لینڈ مافیا قانون کے شکنجے میں
یاست کی رٹ بحال کرانے کی زوردار مہم پہ خصوصی رپورٹ۔
پندرہ سال پہلے کی بات ہے، کراچی کے ایک محنت کش، عامر نے شہر قائد کے مضافات میں اپنی جمع پونجی سے 80 گز کا پلاٹ خریدا۔ وہ چند سال بعد مزید سرمایہ جوڑ کر وہاں گھر بنانا چاہتا تھا تاکہ سر چھپانے کا ٹھکانہ میسر ہو۔ وقت بیتتا گیا اور شہر قائد پھیلتے پھیلتے اس مضافاتی علاقے تک آپہنچا۔
بدقسمتی سے عامر اتنی رقم نہیں جوڑ سکا تھا کہ پلاٹ پر اپنی چھت تعمیر کرسکے۔ ایک دن عامر یونہی اپنا پلاٹ دیکھنے گیا، تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس کے گرد ایک دیوار تعمیر ہوچکی تھی۔ دیوار کے اندر جھگی بناکر کچھ لوگ رہ رہے تھے۔
عامر نے جب ان سے استفسار کیا کہ وہ کون ہیں، تو لوگ اسے دھمکاتے ہوئے بولے کہ یہاں سے نو دو گیارہ ہو جاؤ ورنہ گولی مار دیں گے۔ عامر بہت پریشان ہوا۔ اس نے علاقے کے لوگوں سے معلومات لیں، تو انکشاف ہوا کہ عامر کے پلاٹ پر لینڈ مافیا سے تعلق رکھنے والے ایک مقامی ''ڈان'' نے قبضہ کرلیا ہے۔پلاٹ کے کاغذات عامر کے پاس تھے۔ وہ انہیں لیے مقامی پولیس اسٹیشن پہنچا۔ جب عامر نے ڈان کیے خلاف ایف آئی آر لکھوانی چاہی تو پولیس نے انکار کردیا۔ کلرک نے عامر کو مشورہ دیا کہ بہتری اسی میں ہے، اپنا پلاٹ ''صاحب'' کو فروخت کردو۔
عامر ڈان کے اڈے پہنچا اور اس کے کارندوں سے پلاٹ فروخت کرنے کی بابت معلومات لیں۔ تب اسے معلوم ہوا کہ ڈان تو پلاٹ کی قیمت بہت کم دے رہا ہے۔عامر اپنی حلال کی کمائی ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اتفاق سے ایک سماجی رہنما اس کا واقف کار تھا۔ سماجی رہنما اسے سول سوسائٹی کی مشہور تنظیم، ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کے دفتر لے گیا۔ تنظیم کے وکلا نے عامر کا کیس لے لیا اور سندھ ہائیکورٹ جاپہنچے۔ ہائیکورٹ نے مقامی پولیس کو حکم دیا کہ وہ ڈان کے خلاف ایف آئی آر درج کر ے۔ یوں ملزم قانونی کارروائی کی زد میں آگیا۔
ایک ہفتے بعد عامر اپنے پلاٹ پر گیا تو یہ دیکھ کر پھر حیران رہ گیا کہ پلاٹ پر تعمیر کردہ دیوار گرچکی ہے جبکہ جھگی والے بھی غائب تھے۔ وہ ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کے دفتر گیا اور اپنے وکلا کو سارا ماجرا سنایا۔ انہوں نے معاملے کی تفتیش کی تو انکشاف ہوا کہ لینڈ مافیا کے ڈان پر دراصل علاقے کے ایک سرکردہ سیاست داں کا ہاتھ تھا۔ اس نے جب دیکھا کہ ایک قومی سماجی تنظیم کیس اپنے ہاتھوں میں لے چکی ہے تو وہ خوفزدہ ہوگیا۔ وہ جارح مزاج اختیار کرنے والی عدالتوں میں جانے سے بچنا چاہتا تھا، اسی لیے پسپا ہونے میں عافیت جانی۔
یہ یقینی ہے کہ عامر ایک نامور سماجی تنظیم کا سہارا نہ لیتا تو وہ مجبور ہوجاتا کہ اپنا پلاٹ لینڈ مافیا کے ڈان کی من چاہی قیمت پر فروخت کردے۔ عوام کو انصاف دینے کے لیے متحرک ،عدلیہ کی سرگرم فعالیت بھی عامر کے کام آئی۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت ناخواندہ ہے اور وہ عامر جیسا شعور و عقل نہیں رکھتی۔ یہی وجہ ہے، جب لینڈ مافیا سے تعلق رکھنے والا کوئی طاقتور مجرم گروہ کسی غریب کی زمین پر زبردستی قبضہ کرے، تو عموماً وہ چیخ چلا کر خاموش ہوجاتا ہے۔ وہ مجبور ہوتا ہے کہ اپنی زمین کی جو بھی اونے پونے قیمت مل رہی ہے، قبول کرلے۔
زمین کی مادی کشش
کہتے ہیں، دنیا میں اکثر لڑائی جھگڑے ''ز'' سے شروع ہونے والے تین الفاظ... زن، زر، زمین سے جنم لیتے ہیں۔ پاکستان میں لینڈ مافیا کے کرتوت دیکھے جائیں تو یہ مثل برحق لگتی ہے۔ پاکستانی مورخین نے لکھا ہے کہ یہ زمین ہی ہے جس نے قیام پاکستان کے بعد نوزائیدہ مملکت میں کرپشن، بے ایمانی،اقربا پروری لالچ اور ہوس کی بنیادیں رکھیں۔ آزادی کے وقت ہندوؤں اور سکھوں کی چھوڑی زمینوں، پلاٹوں اور گھروں کی الاٹمنٹ میں کافی گھپلے ہوئے ۔وزرا سے لے کر کرپٹ سرکار ی افسروں تک ،سبھی نے جسے چاہا،متروکہ گھر،پلاٹ اور زمینیں دے دیں۔یہی وجہ ہے اس زمانے میں بہت سے کنگال راتوں رات لکھ پتی بن گئے۔قیام پاکستان سے قبل دیہی علاقوں میں زمین ہی قیمتی ترین شے سمجھی جاتی تھی اور اب بھی حالت نہیں بدلی۔ حتیٰ کہ زمینوں کا انتظام رکھنے والا معمولی کلرک، پٹواری اپنے علاقے میں بادشاہ سمجھا جاتا تھا۔ اس کے اثرورسوخ کا یہ عالم تھا کہ دیہی بزرگ جب کسی نوجوان سے خوش ہوتے، تو اسے یہی دعا دیتے کہ اللہ تجھے پٹواری بنائے۔ جب سے زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ ہوا ہے، پٹواری کی اہمیت گھٹ گئی مگر خصوصاً دیہات میں اب بھی ختم نہیں ہوئی۔
آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ جب شہر پھیلنے لگے تو شہری زمین کی قدرو قیمت میں بھی اضافہ ہوا ۔جو زمینیں پہلے بنجر و بے آباد تھیں، وہاں کالونیاں اور ہاؤسنگ سوسائٹیاں بننے لگیں۔ اس نئے اعجوبے نے شہری زمینوں کی قیمتیں راتوں رات دگنی چوگنی بڑھا دیں۔ قیمت کے اسی محیر العقول اضافے نے جرائم پیشہ گروہوں کو بھی شہری زمینوں کی طرف متوجہ کردیا۔
رفتہ رفتہ ویران پڑی زمین اور غریب و مسکین لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کے لیے مختلف طریقہ ہائے واردات دریافت ہوگئے۔ ایک عام طریقہ یہ ہے کہ کسی ویران زمین پر جھگیاں ڈال دی جاتی ہیں۔ آہستہ آہستہ پھر وہاں دیواریں تعمیر ہوتی ہیں۔ پھر ان جھگیوں میں مقیم اپنے کارندوں کے جعلی ملکیتی کاغذات برائے زمین بنوائے جاتے ہیں۔ یوں زمین پر قبضے کا پلان مکمل! یہ زمین پھر عموماً ایک نہیں چھ سات خریداروں کو بیچی جاتی ہے۔کسی غریب و بدقسمت مسکین کی زمین ہاؤسنگ سوسائٹی کے قریب آ جائے، تو پہلے اسے اونے پونے رقم دے کر خریدنے کی کوشش ہوتی ہے۔ اگر زمین فروخت کرنے پر آمادہ نہ ہو، تو اسے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ لینڈ مافیا غریبوں کو قتل کرنے سے بھی نہیں چوکتی۔
پاکستان میں زمینوں کی خرید و فروخت کے کاروبار کی مالیت کھربوں روپے ہے۔ اسی مادی کشش کے باعث پچھلے بیس برس کے دوران پورے پاکستان میں لینڈ مافیا وجود میں آگئی۔زمینوں پر ناجائز قبضہ کرنے والی اس مافیا پر تحقیق کرتے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ہر علاقے میں جرائم پیشہ افراد، سیاسی رہنما، پولیس اور سرکاری افسر لینڈ مافیا گروہوں کا حصّہ ہوتے ہیں۔ قبضہ کی گئی زمینوں کے کاروبار سے جتنی آمدن ہو، وہ ہر فریق کے مابین تقسیم ہوتی ہے۔ چونکہ یہ آمدن کروڑوں روپے میں ہے، اسی لیے پیسے کی کشش کے باعث رفتہ رفتہ ملک بھر میں لینڈ مافیا کے سیکڑوں چھوٹے بڑے گروہ وجود میں آگئے۔
قانون کی بے بسی
ان گروپوں میں پولیس اور مختلف محکموں سے تعلق رکھنے والے سرکاری افسر بھی شامل تھے، اسی لیے قانون ان کے سامنے کمزور ہوتا گیا۔ قانون کی کمزوری نے لینڈ مافیا کو زیادہ دلیر اور مادرپدر آزاد بنادیا اور وہ دن دیہاڑے سرکاری و نجی زمینوں پر قبضے کرنے لگی۔ کھیل کے میدان، باغات اور قبرستان ،اسکول، یونیورسٹی، اسپتال، ائرپورٹ کی زمینیں غرض ہر قسم کی لاکھوں کنال زمین لینڈ مافیا کی ہوس کی نذر ہوگئی۔ ان گروپوں کی دیکھا دیکھی عام دکانداروں نے اپنی دکانوں کے آگے ناجائز تجاوزات قائم کرلیں۔ اس وجہ سے پاکستانی شہروں میں سڑک، فٹ پاتھ اور گرین بیلٹ کا تصور آپس میں گڈ مڈ ہوگیا۔ اب پتا ہی نہیں چلتا کہ فٹ پاتھ کہاں ہے اور سڑک کہاں؟
