دوسری شادی

کیا ایسی خوش نصیبی سب کو ملتی ہے؟ میاں بیوی عموماً کئی کئی برسوں بلکہ عشروں کے فرق سے فوت ہوتے ہیں۔


[email protected]

اسکول کے زمانے میں ہمارے دوست تھے جن کا نام اقبال تھا۔ اقبال ہمارے ہم جماعت بھی تھے اور ہم محلہ بھی۔ ایک دن کسی نے کہا کہ ان کی والدہ صاحبہ کا انتقال ہوگیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد پتہ چلا کہ نہیں والدہ کا نہیں بلکہ ان کے والد صاحب کا انتقال ہوگیا۔کوئی اقبال کی ماں کے انتقال کی خبر دیتا تو کوئی باپ کی فوتگی کی اطلاع دیتا۔گھر سے رونے کی آوازیں آتیں لیکن پتہ نہیں چل رہا تھا کہ کس کا انتقال ہوا ہے۔ تھوڑی دیر بعد ایک بزرگوار صحیح خبر لے کر آئے۔ سچی بات یہ تھی کہ دونوں کا انتقال چند منٹوں کے وقفوں سے ہوا تھا۔ لوگ افسوس کے ساتھ حیرت کا اظہار بھی کر رہے تھے۔ ایک رائے یہ تھی کہ دونوں میں کتنی محبت تھی کہ ایک ہی دن بیاہے گئے اور ایک ہی دن فوت ہوگئے۔ عروسی جوڑا اور کفن دونوں نے ایک ساتھ پہنا۔

کیا ایسی خوش نصیبی سب کو ملتی ہے؟ میاں بیوی عموماً کئی کئی برسوں بلکہ عشروں کے فرق سے فوت ہوتے ہیں۔ بے شمار مثالیں ہیں کہ مرد کی پہلی بیوی تیس چالیس سال قبل فوت ہوگئی یا فلاں خاتون بیوگی کا دور پچیس تیس سال سے کاٹ رہی ہیں۔ کبھی کبھار کوئی حادثہ دونوں کو ایک ساتھ ایک جہاں سے دوسرے جہاں لے جاتا ہے، جیسے ایک سابقہ ایئرچیف ایک فضائی حادثے میں اپنی بیگم کے ساتھ وفات پاگئے۔ اب دو میں سے ایک صورت حال ہوگی۔

بیوی انتقال کرجائے تو شوہر دربدر ہوجائے یا عورت بیوہ ہوجائے تو وہ اپنا انحصار بچوں پر کرے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شریک حیات سے محروم ہوجانے والے مرد یا عورت کو دوسری شادی کرنی چاہیے یا نہیں۔ اگر ایک مرد شادی کرتا ہے تو لازماً ایک عورت کا گھر بھی بس جاتا ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس پر معاشرے کا کیا رویہ ہوتا ہے؟ ماں سے محروم ہوجانے والی اولاد اپنے باپ کو دوسری شادی کی اجازت دیتی ہے؟ اگر وہ خوشحال ہے اورخود شادی کرتا تو اس پر کتنی ناگواری کا اظہار کیا جاتا ہے؟ نئی ماں کو کس حد تک قبول کیا جاتا ہے؟

دوسری شادی کے لیے عمر سب سے اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اگر بچے چھوٹے چھوٹے ہیں اور ان کی ماں انتقال کرگئی ہے تو معاشرہ ایسے مرد کی شادی میں رکاوٹ نہیں ڈالتا۔ یوں سمجھیں کہ اگر بچے اسکول جانے کی عمر کے ہیں تو معاشرہ چاہتا ہے کہ یہ مرد دوسری شادی کرلے۔ اس میں خود غرضی کا پہلو یہ ہوتا ہے کہ پھر بچوں کی دیکھ بھال کی ذمے داری سے قریبی رشتے دار آزاد ہوجاتے ہیں۔ ایسی شادی کو سماج تو قبول کرلیتا ہے لیکن بچے نئی ماں کو اپنی اصلی ماں کی جگہ دینے کو بڑی مشکل سے تیار ہوتے ہیں، اب دیکھیں کہ اگر بچے کالج جانے والے ہیں تو کیا ہوتا ہے۔

نوجوانی کی سرحد میں داخل ہونے والے بچے ماں سے محروم ہوجائیں تو وہ آسانی سے نئی ماں کو قبول کرلیتے ہیں، خاص طور پر لڑکے۔ وہ اپنی زندگی کے دربدر ہوجانے اور گھر کے ہوٹل بن جانے سے پریشان ہوتے ہیں۔ یوں ایک عورت کے گھر آجانے سے ان کی زندگی ایک بار پھر ڈگر پر چلنی شروع ہوجاتی ہے۔ یہ ساری باتیں اسی صورت میں ہیں کہ مرد کی دوسری شادی ہو جب کہ عورت کی یہ پہلی شادی ہو۔ اگر دونوں کی یہ دوسری شادی ہو اور دونوں کے بچے ہوں تو مسائل شدت اختیار کرجاتے ہیں۔

