بجٹ 201314 ایک جائزہ
نئی حکومت کے پاس عوام کو ریلیف دینے کے لیے کوئی پروگرام نہ تھا۔
35 کھرب 91 ارب روپے کا وفاقی بجٹ پیش کر دیا گیا ہے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ سیلز ٹیکس 16 فی صد سے 17 فیصد کر دیا گیا ہے۔ ہر حکومت کی یہ روایت رہی ہے کہ افراط زر کی شرح کو مدنظر رکھتے ہوئے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جاتا رہا ہے۔ غالباً یہ پہلی مرتبہ ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں قطعاً کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ توانائی کے شعبے کے لیے 225 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے 57 ارب روپے اور صحت کے لیے 21 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ دفاع کے لیے 970 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔ ریلوے کو کارپوریشن بنانے کا اعلان کیا گیا ہے اور ریلوے کے لیے 31 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ طالب علموں کی کتابیں کاپیاں اور قلم مہنگی ہو کر رہ جائیں گی ، سلائی مشینیں اور ٹریکٹر، فریج، ایئرکنڈیشنرز، سیمنٹ اور کھانے پینے کی اشیاء مثلاً دودھ، چینی، تیل، گھی کے علاوہ سگریٹ ، پان چھالیہ وغیرہ مزید مہنگی ہو جائیں گی۔
بجلی مزید مہنگی کر دی جائے گی۔ نئی حکومت کے پاس عوام کو ریلیف دینے کے لیے کوئی پروگرام نہ تھا۔ حکومت سنبھالتے ہی توانائی بحران، گردشی قرضے، آئی ایم ایف کی قسطیں، خزانہ خالی کا اعلان۔ معیشت کی بدحالی کا اعتراف مہنگائی کا بڑھتا ہوا گراف اور بہت سے معاشی مسائل کے ہجوم میں گم ہو کر حکومت اپنے ہی ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کرنا بھول گئی۔ دراصل یہ اضافہ ایک قسم کی شروعات ہوتی ہیں کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے بعد نجی ادارے اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کرتے ہیں، ملک بھر کی انڈسٹریز مزدوروں کی تنخواہوں میں اضافہ کرتی ہیں۔ سابقہ حکومت نے کم ازکم مزدور کی تنخواہ کا تعین کیا تھا۔ موجودہ حکومت نے اپنے منشور میں اس کم ازکم تنخواہ کو 15 ہزار روپے کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن ابھی بھی بندہ مزدور کے اوقات تلخ ہیں کہ حکومت نے بجٹ پیش کرتے وقت اس بات کا تذکرہ تک نہیں کیا۔
البتہ غریبوں کے لیے آشیانہ اسکیم کا اعلان کیا گیا ہے۔ جس کے تحت 500 گھروں والی ہزار کالونیاں بنائی جائیں گی۔ اس کے لیے تین ارب 50 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اگرچہ یہ ایک اچھا منصوبہ ہے اس طرح 5 لاکھ مکان تعمیر ہو سکیں گے اور ملک کی 30 تا 35 لاکھ آبادی کو رہائشی سہولیات میسر آ سکیں گی۔ جس کی وجہ سے جن چھوٹے شہروں اور بڑے قصبوں کے قریب یہ کالونیاں تعمیر ہوں گی وہاں معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گا۔ اگر یہ منصوبہ خلوص نیت کے ساتھ اور کرپشن سے پاک ہو کر نیز ٹھیکیداروں اور دیگر طریقوں سے سامان کی سپلائی میں جو ناقص میٹریل مہیا کر دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے تعمیراتی نقائص پیدا ہو جاتے ہیں ان سب باتوں کا بھرپور خیال رکھ کر اگر اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے تو ملک میں رہائشی مسائل کو کسی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔
اس بجٹ میں وزراء کے لیے صوابدیدی گرانٹ کا فوری خاتمہ کیا گیا ہے اس کے علاوہ وزیر اعظم آفس کے اخراجات میں ریکارڈ 45 فی صد کمی کر دینا اور اگر اس پر حقیقتاً عمل درآمد ہو جاتا ہے تو یہ ایک بڑا قدم ہو گا۔ اس کے ساتھ ہی اس بات کی طرف حکومت کو توجہ دینا ہو گی کہ وزیر اعظم اور وزراء کے نقل وحرکت کے باعث ان کے پروٹوکول کی وجہ سے عوام سخت دھوپ اور گرمی میں انتظار کے عذاب سے گزرتے ہیں اس کا سدباب کیا جائے۔ ضروری ہے کہ حفاظتی اقدامات بھی موثر ہوں اور عوام کی تکلیف کا بھی احساس کیا جائے۔ بجٹ میں SRO کلچر کے خاتمے کی بات کی گئی ہے۔ اس کے لیے چیئرمین FBR کی زیر قیادت کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔ آیندہ بجٹ میں پرتعیش گاڑیوں پر ٹیکس کی چھوٹ ختم کر دی گئی ہے۔ HEC کے لیے 57 ارب روپے رکھنے کے علاوہ بیرون ملک وظائف کی تعداد بڑھا کر 6250 کر دی گئی ہے۔
