بجلی گرتی ہے تو بیچارے غریبوں پہ
موسم گرما کے شدت پکڑتے ہی پورا ملک ایک بار پھر بدترین لوڈشیڈنگ کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔
الیکٹرانک کا ساز و سامان ہو یا موبائل فون، ان کی قیمتوں میں کمی ہوتی جا رہی ہے جب کہ بجلی کے نرخوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ آج سے 15 برس قبل جو موبائل فون 30,000 روپے میں ملتا تھا اب وہ 1200/- روپے کا ہو گیا ہے۔ تین افراد کے گھرانے کی بجلی کا بل آج سے 15 برس پہلے اگر 200 روپے آتا تھا تو آج 2000 روپے آنے لگا ہے۔ کہاوت ہے کہ ''ایک غریب کسان رات کے اندھیرے میں گندم کی بوری چھت پر لے کر جا رہا تھا۔ اس کے ساتھی نے ماچس جلائی تا کہ سیڑھیوں کو روشن کر سکے۔ کچھ لمحوں بعد ماچس بجھ گئی۔ اس کسان نے غصے سے کہا ''تم نے تو مجھ سے میرا اندھیرا بھی چھین لیا ہے''۔ جب ماچس بجھی تو اس کی آنکھیں، جو اندھیرے کی عادی ہو گئی تھیں، وہ پہلے کی طرح اندھیرے میں دیکھنے سے قاصر تھیں۔
بجلی، لوڈشیڈنگ اور پاکستانی عوام کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ موسم گرما کے شدت پکڑتے ہی پورا ملک ایک بار پھر بدترین لوڈشیڈنگ کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ ملک کے طول و عرض اس وقت 8 سے 22 گھنٹے تک کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔ پاکستان میں بجلی کا بحران خوفناک شکل اختیار کر چکا ہے۔ پچھلے پانچ سال میں کتنی ہی بار عوام کو یقین دہانی کروائی گئی کہ کچھ عرصے میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کر دیا جائے گا لیکن متعدد بار ہونے والے پرتشدد عوامی احتجاجات کے باوجود صورت حال میں کوئی بہتری نہیں آ سکی۔ پیپلز پارٹی کی قیادت پانچ سال میں مسئلے کی اصل وجہ ہی معلوم نہیں کر پائی یا پھر دانستہ طور پر جاتے جاتے بھی عوام سے جھوٹ بولتی رہی۔ حالیہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کی شکست کی اہم وجہ بجلی کا بحران حل کرنے میں ناکامی بھی ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت میں ہونے والی کرپشن اور نااہلی کی وجہ سے اگرچہ توانائی کے بحران نے شدت اختیار کی لیکن کرپشن اور انتظامی نااہلی اس مسئلے کی بنیادی وجہ ہے۔
دوسری طرف مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کی صورت حال بھی پیپلز پارٹی سے زیادہ مختلف دکھائی نہیں دیتی۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنی انتخابی مہم میں توانائی کے بحران کو خاص طور پر استعمال کیا اور اس سلسلے میں کبھی 6 ماہ، کبھی 2 سال اور کبھی 3 سال میں لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے دعوے کیے گئے۔ لیکن جوں جوں اقتدار میں آنے کا وقت قریب آتا گیا، لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی لفاظی بھی مبہم ہو کر ماند پڑتی گئی۔ اب تو کہا جا رہا ہے کہ برسوں لگ جائیں گے۔ 800 ارب کا سرکلر ڈیٹ اور لڑکھڑاتی معیشت (ن) لیگ کی قیادت کو صورت حال کی سنگینی کا ادراک کروا رہی ہے۔ عام آدمی کو یہ تاثر دیا جا رہا ہے لوڈشیڈنگ دراصل بجلی کی پیداوار یا پیداواری صلاحیت میں کمی کا نتیجہ ہے اور نئے پراجیکٹس اس مسئلے کا حل ہیں۔ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
