داخلی انتشار خارجی خلفشار

ایسا لگتا ہے کہ شرپسندوں کی پشت بہت مضبوط ہے اور نام بے چارے لیاری کے غریب اور محنت کش عوام کا آتا ہے.

anisbaqar@hotmail.com

دنیا کے تمام ساحلی شہر ملک کی بہترین گزرگاہیں اور تجارتی مراکز ہوتے ہیں اور کراچی کا محل وقوع اور تجارتی سرگرمیاں بھی۔ 1948 سے لے کر 1985 تک یہ ایک نہایت پرسکون شہر تھا بلکہ قائداعظم نے اس کو ملک کا دارالسلطنت قرار دیا اور ایوب خان کے دور میں اس شہر پر ایک اور ضرب لگائی گئی اور دارالسلطنت کو اسلام آباد منتقل کردیا گیا۔ حکومتی اقدامات کے باوجود اس کا تجارتی مرکز پھر بھی کراچی رہا، کراچی شہر کا کاروباری مرکز اتنا مضبوط رہا ہے کہ لاہور کی ہول سیل مارکیٹ بھی اس کے زیر اثر رہی ہے جو کسی حد تک آج بھی ہے۔

رہ گیا دارالسلطنت کی منتقلی تو اب اس کی وجوہات پر گفتگو بے سود ہے مگر عرف عام میں اس کو منی یعنی چھوٹا پاکستان کہا جاتا ہے، کیونکہ اس کی اس ترقی میں پاکستان کے نگر نگر کے لوگوں کی انتھک محنت شامل ہے، ہر مکتبہ فکر اور ہر زبان بولنے والوں کا یہ مسکن بن گیا، موسم ایسا جو غریب پرور، کھانا پینا سستا، ماحول پرسکون، بڑے بنگلوں کی چہار دیواری بمشکل 6 فٹ اونچی باہر سے پورا گھر نظر آتا تھا مگر رفتہ رفتہ اس کی آبادی تقریباً ڈیڑھ کروڑ سے تجاوز کرگئی، صنعتی اور کاروباری عروج نے ملک کی اقتصادی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کا کام کیا۔ کیونکہ یہاں سرمائے کا عروج رہا اس لیے حکمرانوں کی رال ہمیشہ ٹپکتی رہی، اس لیے اس شہر میں حکومتی بھتہ خوری کی پشت پناہی بھی رہی جس کی وجہ سے رفتہ رفتہ اس شہر کے لوگوں اور خصوصاً بڑے دکانداروں اور کاروباری لوگوں کو ڈرانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

لیاری کے علاقے میں بعض گروہ منشیات فروشی میں مبتلا رہے اور یہ 70 سے قبل بھی تھے مگر محدود پیمانے پر کام کرتے تھے مگر کمزور لیڈروں نے یہاں کے محدود لوگوں کو ہمیشہ استعمال کیا، بعدازاں مخالف سیاست دانوں نے دوسرے مخالف گروہ بنائے بلکہ ایوب خان نے جب 1963 میں کنونشن مسلم لیگ قائم کی تو ایک گروہ کو پولو گراؤنڈ میں جلسہ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا، اس وقت کی ایک طلبا تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے اس جلسے کو درہم برہم کردیا تھا۔ واضح رہے کہ لیاری کے اس گروہ کے سربراہ شیرو اور دادل کو پولیس کے اعلیٰ افسران کے کہنے پر استعمال کیا گیا تھا اور اس وقت کنونشن مسلم لیگ کے جنرل سیکریٹری ذوالفقار علی بھٹو تھے اور صدر ایوب خان۔ یہ پہلا موقع تھا کہ سیاست میں انتظامیہ نے لیاری کے کسی شخص یا گروہ کو استعمال کیا حالانکہ لیاری کے طلبا کی کثیر تعداد این ایس ایف کی ہم خیال تھی، اس کے علاوہ جب وقت مزید آگے بڑھا تو لیاری میں ترقی پسند لیڈران نے نمایاں کردار ادا کیا اور عوام دوست رہنما جو پوری ملکی سطح پر اپنی گرفت رکھتے تھے وہ نمایاں تھے اور اردو زبان بولنے والوں کے ساتھ مزدوروں کی حمایت میں پس زنداں جاتے رہے۔