میرے ایک عزیز، فیصل گیلانی کینیڈا میں مقیم ہیں۔ انہوں نے جوہر ٹاؤن میں 1995ء میں ایک کنال کا پلاٹ خریدا تھا۔ چند سال قبل وہ کینیڈا سے پاکستان آئے تاکہ پلاٹ فروخت کرسکیں۔ وہ اپنے پلاٹ پر پہنچے تو یہ دیکھ کر بھونچکا رہ گئے کہ وہاں تو ایک گھر بنا ہوا ہے۔ گھر والوں سے دریافت کیا، تو افشا ہوا کہ انہوں نے یہ گھر فلاں آدمی سے خریدا ہے۔مزید پوچھ گچھ ہوئی تو پتا چلا کہ وہ آدمی جوہر ٹاؤن کے ایک مشہور قبضہ گروپ کا ایجنٹ ہے۔ فیصل بھائی اس فراڈ کی رپورٹ کرانے مقامی پولیس سٹیشن پہنچے، تو اس نے کوئی کارروائی کرنے سے انکار کردیا۔ ایل ڈی اے والوں سے رجوع کیا، تو انہوں نے بھی ہاتھ اوپر کردیئے اور کہا کہ قبضہ گروپ کا سرغنہ بہت بااثر و طاقتور آدمی ہے،وہ اس کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتے۔
جماعت اسلامی لاہور کے رہنما اور سابق رکن اسمبلی، احسان اللہ وقاص بھی ہمارے عزیزوں میں سے ہیں۔ فیصل بھائی نے ان سے مدد کی درخواست کی۔ وقاص صاحب انہیں ساتھ لے کر ایل ڈی اے پہنچے اور اعلیٰ افسروں سے ملے۔ یقین کیجیے، ان افسروں نے کہا کہ وہ لینڈ مافیا کے سامنے بے بس ہیں۔ اب مسروقہ پلاٹ کبھی آپ کو نہیں مل سکتا۔ تشفی کی خاطر انہوں نے ایک اور پلاٹ فیصل بھائی کو دے دیا۔ یہ پلاٹ دور دراز مقام پر تھا اور اس کی قدرو قیمت بھی کم تھی۔ لیکن بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی کے مصداق انہیں مجبوراً وہ پلاٹ قبول کرنا پڑا۔
درج بالا چشم کشا واقعے سے عیاں ہے کہ پاکستان بھر میں لینڈ مافیا اتنا طاقتور ہوگیا ہے کہ قانون اس سے خوف کھانے لگا ہے۔ گویا قبضہ مافیا نے قانون کی حکمرانی کو مذاق بنا کر رکھ دیا اور ملک میں لاقانونیت اور کرپشن کو رواج دیا۔ کراچی سے خیبر تک اس کا سّکہ چل پڑا اور خصوصاً غریبوں، بیرون ملک پاکستانیوں، یتیموں اور بیواؤں کی زمینوں پر قبضے کرنا معمول بن گیا۔ یہ اعجوبہ جنم لینے کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ جن سرکاری محکموں نے لینڈ مافیا کو قابو میں رکھنا تھا،اس کے سرغنوں کو قانون کی گرفت میں لانا تھا،ان کے کرپٹ اور لالچی افسر بھی قبضہ گیروں سے جا ملے۔لاقانونیت کی انتہا ہے کہ 2008 ء میں تین سرکردہ تعمیراتی کمپنیوں نے مل کر اس سرکاری زمین پہ ایک ہاؤسنگ سوسائٹی بنا ڈالی جہاں ''ڈھڈوچہ ڈیم'' بننا تھا۔اس ڈیم کے ذریعے راولپنڈی کو صاف پانی مہیا کرنا مقصود تھا۔(یہ شہر پانی کی قلت سے دوچار ہو چکا ہے)حد یہ ہے کہ مجوزہ ہاؤسنگ سوسائٹی بھی مکمل نہیں ہوئی جہاں پاک فوج کے شہدا کے عزیز واقارب کو پلاٹ دئیے جانے تھے۔2015ء میں سپریم کورٹ نے اس علاقے میں زمین کی خریدوفرخت پہ پابندی لگا دی تاکہ مجوزہ ڈیم تعمیر کیا جا سکے۔
قانون کی لاٹھی حرکت میں
نئی آنے والی حکومتیں اور عدلیہ بھی لینڈ مافیا کے خلاف کارروائیاں کرتی رہیں مگر یہ سرگرمی کچھ عرصے بعد سرد پڑ جاتی ہے۔ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پوری ریاستی مشینری دہشت گردوں سے لڑنے میں محو تھی۔پاکستان پہ آئی آفت سے مگر سفاک لینڈ مافیا نے فائدہ اٹھایا اور اپنے دھندے کووسعت دیتی چلی گئی۔آخر صورت حال نے 2017ء کے اوائل سے ڈرامائی موڑ اختیار کر لیا جب چیف جسٹس کی زیرقیادت سپریم کورٹ پاکستان لینڈ مافیا کے خلاف سرگرم ہوا۔ یہ ایک نمایاں تبدیلی تھی کیونکہ ملک بھر کی عدالتوں میں زمینوں کے قبضے سے متعلق لاکھوں کیس زیر التوا تھے اور کچھ خبر نہ تھی کہ ان کا کب فیصلہ ہوگا۔ تبھی اعلی عدلیہ نے فیصلہ کیا کہ لینڈ مافیا کو ضرب پہنچانے کی خاطر اس پہ بھرپور وار کیے جائیں۔ اس عدالتی فعالیت کو حکومت کے مقتدر حلقوں کی حمایت حاصل تھی۔
اگست 2018ء میں حکومت تبدیل ہوئی اور تحریک انصاف اقتدار میں آئی۔نئے وزیراعظم، عمران خان نے اپنی پہلی تقریر ہی میں قوم سے وعدہ کیا کہ وہ لینڈ مافیا کے خلاف جنگ کا آغاز کریں گے۔ انہوں نے اپنا وعدہ نبھایا، اوائل اکتوبر سے وفاقی علاقہ اسلام آباد اور صوبہ پنجاب میں لینڈ مافیا اور ناجائز تجاوزات کے خلاف گرینڈ آپریشن شروع ہوگیا۔ اس آپریشن کے ذریعے اب تک ہزاروں کنال سرکاری و نجی زمین لینڈ مافیا کے قبضے سے چھڑائی جاچکی ہے۔حکومت کے گرینڈ آپریشن سے ریاست کی رٹ بحال ہوئی اور قانون پر عوام کا اعتماد بڑھا۔ انہیں محسوس ہواکہ حکومت طاقتور ہورہی ہے اور اب کوئی بااثر ان پر ظلم کرے گا تو وہ قانون کی گرفت سے بچ نہیں سکتا۔ حکمرانوں کو یہ سنہرا قول یاد رکھنا چاہیے کہ جس ریاست میں غریب کو بھی آسانی سے انصاف میسّر آئے تو دنیا کی کوئی طاقت اس کا بال بیکا نہیں کرسکتی۔
لینڈ مافیا کے خلاف جاری مہم میں تادم تحریر ہائی پروفائل شخصیات بھی قانون کی گرفت میں آچکی ہیں۔ ان میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف، مرتضیٰ امجد اور عمار گلزار شامل ہیں۔ ان تینوں کو بالترتیب آشیانہ اقبال ہاؤسنگ سوسائٹی لاہور، ایڈن ہاؤسنگ سوسائٹی لاہور اور پاک عرب ہاؤسنگ سوسائٹی لاہور میں فراڈ،ہیر پھیر اور بے ضابطگیوں کے الزامات پر زیر حراست لیا گیا۔ مرتضیٰ امجد سابق چیف جسٹس پاکستان، افتخار چودھری کے داماد جبکہ عمار گلزار مرحوم سینیٹر گلزار احمد خان کے فرزند ہیں۔ عمار خود بھی پی پی پی کے سینٹر رہ چکے ہیں۔اس کے علاوہ بحریہ ٹاؤن کے بانی، ملک ریاض احمد پر سپریم کورٹ میں مختلف مقدمات چل رہے ہیں۔ ان پر زمینوں کی خرد برد اور غیر قانونی طریقے سے حاصل کرنے کے الزامات ہیں۔ نیز پیراگون ہاؤسنگ سوسائٹی لاہور میں ہوئے فراڈ کے سلسلے میں نیب سابق وزرا، خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق سے تفتیش کررہا ہے۔
26 ستمبر 2018ء کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر مملکت داخلہ، شہریار آفریدی نے قوم کو بتایا کہ اسلام آباد کے وفاقی علاقے میں تیتیس ہزار کنال زمین ناجائز قبضے سے چھڑالی گئی ۔ اس زمین کی مالیت تین کھرب روپے ہے۔بارہ سو کنال زمین پر بحریہ انکلیو نے قبضہ کررکھاتھا جو بحریہ ٹاؤن کا ایک پروجیکٹ ہے۔پریس کانفرنس میں شہریار آفریدی نے کہا ''لینڈ مافیا کے خلاف مہم طاقتور و بااثر مگر مجرم پاکستانیوں کے نام یہ پیغام ہے کہ اب قانون کی حکمرانی کا آغاز ہوچکا۔ اب کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ غریبوں کی یا سرکاری زمین پر قبضہ کرسکے۔ ماضی میں جن لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کیا گیا، حکومت انہیں ہرجانہ دینے کی کوشش کرے گی۔''
لینڈ مافیا کے قلع قمع ہونے سے وطن عزیز میں گڈ گورنس یا عمدہ انتظام کے نظام کو تقویت ملے گی جس سے سبھی شہریوں کو فائدہ ہو گا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ان سیاست دانوں کو بھی قانون کے دائرہ کار میں لایا جائے جو پراپرٹی ڈیلنگ یا رئیل اسٹیٹ کا کاروبار کرتے ہیں۔ان پہ الزامات ہیں کہ وہ اپنے اثرورسوخ کی بدولت کارندوں سے زمینوں پر قبضے کراتے ہیں۔سیاسی جماعتیں بھی اس چلن سے نجات پائیں جس کے ذریعے الیکشن کے وقت سیٹیں جیتنے کی خاطر لینڈ مافیا کے سرغنوں سے مدد مانگی جاتی ہے۔
لینڈ مافیا کے خاتمے کا ایک طریقہ کار یہ ہے کہ پورے ملک میں زمینوں کے ریکارڈ کا مربوط منظم کمپیوٹرائزڈ نظام تشکیل دیا جائے۔ اسی طرح لینڈ مافیا سے منسلک گروپوں کے لیے جعل سازی کرنا مشکل ہوجائے گا۔ ابھی تو ان کا طریقہ واردات یہ بھی ہے کہ وہ زمین کسی شریف آدمی کو بیچتے ہیں۔ پھر تحصیل دار یا پٹواری کو رشوت دے کر اس زمین کے نئے کاغذات بنواتے ہیں۔ پھر شریف آدمی پر جھوٹے مقدمے بنائے جاتے ہیں تاکہ وہ تھانے کچہری کے چکر لگانے سے خوفزدہ ہوکر ان کے آگے سر جھکا دے۔
