ہر ادارہ اپنا احتساب کرے
تاریخ کے اوراق پلٹنے کا مقصد یہ ہے کہ پارلیمنٹ نے آج تک خود احتسابی نہیں کی۔
یونان کے ایک مصور نے ایک تصویر بنائی، جس میں ایک آدمی کو انگور کا خوشہ پکڑے دکھایا گیا تھا۔ اس نے تصویر کو بازار میں لٹکا دیا۔ جو بھی تصویر کو دیکھتا، اس کی تعریف کرتا۔ مصور کے کچھ دوست کہنے لگے ''تم نے انگوروں کا خوشہ اس قدر بہترین بنایا ہے کہ چڑیاں آتی ہیں اور اسے اصل سمجھ کر چونچ مارتی ہیں۔''
مصور نے اپنی تعریف پر واہ واہ کرنے کے بجائے تصویر میں اپنی غلطی کو ڈھونڈا اور کہنے لگا ''اس کا مطلب ہے۔ میری تصویر میں کچھ خامی رہ گئی ہے۔ آدمی کو بنانے میں مجھ سے غلطی ہو گئی، ورنہ چڑیاں اگر آدمی کو بھی اصل سمجھتیں تو اس کے ڈر سے انگوروں پر چونچ مارنے کی جرات نہ کرتیں۔'' مصور نے وہ تصویر اتاری اور پہلی سے بھی بہتر دوسری تصویر بنائی۔
اس تصویر میں بھی ایک آدمی انگور کا خوشہ لیے کھڑا تھا۔ انگور کا خوشہ دوبارہ اس قدر شان دار بنایا گیا تھا کہ چڑیاں اس کو دیکھ کر اس کے پاس آتیں، مگر اب انھیں چونچ مارنے کی ہمت نہ ہوتی، جو آدمی انگور کا خوشہ لیے ہوئے تھا۔اس کی آنکھوں میں اس قدر غصہ بھرا تھا کہ چڑیاں اسے دیکھتے ہی ڈر کر اڑ جاتیں! اب مصور بہت خوش تھا، کیونکہ اس نے پہلی تصویر میں خود ہی اپنی خامی کی نشاندہی کی اور اس کی اصلاح کر کے پہلے سے شاندار تصویر بنائی تھی اور یہ کامیابی اسے خود احتسابی کے نتیجے میں میسر آئی تھی۔
اگر زندگی کی روانی کا باریک بینی سے مشاہدہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انسان کی ہر ناکامی میں کہیں نہ کہیں اپنی کوتاہی پوشیدہ ہوتی ہے، جسے خود احتسابی کے ذریعے دور کیا جا سکتا ہے۔ یہی مثال ہمارے اداروں پر بھی پوری اُترتی ہے کہ ناکام ہوتے ادارے اپنے اندر خامیاں تلاش کریں اور انھیں خود احتسابی کے ذریعے دور کریں تاکہ وہ صحیح سمت میں آگے بڑھ سکیں۔
''خود احتسابی '' کا یہ فلسفہ میرے ذہن میں اس لیے آیا کہ گزشتہ روز شہباز شریف نے پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے یہ پیشکش کی تھی کہ اُن پر الزامات کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی قائم کر دی جائے ، اور اگر اُن پر الزامات ثابت ہوگئے تو انھیں سیاست سے نکال باہر کیا جائے۔
اب یہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ اس پر عمل پیرا ہوتی ہے یا نہیں لیکن پارلیمنٹ کی سیاسی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ پارلیمنٹ جیسے ادارے نے اپنا احتساب کرنے کی ذرا سی کوشش بھی کی ہو۔ ہاں ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے کسی گرفتار رکن اسمبلی کے پروڈکشن آرڈرز جاری کیے ہوں۔ بلکہ پہلے بھی کئی دفعہ یہ پروڈکشن آرڈرز جاری ہوئے۔
متعدد اراکین اسمبلی بندوقوں کے سائے میں یہاں لائے گئے۔ جس حکومت کے دور میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو نیب نے گرفتار کیا ہے اس حکومت کے وزیر ریلوے شیخ رشید احمد صاحب کو پیپلز پارٹی کے دوسرے دور حکومت میں ناجائز اسلحے کے ایک جھوٹے مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ شیخ رشید احمد منتخب رکن قومی اسمبلی تھے اور اپوزیشن نے انھیں قومی اسمبلی کے اجلاس میں لانے کا مطالبہ کیا۔
