پاک چین دوستی کے درمیان کاروبار کی بات
صدر اوبامہ کی پالیسیوں پر ذرا غور کریں تو بآسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ اپنے تئیں وہ یورپ سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
چین یقیناً ہمارا یار ہے اور اس پر جان بھی نثار ہے۔ مگر دھندا دھندا ہوتا ہے۔ کوئی سودا کرتے ہوئے صارف کم سے کم قیمت ادا کرتے ہوئے اپنے لیے زیادہ سے زیادہ راحت طلب کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے اور بیچنے والے کی نگاہ زیادہ سے زیادہ منافع کمانے پر ٹکی رہتی ہے۔ ریاستیں بھی ایک دوسرے کے ساتھ کاروبار کرتے ہوئے صارف اور سپلائی کرنے والے کے درمیان اپنے اپنے مفاد کے لیے جاری اس کش مکش سے جان نہیں چھڑا سکتیں۔ چینی تو ویسے ہی بڑی غیر جذباتی اور کاروباری حوالوں سے بد لحاظ ہوا کرتے ہیں۔ جب سے ڈانگ سیائو پنگ نے انھیں سرمایہ دارانہ معیشت کی راہ پر ڈالا ہے وہاں کے ''کمیونسٹ'' کاروباریوں نے امریکا اور جاپان جیسے ازلی کاروباریوں کی پنجابی والی ''باں باں'' کرا دی ہے۔ امریکا کی تمام بڑی یونیورسٹیوں میںکتابوں پر کتابیں لکھی جا رہی ہیں جو یہ جاننے کی کوشش کرتی ہیں کہ چند برسوں بعد جب چین معاشی اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا اور طاقت ور ملک بن جائے گا تو امریکا اور یورپ کا کیا ہو گا۔
صدر اوبامہ کی پالیسیوں پر ذرا غور کریں تو بآسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ اپنے تئیں وہ یورپ سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ انھوں نے اپنی پہلی ٹرم میں عراق سے فوجیں نکالیں۔ اس ٹرم میں باری افغانستان کی ہے۔ اس دستبرداری کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اب امریکا براعظم ایشیاء سے ناکام و نامراد لوٹ کر بحر اوقیانوس کے اس پار اپنی حدوں میں سرنگوں بیٹھ کر ''دہی کھایا'' کرے گا۔
ہمارے ہاں عراق اور افغانستان میں ''شکست کھا کر'' وطن لوٹنے والے امریکیوں کی ذلت و رسوائی پر شادیانے بجانے والے مسخرہ نما تبصرہ نگار آپ کو یہ نہیں بتاتے کہ دوسری جنگِ عظیم ختم ہو جانے کے اتنے برس بعد آج بھی امریکی افواج جاپان اور جنوبی کوریا میں ایک بہت بڑی تعداد میں اپنے قلعہ نما جزیروں میں موجود ہیں۔ ایشیاء محض مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیاء کا نام نہیں، ایک مشرق بعید بھی ہوا کرتا ہے۔ اس خطے کی تجارت کا اصل دارومدار نہر سوئیز پر نہیں بلکہ بحرالکاہل پر ہے۔ جزائر ہوائی کی بدولت امریکا اس خطے کو اپنا ہمسایہ سمجھتا ہے۔ اس خطے میں چین کے علاوہ جاپان، انڈونیشیاء ویتنام، ملائشیاء، دونوں کوریا اور سنگاپور وغیرہ بھی پائے جاتے ہیں۔ آسٹریلیا کے ان ملکوں سے اپنے تجارتی اور دفاعی روابط ہیں۔ ان میں سے اکثر ملکوں نے سارک کے قیام سے کئی برس پہلے ASEAN (آسیان) نام کے ایک علاقائی اتحاد کی بنیاد ڈالی اور دنوں ہی دنوں میں اپنے باہمی اور بہت پرانے اختلافات کو بھلا کر 1990ء کی دہائی تک ایشیائی ٹائیگر بن گئے۔
