پر اس کے مرکزی حکومت تک پہنچنے میں رکاوٹ پیدا ہو گئی۔ مودی کی نامزدگی سے ممکن ہے صورتحال میں کوئی خاص فرق نہ پڑے لیکن اس سے وہ ہندو ضرور شش و پنج میں پڑ جائیں گے جو بڑے شہروں کی صورت میں سب کے ساتھ گھل مل کر رہنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے بی جے پی کو گزشتہ دو پارلیمانی انتخابات میں کامیاب ہونے سے روک دیا کیونکہ جب ووٹ ڈالنے کا مرحلہ آتا ہے تو وہ اپنا تمام وزن آزاد خیال طاقتوں کے پلڑ ے میں ڈال دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک دائیں یا بائیں بازو کی پالیسیاں اختیار کرنے کے بجائے کم و بیش اعتدال کی راہ پر گامزن رہا ہے۔ لیکن اب اس کا انتہائی دائیں بازو کی طرف جانے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔


آر ایس ایس، جس نے مودی کی حمایت کی ہے، وہ مودی میں ایسے شخص کو دیکھتی ہے جو اس کے ہندوتوا اور مسلم دشمن نظریے کے زیادہ قریب نظر آتا ہے۔ لیکن اصل مودی اس وقت بے نقاب ہوا جب اس نے دس سال قبل گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کرنے والوں کی سرکاری طور پر پشت پناہی کی۔ اور اپنی اس حرکت پر اس نے آج تک افسوس کا کوئی ایک لفظ بھی نہیں کہا جس سے اس کی مسلمان دشمنی کا کھلا اظہار ہوتا ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ انڈیا کسی ایسے شخص کو بطور وزیراعظم قبول کر لے؟

بی جے پی کی سربراہی اگر ایسے شخص کو سونپ دی جائے جس میں آزاد خیالی کا شائبہ تک نہ ہو تو یقینی طور پر اس عمل کے نتائج خطرناک ہوں گے۔ اگر اس کے سر پر ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان گہری خلیج پیدا کرنے کا خبط سوار ہو تو وہ نوجوانوں کو گمراہ کرنے کے علاوہ اور کیا کرے گا۔ فراخدلی اور مثالیت پسندی جیسی اقدار تو پہلے ہی پس پشت جا چکی ہیں۔ مشترکہ ثقافت کے نام پر جو کچھ باقی بچا ہے، تعصب اور انتہا پسندی اسے بھی لے ڈوبے گی۔

جب میں لندن میں انڈیا کے ہائی کمشنر کے عہدے پر تعینات تھا تو برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر نے وہ راز جاننے کا سوال کیا کہ انڈیا صدیوں سے اکٹھا کیونکر ہے؟ میں نے اسے بتایا کہ ہم انڈین انسانوں میں مکمل سیاہ اور مکمل سفید کی بنیاد پر تقسیم میں یقین ہی نہیں رکھتے۔ ہم اس بات کو سمجھتے ہیں اور اس میں یقین رکھتے ہیں کہ سیاہ اور سفید کے بیچ میں بھی ایک اور رنگ ہوتا ہے اور ہم اس رنگ میں مسلسل تو سیع کرتے رہتے ہیں۔ اور یہی ہمارا سیکولرازم ہے۔ اس تصور نے قوم کو متحد رکھا ہوا ہے۔ میری اس تشریح سے وزیراعظم واضح طور پر متاثر ہوئیں اور انھوں نے یہی بات روسی صدر گورباچوف کو بھی بتائی۔ روسی صدر نے بعدازاں انڈیا میں ایک وفد بھیجا کہ وہ انڈیا کے سیکولرازم کا مطالعہ کرے۔

مودی کالے پن کو مزید کالا کرے گا اور اعتدال پسندی کی ہر راہ کو مسدود کر دے گا۔ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران بی جے پی نے یہ تاثر عام کرنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے کہ وہ یہ مقام حاصل کر لے کہ وہ ایک دائیں بازو کی جماعت ہونے کے ناطے بالکل درست سمت میں گامزن ہے۔ کیونکہ وہ ہندوئوں کی حامی جماعت تو ہے مگر انتہا پسند نہیں۔ لیکن مودی اس تصور کو جلد ہی باطل ثابت کر دے گا۔ ہر طرف زعفرانی رنگ کے ہی چولے نظر آئیں گے۔ بی جے پی نے ایک احمقانہ فیصلہ کیا ہے کہ انھیں مسلمانوں سے مختلف نظر آنے کے لیے اپنے اور مسلمانوں کے بیچ تضادات کو مزید نمایاں کرنا ہو گا۔ بی جے پی کو یقین ہے کہ ہندو کارڈ کھیلنے کا بہترین اور مناسب وقت اب ہی ہے۔

یہ انتہائی غلط سوچ ہے کہ افہام و تفہیم کا کوئی بھی راستہ نہ چھوڑا جائے۔ ایڈوانی کی پارٹی میں موجودگی ایک امید افزا بات تھی۔مودی کو اہمیت ملنے کا سب سے زیادہ فائدہ کانگریس کو ہو گا۔ اس لیے نہیں کہ وہ درپردہ ایک سیکولر جماعت ہے بلکہ وہ کھلے عام اسی شہرت کی حامل ہے ۔ مسلمان ووٹروں کی تعداد تقریباً 15 فیصد ہے، وہ کانگریس کی طرف چلے جائیں گے اور ملائم سنگھ کی سماج وادی پارٹی جیسی دیگر پارٹیاں بہت متاثر ہوں گی۔ واضح رہے سماج وادی پارٹی میں یو پی کے مسلمانوں کی کثیر تعداد شامل ہے۔ اس پارٹی کا تاثر بھی سیکولر ہے، اس کا فائدہ کانگریس کو ہو گا کیونکہ اگلا انتخاب ریاستی اسمبلی کا نہیں بلکہ پارلیمنٹ کا ہے۔ مسلمانوں کو اپنی اہمیت کا مکمل احساس ہے۔ بی جے پی کے اتحادیوں میں جو نیشنل ڈیمو کریٹک الائنس (این ڈی اے) ہے، ممکن ہے وہ بھی اس سے الگ ہو جائے۔

اصل نقصان بھارتی قوم کا ہے، ایسے وقت میں جب یہ لگتا ہے کہ مختلف عناصر نے ملک کے اندر رہتے ہوئے بھی اپنی شناخت بنا لی ہے جن میں مودی کا متعصب تاثر پوری طرح کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ اس طرح تو بھارت کی آزادی کا تصور ہی ملیا میٹ ہو جائے گا۔ یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ ملک اس وقت بے چینی کا شکار ہو رہا ہے جب کہ یہ وقت اس ملک کے ایسے انداز میں استحکام کا تھا جو خالصتاً سیکولر نہ بھی ہوتا مگر مختلف نظریات اور عقائد کے لوگوں کو باہم ساتھ رہنے میں تنگ نہ کیا جاتا اور وہ اپنی زندگی اپنے انداز سے آزادانہ طور پر گزار سکتے۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)
Load Next Story