1969 میں کامریڈ لعل بخش رند خود راقم کے ساتھ 1969 میں سینٹرل جیل کراچی میں قید ہوئے۔ ان دنوں چاکیواڑہ لیاری ٹرام پٹہ پر این ایس ایف لیاری کے طلبا انجمنوں کے ہمراہ مظاہرے میں شریک ہوتی تھی، لیاری کے طلبا اور عوام کے ساتھ ناظم آباد، لیاقت آباد، ملیر، ڈرگ روڈ، نارتھ ناظم آباد سے تعلق رکھنے والے ہم رکاب ہوتے تھے، نہ کوئی رنگ و نسل کی تفریق تھی یہاں تک کہ ذوالفقار علی بھٹو شہید کے دور میں فیض احمد فیض لیاری کالج کے پرنسپل بنے تھے کیونکہ اقتدار میں آنے کے بعد بھٹو شہید نے نسلی امتیاز کی بیخ کنی کی مگر ان کے دور حکومت میں ممتاز بھٹو جو سندھ کے وزیراعلیٰ بنے ان کی سیاسی حکمت عملی نے کراچی میں پہلی بار اردو، سندھی خلیج کی باگ ڈور سنبھالی اور کراچی میں تفریق اور تنگ نظری کی بنیاد ڈالی گئی مگر بھتے کی سیاست نے جنم نہ لیا تھا، مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ 1969 میں این ایس ایف کے صدر امیر حیدر کاظمی جیل میں تھے اور قائم مقام صدر کی ذمے داری مجھ پر آن پڑی اور فنڈ جمع کرنے کی ضرورت پیش آئی۔


میٹنگ میں یہ طے ہوا کہ دکانداروں سے چندہ جمع کیا جائے صدر، زیب النساء روڈ سے پہل کی جائے، وہاں پہنچے، تقریباً 20 لڑکے ساتھ تھے، باہر کھڑے رہے اور 2 عدد دکان میں داخل ہوئے 10 روپے ملے، ایک بڑی دکان پر آئے تو ایک روپیہ بھی نہ ملا، غرض پورے صدر سے 200 روپے کے قریب جمع ہوئے، آخر کار اپنے ہی ہمدردوں کے پاس گئے، محمود الحق عثمانی، ڈاکٹر سرور مرحوم، انیس ہاشمی مرحوم اور چند مزید لوگوں کے پاس گئے تو 1500 روپے حاصل ہوئے جو تحریک چلانے کے لیے کافی سمجھے۔ کیونکہ لڑکوں کے خرچ والدین چلاتے تھے مگر زور زبردستی پیسہ لینے کا کوئی کلچر نہ تھا مگر اب سیاست میں نیا رخ پیسہ کمانے کا زبردست ذریعہ ہے ۔

وہ تحریک جس نے ایوب خان کی حکومت کے خلاف تحریک چلائی، کرفیو لگائے کراچی میں ہڑتال کی، لاکھوں کے جلوس کی قیادت کی مگر رقم بٹورنے کا خیال بھی دل میں نہ آیا۔ آج حکومت کی نظراندازی اور گروہوں کو لگام نہ دینے سے کراچی ایسی بدامنی میں مبتلا ہے کہ جس کی مثال دنیا کے کسی ملک میں موجود نہیں یہاں تک کہ بھارت کشمیر میں روزانہ اتنے لوگ قتل نہیں ہوتے جتنے کراچی میں ہوتے ہیں اور ڈرون حملوں میں بھی اتنے بے گناہ نہیں مارے جاتے جتنے ٹارگٹ کلنگ میں روز مارے جاتے ہیں، بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کم ازکم 10 لوگوں کو ضرور قتل کیا جائے، ایک ٹارگٹ ہے اور جس قدر زیادہ قتل ہوں وہ بہتر ہے، یہ ایک ایسا عمل ہے جو سمجھ سے بالاتر ہے۔اسی لیاری میں دو گروپ کسی بھی وقت بھڑ سکتے ہیں،سیکڑوں لاشیں گر سکتی ہیں، علاقہ نو گو ایریا بنا ہے،مگر کوئی ایکشن نہیں ہوتا۔بیان بازی ہورہی ہے۔ اس انتشار سے ملک کی جس قدر تذلیل ہورہی ہے اس کا تذکرہ کرنا آسان نہیں، پھر ایسی قوم ڈرون حملوں کا تذکرہ کس منہ سے کرتی ہے، آخر بے گناہ لوگوں کو کس جرم کی سزا، معیشت کو کیوں تباہ کیا جارہا ہے، امن عامہ کے نام پر جو خطیر رقم خرچ ہورہی ہے اس کا ذمے دار کون ہے اور کیا اس رقم کے خرچ ہونے اور پولیس کی نفری بڑھانے سے یہ مسئلہ حل ہوگا؟