ایک اور طریقہ یہ ہے کہ لینڈ مافیا سرکاری یا نجی زمین پر جعلی ہاؤسنگ سوسائٹی بنادیتی ہے۔ اس سوسائٹی کی خوب تشہیر کی جاتی ہے۔ تشہیر سے متاثر ہو کر کئی لوگ پلاٹ خرید لیتے ہیں۔جب کروڑوں روپے جمع ہو جائیں تو لینڈ مافیا انھیں سمیٹ کر رفوچکر ہوجاتا ہے۔ اس فراڈ کے باعث ہزارہا پاکستانی پچھلے تیس برس میں حلال کی کمائی سے محروم ہوچکے۔پاکستان بھر میں پھیلی کچی آبادیاں خصوصاً لینڈ مافیا کے ظلم وستم کا نشانہ بنتی ہیں۔وزیراعظم عمران خان کا یہ حکم صائب ہے کہ صوبہ پنجاب میں کچی آبادیوں کو ریگولرائز کیا جائے۔انھوں نے احکامات جاری کیے کہ سرکاری زمینوں پہ بنی آبادیوں کو ہر ممکن رعایت دی جائے۔یوں حکومت غریب مکینوں کی دعائیں سمیٹ سکتی ہے۔کچی آبادیوں کی ریگولرائز یشن سے لینڈ مافیا کے لیے انھیں ہڑپ کرنا ناممکن ہو جائے۔ وزیراعظم عمران خان نے اب ''نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام''کے نام سے غریب و متوسط پاکستانیوں کو پچاس لاکھ گھر دینے کا سرکاری منصوبہ بنایا ہے۔امید ہے،اس منصوبے کی کڑی مانیٹرنگ کی جائے گی تاکہ وہ کسی بھی قسم کی کرپشن کا شکار نہ ہو اور بہ کمال خوبی سے انجام پائے۔یہ بھی خوش آئندہ امر ہے کہ پنجاب حکومت اب اخبارات میں اشتہارات دے کر عوام کو صوبے بھر میں پھیلی جعلی ہاؤسنگ سوسائٹیوں سے باخبر کرنے لگی ہے۔ لیکن یہ مسئلے کا مستقل حل نہیں۔ ہونا یہ چاہیے زمینوں کے ریکارڈ کا ایسا جامع نظام بنایا جائے کہ لینڈمافیا کسی بھی سرکاری یا نجی زمین پر جعلی ہاؤسنگ سوسائٹی قائم ہی نہ کرسکے۔ یہ عمل عموماً علاقے کے سرکاری عملے اور بااثر افراد کی ملی بھگت سے انجام پاتا ہے۔ تاہم زمینوں کے ریکارڈ کا جامع اور کمپیوٹرائزڈ نظام اس قسم کی دھوکے بازی کو اپنانا کٹھن بنا دے گا۔ تب کوئی بھی باشعور شہری جلد جان سکے گا کہ اس کے ساتھ فراڈ ہورہا ہے یا نہیں۔
آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکینڈل
سابق وزیر اعلیٰ پنجاب،میاں شہباز شریف آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکیم اسکینڈل میں ملوث ہونے پر گرفتار ہوئے۔ان کی حکومت نے چودہ ارب روپے مالیت کی یہ اسکیم 2010ء میں شروع کی تھی تاکہ ساڑھے چھ ہزار فلیٹ بنا کر غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کو سستے داموں دئیے جاسکیں ۔مگر یہ اسکیم عملی جامہ نہ پہن سکی بلکہ تنازعات کا نشانہ بن گئی۔تفصیل کے مطابق یہ اسکیم بنانے کے لیے پنجاب حکومت نے 2010ء میں ایک نئی کمپنی،پنجاب لینڈ ڈویلپمنٹ کمپنی کی بنیاد رکھی۔اس نے ایک تعمیراتی کمپنی،چودھری لطیف اینڈ سنزکو آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکیم بنانے کا ٹھیکہ دیا۔اسکیم پر جوں کی رفتار سے کام شروع ہوا۔2013ء میں شہباز شریف دوسری بار وزیراعلی بنے تو فیصلہ ہوا کہ آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکیم کو پبلک۔پرائیویٹ شراکت میں بنایا جائے۔چناں چہ اسکیم کی جگہ تبدیل کر دی گئی۔اسی دوران چودھری لطیف اینڈ سنز سے معاہدہ منسوخ کر دیا گیا۔ کمپنی منسوخی کے خلاف عدالت پہنچ گئی۔عدالت نے منسوخی کو غیر قانونی قرار دے کر فیصلہ دیا کہ حکومت پنجاب چودھری لطیف اینڈ سنز کو پانچ کروڑ نوے لاکھ روپے بطور ہرجانہ ادا کرے۔قومی خزانے سے یہ رقم ادا کر دی گئی۔(میاں شہباز شریف کا استدلال یہ ہے کہ اس کمپنی کو پنجاب لینڈ ڈویلپمنٹ کمپنی نے ناجائز طور پہ ٹھیکہ دیا تھا۔ )
نیب کے مطابق پھر میاں شہباز شریف ،ان کے سیکرٹری فواد حسن فواد اور سربراہ ایل ڈی اے احد چیمہ نے غیر قانونی طریق کار سے آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکیم کا ٹھیکہ ایک نئی کمپنی،لاہور کاسا ڈویلپرز کو دے دیا۔اس کمپنی کی حقیقی مالک پیراگون سٹی پرائیویٹ لمیٹڈ تھی۔نیب کا دعویٰ ہے کہ اس کمپنی کے اصل مالکان سلمان شریف (شہباز شریف کے فرزند)اور سابق وزیر ریلوے سعد رفیق تھے۔ڈیل یہ تھی کہ کاسا ڈویلپرز کو تین ہزار کنال زمین دی گئی۔اس نے دو ہزار کنال رقبے پر ''اپنے خرچ ''سے آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکیم کے ساڑھے چھ ہزار فلیٹ بنانے تھے۔معاوضے کے طور پر اسے ایک ہزار کنال رقبہ دیا گیا۔پیراگون سٹی پرائیویٹ لمیٹڈ نے اسی رقبے پر تو اپنی ہاؤسنگ سوسائٹی بنا لی جس میں ایک پلاٹ کی قیمت اب کروڑوں روپے ہے مگر غریبوں کے لیے فلیٹ تیار نہ ہو سکے۔نیب کے مطابق یہ پورا پلان اسی لیے بنایا گیا تاکہ سرکاری زمین بڑے منظم انداز میں ہڑپ کی جا سکے۔
قبضہ گیروںکے خلاف آپریشن
لاہور میں یکم اکتوبر سے لینڈ مافیا کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا۔ اعدادو شمار کے مطابق لاہور میں لینڈ مافیا نے 32 ہزار کنال کی سرکاری زمین پر قبضہ کررکھا ہے۔ آپریشن کے دوران علاقہ جوہر ٹاؤن میں لینڈ مافیا کے ایک بڑے سرغنہ ،منشا ''بم'' کھوکھر سے کئی کنال سرکاری زمین واگزار کرالی گئی۔ اس زمین کی مالیت اربوں روپے ہے۔لاہور کی لینڈ مافیا کے خلاف یہ اب تک کا سب سے بڑا آپریشن ہے جو تاحال جاری ہے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ واگزار کرائی گئی سرکاری زمین پر ہزاروں پودے لگائے جائیں گے تاکہ وہ لاہور کا قدرتی ماحول صاف ستھرا کرنے میں مدد دے سکیں۔
آپریشن کے دوران وزیراعلیٰ پنجاب نے ہدایات جاری کیں کہ غریب پھیری والوں اور محنت کشوں کو کچھ نہ کہا جائے بلکہ ان طاقتور اور بااثر مجرموں پر ہاتھ ڈالا جائے جو لینڈ مافیا سے تعلق رکھتے اور قانون سے کھلواڑ کرتے ہیں۔ لاہور کی عوام نے اس آپریشن کو سراہا اور کہا کہ تبدیلی کے پروگرام پر عمل ہوتا نظر آتا ہے۔لینڈ مافیا کے خلاف جاری اس آپریشن کا دائرہ کار رفتہ رفتہ پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی پھیلایا جائے گا۔ اس آپریشن کے ذریعے بازاروں میں بنی ناجائز تجاوزات بھی ختم کی جارہی ہیں۔ پنجاب کی اپوزیشن پارٹیوں کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے آپریشن میں صرف عام تاجروں کو نشانہ بنایا جبکہ لینڈ مافیا کے اکثر مگر مچھ چھوڑ دیئے گئے کیونکہ وہ پی ٹی آئی کے وزرا سے تعلقات رکھتے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کو نوٹس
1960ء میں جب یونانی تعمیراتی کمپنی نے اسلام آباد کا نقشہ بنایا تو اس نے نئے پاکستانی دارالحکومت کے مضافات میں ایک نیشنل پارک کی بھی بنیاد رکھی۔ مقصد یہ تھا کہ اسلام آباد کے مکین وہاں جاکر سیروتفریح کرسکیں۔ اس مجوزہ نیشنل پارک میں بعض چھوٹے دیہہ موجود تھے۔ منصوبے کے مطابق اسلام آباد تعمیر کرنے والے ادارے، سی ڈی اے نے دیہاتیوں سے زمینیں خرید لیں تاکہ نیشنل پارک کا قیام عمل میں آسکے۔ لیکن سی ڈی اے بعض دیہات میں آباد دیہاتیوں سے زمین نہیں خرید سکا۔ انہی میں موہڑہ نور نامی نامی گاؤں بھی شامل تھا جو بعد ازاں بنی گالہ کہلایا۔ انیس سو ستر کے عشرے میں اسلام آباد کے بعض لوگ بنی گالہ میں دیہاتیوں سے زمینیں خرید کر وہاں اپنے مکان بنانے لگے۔ وجہ یہ کہ بنی گالہ میں اسلام آباد کی نسبت زمین بہت سستی تھی۔
چند ہزار روپے میں ایک کنال زمین میسر آجاتی۔مذید براں گھر تعمیر کرتے ہوئے سی ڈی اے کے بھاری ٹیکس بھی ادا نہ کرنے پڑتے۔1980ء میں حکومت پاکستان نے یہ حکم نامہ جاری کیا کہ راول جھیل سے دو کلو میٹر تک کوئی عمارت تعمیر نہیں ہوسکتی۔ بنی گالہ بھی راول جھیل کے نزدیک واقع ہے ۔مگر بنی گالہ میں زمینیں دیہاتیوں کی ملکیت تھیں،اس لیے وہ انہیں فروخت کرتے رہے۔زمینیں خریدنے والے یونین کونسل بارہ کہو سے خریداری کا معاہدہ تسلیم کرالیتے۔ سی ڈی اے نے اسلام آباد کے مضافات میں واقع دیہات کی زمینوں کا بندوبست و انتظام یونین کونسلوں کے سپرد کردیا تھا۔ان دیہات میں مگر سی ڈی اے کی اجازت کے بعد ہی کوئی نیا گھر بن سکتا تھا۔ تاہم نئے خریدار مقامی دیہاتیوں سے زمین خریدتے، سودے کو یونین کونسل سے منظور کراتے اور اپنا گھر بنالیتے۔ اس طرح رفتہ رفتہ بنی گالہ میں وسیع و عریض گھروں کی ایک سوسائٹی وجود میں آگئی۔پاکستانی ایٹم بم کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بھی وہاں اپنا گھر تعمیر کرلیا۔