پاکستان میں اس وقت بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 23000 میگاواٹ سے بھی زیادہ ہے جب کہ بجلی کی زیادہ سے زیادہ طلب (موسم گرما میں جب پورے ملک میں ایئرکنڈیشن، پنکھے اور کولر وغیرہ چل رہے ہوتے ہیں) 18000 میگاواٹ سے کسی صورت زیادہ نہیں ہے۔ یعنی ابھی اسی وقت لوڈشیڈنگ کے مکمل خاتمے کے ساتھ ساتھ 5000 میگاواٹ ضرورت سے زائد بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ تو مسئلہ آخر ہے کہاں؟ مسئلہ انڈیپنڈنٹ اور رینٹل پاور پلانٹس کے مالکان، وہ ملٹی نیشنل اور نجی اجارہ داریاں ہیں جو پچھلی تقریباً دو دہائیوں سے پاکستانی عوام کو مہنگی بجلی فروخت کر کے کشید کیے گئے اور اربوں ڈالر کا منافع ملک سے باہر بھجوا چکی ہیں اور یہ عمل نہایت بیدردی سے جاری ہے۔ یہ کمپنیاں پیداواری صلاحیت سے کم پیداوار کر کے، بجلی کی مصنوعی قلت پیدا کر کے اور نرخوں میں اذیت ناک اضافہ کر کے ہوشربا منافع کما رہی ہیں۔ دوسری طرف حکومت سے رعایتی قیمت پر حاصل ہونے والے تیل کو بجلی پیدا کرنے کے بجائے مارکیٹ میں بیچ کر بھی منافع کمائے جا رہے ہیں۔
چند افراد کی ہوس، کروڑوں لوگوں کو ایک عذاب میں مبتلا کیے ہوئے ہے جب کہ سیاسی و حکومتی اہلکار کمیشن لے کر تماشا دیکھ رہے ہیں۔ کھربوں روپے کا منافع کمانے والی یہ کمپنیاں کبھی بھی نہیں چاہیں گی کہ بجلی پیدا کرنے کے سستے طریقوں پر سرمایہ کاری کی جائے۔ یہ سامراجی ادارے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں ہائیڈل پاور، شمسی توانائی یا ہوا سے توانائی حاصل کرنے پر ہونے والی تحقیق یا ایسے کسی منصوبے کو دبانے کے لیے ہمیشہ سرگرم رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں ریاستی عہدیداروں کو خریدا اور زرخرید ماہرین کے ذریعے رائے عامہ کو تبدیل کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف ان کمپنیوں کی تجوریاں بھرنے کے بعد ریاست کے پاس اتنا سرمایہ ہی نہیں بچتا کہ ایسے کسی منصوبے پر غور کیا جا سکے۔ سرمایہ داروں اور فیکٹری مالکان کی اربوں روپے کی بجلی چوری صورت حال کو مزید بگاڑ رہی ہے۔ فرنس آئل سے بجلی کی پیداوار پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ملک کے لیے کسی صورت میں بھی موزوں نہیں ہے۔
بجلی پیدا کرنے کا یہ طریقہ کار ان ممالک میں زیر استعمال ہے جو تیل کی پیداوار میں خودکفیل ہیں، یا پھر تیل سے چلنے والے پاور پلانٹس کو دنیا کے مختلف ممالک ایمرجنسی بیک اپ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ان کی مثال بالکل گھر میں رکھے برقی جنریٹر جیسی ہے جسے ہنگامی صورت حال میں ہی استعمال میں لایا جاتا ہے۔ اب اگر کوئی شخص گرڈ سے آنے والی بجلی کا کنکشن کٹوا کر جنریٹر پر انحصار کرنے لگے تو اس کی ذہنی حالت پر شک ہی کیا جا سکتا ہے۔ یہ پاورپلانٹس ماحولیاتی حوالے سے بھی انتہائی زہریلے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں اس طریقہ کار کو اپنایا گیا جس کا خمیازہ آج کروڑوں لوگ بھگت رہے ہیں۔ وہ کھربوں روپے جو ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کی لوٹ مار اور ریاستی عہدیداروں کے کمیشنوں کی نظر ہوئے اگر سستی اور قابل تجدید توانائی کے منصوبوں پر صرف ہوتے تو آج نہ صرف ہر پاکستانی کو نہایت ہی سستی بجلی فراہم کی جا سکتی تھی بلکہ بجلی برآمد کر کے زرمبادلہ بھی کمایا جا سکتا تھا۔
بجلی پیدا کرنے کے سب سے سستے اور تیز ترین طریقوں میں ایک ہوا کی توانائی کا استعمال ہے۔ موجودہ ٹیکنالوجی کے ذریعے پاکستان میں 50,000 میگاواٹ بجلی صرف اسی طریقے سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ اتنی ہی بجلی نئے ڈیم بنا کر حاصل کی جا سکتی ہے۔ دریاؤں اور بہتی نہروں پر ٹربائن نصب کر کے بھی بجلی بنائی جا سکتی ہے۔ پاکستان دنیا کے ایسے ممالک میں شامل ہے جو شمسی توانائی کے حوالے سے موزوں ترین ہیں۔ جرمنی نے کچھ ہفتے پہلے شمسی توانائی سے 22000 میگاواٹ بجلی پیدا کر کے نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے۔ اسی طرح بلوچستان کے صرف 0.25 فیصد رقبے پر سولر پینل نصب کر کے پورے ملک کی ضرورت سے زائد بجلی حاصل کی جا سکتی ہے۔
غرض یہ کہ ممکنات کی کمی نہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کی حدود اور منافع کی ہوس اگر راستے میں حائل نہ ہوں تو بجلی کا بحران برسوں یا مہینوں میں نہیں بلکہ چند گھنٹوں میں ختم ہو سکتا ہے۔ اگر تمام تر خود مختار اور کرایے کے توانائی پلانٹس کو قومی ملکیت میں لے کر منافع کے بجائے عوام کی ضرورت کے تحت چلایا جائے تو چند گھنٹوں میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ممکن ہے۔ ابھی چند ماہ پیشتر اسی قسم کا بجلی کا بحران لاطینی امریکا کے ملک بولیویا کو لاحق تھا۔ وہاں کے صدر ایوموریس جو ''سوشلزم کی جدوجہد'' پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں نے ایسی سامراجی بجلی بنانے والی اجارہ داریوں کا منافع 80 فیصد سے کم کروا کے 20 فیصد کردیا۔ بعض کو مکمل سرکاری تحویل میں لے لیا۔ اس کے بعد نہ صرف بولیویا کے عوام کو لوڈشیڈنگ سے نجات مل گئی بلکہ بجلی کی قیمت آدھی سے بھی کم ہو گئی۔ یہاں پاکستان میں بڑے بڑے سیاست دان اور انقلاب کے نعرے مار کر انقلاب سے ڈرانے والے حکمرانوں میں اتنی جرأت، حوصلہ اور ہمت ہے کہ موریس جیسے انقلابی اقدام کر سکیں؟
سرمایہ داری کسی قسم کی شعوری اور اجتماعی منصوبہ بندی سے عاری، منڈی کی افراتفری پر مبنی ایک نظام ہے۔ منافع پر مبنی مہنگی بجلی کے منصوبے ترک کر کے سستی توانائی کے منصوبوں پر عمل درآمد کرنے کے لیے جس دوررس اور ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اس کی گنجائش اس نظام میں سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ تمام تر حاوی سیاسی جماعتی سرمایہ دارانہ نظام معیشت کو حتمی و آخری حل سمجھتی ہیں۔ کسی بھی سیاسی جماعت میں ملٹی نیشنل کمپنیوں پر ضرب لگاتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کی حدود سے تجاوز کرنے کی جرأت نہیں ہے۔ لوڈشیڈنگ کا عذاب عوام کو گھائل کیے ہوئے ہے۔ عوام کی اکثریت نفسیاتی مریض بن چکی ہے۔ صنعتیں بند ہو رہی ہیں، لوگ بیروزگار ہو رہے ہیں۔ اس اذیت ناک مسئلے کا حل صرف ایسے انقلاب کے ذریعے ممکن ہے جو نفع پر مبنی منڈی کی معیشت کے نظام کو اس کی غلاظتوں سمیت اکھاڑ کر ایک ایسا انقلاب جو اپنی مدد آپ کی بنیاد پر بجلی پیدا کرے اور اپنی ضرورتوں کو خود ہی پورا کرے۔
بجلی، لوڈشیڈنگ اور پاکستانی عوام کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ موسم گرما کے شدت پکڑتے ہی پورا ملک ایک بار پھر بدترین لوڈشیڈنگ کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ ملک کے طول و عرض اس وقت 8 سے 22 گھنٹے تک کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔ پاکستان میں بجلی کا بحران خوفناک شکل اختیار کر چکا ہے۔ پچھلے پانچ سال میں کتنی ہی بار عوام کو یقین دہانی کروائی گئی کہ کچھ عرصے میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کر دیا جائے گا لیکن متعدد بار ہونے والے پرتشدد عوامی احتجاجات کے باوجود صورت حال میں کوئی بہتری نہیں آ سکی۔ پیپلز پارٹی کی قیادت پانچ سال میں مسئلے کی اصل وجہ ہی معلوم نہیں کر پائی یا پھر دانستہ طور پر جاتے جاتے بھی عوام سے جھوٹ بولتی رہی۔ حالیہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کی شکست کی اہم وجہ بجلی کا بحران حل کرنے میں ناکامی بھی ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت میں ہونے والی کرپشن اور نااہلی کی وجہ سے اگرچہ توانائی کے بحران نے شدت اختیار کی لیکن کرپشن اور انتظامی نااہلی اس مسئلے کی بنیادی وجہ ہے۔
دوسری طرف مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کی صورت حال بھی پیپلز پارٹی سے زیادہ مختلف دکھائی نہیں دیتی۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنی انتخابی مہم میں توانائی کے بحران کو خاص طور پر استعمال کیا اور اس سلسلے میں کبھی 6 ماہ، کبھی 2 سال اور کبھی 3 سال میں لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے دعوے کیے گئے۔ لیکن جوں جوں اقتدار میں آنے کا وقت قریب آتا گیا، لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی لفاظی بھی مبہم ہو کر ماند پڑتی گئی۔ اب تو کہا جا رہا ہے کہ برسوں لگ جائیں گے۔ 800 ارب کا سرکلر ڈیٹ اور لڑکھڑاتی معیشت (ن) لیگ کی قیادت کو صورت حال کی سنگینی کا ادراک کروا رہی ہے۔ عام آدمی کو یہ تاثر دیا جا رہا ہے لوڈشیڈنگ دراصل بجلی کی پیداوار یا پیداواری صلاحیت میں کمی کا نتیجہ ہے اور نئے پراجیکٹس اس مسئلے کا حل ہیں۔ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
