بھائی ولیم مستقبل میں مٹرگشت کر آئے
ولیم بھیا وہاں بس جانے کی خواہش اس لیے پوری نہ کرسکے کہ ’’آسمان سُرخ تھا، ہر طرف فضائی آلودگی تھی۔
علامہ اقبال نے مسلمانوں سے کہا تھا:
کھول کر آنکھیں مِرے آئینۂ گفتار میں
آنے والے دور کی دُھندلی سی اک تصویر دیکھ
ہم آنے والے دور کی تصویر تو خیر کیا دیکھتے، ہم نے تو ان کے ''کھول آنکھ زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ'' کے فرمان پر بھی عمل نہیں کیا، ہم میں سے کسی نے جس پہ ڈالی بُری نظر ڈالی اور ''ایک ایک کو دیکھ لوں گا'' کہتے ہوئے نیل کے ساحل سے لے تابہ خاک کاشغر ہر ایک سے جنگ مول لے لی اور کوئی ''یا شیخ اپنی اپنی دیکھ '' کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہوگیا، لیکن دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو آنے والے دور کی تصویر دیکھنے کے بہ جائے اس کی وڈیو میں جاپہنچے۔
ایسے ہی ایک صاحب ہیں برطانیہ کے ولیم ٹیلر، جن کا دعویٰ ہے کہ وہ ٹائم مشین پر سوار وقت میں سفر کرتے ہوئے سن 8973 میں جاپہنچے تھے، جہاں ان کی ملاقات عجیب وغریب انسانوں سے ہوئی۔ ولیم کا کہنا ہے کہ انھوں نے 8973 میں چھے گھنٹے گزارے۔ اس دعوے کو سچ ثابت کرنے کے لیے انھیں جھوٹ کی کھوج لگانے والی مشین (lie detector) کے ٹیسٹ کا سامنا کرنا پڑا، اور وہ اس آزمائش میں سچے ثابت ہوئے۔
مستقبل کا دورہ کرنے والے ان صاحب کا کہنا ہے کہ وہ اس زمانے سے کبھی واپس آنا نہیں چاہتے تھے، کیوں کہ وہ ایک مثالی دنیا تھی، جہاں نہ کوئی جُرم تھا نہ تنازعہ۔
ولیم کا کہنا ہے کہ ان کا یہ ''دورہ'' حکومتِ برطانیہ کے ایک خفیہ منصوبے کا حصہ تھا۔
ولیم کے مطابق وہاں ان کی ملاقات ملی جلی انسانی اور مشینی خصوصیات کے حامل انسانوں سے ہوئی، جن کے سر اور آنکھیں بہت بڑی لیکن منہہ چھوٹے چھوٹے تھے۔ ان خواتین وحضرات کو لافانی زندگی مل چکی تھی اور یہ لوگ آپس میں ٹیلی پیتھی کے ذریعے بھی رابطہ کرتے تھے۔ تاہم ولیم کو ان سے انگریزی بولنے اور انھیں سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ ولیم کا کہنا ہے کہ ان میں سے ہر ایک روانی سے انگریزی بول رہا تھا۔ ایسا اس لیے تھا کہ ان کے دماغوں میں ایک چِپ نصب تھی، جو کسی بھی زبان میں بولے جانے والے الفاظ کا ترجمہ کردیتی تھی۔
ولیم بھیا وہاں بس جانے کی خواہش اس لیے پوری نہ کرسکے کہ ''آسمان سُرخ تھا، ہر طرف فضائی آلودگی تھی، مجھے احساس ہوا کہ ہوا میں تابکاری کے اثرات ہیں۔'' چناں چہ انھوں نے واپسی کی راہ لی۔
وہ یہ خوش خبری بھی سناتے ہیں کہ 2028 تک ہر ایک کے لیے وقت کے دھار پر بہتے ہوئے مستقبل کے کسی بھی دور میں پہنچنا ممکن ہوجائے گا۔
بھائی ولیم نے اس وقت کا تعین تو کردیا جس میں وہ جاپہنچے تھے مگر یہ نہیں بتایا کہ وہ کون سا دیس تھا، کون سا شہر تھا، انھیں پہنچتے ہی پوچھنا چاہیے تھا ''یہ کیا جگہ ہے دوستو! یہ کون سا مقام ہے۔'' ہوسکتا ہے وہ ''نیا پاکستان'' ہو، جہاں سے جرائم اور تنازعات کا خاتمہ ہوچکا ہو اور پاکستانیوں کو خوش اور پُرسکون دیکھ کر آسمان کا چہرہ خوشی سے سرُخ ہوگیا ہو، لیکن تبدیلی کے بعد والے نئے پاکستان میں فضائی آلودگی کیسے ممکن ہے، جب تک تو ہر طرف درخت ہی درخت ہوں گے، مگر مستقبل کے پاکستانیوں کے بڑے بڑے سَروں، بڑی بڑی آنکھوں اور ننھے سے منہہ کا سبب سمجھ میں نہیں آیا۔ اب آپ یہ مت کہیے گا کہ درختوں کی تلاش میں آنکھیں پھاڑپھاڑ کر دیکھتے دیکھتے آنکھیں پھیل گئیں، مسائل کے بارے میں سوچ سوچ کر سر سوج کر بڑے ہوگئے، اور منہہ اس لیے چھوٹے کر دیے گئے کہ یہ چھوٹے منہہ کوئی بڑی بات نہ کرسکیں۔