آخر 1992ء میں سی ڈی اے کو ہوش آیا اور اسے احساس ہوا کہ بنی گالہ میں لوگ اس کی اجازت کے بغیر گھر تعمیر کررہے ہیں۔ تب سی ڈی اے نے مکانات گرانے کی خاطر وہاں آپریشن کردیا۔ دوران آپریشن ہنگامہ آرائی ہوئی اور گولیاں چلنے پر بعض لوگ مارے گئے۔بنی گالہ میں گھر بنانے والوں کا موقف تھا کہ انہوں نے قانونی طریقے سے زمینیں خریدی ہیں۔ لہٰذا مکینوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں سی ڈی اے کے خلاف مقدمہ کردیا۔ 1998ء میں کورٹ نے قرار دیا کہ سی ڈی اے بنی گالہ کے مکینوں سے زمینیں خریدنے میں حق بجانب ہے کیونکہ یہ علاقہ نیشنل پارک قرار دیا جاچکا۔ مگر یہ ضروری ہے کہ وہ مکینوں کو مارکیٹ ریٹ کے مطابق زمینوں کی قیمت ادا کرے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ نے بھی برقرار رکھا۔یہ ایک طرح سے بنی گالہ کے مکینوں کی جیت تھی کیونکہ اب علاقے میں زمین کی قیمت بہت زیادہ بڑھ چکی تھی۔ سی ڈی اے اس پوزیشن میں نہیں تھا کہ وہ سینکڑوں مکینوں کو اربوں روپے ادا کرسکے۔
لہٰذا اس عدالتی فیصلے کے بعد سی ڈی اے نے اپنے قوانین میں تبدیلی کی اور بنی گالہ میں محدود رہائشی تعمیرات کی اجازت دے دی گئی۔سی ڈی اے نے بنی گالہ میں ترقیاتی منصوبے شروع نہیں کیے اور وہاں سیوریج کا مسئلہ خوفناک صورت اختیار کر گیا۔ عمران خان بھی 2002ء میں وہاں تین سو کنال زمین خرید چکے تھے۔ بعدازاں انہوں نے اپنا گھر تعمیر کرلیا۔ 2017ء میں ایک خط کے ذریعے انہوں نے چیف جسٹس کو مطلع کیا کہ بنی گالہ میں سیوریج کا بڑا مسئلہ ہے اور یہ کہ وہاں ناجائز تعمیرات بھی جاری ہیں۔ اس خط کی بنیاد پر بنی گالہ کے سلسلے میں نیا کیس چلنے لگا۔کیس کی سماعت کے دوران سی ڈی اے نے عمران خان کی رہائش گاہ کو ناجائز تعمیر قرار دیا حالانکہ وہ عدالتی فیصلے کے بعددارالحکومت کے زون 4 (بنی گالہ وغیرہ) میں رہائشی تعمیرات کی اجازت دے چکا تھا۔ بہرحال حال ہی میں عدالت عالیہ نے وزیراعظم عمران خان سمیت بنی گالہ کے چار سو سے زائد رہائشیوں کو حکم دیا کہ وہ سی ڈی اے کو فیس دے کر اپنے گھر اور تجارتی عمارات ریگولرائز کروالیں۔تحفظات کے باوجود وزیراعظم نے سی ڈی اے کا نوٹس وصول کرلیا۔ اس طرح انہوں نے قوم پر واضح کیا کہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی کا دور شروع ہوچکا۔ امید ہے، وہ آنے والوں دنوں میں بھی ہر قیمت پر قانون کی سپرمیسی قائم و دائم رکھیں گے۔
بنی گالہ کے مسئلے نے اس لیے جنم لیا کہ سی ڈی اے کے کرتا دھرتا اپنی ذمے داری پوری کرنے میں ناکام رہے۔اگر چالیس پچاس سال پہلے سی ڈی اے بنی گالہ کے مکینوں سے زمینیں خرید لیتا تو آج یہ علاقہ قدرتی مناظر سے بھرپور نیشنل پارک کا حصّہ ہوتا۔یوں دارالحکومت کے شہری سی ڈی اے کی غفلت کے باعث سیروتفریح کرنے اور ماحول پاک صاف رکھنے کی انمول جگہ سے محروم ہو گئے۔
چائنا کٹنگ کا اعجوبہ
اواخر ستمبر میں انکشاف ہوا کہ صدر پاکستان، ڈاکٹر عارف علوی کا پلاٹ بھی ''چائنا کٹنگ'' کی نذر ہوچکا اور وہ سرتوڑ کوشش کے باوجود اپنی زمین کو قبضہ مافیا سے نہ بچا پائے۔ یہ واقعہ عیاں کرتا ہے کہ لینڈ مافیا ریاست کے لیے بہت بڑا خطرہ بن چکی تھی اور اس کا قلع قمع کرنا وقت کی ضرورت تھا۔صدر مملکت نے 1978ء میں کراچی کی مشہور بستی، گلستان جوہر کے بلاک 10 میں چار سو گز کا پلاٹ پچاس ہزار روپے میں خریدا تھا۔ اکیسویں صدی کے اوائل میں یہ پلاٹ ایک نئے عجوبے، چائنا کٹنگ کی زد میں آگیا۔کہتے ہیں کہ یہ اعجوبہ گزشتہ ایم کیو ایم کے لیڈروں کی اختراع ہے۔
اس عمل میں بڑے پلاٹوں کو چھوٹے پلاٹوں میں تقسیم کردیا جاتا ۔ پلاٹوںکو ''چائنا پلاٹ'' کا نام دیا گیا جبکہ پلاٹوں کی تقسیم کا عمل ''چائنا کٹنگ'' کہلایا۔یہ عمل مگر غیر قانونی ہے اور لالچ و ہوس کی پیداوار! کراچی کا لینڈ مافیا پچھلے بیس برس میں کئی سو ایکڑ سرکاری زمین چائنا کٹنگ کی بھینٹ چڑھا چکا۔ یہ سرکاری زمین پارکوں، اسکولوں، قبرستانوں، کھیل کے میدانوں وغیرہ پر مشتمل تھی۔ اب وہاں عمارتیں اور گھر تعمیر ہوچکے۔یوں اہل کراچی کے حقوق پر بڑا ڈاکہ ڈالا گیا اور ہوس کے پیروکاروں نے انھیں اسکولوں،پارکوں اور کھیل کے میدانوں سے محروم کر دیا۔
کراچی کے مختلف علاقوں مثلاً گلستان جوہر، نیو کراچی، گلشن اقبال، بلدیہ ٹاؤن، بنارس کالونی، گلشن معمار، کیماڑی، سرجانی ٹاؤن، سہراب گوٹھ اور نارتھ ناظم آباد وغیرہ میں لوگوں کی نجی ملکیت والے بڑے پلاٹ خالی پڑے تھے۔ لینڈ مافیا نے بذریعہ چائنا کٹنگ انہیں بھی ٹکروں میں تقسیم کر کے بیچ ڈالا۔ انہی میں ڈاکٹر عارف علوی کا پلاٹ بھی شامل تھا جس کے ایک حصّے پر آج مکان بن چکا۔
لینڈ مافیا نے چائنا کٹنگ کے ذریعے سرکاری اور نجی زمین کے ٹکڑے کرکے پلاٹ جن افراد کو فروخت کیے، ان کی دو اقسام ہیں۔ پہلی قسم میں وہ بے گناہ افراد شامل ہیں جنہیں خبر نہ تھی کہ وہ غیر قانونی طریقے سے پیدا کردہ ایک پلاٹ خرید رہے ہیں۔ دوسری قسم ان افراد پہ مشتمل ہے جنہیں علم تھا کہ یہ ایک غیر قانونی پلاٹ ہے پھر بھی انہوں نے اسے خرید لیا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ قانون دونوں اقسام کے افراد سے کس طرح پیش آتا ہے۔ کراچی سے چائنا کٹنگ کا اعجوبہ دیگر بڑے شہروں مثلاً لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد اور پشاور تک پھیل گیا۔ اخباری رپورٹوں کے مطابق لاہور کی مضافاتی بستیوں میں واقع کئی ایکڑ سرکاری اور نجی اراضی چائنا کٹنگ کا نشانہ بن چکی ہے۔نئی بننے والی ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں بھی لینڈ مافیا نے یہ گُر آزمایا۔کئی لوگوں کے بڑے پلاٹ تین یا پانچ مرلوں کی صورت ایک نہیں زیادہ خریداروں کو بیچ دیے گئے۔ اسی طرح اسلام آباد میں یہ اعجوبہ G-13 اور E-11 کے سیکڑوں اور راول ڈیم کے اردگرد علاقوں میں سامنے آیا۔ لینڈ مافیا نے ان علاقوں میں زمین کے وسیع سرکاری و نجی قطعات پر قبضہ کیا، بذریعہ چائنا کٹنگ انہیں پلاٹوں کا روپ دیا اور پھر متعلقہ سرکاری محکموں کے کرپٹ افسروں کی ملی بھگت سے ان کے جعلی کاغذات بنوالیے۔ بعد ازاں پلاٹ بیچ کر اربوں روپے کمائے گئے۔
غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی بھرمار
قبضہ کی گئی سرکاری یا نجی زمین ہڑپ کرنے کے لیے لینڈ مافیا کا معروف طریق کار یہ ہے کہ وہاں ہاؤسنگ سوسائٹی بنا دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے، ملک بھر میں غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی بھرمار ہوچکی۔یہ معاملہ قانون کی حکمرانی کمزور ہونے کے باعث پیدا ہوا اور اب معاشرے کا ایک ناسور بن چکا۔کچھ عرصہ قبل سپریم کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی، ایف آئی اے کو ملک بھر میں ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے متعلق تحقیق و تفتیش کرنے کا حکم دیا تھا۔ اواخر ستمبر میں ایف آئی اے نے رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کردی۔ رپورٹ نے افشا کیا کہ پاکستان میں ''چھ ہزار'' غیر رجسٹرڈ ہاؤسنگ سوسائٹیاں موجود ہیں۔ یہ حقیقت آشکارا کرتی ہے کہ پاکستان میں لینڈ مافیا کی جڑیں وسیع پیمانے پر پھیل چکیں۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جن علاقوں میں ہریالی ہو، وہاں ہاؤسنگ سوسائٹی بن جاتی ہے۔ ہم اپنا ماحول اپنے ہاتھوں سے تباہ کررہے ہیں۔ بحث کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ لینڈ مافیا نے پنجاب کوآپریٹو سوسائٹیز کے دفتر میں ریکارڈ کو آگ لگادی تاکہ غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا معاملہ پیچیدہ ہوجائے۔سپریم کورٹ نے ایف آئی اے کو ہدایت دی کہ وہ ملک بھر میں موجود تمام ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا فرانزک آڈٹ کرے اور ان سے متعلق ایک تفصیلی رپورٹ تیار کرے۔ سپریم کورٹ نے پنجاب، سندھ، خیبرپختونخواہ اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں کو ہدایت دی کہ وہ اس ضمن میں ایف بی آئی کی بھر پور طریقے سے مدد کریں۔