اسکول اور کالج جانے والے بچوں کی ماں دنیا سے رخصت ہوجائے تو کیا ہوتا ہے؟ اس سوال کا بڑی حد تک ہم جواب دے چکے ہیں۔ سب سے زیادہ مسئلہ اس وقت ہوتا ہے جب بچے شادی شدہ ہوں۔ یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جب آدمی کی عمر عموماً ساٹھ سال سے زیادہ ہوچکی ہوتی ہے۔ یہ سب سے نازک مرحلہ ہوتا ہے۔ یقین جانیے کہ کالم لکھنے کا سبب یہی لوگ ہیں۔ یہ ایسا آدمی ہوتا ہے جس سے معاشرہ دوسری شادی کی توقع نہیں کر رہا ہوتا ہے۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ اب وہ اللہ اللہ کرے۔ اب دوسری شادی کی کیا ضرورت ہے۔ بڑی بوڑھیاں کہتی ہیں کہ یہ اب کیا اس عمر میں پھر بیاہ رچائے گا؟ دو دلچسپ واقعات جن سے راقم کو بارہ پندرہ سال قبل واسطہ پڑا۔

جب چچی کا انتقال ہوا تو چچا کی عمر 62 سال تھی۔ وہ صاحب حیثیت اور دوسری شادی کے خواہش مند تھے۔ ہمارے والد اور تایا کا خیال تھا کہ اب انھیں دوسری شادی نہیں کرنی چاہیے۔ چچا نے شادی کی بات چلائی ہوئی تھی اور کئی جگہ رشتہ ڈال چکے تھے۔ انکوائری کے لیے انھوں نے میرا نام دیا تو لڑکی یا خاتون کے رشتے دار دفتر آگئے تھے۔ ایک طرف چچا کا اصرار تھا تو دوسری طرف سے خاندان کا انکار۔ رشتہ بڑی حد تک طے ہوچکا تھا۔ میں نے تایا اور والد صاحب سے بات کی اور ان کے سامنے دو راستے تھے۔ شادی رکوادیں یا شریک ہوجائیں، تیسرا کوئی راستہ اب نہیں بچا۔ تایا کا کہنا تھا کہ کیا ضرورت ہے؟ میری دلیل تھی کہ آپ چچا کو بتا دیں کہ اب انھیں کتنا جینا ہے تو ہم انھیں روک دیں۔ تایا نے کہا کہ کس کی کتنی عمر ہے وہ کوئی کیسے بتا سکتا ہے۔ یہی بات تھی کہ اگر کسی کی عمر پچاسی نوے برس تک جاتی ہے تو پھر اس کی خدمت کون کرے گا؟ آدمی معاشی طور پر دوسرے پر بوجھ نہیں اور خود نکاح ثانی چاہتا ہے تو روکنا مناسب نہیں۔ اس دلیل سے کام لیا اور چچا اب اپنی دوسری شادی کی بارہویں سالگرہ مناچکے ہیں۔ دوسرا واقعہ اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے۔

ایک خاتون کا گھر پر فون آیا۔ یہ زمانہ قبل از موبائل کی بات ہے۔ والدہ نے اوپر کا نمبر دیا۔ تھوڑی دیر بعد ان ہی خاتون نے میرا نام پکارا۔ بیگم نے فون مجھے پکڑایا۔ وہ ہمارے ایک رشتے دار کی اہلیہ کے انتقال کے بعد ان کی بہن سے رشتہ ڈالے جانے کی انکوائری کر رہی تھیں۔ میں نے اپنی رائے دے دی۔ اب گھر کی خواتین نے مجھ سے پوچھا کہ کیا ماجرا ہے؟ میں نے بتایا کہ علی صاحب کی بیوی فوت ہوچکی ہیں اور انھوں نے کہیں رشتہ ڈالا ہے۔ وہ ان کے بارے میں پوچھ رہی تھیں۔ والدہ اور بیگم نے کہنا شروع کیا کہ ''ابھی بیوی کا کفن میلا نہیں ہوتا اور یہ مرد دوسری شادی کو نکل پڑتے ہیں' تیس چالیس برسوں کے ساتھ کا بھی انھیں احساس نہیں ہوتا۔ جوان بچوں کی موجودگی کی بھی انھیں شرم نہیں ہوتی''۔ یہ سب کوسنے مجھے یوں سنائے جارہے تھے جیسے میں خود شادی کرنے چل پڑا ہوں۔

اب اوسط عمر میں اضافہ ہوچکا ہے، دوسری شادی بھی بیس پچیس سال طویل ہورہی ہے، بڑھاپے میں بیوی کے سوا کون خدمت کرسکتا ہے۔ اب سماج ان چیزوں کا احساس کر رہا ہے اگر مرد دوسری شادی کر رہا ہے تو ایک عورت کا گھر بھی ساتھ ساتھ بس رہا ہوتا ہے۔ اب معاشرہ حیران نہیں ہوتا کہ ایک خوشحال اور بڑی عمر کا مرد بیوی کے انتقال کے بعد کرنے چلا ہے ، دوسری شادی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