بجٹ 2013-14 میں رمضان المبارک کا خصوصی ریلیف 2 ارب روپے رکھا گیا ہے۔ جو کہ ایک اچھا قدم ہے، اس سے قبل 2007ء میں بھی 8 ارب روپے کی ریلیف کا اعلان کیا گیا تھا۔ اور یوٹیلیٹی اسٹورز پر بہت سی اشیاء کم قیمتوں پر فروخت کے لیے پیش کی گئی تھیں۔ جس میں آٹا، چینی اور دیگر اشیاء بھی شامل تھیں، لیکن ان دنوں عام مارکیٹ میں ان اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو چکا تھا اور حیرت انگیز طور پر آٹے کے ٹرک اترتے نظر آتے، چینی کے ٹرک آتے ان سے چینی اسٹوروں میں اسٹاک کیا ہوا نظر آتا۔ لیکن چند گھنٹوں بعد مال ادھر سے ادھر کر دیا جاتا تھا۔
یہ سارا مال تاجروں کو فروخت کر دیا جاتا تھا، جس سے غریب عوام گھنٹوں لائن میں کھڑے رہتے اور انھیں جواب دے دیا جاتا کہ چینی نہیں ہے، گھی نہیں ہے، وغیرہ وغیرہ۔ موجودہ حکومت سے توقع کی جاتی ہے کہ اس بات کا اہتمام کرے کہ 2 ارب روپے کا پورا فائدہ صرف اور صرف غریب عوام کو ہو نہ کہ تاجروں کو۔ بجٹ میں سرکلر ڈیٹ جوکہ 5 سو ارب روپے ہے اسے 60 یوم میں ختم کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ سے بچنے کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے لیکن یہاں یہ معلوم نہ ہو سکا کہ جب خزانہ بھی خالی ہے اور پہلے ہی خسارے کا بجٹ پیش کیا جا رہا ہے تو ایسی صورت میں اتنی کثیر رقم کہاں سے آئے گی۔ اگر اس کے لیے نئے نوٹ چھاپے جائیں گے تو ایک طرف جہاں سیلز ٹیکس اور بجلی کی قیمت میں اضافے سے مہنگائی بڑھے گی تو کیا نئے نوٹ چھاپنے کے مضر اثرات سامنے نہیں آئیں گے؟ اس سے افراط زر جسے 8 فی صد تک رکھنے کی بات کی گئی اس میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔
بجٹ میں پہلی دفعہ ترقیاتی منصوبوں کے لیے 1155 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو کہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا ترقیاتی بجٹ ہے۔ لیکن یہ ترقیاتی منصوبے جب ہی مفید ثابت ہوتے ہیں جب انھیں بروقت شروع کر کے مقررہ مدت پر مکمل کر لیا جائے تا کہ ان کی لاگت میں اضافہ نہ ہو جب کہ کئی منصوبے ایسے ہوتے ہیں جو ترجیحی نمبروں میں دوسرے یا تیسرے نمبر پر آتے ہوں گے لیکن کئی لوگوں کے مخصوص مفادات کے باعث انھیں شروع کیا جاتا ہے۔ مثلاً جس علاقے میں پینے کا پانی میسر نہیں ہے، وہاں پہلے پینے کے پانی کی فراہمی کے منصوبے کو جلد مکمل کیا جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ ان منصوبوں میں گھپلے، رشوت وغیرہ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ لہٰذا ان تمام باتوں کو مدنظر رکھے بغیر منصوبے اپنی افادیت کھو دیتے ہیں۔ اس سے قبل بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ایک ہزار روپے کو بڑھا کر 1200 روپے کر دیا گیا ہے اب اسے انکم سپورٹ پروگرام کا نام دیا گیا ہے۔
حکومت نے کہا ہے کہ بجٹ خسارہ کم کیا جائے گا۔ یہ دعویٰ ہے کہ انفلیشن نہیں بڑھنے دیا جائے گا لیکن بجٹ میں افراط زر کو بڑھانے کا پورا اہتمام کیا گیا ہے۔ جیساکہ جی ایس ٹی جسے کم کرنا چاہیے تھا اگر اسے 10 فی صد تک لے کر آتے تو کہہ سکتے تھے کہ افراط زر کو کنٹرول کر لیا جائے گا۔ بجلی کی قیمت فی یونٹ مزید 6 روپے بڑھنے سے افراط زر کو کم کرنا محال ہو گا۔ بجٹ پیش کرتے وقت جس طرح سے ٹیکسوں کا نفاذ کیا گیا ہے، بجلی کی قیمت بڑھائی جا رہی ہے اور آئی ایم ایف سے قرض لینے کا اشارہ کیا جا رہا ہے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بجٹ 2013-14ء آئی ایم ایف کے لیے استقبالیہ بجٹ ہے کہ ان کی آمد سے قبل بھی بجلی بم گرایا جائے گا۔ جی ایس ٹی اور دیگر ٹیکسوں کے ذریعے معاشی دھماکہ کیا جا رہا ہے۔ بہرحال مہنگائی کی گھن گھرج بادلوں کے ساتھ اگر آئی ایم ایف کا طوفان بھی ٹوٹ پڑا تو ان کی سخت ترین کڑی شرائط اب عوام کے لیے کڑوی گولی نہیں ہو گی بلکہ اینٹی بائیوٹک ہو گی جس کے بعد میں بہت سے خطرناک سائیڈ ایفیکٹس ہوں گے۔ حکومت نے اگرچہ بجٹ پیش کر دیا ہے لیکن اس بجٹ کے معیشت اور عوام پر پڑنے والے منفی اثرات کا جائزہ بھی لے۔ اور بجٹ سیشن میں ان مضر اثرات کو دور کیا جائے ۔ کیونکہ عوام کو ریلیف دیے بغیر معاشی بحالی کی امید نہیں کی جا سکتی۔ بجٹ کے چند ایک نقاط کا جائزہ پیش کیا گیا ہے، آیندہ دیگر نقاط کا جائزہ پیش کیا جائے گا۔