بدقسمتی سے عامر اتنی رقم نہیں جوڑ سکا تھا کہ پلاٹ پر اپنی چھت تعمیر کرسکے۔ ایک دن عامر یونہی اپنا پلاٹ دیکھنے گیا، تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس کے گرد ایک دیوار تعمیر ہوچکی تھی۔ دیوار کے اندر جھگی بناکر کچھ لوگ رہ رہے تھے۔
عامر نے جب ان سے استفسار کیا کہ وہ کون ہیں، تو لوگ اسے دھمکاتے ہوئے بولے کہ یہاں سے نو دو گیارہ ہو جاؤ ورنہ گولی مار دیں گے۔ عامر بہت پریشان ہوا۔ اس نے علاقے کے لوگوں سے معلومات لیں، تو انکشاف ہوا کہ عامر کے پلاٹ پر لینڈ مافیا سے تعلق رکھنے والے ایک مقامی ''ڈان'' نے قبضہ کرلیا ہے۔پلاٹ کے کاغذات عامر کے پاس تھے۔ وہ انہیں لیے مقامی پولیس اسٹیشن پہنچا۔ جب عامر نے ڈان کیے خلاف ایف آئی آر لکھوانی چاہی تو پولیس نے انکار کردیا۔ کلرک نے عامر کو مشورہ دیا کہ بہتری اسی میں ہے، اپنا پلاٹ ''صاحب'' کو فروخت کردو۔
عامر ڈان کے اڈے پہنچا اور اس کے کارندوں سے پلاٹ فروخت کرنے کی بابت معلومات لیں۔ تب اسے معلوم ہوا کہ ڈان تو پلاٹ کی قیمت بہت کم دے رہا ہے۔عامر اپنی حلال کی کمائی ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اتفاق سے ایک سماجی رہنما اس کا واقف کار تھا۔ سماجی رہنما اسے سول سوسائٹی کی مشہور تنظیم، ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کے دفتر لے گیا۔ تنظیم کے وکلا نے عامر کا کیس لے لیا اور سندھ ہائیکورٹ جاپہنچے۔ ہائیکورٹ نے مقامی پولیس کو حکم دیا کہ وہ ڈان کے خلاف ایف آئی آر درج کر ے۔ یوں ملزم قانونی کارروائی کی زد میں آگیا۔
ایک ہفتے بعد عامر اپنے پلاٹ پر گیا تو یہ دیکھ کر پھر حیران رہ گیا کہ پلاٹ پر تعمیر کردہ دیوار گرچکی ہے جبکہ جھگی والے بھی غائب تھے۔ وہ ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کے دفتر گیا اور اپنے وکلا کو سارا ماجرا سنایا۔ انہوں نے معاملے کی تفتیش کی تو انکشاف ہوا کہ لینڈ مافیا کے ڈان پر دراصل علاقے کے ایک سرکردہ سیاست داں کا ہاتھ تھا۔ اس نے جب دیکھا کہ ایک قومی سماجی تنظیم کیس اپنے ہاتھوں میں لے چکی ہے تو وہ خوفزدہ ہوگیا۔ وہ جارح مزاج اختیار کرنے والی عدالتوں میں جانے سے بچنا چاہتا تھا، اسی لیے پسپا ہونے میں عافیت جانی۔
یہ یقینی ہے کہ عامر ایک نامور سماجی تنظیم کا سہارا نہ لیتا تو وہ مجبور ہوجاتا کہ اپنا پلاٹ لینڈ مافیا کے ڈان کی من چاہی قیمت پر فروخت کردے۔ عوام کو انصاف دینے کے لیے متحرک ،عدلیہ کی سرگرم فعالیت بھی عامر کے کام آئی۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت ناخواندہ ہے اور وہ عامر جیسا شعور و عقل نہیں رکھتی۔ یہی وجہ ہے، جب لینڈ مافیا سے تعلق رکھنے والا کوئی طاقتور مجرم گروہ کسی غریب کی زمین پر زبردستی قبضہ کرے، تو عموماً وہ چیخ چلا کر خاموش ہوجاتا ہے۔ وہ مجبور ہوتا ہے کہ اپنی زمین کی جو بھی اونے پونے قیمت مل رہی ہے، قبول کرلے۔
زمین کی مادی کشش
کہتے ہیں، دنیا میں اکثر لڑائی جھگڑے ''ز'' سے شروع ہونے والے تین الفاظ... زن، زر، زمین سے جنم لیتے ہیں۔ پاکستان میں لینڈ مافیا کے کرتوت دیکھے جائیں تو یہ مثل برحق لگتی ہے۔ پاکستانی مورخین نے لکھا ہے کہ یہ زمین ہی ہے جس نے قیام پاکستان کے بعد نوزائیدہ مملکت میں کرپشن، بے ایمانی،اقربا پروری لالچ اور ہوس کی بنیادیں رکھیں۔ آزادی کے وقت ہندوؤں اور سکھوں کی چھوڑی زمینوں، پلاٹوں اور گھروں کی الاٹمنٹ میں کافی گھپلے ہوئے ۔وزرا سے لے کر کرپٹ سرکار ی افسروں تک ،سبھی نے جسے چاہا،متروکہ گھر،پلاٹ اور زمینیں دے دیں۔یہی وجہ ہے اس زمانے میں بہت سے کنگال راتوں رات لکھ پتی بن گئے۔قیام پاکستان سے قبل دیہی علاقوں میں زمین ہی قیمتی ترین شے سمجھی جاتی تھی اور اب بھی حالت نہیں بدلی۔ حتیٰ کہ زمینوں کا انتظام رکھنے والا معمولی کلرک، پٹواری اپنے علاقے میں بادشاہ سمجھا جاتا تھا۔ اس کے اثرورسوخ کا یہ عالم تھا کہ دیہی بزرگ جب کسی نوجوان سے خوش ہوتے، تو اسے یہی دعا دیتے کہ اللہ تجھے پٹواری بنائے۔ جب سے زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ ہوا ہے، پٹواری کی اہمیت گھٹ گئی مگر خصوصاً دیہات میں اب بھی ختم نہیں ہوئی۔
آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ جب شہر پھیلنے لگے تو شہری زمین کی قدرو قیمت میں بھی اضافہ ہوا ۔جو زمینیں پہلے بنجر و بے آباد تھیں، وہاں کالونیاں اور ہاؤسنگ سوسائٹیاں بننے لگیں۔ اس نئے اعجوبے نے شہری زمینوں کی قیمتیں راتوں رات دگنی چوگنی بڑھا دیں۔ قیمت کے اسی محیر العقول اضافے نے جرائم پیشہ گروہوں کو بھی شہری زمینوں کی طرف متوجہ کردیا۔
رفتہ رفتہ ویران پڑی زمین اور غریب و مسکین لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کے لیے مختلف طریقہ ہائے واردات دریافت ہوگئے۔ ایک عام طریقہ یہ ہے کہ کسی ویران زمین پر جھگیاں ڈال دی جاتی ہیں۔ آہستہ آہستہ پھر وہاں دیواریں تعمیر ہوتی ہیں۔ پھر ان جھگیوں میں مقیم اپنے کارندوں کے جعلی ملکیتی کاغذات برائے زمین بنوائے جاتے ہیں۔ یوں زمین پر قبضے کا پلان مکمل! یہ زمین پھر عموماً ایک نہیں چھ سات خریداروں کو بیچی جاتی ہے۔کسی غریب و بدقسمت مسکین کی زمین ہاؤسنگ سوسائٹی کے قریب آ جائے، تو پہلے اسے اونے پونے رقم دے کر خریدنے کی کوشش ہوتی ہے۔ اگر زمین فروخت کرنے پر آمادہ نہ ہو، تو اسے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ لینڈ مافیا غریبوں کو قتل کرنے سے بھی نہیں چوکتی۔
پاکستان میں زمینوں کی خرید و فروخت کے کاروبار کی مالیت کھربوں روپے ہے۔ اسی مادی کشش کے باعث پچھلے بیس برس کے دوران پورے پاکستان میں لینڈ مافیا وجود میں آگئی۔زمینوں پر ناجائز قبضہ کرنے والی اس مافیا پر تحقیق کرتے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ہر علاقے میں جرائم پیشہ افراد، سیاسی رہنما، پولیس اور سرکاری افسر لینڈ مافیا گروہوں کا حصّہ ہوتے ہیں۔ قبضہ کی گئی زمینوں کے کاروبار سے جتنی آمدن ہو، وہ ہر فریق کے مابین تقسیم ہوتی ہے۔ چونکہ یہ آمدن کروڑوں روپے میں ہے، اسی لیے پیسے کی کشش کے باعث رفتہ رفتہ ملک بھر میں لینڈ مافیا کے سیکڑوں چھوٹے بڑے گروہ وجود میں آگئے۔
قانون کی بے بسی
ان گروپوں میں پولیس اور مختلف محکموں سے تعلق رکھنے والے سرکاری افسر بھی شامل تھے، اسی لیے قانون ان کے سامنے کمزور ہوتا گیا۔ قانون کی کمزوری نے لینڈ مافیا کو زیادہ دلیر اور مادرپدر آزاد بنادیا اور وہ دن دیہاڑے سرکاری و نجی زمینوں پر قبضے کرنے لگی۔ کھیل کے میدان، باغات اور قبرستان ،اسکول، یونیورسٹی، اسپتال، ائرپورٹ کی زمینیں غرض ہر قسم کی لاکھوں کنال زمین لینڈ مافیا کی ہوس کی نذر ہوگئی۔ ان گروپوں کی دیکھا دیکھی عام دکانداروں نے اپنی دکانوں کے آگے ناجائز تجاوزات قائم کرلیں۔ اس وجہ سے پاکستانی شہروں میں سڑک، فٹ پاتھ اور گرین بیلٹ کا تصور آپس میں گڈ مڈ ہوگیا۔ اب پتا ہی نہیں چلتا کہ فٹ پاتھ کہاں ہے اور سڑک کہاں؟
میرے ایک عزیز، فیصل گیلانی کینیڈا میں مقیم ہیں۔ انہوں نے جوہر ٹاؤن میں 1995ء میں ایک کنال کا پلاٹ خریدا تھا۔ چند سال قبل وہ کینیڈا سے پاکستان آئے تاکہ پلاٹ فروخت کرسکیں۔ وہ اپنے پلاٹ پر پہنچے تو یہ دیکھ کر بھونچکا رہ گئے کہ وہاں تو ایک گھر بنا ہوا ہے۔ گھر والوں سے دریافت کیا، تو افشا ہوا کہ انہوں نے یہ گھر فلاں آدمی سے خریدا ہے۔مزید پوچھ گچھ ہوئی تو پتا چلا کہ وہ آدمی جوہر ٹاؤن کے ایک مشہور قبضہ گروپ کا ایجنٹ ہے۔ فیصل بھائی اس فراڈ کی رپورٹ کرانے مقامی پولیس سٹیشن پہنچے، تو اس نے کوئی کارروائی کرنے سے انکار کردیا۔ ایل ڈی اے والوں سے رجوع کیا، تو انہوں نے بھی ہاتھ اوپر کردیئے اور کہا کہ قبضہ گروپ کا سرغنہ بہت بااثر و طاقتور آدمی ہے،وہ اس کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتے۔