ایک دن اسپیکر یوسف رضا گیلانی نے وزیر قانون سید اقبال حیدر سے پوچھا کہ جیل میں بند ایک رکن قومی اسمبلی کو ایوان میں لانے کے لیے قانون کیا کہتا ہے؟ سید اقبال حیدر نے ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر کہا کہ اگر اسپیکر کی طرف سے پروڈکشن آرڈر جاری کر دیا جائے تو حکومت گرفتار رکن اسمبلی کو ایوان میں لانے کی پابند ہے۔ اسپیکر یوسف رضا گیلانی نے پروڈکشن آرڈر جاری کر دیا اور شیخ صاحب کو اسمبلی میں لایا گیا۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ شیخ رشید احمد کوجب انھیں اڈیالہ جیل سے قومی اسمبلی میں لایا گیا تو وہ اپنے ساتھ قرآن پاک بھی لے آئے اور انھوں نے قومی اسمبلی میں قرآن اُٹھا کر کہا کہ مجھ پر کلاشنکوف کا مقدمہ جھوٹا ہے، میں بے گناہ ہوں اور یہ قومی اسمبلی بے شک آصف علی زرداری کی سربراہی میں ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دیدے اور یہ کمیٹی جو بھی فیصلہ کرے گی وہ مجھے قبول ہو گا۔
یہ کمیٹی تو نہ بنی البتہ سید اقبال حیدر کو وزارت قانون سے ہٹا دیا گیا کیونکہ انھوں نے شیخ رشید احمد کو ایوان میں لانے کی مخالفت نہیں کی تھی حالانکہ اس سے قبل مسلم لیگ (ن) کے پہلے دور حکومت میں قومی اسمبلی کے اسپیکر گوہر ایوب ایک گرفتار رکن اسمبلی آصف علی زرداری کے پروڈکشن آرڈرز جاری کیا کرتے تھے اور صدر غلام اسحاق خان نے ایک دن گوہر ایوب کو بلا کر پروڈکشن آرڈر جاری کرنے سے منع کیا لیکن گوہر ایوب نے صدر کی بات سنی اَن سنی کر دی۔
کیسا عجیب اتفاق ہے کہ جس آصف علی زرداری کو پروڈکشن آرڈر کے ذریعہ جیل سے اسمبلی لایا جاتا تھا اُسی زرداری صاحب نے کچھ عرصہ بعد صدر غلام اسحاق خان سے بطور وزیر حلف لیا اور کچھ سال کے بعد وہ خود صدر مملکت کی کرسی پر براجمان ہو گئے۔ جو اسپیکر ان کے پروڈکشن آرڈرز جاری کیا کرتے تھے وہ مسلم لیگ (ن) کے دوسرے دور حکومت میں وزیر خارجہ بن گئے۔
خیر تاریخ کے اوراق پلٹنے کا مقصد یہ ہے کہ پارلیمنٹ نے آج تک خود احتسابی نہیں کی۔ اور اس حکومت کو اقتدار میں آئے ہوئے بمشکل 2ماہ ہوئے ہیں۔ بادی النظر میں وزیر اعظم عمران خان اس نظام کو ٹھیک کرنے کے لیے خاصے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں، وہ عوام کو ڈسپلن میں لانے کی کوشش کرتے ہیں، عوام انھیںآنکھیں دکھاتے ہیں۔ وہ بیوروکریسی کو ٹھیک کرنے کی بات کرتے ہیں بیوروکریسی اعداد و شمار میں پھنسا دیتی ہے۔ وہ ملکی قرضہ دیکھتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ ملک کا قرضہ 10سالوں میں 6000سے 30ہزار ارب روپے تک کیسے پہنچا۔ وہ اس سلسلے میں سیاستدانوں سے پوچھتے ہیں سیاستدان انھیں ''ایوان'' میں رولنے پر تل جاتے ہیں۔