پاکستان میں اس وقت بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 23000 میگاواٹ سے بھی زیادہ ہے جب کہ بجلی کی زیادہ سے زیادہ طلب (موسم گرما میں جب پورے ملک میں ایئرکنڈیشن، پنکھے اور کولر وغیرہ چل رہے ہوتے ہیں) 18000 میگاواٹ سے کسی صورت زیادہ نہیں ہے۔ یعنی ابھی اسی وقت لوڈشیڈنگ کے مکمل خاتمے کے ساتھ ساتھ 5000 میگاواٹ ضرورت سے زائد بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ تو مسئلہ آخر ہے کہاں؟ مسئلہ انڈیپنڈنٹ اور رینٹل پاور پلانٹس کے مالکان، وہ ملٹی نیشنل اور نجی اجارہ داریاں ہیں جو پچھلی تقریباً دو دہائیوں سے پاکستانی عوام کو مہنگی بجلی فروخت کر کے کشید کیے گئے اور اربوں ڈالر کا منافع ملک سے باہر بھجوا چکی ہیں اور یہ عمل نہایت بیدردی سے جاری ہے۔ یہ کمپنیاں پیداواری صلاحیت سے کم پیداوار کر کے، بجلی کی مصنوعی قلت پیدا کر کے اور نرخوں میں اذیت ناک اضافہ کر کے ہوشربا منافع کما رہی ہیں۔ دوسری طرف حکومت سے رعایتی قیمت پر حاصل ہونے والے تیل کو بجلی پیدا کرنے کے بجائے مارکیٹ میں بیچ کر بھی منافع کمائے جا رہے ہیں۔
چند افراد کی ہوس، کروڑوں لوگوں کو ایک عذاب میں مبتلا کیے ہوئے ہے جب کہ سیاسی و حکومتی اہلکار کمیشن لے کر تماشا دیکھ رہے ہیں۔ کھربوں روپے کا منافع کمانے والی یہ کمپنیاں کبھی بھی نہیں چاہیں گی کہ بجلی پیدا کرنے کے سستے طریقوں پر سرمایہ کاری کی جائے۔ یہ سامراجی ادارے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں ہائیڈل پاور، شمسی توانائی یا ہوا سے توانائی حاصل کرنے پر ہونے والی تحقیق یا ایسے کسی منصوبے کو دبانے کے لیے ہمیشہ سرگرم رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں ریاستی عہدیداروں کو خریدا اور زرخرید ماہرین کے ذریعے رائے عامہ کو تبدیل کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف ان کمپنیوں کی تجوریاں بھرنے کے بعد ریاست کے پاس اتنا سرمایہ ہی نہیں بچتا کہ ایسے کسی منصوبے پر غور کیا جا سکے۔ سرمایہ داروں اور فیکٹری مالکان کی اربوں روپے کی بجلی چوری صورت حال کو مزید بگاڑ رہی ہے۔ فرنس آئل سے بجلی کی پیداوار پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ملک کے لیے کسی صورت میں بھی موزوں نہیں ہے۔
بجلی پیدا کرنے کا یہ طریقہ کار ان ممالک میں زیر استعمال ہے جو تیل کی پیداوار میں خودکفیل ہیں، یا پھر تیل سے چلنے والے پاور پلانٹس کو دنیا کے مختلف ممالک ایمرجنسی بیک اپ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ان کی مثال بالکل گھر میں رکھے برقی جنریٹر جیسی ہے جسے ہنگامی صورت حال میں ہی استعمال میں لایا جاتا ہے۔ اب اگر کوئی شخص گرڈ سے آنے والی بجلی کا کنکشن کٹوا کر جنریٹر پر انحصار کرنے لگے تو اس کی ذہنی حالت پر شک ہی کیا جا سکتا ہے۔ یہ پاورپلانٹس ماحولیاتی حوالے سے بھی انتہائی زہریلے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں اس طریقہ کار کو اپنایا گیا جس کا خمیازہ آج کروڑوں لوگ بھگت رہے ہیں۔ وہ کھربوں روپے جو ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کی لوٹ مار اور ریاستی عہدیداروں کے کمیشنوں کی نظر ہوئے اگر سستی اور قابل تجدید توانائی کے منصوبوں پر صرف ہوتے تو آج نہ صرف ہر پاکستانی کو نہایت ہی سستی بجلی فراہم کی جا سکتی تھی بلکہ بجلی برآمد کر کے زرمبادلہ بھی کمایا جا سکتا تھا۔