جماعت اسلامی لاہور کے رہنما اور سابق رکن اسمبلی، احسان اللہ وقاص بھی ہمارے عزیزوں میں سے ہیں۔ فیصل بھائی نے ان سے مدد کی درخواست کی۔ وقاص صاحب انہیں ساتھ لے کر ایل ڈی اے پہنچے اور اعلیٰ افسروں سے ملے۔ یقین کیجیے، ان افسروں نے کہا کہ وہ لینڈ مافیا کے سامنے بے بس ہیں۔ اب مسروقہ پلاٹ کبھی آپ کو نہیں مل سکتا۔ تشفی کی خاطر انہوں نے ایک اور پلاٹ فیصل بھائی کو دے دیا۔ یہ پلاٹ دور دراز مقام پر تھا اور اس کی قدرو قیمت بھی کم تھی۔ لیکن بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی کے مصداق انہیں مجبوراً وہ پلاٹ قبول کرنا پڑا۔
درج بالا چشم کشا واقعے سے عیاں ہے کہ پاکستان بھر میں لینڈ مافیا اتنا طاقتور ہوگیا ہے کہ قانون اس سے خوف کھانے لگا ہے۔ گویا قبضہ مافیا نے قانون کی حکمرانی کو مذاق بنا کر رکھ دیا اور ملک میں لاقانونیت اور کرپشن کو رواج دیا۔ کراچی سے خیبر تک اس کا سّکہ چل پڑا اور خصوصاً غریبوں، بیرون ملک پاکستانیوں، یتیموں اور بیواؤں کی زمینوں پر قبضے کرنا معمول بن گیا۔ یہ اعجوبہ جنم لینے کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ جن سرکاری محکموں نے لینڈ مافیا کو قابو میں رکھنا تھا،اس کے سرغنوں کو قانون کی گرفت میں لانا تھا،ان کے کرپٹ اور لالچی افسر بھی قبضہ گیروں سے جا ملے۔لاقانونیت کی انتہا ہے کہ 2008 ء میں تین سرکردہ تعمیراتی کمپنیوں نے مل کر اس سرکاری زمین پہ ایک ہاؤسنگ سوسائٹی بنا ڈالی جہاں ''ڈھڈوچہ ڈیم'' بننا تھا۔اس ڈیم کے ذریعے راولپنڈی کو صاف پانی مہیا کرنا مقصود تھا۔(یہ شہر پانی کی قلت سے دوچار ہو چکا ہے)حد یہ ہے کہ مجوزہ ہاؤسنگ سوسائٹی بھی مکمل نہیں ہوئی جہاں پاک فوج کے شہدا کے عزیز واقارب کو پلاٹ دئیے جانے تھے۔2015ء میں سپریم کورٹ نے اس علاقے میں زمین کی خریدوفرخت پہ پابندی لگا دی تاکہ مجوزہ ڈیم تعمیر کیا جا سکے۔
قانون کی لاٹھی حرکت میں
نئی آنے والی حکومتیں اور عدلیہ بھی لینڈ مافیا کے خلاف کارروائیاں کرتی رہیں مگر یہ سرگرمی کچھ عرصے بعد سرد پڑ جاتی ہے۔ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پوری ریاستی مشینری دہشت گردوں سے لڑنے میں محو تھی۔پاکستان پہ آئی آفت سے مگر سفاک لینڈ مافیا نے فائدہ اٹھایا اور اپنے دھندے کووسعت دیتی چلی گئی۔آخر صورت حال نے 2017ء کے اوائل سے ڈرامائی موڑ اختیار کر لیا جب چیف جسٹس کی زیرقیادت سپریم کورٹ پاکستان لینڈ مافیا کے خلاف سرگرم ہوا۔ یہ ایک نمایاں تبدیلی تھی کیونکہ ملک بھر کی عدالتوں میں زمینوں کے قبضے سے متعلق لاکھوں کیس زیر التوا تھے اور کچھ خبر نہ تھی کہ ان کا کب فیصلہ ہوگا۔ تبھی اعلی عدلیہ نے فیصلہ کیا کہ لینڈ مافیا کو ضرب پہنچانے کی خاطر اس پہ بھرپور وار کیے جائیں۔ اس عدالتی فعالیت کو حکومت کے مقتدر حلقوں کی حمایت حاصل تھی۔
اگست 2018ء میں حکومت تبدیل ہوئی اور تحریک انصاف اقتدار میں آئی۔نئے وزیراعظم، عمران خان نے اپنی پہلی تقریر ہی میں قوم سے وعدہ کیا کہ وہ لینڈ مافیا کے خلاف جنگ کا آغاز کریں گے۔ انہوں نے اپنا وعدہ نبھایا، اوائل اکتوبر سے وفاقی علاقہ اسلام آباد اور صوبہ پنجاب میں لینڈ مافیا اور ناجائز تجاوزات کے خلاف گرینڈ آپریشن شروع ہوگیا۔ اس آپریشن کے ذریعے اب تک ہزاروں کنال سرکاری و نجی زمین لینڈ مافیا کے قبضے سے چھڑائی جاچکی ہے۔حکومت کے گرینڈ آپریشن سے ریاست کی رٹ بحال ہوئی اور قانون پر عوام کا اعتماد بڑھا۔ انہیں محسوس ہواکہ حکومت طاقتور ہورہی ہے اور اب کوئی بااثر ان پر ظلم کرے گا تو وہ قانون کی گرفت سے بچ نہیں سکتا۔ حکمرانوں کو یہ سنہرا قول یاد رکھنا چاہیے کہ جس ریاست میں غریب کو بھی آسانی سے انصاف میسّر آئے تو دنیا کی کوئی طاقت اس کا بال بیکا نہیں کرسکتی۔
لینڈ مافیا کے خلاف جاری مہم میں تادم تحریر ہائی پروفائل شخصیات بھی قانون کی گرفت میں آچکی ہیں۔ ان میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف، مرتضیٰ امجد اور عمار گلزار شامل ہیں۔ ان تینوں کو بالترتیب آشیانہ اقبال ہاؤسنگ سوسائٹی لاہور، ایڈن ہاؤسنگ سوسائٹی لاہور اور پاک عرب ہاؤسنگ سوسائٹی لاہور میں فراڈ،ہیر پھیر اور بے ضابطگیوں کے الزامات پر زیر حراست لیا گیا۔ مرتضیٰ امجد سابق چیف جسٹس پاکستان، افتخار چودھری کے داماد جبکہ عمار گلزار مرحوم سینیٹر گلزار احمد خان کے فرزند ہیں۔ عمار خود بھی پی پی پی کے سینٹر رہ چکے ہیں۔اس کے علاوہ بحریہ ٹاؤن کے بانی، ملک ریاض احمد پر سپریم کورٹ میں مختلف مقدمات چل رہے ہیں۔ ان پر زمینوں کی خرد برد اور غیر قانونی طریقے سے حاصل کرنے کے الزامات ہیں۔ نیز پیراگون ہاؤسنگ سوسائٹی لاہور میں ہوئے فراڈ کے سلسلے میں نیب سابق وزرا، خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق سے تفتیش کررہا ہے۔
26 ستمبر 2018ء کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر مملکت داخلہ، شہریار آفریدی نے قوم کو بتایا کہ اسلام آباد کے وفاقی علاقے میں تیتیس ہزار کنال زمین ناجائز قبضے سے چھڑالی گئی ۔ اس زمین کی مالیت تین کھرب روپے ہے۔بارہ سو کنال زمین پر بحریہ انکلیو نے قبضہ کررکھاتھا جو بحریہ ٹاؤن کا ایک پروجیکٹ ہے۔پریس کانفرنس میں شہریار آفریدی نے کہا ''لینڈ مافیا کے خلاف مہم طاقتور و بااثر مگر مجرم پاکستانیوں کے نام یہ پیغام ہے کہ اب قانون کی حکمرانی کا آغاز ہوچکا۔ اب کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ غریبوں کی یا سرکاری زمین پر قبضہ کرسکے۔ ماضی میں جن لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کیا گیا، حکومت انہیں ہرجانہ دینے کی کوشش کرے گی۔''
لینڈ مافیا کے قلع قمع ہونے سے وطن عزیز میں گڈ گورنس یا عمدہ انتظام کے نظام کو تقویت ملے گی جس سے سبھی شہریوں کو فائدہ ہو گا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ان سیاست دانوں کو بھی قانون کے دائرہ کار میں لایا جائے جو پراپرٹی ڈیلنگ یا رئیل اسٹیٹ کا کاروبار کرتے ہیں۔ان پہ الزامات ہیں کہ وہ اپنے اثرورسوخ کی بدولت کارندوں سے زمینوں پر قبضے کراتے ہیں۔سیاسی جماعتیں بھی اس چلن سے نجات پائیں جس کے ذریعے الیکشن کے وقت سیٹیں جیتنے کی خاطر لینڈ مافیا کے سرغنوں سے مدد مانگی جاتی ہے۔
لینڈ مافیا کے خاتمے کا ایک طریقہ کار یہ ہے کہ پورے ملک میں زمینوں کے ریکارڈ کا مربوط منظم کمپیوٹرائزڈ نظام تشکیل دیا جائے۔ اسی طرح لینڈ مافیا سے منسلک گروپوں کے لیے جعل سازی کرنا مشکل ہوجائے گا۔ ابھی تو ان کا طریقہ واردات یہ بھی ہے کہ وہ زمین کسی شریف آدمی کو بیچتے ہیں۔ پھر تحصیل دار یا پٹواری کو رشوت دے کر اس زمین کے نئے کاغذات بنواتے ہیں۔ پھر شریف آدمی پر جھوٹے مقدمے بنائے جاتے ہیں تاکہ وہ تھانے کچہری کے چکر لگانے سے خوفزدہ ہوکر ان کے آگے سر جھکا دے۔