ویسے ہم سوچ رہے ہیں کہ یہ چِپ لگے دماغوں والے انسانوں کا ہونا مستقبل والوں کا کون سا کارنامہ ہوا، ہمیں تو اپنے ملک میں جابہ جا ایسے لوگ نظر آتے ہیں جنھیں سُن کر لگتا ہے کہ ان کے بھیجے میں کسی مخصوص سیاسی جماعت کی چِپ جَڑی ہوئی ہے، سو جو الفاظ موصول ہوتے ہیں جوں کے توں زبان پر آجاتے ہیں۔
خبر میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ولیم صاحب شادی شدہ ہیں یا کنوارے، اگر بیوی والے ہوتے تو یقیناً وقت میں سفر کرنے سے پہلے ہی ان پر بُرا وقت آجاتا، جب سوال ہوتے ''کہاں جا رہے ہیں، کیوں جارہے ہیں، اکیلے جا رہے ہیں یا کسی کے ساتھ، کب آئیں گے۔۔۔ میں بھی چلوں گی۔''
ویسے ولیم بھائی اگر پاکستان میں ہوتے تو اپنے دعوے کے بعد ''بابا ولیم'' بنادیے جاتے اور ان سے اس قسم کی فرمائشیں کی جارہی ہوتیں،''بابا! ذرا اگلے سال کا دورہ کرکے بتانا میرے ہاں اولاد ہوگی؟''،''سرکار! ذرا الیکشن کے اگلے دن میں کود کر یہ تو بتاؤ میں جیتا یا نہیں؟''،''باباجی! اگلے پندرہ سال کا ایک چکر لگا آئیں اور دیکھیں کہ میرے شوہر سوتن تو نہیں لے آئے، اگر لائے ہوں تو مجھے وہیں بیوہ کردیجیے گا۔''
عام پاکستانی تو ان سے بس یہی گزارش کرتا کہ بھیا ولیم! ذرا پانچ سال کے اُدھر کا پھیرا لگا کے اتنا بتا دو کہ پاکستان میں کتنے پیڑ لگے، غریبوں کے لیے کتنے گھر بنے اور کتنے بے روزگاروں کو روزگار ملا؟
کھول کر آنکھیں مِرے آئینۂ گفتار میں
آنے والے دور کی دُھندلی سی اک تصویر دیکھ
ہم آنے والے دور کی تصویر تو خیر کیا دیکھتے، ہم نے تو ان کے ''کھول آنکھ زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ'' کے فرمان پر بھی عمل نہیں کیا، ہم میں سے کسی نے جس پہ ڈالی بُری نظر ڈالی اور ''ایک ایک کو دیکھ لوں گا'' کہتے ہوئے نیل کے ساحل سے لے تابہ خاک کاشغر ہر ایک سے جنگ مول لے لی اور کوئی ''یا شیخ اپنی اپنی دیکھ '' کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہوگیا، لیکن دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو آنے والے دور کی تصویر دیکھنے کے بہ جائے اس کی وڈیو میں جاپہنچے۔
ایسے ہی ایک صاحب ہیں برطانیہ کے ولیم ٹیلر، جن کا دعویٰ ہے کہ وہ ٹائم مشین پر سوار وقت میں سفر کرتے ہوئے سن 8973 میں جاپہنچے تھے، جہاں ان کی ملاقات عجیب وغریب انسانوں سے ہوئی۔ ولیم کا کہنا ہے کہ انھوں نے 8973 میں چھے گھنٹے گزارے۔ اس دعوے کو سچ ثابت کرنے کے لیے انھیں جھوٹ کی کھوج لگانے والی مشین (lie detector) کے ٹیسٹ کا سامنا کرنا پڑا، اور وہ اس آزمائش میں سچے ثابت ہوئے۔
مستقبل کا دورہ کرنے والے ان صاحب کا کہنا ہے کہ وہ اس زمانے سے کبھی واپس آنا نہیں چاہتے تھے، کیوں کہ وہ ایک مثالی دنیا تھی، جہاں نہ کوئی جُرم تھا نہ تنازعہ۔
ولیم کا کہنا ہے کہ ان کا یہ ''دورہ'' حکومتِ برطانیہ کے ایک خفیہ منصوبے کا حصہ تھا۔