ایسا لگتا ہے کہ شرپسندوں کی پشت بہت مضبوط ہے اور نام بے چارے لیاری کے غریب اور محنت کش عوام کا آتا ہے، گودی سے مال اتارنے والے قلم کی نوک سے انگریزی اور اردو اخبارات کی زینت یہ لوگ کس جرم کی سزا بھگت رہے ہیں، اسی لیاری میں دانشوروں اور سیاسی رہنماؤں کا خاصا اثر تھا مگر غیر مقبول اور گروہی سیاست کرنے والوں نے عوام کے مابین خلیج پیدا کی اور اب گروہ اندر گروہ پیدا ہورہے ہیں اور کاروباری علاقے کو جیتنے کی جنگ جاری ہے۔ گزشتہ دنوں کی گینگ وار اس کی کھلی نظیر ہے اور دونوں گروہوں کو پشت پناہی حاصل ہے۔ یہی حال کراچی کے دیگر علاقوں کا بھی ہے کہ جہاں مختلف اقسام کے گروہ سرگرم ہیں جو ملکی ناموس پر ایک بدنما داغ ہیں لہٰذا سیاسی طور پر پاکستان عالمی سطح پر اس قابل نہیں کہ وہ ڈرون کی ڈراؤنی پروازوں سے محفوظ رہے کیونکہ اندرونی انتشار اس قدر عروج پر ہے کہ پاکستانی حکومت کسی کو جواب دینے کے قابل نہیں ہے۔

رہ گیا سیاسی پارٹیوں کا احوال وہ خود ان گروہوں کی حمایت کے متلاشی ہیں اس انتشار اور بدامنی نے ملک کو ایک کونے پر کھڑا کردیا ہے، وزارت عظمیٰ کا حلف لیتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف نے کراچی بدامنی، ڈرون حملوں اور بجلی کے بحران کو کلیدی اہمیت دی تھی مگر اب ایسا لگتا ہے کہ کراچی کا مسئلہ التوا کا شکار ہونے والا ہے اور مرکزی حکومت مصلحت کی طرف بڑھنے والی ہے۔ ڈرون حملے کے متعلق تو یقیناً حکومت سنجیدہ ہے مگر یہ نسخہ آسان نہیں کیونکہ پاکستان موجودہ افغان جنگ کو اپنی جنگ سمجھتا ہے، اس لیے منطقی طور پر ڈرون حملے کو بند کرنا مشکل ہے کیونکہ ڈرون حملے وہاں ہورہے ہیں جہاں امریکا کو اپنے اہداف ملتے ہیں البتہ رفتہ رفتہ یہ مسئلہ قابو میں آسکتا ہے، یوٹرن فوری طور پر آسان نہیں کیونکہ اقتصادی طور پر پاکستان کافی مشکلات کا شکار ہے بجلی کا بحران ایک خوفناک مسئلہ ہے۔

فیصل آباد کے مکینوں نے جو مظاہرہ کیا ہے اس سے اس مسئلے کی نازکی سمجھ میں آتی ہے کیونکہ بجلی ایک طویل المیعاد منصوبہ ہے تاوقتیکہ کسی پڑوسی ملک سے ہنگامی طور پر معاہدہ نہ ہو خارجہ مسائل کو حل کرنے کے لیے داخلی طور پر امن کی فضا کا قیام ضروری ہے، حالانکہ خارجہ امور پر مرکزی حکومت نے خارجہ امور کے لائق اور کہنہ مشق شخصیت طارق فاطمی ہیں جن کا ماضی بحیثیت سفیر قابل ذکر رہا ہے مگر اس وقت ملک کا اقتصادی ڈھانچہ نہایت کمزور اور کراچی جیسے شہر میں انتشار ہے جو ملک کے ماتھے پر سیاہ داغ ہے جس سے ملک کے رہنماؤں کے لیے سفارت کاری میں مشکلات درپیش ہیں سرمایہ کاری کے لیے زہرہلاہل ہے بلکہ یہ کہنا درست ہے کہ اقتصادی قوت، داخلی امن ہی خارجہ حکمت عملی کے معاون و مددگار ہیں۔
Load Next Story