اب میانمار، جسے ہم برما کے نام سے زیادہ پہچانتے ہیں، اسی اتحاد کا حصہ بن گیا ہے۔ وہاں کئی دہائیوں کے مکمل فوجی کنٹرول کے بعد جمہوریت کی بنیاد ڈالی جا چکی ہے اور اوبامہ نے اس ملک کا دورہ بھی کر لیا ہے۔ سری لنکا بڑا بے چین ہے کہ جنوبی ایشیاء سے اپنی جند چھڑا کر اسی اتحاد میں شامل ہو جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت کے جنوبی علاقے تامل ناڈو اور کرناٹک وغیرہ بھی ASEAN کے ساتھ رشتوں کو بڑھانا چاہ رہے ہیں اور بنگلہ دیش کی توجہ بھی اس جانب زیادہ مبذول ہو رہی ہے۔ یاد رہے کہ امریکا کی ایک سنٹرل کمانڈ ہے اور اتنی ہی طاقتور ایک Asia Pacific کمانڈ بھی۔ افغانستان، پاکستان اور ایران سنٹرل کمانڈ کی ذمے داری ہیں۔ بھارت کو دوسری کمانڈ کے کھاتے میں ڈالا گیا ہے۔ اوبامہ نے اپنے دور میں افغانستان اور پاکستان سے تعلقات کے بجائے بھارت اور مشرق بعید کے ملکوں سے گہرے روابط استوار کیے ہیں۔ اس کا مقصد چین کے گرد دفاعی حصار بنانا ہی نہیں، اس سے کہیں بڑا خیال یہ بھی ہے امریکا کو ان ممالک کی معیشتوں سے جوڑ کر چین کی اُبھرتی ہوئی معاشی قوت کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کیا جائے۔
ہماری بدقسمتی مگر یہ ہے کہ ہمارے دفاعی امور کے جو ماہر ٹیلی وژن اور انگریزی اخباروں کے ادارتی صفحوں کے بقراط و افلاطون سمجھے جاتے ہیں، وہ چین کو اسی طرح پیش کرتے رہتے ہیں جیسے وہ 1970ء کی دہائی میں ہوا کرتا تھا۔ ان کا خیال ہے کہ چین اور بھارت کے درمیان خود کو ایک دوسرے سے بالا تر ثابت کرنے کی ہولناک جنگ ہو کر رہے گی۔ ظاہر ہے ہمارا یار اور جس پر جان بھی نثار ہے اس ممکنہ جنگ میں کامیاب و کامران ٹھہرے گا۔ اس لیے ہمیں ہر صورت میں چین کو خوش رکھنا ہے۔ اپنے جگری یار کی دلجوئیاں کرتے رہنے میں کوئی حرج نہیں۔ پاکستان تو ہے ہی عشق کرنے والوں کی سرزمین۔ مگر دھندا دھندا ہوتا ہے اور دوست ریاستوں کے درمیان ہو تب بھی دھندا ہی رہتا ہے۔
اسی لیے چین سے کاروباری معاملات کرتے ہوئے ہمیں کاروباری رویہ ہی اختیار کرنا چاہیے۔ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ آپ اس ملک سے بغیر کوئی سخت بھائو تائو کیے ریلوے کے انجن خرید لیں۔ وہ ہمارے انگریزوں کے بنائے پلیٹ فارموں میں فٹ نہ آئیں تو انھیں توڑ کر ان کے لیے جگہیں کشادہ کریں اور پھر بھی ان کے دیے انجن وقت معینہ سے کئی سال پہلے خرادیوں کو بیچنے کے قابل بھی نہ رہیں۔ ریلوے کا محکمہ سنبھالنے کے بعد خواجہ سعد رفیق نے اس ضمن میں بڑی جرأت سے زبان کھولی ہے۔ میں لاہور کی گلیوں سے اُٹھے اس سیاسی کارکن کو پورا سچ بولنے اور اس پر قائم رہنے کی دل سے دعائیں دینے پر مجبوری محسوس کر رہا ہوں۔