یہ کس قدر حیران کُن بات ہے کہ ہمارے ہاں یہ روایت نہیں ہے کہ ہم جرم کو قبول کریں، ہمارے ہاں چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا مجرم بھی اپنے آپ کو ولی اللہ سمجھتا ہے۔ وہ بے شک منشاء بم ہی کیوں نہ ہو۔ ہر کوئی مظلوم بننے کی کوشش کرتا ہے۔ آپ ملک کے ہر سیاستدان سے بات کر کے دیکھ لیں، ذاتی طور پر ہی کر کے دیکھ لیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک دکھیارا ملے گا اور کہے گا کہ اُس نے آج تک چوری نہیں کی۔ اگر کسی نے چوری نہیں کی تو آخر چور کون ہے۔ پاکستان کو اس نہج پر لانے والا کون ہے؟بھارتی شاعر راحت اندوری کے مطابق
چور اُچکوں کی کرو قدر کہ معلوم نہیں
کون کب کون سی سرکار میں آ جائے گا
حقیقت میں جو ادارے اور لوگ کبھی اپنا احتساب نہیں کرتے اور ہمیشہ ہر معاملے میں دوسروں کو ہی قصور وار ٹھہرانے کی کوشش کرتے ہیں، ان کو کامیابی مشکل ہی ملتی ہے۔ خود احتسابی دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے، کیونکہ انسان اپنی فطرت کے مطابق خود کو خامیوں سے پاک سمجھتے ہوئے تمام غلطیوں کا ذمے دار دوسروں کو ٹھہراتا ہے۔
خود کو جانچنا، اپنی غلطیوں، خامیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی کر کے ان کی اصلاح کرنا اور اپنے ہر عمل کا خود حساب رکھنا اگر ''خود احتسابی'' کہلاتا ہے تو اس میں برائی کیا ہے۔ اگر سیاستدان یہ کہتے ہیں کہ وہ چور نہیں ، اور اُن کے لیے اگر کوئی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے تواگر اب پارلیمنٹیرین یہ سمجھتے ہیں کہ اس ملک میں انصاف ہونا چاہیے ، احتساب میرٹ پر ہونا چاہیے۔تو انھیںاس اقدام کو بھی آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
میں اس حوالے سے یہ ہر گز نہیں کہتا کہ شہباز شریف پر ہاتھ نرم رکھا جائے، اگر انھوں نے غلطی کی ہے تو انھیں حقیقت میں سزا ملنی چاہیے ۔ لیکن خدارا اس غلطی کو ثابت بھی کیا جائے۔ خواہ اس کے لیے نیب ہی متحرک ہو یا پارلیمان کے لوگ اپنی صفوں میں بیٹھے گند کو خود صاف کر لیں۔ اور حقیقت میں سزا کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ اگلے کو احساس دلا دیا جائے کہ یہ اُس نے غلطی کی ہے ، اور اس کلچر کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ۔
پارلیمنٹرین کے لیے میری تجویز ہے کہ ایسی قانون سازی کی جائے کہ جس سیاستدان پر بھی کرپشن کا الزام لگے یہ سیاستدان خود اُس کا احتساب کرے۔ اور انصاف کا ایک ایسا نظام بھی قائم کیا ہو جائے جو غیر جانبدار ہو۔ میرے خیال میں اگر اسے رول ماڈل بنا کر دوسرے اداروں پر لاگو کر دیا جائے تو ہم بہت سی برائیوں سے چھٹکارا پا سکتے ہیں۔
اس حوالے سے وزیر اعظم عمران خان کے لیے میری رائے ہے کہ چوروں کو پکڑنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنی زیادہ انرجی ایسے ''سسٹم'' کو مرتب کر نے کے لیے خرچ کریں کہ آیندہ کوئی ایک روپے کی کرپشن کا بھی نہ سوچ سکے۔ یہ سسٹم خواہ انھی پارلیمنٹرین کے ذریعے بنوائیں تاکہ ان لوگوں کو احساس ہو کہ اُن کے درمیان گند بھی صاف ہونا چاہیے۔ اگر اب کی بار بھی ایسا نہ ہوا تو یقین مانیں کچھ نہیں بچے گا۔