ایک اور طریقہ یہ ہے کہ لینڈ مافیا سرکاری یا نجی زمین پر جعلی ہاؤسنگ سوسائٹی بنادیتی ہے۔ اس سوسائٹی کی خوب تشہیر کی جاتی ہے۔ تشہیر سے متاثر ہو کر کئی لوگ پلاٹ خرید لیتے ہیں۔جب کروڑوں روپے جمع ہو جائیں تو لینڈ مافیا انھیں سمیٹ کر رفوچکر ہوجاتا ہے۔ اس فراڈ کے باعث ہزارہا پاکستانی پچھلے تیس برس میں حلال کی کمائی سے محروم ہوچکے۔پاکستان بھر میں پھیلی کچی آبادیاں خصوصاً لینڈ مافیا کے ظلم وستم کا نشانہ بنتی ہیں۔وزیراعظم عمران خان کا یہ حکم صائب ہے کہ صوبہ پنجاب میں کچی آبادیوں کو ریگولرائز کیا جائے۔انھوں نے احکامات جاری کیے کہ سرکاری زمینوں پہ بنی آبادیوں کو ہر ممکن رعایت دی جائے۔یوں حکومت غریب مکینوں کی دعائیں سمیٹ سکتی ہے۔کچی آبادیوں کی ریگولرائز یشن سے لینڈ مافیا کے لیے انھیں ہڑپ کرنا ناممکن ہو جائے۔ وزیراعظم عمران خان نے اب ''نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام''کے نام سے غریب و متوسط پاکستانیوں کو پچاس لاکھ گھر دینے کا سرکاری منصوبہ بنایا ہے۔امید ہے،اس منصوبے کی کڑی مانیٹرنگ کی جائے گی تاکہ وہ کسی بھی قسم کی کرپشن کا شکار نہ ہو اور بہ کمال خوبی سے انجام پائے۔یہ بھی خوش آئندہ امر ہے کہ پنجاب حکومت اب اخبارات میں اشتہارات دے کر عوام کو صوبے بھر میں پھیلی جعلی ہاؤسنگ سوسائٹیوں سے باخبر کرنے لگی ہے۔ لیکن یہ مسئلے کا مستقل حل نہیں۔ ہونا یہ چاہیے زمینوں کے ریکارڈ کا ایسا جامع نظام بنایا جائے کہ لینڈمافیا کسی بھی سرکاری یا نجی زمین پر جعلی ہاؤسنگ سوسائٹی قائم ہی نہ کرسکے۔ یہ عمل عموماً علاقے کے سرکاری عملے اور بااثر افراد کی ملی بھگت سے انجام پاتا ہے۔ تاہم زمینوں کے ریکارڈ کا جامع اور کمپیوٹرائزڈ نظام اس قسم کی دھوکے بازی کو اپنانا کٹھن بنا دے گا۔ تب کوئی بھی باشعور شہری جلد جان سکے گا کہ اس کے ساتھ فراڈ ہورہا ہے یا نہیں۔
آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکینڈل
سابق وزیر اعلیٰ پنجاب،میاں شہباز شریف آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکیم اسکینڈل میں ملوث ہونے پر گرفتار ہوئے۔ان کی حکومت نے چودہ ارب روپے مالیت کی یہ اسکیم 2010ء میں شروع کی تھی تاکہ ساڑھے چھ ہزار فلیٹ بنا کر غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کو سستے داموں دئیے جاسکیں ۔مگر یہ اسکیم عملی جامہ نہ پہن سکی بلکہ تنازعات کا نشانہ بن گئی۔تفصیل کے مطابق یہ اسکیم بنانے کے لیے پنجاب حکومت نے 2010ء میں ایک نئی کمپنی،پنجاب لینڈ ڈویلپمنٹ کمپنی کی بنیاد رکھی۔اس نے ایک تعمیراتی کمپنی،چودھری لطیف اینڈ سنزکو آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکیم بنانے کا ٹھیکہ دیا۔اسکیم پر جوں کی رفتار سے کام شروع ہوا۔2013ء میں شہباز شریف دوسری بار وزیراعلی بنے تو فیصلہ ہوا کہ آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکیم کو پبلک۔پرائیویٹ شراکت میں بنایا جائے۔چناں چہ اسکیم کی جگہ تبدیل کر دی گئی۔اسی دوران چودھری لطیف اینڈ سنز سے معاہدہ منسوخ کر دیا گیا۔ کمپنی منسوخی کے خلاف عدالت پہنچ گئی۔عدالت نے منسوخی کو غیر قانونی قرار دے کر فیصلہ دیا کہ حکومت پنجاب چودھری لطیف اینڈ سنز کو پانچ کروڑ نوے لاکھ روپے بطور ہرجانہ ادا کرے۔قومی خزانے سے یہ رقم ادا کر دی گئی۔(میاں شہباز شریف کا استدلال یہ ہے کہ اس کمپنی کو پنجاب لینڈ ڈویلپمنٹ کمپنی نے ناجائز طور پہ ٹھیکہ دیا تھا۔ )
نیب کے مطابق پھر میاں شہباز شریف ،ان کے سیکرٹری فواد حسن فواد اور سربراہ ایل ڈی اے احد چیمہ نے غیر قانونی طریق کار سے آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکیم کا ٹھیکہ ایک نئی کمپنی،لاہور کاسا ڈویلپرز کو دے دیا۔اس کمپنی کی حقیقی مالک پیراگون سٹی پرائیویٹ لمیٹڈ تھی۔نیب کا دعویٰ ہے کہ اس کمپنی کے اصل مالکان سلمان شریف (شہباز شریف کے فرزند)اور سابق وزیر ریلوے سعد رفیق تھے۔ڈیل یہ تھی کہ کاسا ڈویلپرز کو تین ہزار کنال زمین دی گئی۔اس نے دو ہزار کنال رقبے پر ''اپنے خرچ ''سے آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکیم کے ساڑھے چھ ہزار فلیٹ بنانے تھے۔معاوضے کے طور پر اسے ایک ہزار کنال رقبہ دیا گیا۔پیراگون سٹی پرائیویٹ لمیٹڈ نے اسی رقبے پر تو اپنی ہاؤسنگ سوسائٹی بنا لی جس میں ایک پلاٹ کی قیمت اب کروڑوں روپے ہے مگر غریبوں کے لیے فلیٹ تیار نہ ہو سکے۔نیب کے مطابق یہ پورا پلان اسی لیے بنایا گیا تاکہ سرکاری زمین بڑے منظم انداز میں ہڑپ کی جا سکے۔
قبضہ گیروںکے خلاف آپریشن
لاہور میں یکم اکتوبر سے لینڈ مافیا کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا۔ اعدادو شمار کے مطابق لاہور میں لینڈ مافیا نے 32 ہزار کنال کی سرکاری زمین پر قبضہ کررکھا ہے۔ آپریشن کے دوران علاقہ جوہر ٹاؤن میں لینڈ مافیا کے ایک بڑے سرغنہ ،منشا ''بم'' کھوکھر سے کئی کنال سرکاری زمین واگزار کرالی گئی۔ اس زمین کی مالیت اربوں روپے ہے۔لاہور کی لینڈ مافیا کے خلاف یہ اب تک کا سب سے بڑا آپریشن ہے جو تاحال جاری ہے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ واگزار کرائی گئی سرکاری زمین پر ہزاروں پودے لگائے جائیں گے تاکہ وہ لاہور کا قدرتی ماحول صاف ستھرا کرنے میں مدد دے سکیں۔
آپریشن کے دوران وزیراعلیٰ پنجاب نے ہدایات جاری کیں کہ غریب پھیری والوں اور محنت کشوں کو کچھ نہ کہا جائے بلکہ ان طاقتور اور بااثر مجرموں پر ہاتھ ڈالا جائے جو لینڈ مافیا سے تعلق رکھتے اور قانون سے کھلواڑ کرتے ہیں۔ لاہور کی عوام نے اس آپریشن کو سراہا اور کہا کہ تبدیلی کے پروگرام پر عمل ہوتا نظر آتا ہے۔لینڈ مافیا کے خلاف جاری اس آپریشن کا دائرہ کار رفتہ رفتہ پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی پھیلایا جائے گا۔ اس آپریشن کے ذریعے بازاروں میں بنی ناجائز تجاوزات بھی ختم کی جارہی ہیں۔ پنجاب کی اپوزیشن پارٹیوں کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے آپریشن میں صرف عام تاجروں کو نشانہ بنایا جبکہ لینڈ مافیا کے اکثر مگر مچھ چھوڑ دیئے گئے کیونکہ وہ پی ٹی آئی کے وزرا سے تعلقات رکھتے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کو نوٹس
1960ء میں جب یونانی تعمیراتی کمپنی نے اسلام آباد کا نقشہ بنایا تو اس نے نئے پاکستانی دارالحکومت کے مضافات میں ایک نیشنل پارک کی بھی بنیاد رکھی۔ مقصد یہ تھا کہ اسلام آباد کے مکین وہاں جاکر سیروتفریح کرسکیں۔ اس مجوزہ نیشنل پارک میں بعض چھوٹے دیہہ موجود تھے۔ منصوبے کے مطابق اسلام آباد تعمیر کرنے والے ادارے، سی ڈی اے نے دیہاتیوں سے زمینیں خرید لیں تاکہ نیشنل پارک کا قیام عمل میں آسکے۔ لیکن سی ڈی اے بعض دیہات میں آباد دیہاتیوں سے زمین نہیں خرید سکا۔ انہی میں موہڑہ نور نامی نامی گاؤں بھی شامل تھا جو بعد ازاں بنی گالہ کہلایا۔ انیس سو ستر کے عشرے میں اسلام آباد کے بعض لوگ بنی گالہ میں دیہاتیوں سے زمینیں خرید کر وہاں اپنے مکان بنانے لگے۔ وجہ یہ کہ بنی گالہ میں اسلام آباد کی نسبت زمین بہت سستی تھی۔
چند ہزار روپے میں ایک کنال زمین میسر آجاتی۔مذید براں گھر تعمیر کرتے ہوئے سی ڈی اے کے بھاری ٹیکس بھی ادا نہ کرنے پڑتے۔1980ء میں حکومت پاکستان نے یہ حکم نامہ جاری کیا کہ راول جھیل سے دو کلو میٹر تک کوئی عمارت تعمیر نہیں ہوسکتی۔ بنی گالہ بھی راول جھیل کے نزدیک واقع ہے ۔مگر بنی گالہ میں زمینیں دیہاتیوں کی ملکیت تھیں،اس لیے وہ انہیں فروخت کرتے رہے۔زمینیں خریدنے والے یونین کونسل بارہ کہو سے خریداری کا معاہدہ تسلیم کرالیتے۔ سی ڈی اے نے اسلام آباد کے مضافات میں واقع دیہات کی زمینوں کا بندوبست و انتظام یونین کونسلوں کے سپرد کردیا تھا۔ان دیہات میں مگر سی ڈی اے کی اجازت کے بعد ہی کوئی نیا گھر بن سکتا تھا۔ تاہم نئے خریدار مقامی دیہاتیوں سے زمین خریدتے، سودے کو یونین کونسل سے منظور کراتے اور اپنا گھر بنالیتے۔ اس طرح رفتہ رفتہ بنی گالہ میں وسیع و عریض گھروں کی ایک سوسائٹی وجود میں آگئی۔پاکستانی ایٹم بم کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بھی وہاں اپنا گھر تعمیر کرلیا۔