بجلی پیدا کرنے کے سب سے سستے اور تیز ترین طریقوں میں ایک ہوا کی توانائی کا استعمال ہے۔ موجودہ ٹیکنالوجی کے ذریعے پاکستان میں 50,000 میگاواٹ بجلی صرف اسی طریقے سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ اتنی ہی بجلی نئے ڈیم بنا کر حاصل کی جا سکتی ہے۔ دریاؤں اور بہتی نہروں پر ٹربائن نصب کر کے بھی بجلی بنائی جا سکتی ہے۔ پاکستان دنیا کے ایسے ممالک میں شامل ہے جو شمسی توانائی کے حوالے سے موزوں ترین ہیں۔ جرمنی نے کچھ ہفتے پہلے شمسی توانائی سے 22000 میگاواٹ بجلی پیدا کر کے نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے۔ اسی طرح بلوچستان کے صرف 0.25 فیصد رقبے پر سولر پینل نصب کر کے پورے ملک کی ضرورت سے زائد بجلی حاصل کی جا سکتی ہے۔
غرض یہ کہ ممکنات کی کمی نہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کی حدود اور منافع کی ہوس اگر راستے میں حائل نہ ہوں تو بجلی کا بحران برسوں یا مہینوں میں نہیں بلکہ چند گھنٹوں میں ختم ہو سکتا ہے۔ اگر تمام تر خود مختار اور کرایے کے توانائی پلانٹس کو قومی ملکیت میں لے کر منافع کے بجائے عوام کی ضرورت کے تحت چلایا جائے تو چند گھنٹوں میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ممکن ہے۔ ابھی چند ماہ پیشتر اسی قسم کا بجلی کا بحران لاطینی امریکا کے ملک بولیویا کو لاحق تھا۔ وہاں کے صدر ایوموریس جو ''سوشلزم کی جدوجہد'' پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں نے ایسی سامراجی بجلی بنانے والی اجارہ داریوں کا منافع 80 فیصد سے کم کروا کے 20 فیصد کردیا۔ بعض کو مکمل سرکاری تحویل میں لے لیا۔ اس کے بعد نہ صرف بولیویا کے عوام کو لوڈشیڈنگ سے نجات مل گئی بلکہ بجلی کی قیمت آدھی سے بھی کم ہو گئی۔ یہاں پاکستان میں بڑے بڑے سیاست دان اور انقلاب کے نعرے مار کر انقلاب سے ڈرانے والے حکمرانوں میں اتنی جرأت، حوصلہ اور ہمت ہے کہ موریس جیسے انقلابی اقدام کر سکیں؟
سرمایہ داری کسی قسم کی شعوری اور اجتماعی منصوبہ بندی سے عاری، منڈی کی افراتفری پر مبنی ایک نظام ہے۔ منافع پر مبنی مہنگی بجلی کے منصوبے ترک کر کے سستی توانائی کے منصوبوں پر عمل درآمد کرنے کے لیے جس دوررس اور ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اس کی گنجائش اس نظام میں سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ تمام تر حاوی سیاسی جماعتی سرمایہ دارانہ نظام معیشت کو حتمی و آخری حل سمجھتی ہیں۔ کسی بھی سیاسی جماعت میں ملٹی نیشنل کمپنیوں پر ضرب لگاتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کی حدود سے تجاوز کرنے کی جرأت نہیں ہے۔ لوڈشیڈنگ کا عذاب عوام کو گھائل کیے ہوئے ہے۔ عوام کی اکثریت نفسیاتی مریض بن چکی ہے۔ صنعتیں بند ہو رہی ہیں، لوگ بیروزگار ہو رہے ہیں۔ اس اذیت ناک مسئلے کا حل صرف ایسے انقلاب کے ذریعے ممکن ہے جو نفع پر مبنی منڈی کی معیشت کے نظام کو اس کی غلاظتوں سمیت اکھاڑ کر ایک ایسا انقلاب جو اپنی مدد آپ کی بنیاد پر بجلی پیدا کرے اور اپنی ضرورتوں کو خود ہی پورا کرے۔