ولیم کے مطابق وہاں ان کی ملاقات ملی جلی انسانی اور مشینی خصوصیات کے حامل انسانوں سے ہوئی، جن کے سر اور آنکھیں بہت بڑی لیکن منہہ چھوٹے چھوٹے تھے۔ ان خواتین وحضرات کو لافانی زندگی مل چکی تھی اور یہ لوگ آپس میں ٹیلی پیتھی کے ذریعے بھی رابطہ کرتے تھے۔ تاہم ولیم کو ان سے انگریزی بولنے اور انھیں سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ ولیم کا کہنا ہے کہ ان میں سے ہر ایک روانی سے انگریزی بول رہا تھا۔ ایسا اس لیے تھا کہ ان کے دماغوں میں ایک چِپ نصب تھی، جو کسی بھی زبان میں بولے جانے والے الفاظ کا ترجمہ کردیتی تھی۔
ولیم بھیا وہاں بس جانے کی خواہش اس لیے پوری نہ کرسکے کہ ''آسمان سُرخ تھا، ہر طرف فضائی آلودگی تھی، مجھے احساس ہوا کہ ہوا میں تابکاری کے اثرات ہیں۔'' چناں چہ انھوں نے واپسی کی راہ لی۔
وہ یہ خوش خبری بھی سناتے ہیں کہ 2028 تک ہر ایک کے لیے وقت کے دھار پر بہتے ہوئے مستقبل کے کسی بھی دور میں پہنچنا ممکن ہوجائے گا۔
بھائی ولیم نے اس وقت کا تعین تو کردیا جس میں وہ جاپہنچے تھے مگر یہ نہیں بتایا کہ وہ کون سا دیس تھا، کون سا شہر تھا، انھیں پہنچتے ہی پوچھنا چاہیے تھا ''یہ کیا جگہ ہے دوستو! یہ کون سا مقام ہے۔'' ہوسکتا ہے وہ ''نیا پاکستان'' ہو، جہاں سے جرائم اور تنازعات کا خاتمہ ہوچکا ہو اور پاکستانیوں کو خوش اور پُرسکون دیکھ کر آسمان کا چہرہ خوشی سے سرُخ ہوگیا ہو، لیکن تبدیلی کے بعد والے نئے پاکستان میں فضائی آلودگی کیسے ممکن ہے، جب تک تو ہر طرف درخت ہی درخت ہوں گے، مگر مستقبل کے پاکستانیوں کے بڑے بڑے سَروں، بڑی بڑی آنکھوں اور ننھے سے منہہ کا سبب سمجھ میں نہیں آیا۔ اب آپ یہ مت کہیے گا کہ درختوں کی تلاش میں آنکھیں پھاڑپھاڑ کر دیکھتے دیکھتے آنکھیں پھیل گئیں، مسائل کے بارے میں سوچ سوچ کر سر سوج کر بڑے ہوگئے، اور منہہ اس لیے چھوٹے کر دیے گئے کہ یہ چھوٹے منہہ کوئی بڑی بات نہ کرسکیں۔
ویسے ہم سوچ رہے ہیں کہ یہ چِپ لگے دماغوں والے انسانوں کا ہونا مستقبل والوں کا کون سا کارنامہ ہوا، ہمیں تو اپنے ملک میں جابہ جا ایسے لوگ نظر آتے ہیں جنھیں سُن کر لگتا ہے کہ ان کے بھیجے میں کسی مخصوص سیاسی جماعت کی چِپ جَڑی ہوئی ہے، سو جو الفاظ موصول ہوتے ہیں جوں کے توں زبان پر آجاتے ہیں۔
خبر میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ولیم صاحب شادی شدہ ہیں یا کنوارے، اگر بیوی والے ہوتے تو یقیناً وقت میں سفر کرنے سے پہلے ہی ان پر بُرا وقت آجاتا، جب سوال ہوتے ''کہاں جا رہے ہیں، کیوں جارہے ہیں، اکیلے جا رہے ہیں یا کسی کے ساتھ، کب آئیں گے۔۔۔ میں بھی چلوں گی۔''
ویسے ولیم بھائی اگر پاکستان میں ہوتے تو اپنے دعوے کے بعد ''بابا ولیم'' بنادیے جاتے اور ان سے اس قسم کی فرمائشیں کی جارہی ہوتیں،''بابا! ذرا اگلے سال کا دورہ کرکے بتانا میرے ہاں اولاد ہوگی؟''،''سرکار! ذرا الیکشن کے اگلے دن میں کود کر یہ تو بتاؤ میں جیتا یا نہیں؟''،''باباجی! اگلے پندرہ سال کا ایک چکر لگا آئیں اور دیکھیں کہ میرے شوہر سوتن تو نہیں لے آئے، اگر لائے ہوں تو مجھے وہیں بیوہ کردیجیے گا۔''
عام پاکستانی تو ان سے بس یہی گزارش کرتا کہ بھیا ولیم! ذرا پانچ سال کے اُدھر کا پھیرا لگا کے اتنا بتا دو کہ پاکستان میں کتنے پیڑ لگے، غریبوں کے لیے کتنے گھر بنے اور کتنے بے روزگاروں کو روزگار ملا؟