آخر 1992ء میں سی ڈی اے کو ہوش آیا اور اسے احساس ہوا کہ بنی گالہ میں لوگ اس کی اجازت کے بغیر گھر تعمیر کررہے ہیں۔ تب سی ڈی اے نے مکانات گرانے کی خاطر وہاں آپریشن کردیا۔ دوران آپریشن ہنگامہ آرائی ہوئی اور گولیاں چلنے پر بعض لوگ مارے گئے۔بنی گالہ میں گھر بنانے والوں کا موقف تھا کہ انہوں نے قانونی طریقے سے زمینیں خریدی ہیں۔ لہٰذا مکینوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں سی ڈی اے کے خلاف مقدمہ کردیا۔ 1998ء میں کورٹ نے قرار دیا کہ سی ڈی اے بنی گالہ کے مکینوں سے زمینیں خریدنے میں حق بجانب ہے کیونکہ یہ علاقہ نیشنل پارک قرار دیا جاچکا۔ مگر یہ ضروری ہے کہ وہ مکینوں کو مارکیٹ ریٹ کے مطابق زمینوں کی قیمت ادا کرے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ نے بھی برقرار رکھا۔یہ ایک طرح سے بنی گالہ کے مکینوں کی جیت تھی کیونکہ اب علاقے میں زمین کی قیمت بہت زیادہ بڑھ چکی تھی۔ سی ڈی اے اس پوزیشن میں نہیں تھا کہ وہ سینکڑوں مکینوں کو اربوں روپے ادا کرسکے۔
لہٰذا اس عدالتی فیصلے کے بعد سی ڈی اے نے اپنے قوانین میں تبدیلی کی اور بنی گالہ میں محدود رہائشی تعمیرات کی اجازت دے دی گئی۔سی ڈی اے نے بنی گالہ میں ترقیاتی منصوبے شروع نہیں کیے اور وہاں سیوریج کا مسئلہ خوفناک صورت اختیار کر گیا۔ عمران خان بھی 2002ء میں وہاں تین سو کنال زمین خرید چکے تھے۔ بعدازاں انہوں نے اپنا گھر تعمیر کرلیا۔ 2017ء میں ایک خط کے ذریعے انہوں نے چیف جسٹس کو مطلع کیا کہ بنی گالہ میں سیوریج کا بڑا مسئلہ ہے اور یہ کہ وہاں ناجائز تعمیرات بھی جاری ہیں۔ اس خط کی بنیاد پر بنی گالہ کے سلسلے میں نیا کیس چلنے لگا۔کیس کی سماعت کے دوران سی ڈی اے نے عمران خان کی رہائش گاہ کو ناجائز تعمیر قرار دیا حالانکہ وہ عدالتی فیصلے کے بعددارالحکومت کے زون 4 (بنی گالہ وغیرہ) میں رہائشی تعمیرات کی اجازت دے چکا تھا۔ بہرحال حال ہی میں عدالت عالیہ نے وزیراعظم عمران خان سمیت بنی گالہ کے چار سو سے زائد رہائشیوں کو حکم دیا کہ وہ سی ڈی اے کو فیس دے کر اپنے گھر اور تجارتی عمارات ریگولرائز کروالیں۔تحفظات کے باوجود وزیراعظم نے سی ڈی اے کا نوٹس وصول کرلیا۔ اس طرح انہوں نے قوم پر واضح کیا کہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی کا دور شروع ہوچکا۔ امید ہے، وہ آنے والوں دنوں میں بھی ہر قیمت پر قانون کی سپرمیسی قائم و دائم رکھیں گے۔
بنی گالہ کے مسئلے نے اس لیے جنم لیا کہ سی ڈی اے کے کرتا دھرتا اپنی ذمے داری پوری کرنے میں ناکام رہے۔اگر چالیس پچاس سال پہلے سی ڈی اے بنی گالہ کے مکینوں سے زمینیں خرید لیتا تو آج یہ علاقہ قدرتی مناظر سے بھرپور نیشنل پارک کا حصّہ ہوتا۔یوں دارالحکومت کے شہری سی ڈی اے کی غفلت کے باعث سیروتفریح کرنے اور ماحول پاک صاف رکھنے کی انمول جگہ سے محروم ہو گئے۔
چائنا کٹنگ کا اعجوبہ
اواخر ستمبر میں انکشاف ہوا کہ صدر پاکستان، ڈاکٹر عارف علوی کا پلاٹ بھی ''چائنا کٹنگ'' کی نذر ہوچکا اور وہ سرتوڑ کوشش کے باوجود اپنی زمین کو قبضہ مافیا سے نہ بچا پائے۔ یہ واقعہ عیاں کرتا ہے کہ لینڈ مافیا ریاست کے لیے بہت بڑا خطرہ بن چکی تھی اور اس کا قلع قمع کرنا وقت کی ضرورت تھا۔صدر مملکت نے 1978ء میں کراچی کی مشہور بستی، گلستان جوہر کے بلاک 10 میں چار سو گز کا پلاٹ پچاس ہزار روپے میں خریدا تھا۔ اکیسویں صدی کے اوائل میں یہ پلاٹ ایک نئے عجوبے، چائنا کٹنگ کی زد میں آگیا۔کہتے ہیں کہ یہ اعجوبہ گزشتہ ایم کیو ایم کے لیڈروں کی اختراع ہے۔
اس عمل میں بڑے پلاٹوں کو چھوٹے پلاٹوں میں تقسیم کردیا جاتا ۔ پلاٹوںکو ''چائنا پلاٹ'' کا نام دیا گیا جبکہ پلاٹوں کی تقسیم کا عمل ''چائنا کٹنگ'' کہلایا۔یہ عمل مگر غیر قانونی ہے اور لالچ و ہوس کی پیداوار! کراچی کا لینڈ مافیا پچھلے بیس برس میں کئی سو ایکڑ سرکاری زمین چائنا کٹنگ کی بھینٹ چڑھا چکا۔ یہ سرکاری زمین پارکوں، اسکولوں، قبرستانوں، کھیل کے میدانوں وغیرہ پر مشتمل تھی۔ اب وہاں عمارتیں اور گھر تعمیر ہوچکے۔یوں اہل کراچی کے حقوق پر بڑا ڈاکہ ڈالا گیا اور ہوس کے پیروکاروں نے انھیں اسکولوں،پارکوں اور کھیل کے میدانوں سے محروم کر دیا۔
کراچی کے مختلف علاقوں مثلاً گلستان جوہر، نیو کراچی، گلشن اقبال، بلدیہ ٹاؤن، بنارس کالونی، گلشن معمار، کیماڑی، سرجانی ٹاؤن، سہراب گوٹھ اور نارتھ ناظم آباد وغیرہ میں لوگوں کی نجی ملکیت والے بڑے پلاٹ خالی پڑے تھے۔ لینڈ مافیا نے بذریعہ چائنا کٹنگ انہیں بھی ٹکروں میں تقسیم کر کے بیچ ڈالا۔ انہی میں ڈاکٹر عارف علوی کا پلاٹ بھی شامل تھا جس کے ایک حصّے پر آج مکان بن چکا۔
لینڈ مافیا نے چائنا کٹنگ کے ذریعے سرکاری اور نجی زمین کے ٹکڑے کرکے پلاٹ جن افراد کو فروخت کیے، ان کی دو اقسام ہیں۔ پہلی قسم میں وہ بے گناہ افراد شامل ہیں جنہیں خبر نہ تھی کہ وہ غیر قانونی طریقے سے پیدا کردہ ایک پلاٹ خرید رہے ہیں۔ دوسری قسم ان افراد پہ مشتمل ہے جنہیں علم تھا کہ یہ ایک غیر قانونی پلاٹ ہے پھر بھی انہوں نے اسے خرید لیا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ قانون دونوں اقسام کے افراد سے کس طرح پیش آتا ہے۔ کراچی سے چائنا کٹنگ کا اعجوبہ دیگر بڑے شہروں مثلاً لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد اور پشاور تک پھیل گیا۔ اخباری رپورٹوں کے مطابق لاہور کی مضافاتی بستیوں میں واقع کئی ایکڑ سرکاری اور نجی اراضی چائنا کٹنگ کا نشانہ بن چکی ہے۔نئی بننے والی ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں بھی لینڈ مافیا نے یہ گُر آزمایا۔کئی لوگوں کے بڑے پلاٹ تین یا پانچ مرلوں کی صورت ایک نہیں زیادہ خریداروں کو بیچ دیے گئے۔ اسی طرح اسلام آباد میں یہ اعجوبہ G-13 اور E-11 کے سیکڑوں اور راول ڈیم کے اردگرد علاقوں میں سامنے آیا۔ لینڈ مافیا نے ان علاقوں میں زمین کے وسیع سرکاری و نجی قطعات پر قبضہ کیا، بذریعہ چائنا کٹنگ انہیں پلاٹوں کا روپ دیا اور پھر متعلقہ سرکاری محکموں کے کرپٹ افسروں کی ملی بھگت سے ان کے جعلی کاغذات بنوالیے۔ بعد ازاں پلاٹ بیچ کر اربوں روپے کمائے گئے۔
غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی بھرمار
قبضہ کی گئی سرکاری یا نجی زمین ہڑپ کرنے کے لیے لینڈ مافیا کا معروف طریق کار یہ ہے کہ وہاں ہاؤسنگ سوسائٹی بنا دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے، ملک بھر میں غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی بھرمار ہوچکی۔یہ معاملہ قانون کی حکمرانی کمزور ہونے کے باعث پیدا ہوا اور اب معاشرے کا ایک ناسور بن چکا۔کچھ عرصہ قبل سپریم کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی، ایف آئی اے کو ملک بھر میں ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے متعلق تحقیق و تفتیش کرنے کا حکم دیا تھا۔ اواخر ستمبر میں ایف آئی اے نے رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کردی۔ رپورٹ نے افشا کیا کہ پاکستان میں ''چھ ہزار'' غیر رجسٹرڈ ہاؤسنگ سوسائٹیاں موجود ہیں۔ یہ حقیقت آشکارا کرتی ہے کہ پاکستان میں لینڈ مافیا کی جڑیں وسیع پیمانے پر پھیل چکیں۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جن علاقوں میں ہریالی ہو، وہاں ہاؤسنگ سوسائٹی بن جاتی ہے۔ ہم اپنا ماحول اپنے ہاتھوں سے تباہ کررہے ہیں۔ بحث کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ لینڈ مافیا نے پنجاب کوآپریٹو سوسائٹیز کے دفتر میں ریکارڈ کو آگ لگادی تاکہ غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا معاملہ پیچیدہ ہوجائے۔سپریم کورٹ نے ایف آئی اے کو ہدایت دی کہ وہ ملک بھر میں موجود تمام ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا فرانزک آڈٹ کرے اور ان سے متعلق ایک تفصیلی رپورٹ تیار کرے۔ سپریم کورٹ نے پنجاب، سندھ، خیبرپختونخواہ اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں کو ہدایت دی کہ وہ اس ضمن میں ایف بی آئی کی بھر پور طریقے سے مدد کریں۔