آرچ ڈیوک فرانز فرڈینینڈ سے جمال خاشقجی تک

یہ چنگاری تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے کو ہے، شاید یہ ایک قتل ساری انسانیت کےلیے وبالِ جان بننے والا ہے


جمال خاشقجی کا قتل آج سے ایک صدی قبل ڈیوک فرانز فرڈینینڈ کے قتل کی یاد دلاتا ہے جو پہلی جنگِ عظیم کی وجہ بنا تھا۔ (فوٹو: فائل)

28 جون 1914، ایک بوسنیا سربیا یوگوسلاو قوم پرست گیرویلو پرنپپ نے سرائیوو میں آسٹریا ہنگری کے وارث آرچ ڈیوک فرانز فرڈینینڈ کو قتل کردیا جو سفارتی بحران کا باعث بنا۔ 23 جولائی 1914 کو آسٹریا ہنگری نے الٹی میٹم جاری کیا۔ اتحادیوں کو فوری طور پر تمام اہم یورپی طاقتوں میں ان سے متعلقہ نوآبادی سلطنتوں سے نکال دیا گیا اور تنازعہ تیزی سے دنیا بھر میں پھیل گیا۔



یہ ہے پس منظر پہلی جنگِ عظیم کا جس نے انسانیت کو رُسوا کرکے رکھ دیا۔ ہوائی جہاز، ٹینک، کیمیائی ہتھیار اور آتشی اسلحے کا بے دریغ استعمال اس سے قبل کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ ان تمام تباہ کن ہتھیاروں نے جنگ کو اور زیادہ ہولناک بنادیا تھا۔ یہی وہ وقت تھا جب دنیا میں جنگ کی نئی جہتیں یعنی فورتھ اور ففتھ جنریشن وار کا آغاز ہوا جس کے تحت پہلی عرب اسپرنگ کی بنیاد رکھی گئی، نتیجتاً سلطنتِ عثمانیہ کا انہدام عمل میں لایا گیا۔ تمال عالمِ عرب کو ایک مرکزی حکومت کے زیرِ اثر رہنے کے بجائے چھوٹے چھوٹے ممالک میں تقسیم کر دیا گیا اور سیکولر اِزم کا بیج بو کر ترکوں کے ہاتھوں مسلم دنیا کا صدیوں پرانا نظامِ خلافت ختم کر دیا گیا تاکہ مسلمان، بالخصوص عرب کبھی یکجا نہ ہو سکیں۔ وطنِ عزیز پاکستان بھی آج کل اسی قسم کے حالات سے دو چار ہے جہاں بلوچستان، خیبر پختونخوا اور کراچی کو علیحدہ کرنے کی سازشیں عروج پر ہیں۔

انسانی تاریخ اس قسم کی محلّاتی سازشوں سے بھری پڑی ہے۔ کتنے ہی بڑے نام اس سیاست اور حکومت کے گورکھ دھندے کے باعث خاک میں مل چکے ہیں اور مزید کتنے باقی ہیں، خداہی جانے۔ ہابیل اور قابیل سے شروع ہونے والا قتل و غارت گری کا یہ سلسلہ جانے کہاں جا کر رکے؟ شاید یہی وجہ ہے کہ معصوم فرشتوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ عرض کیا کہ جو انسان تو بنا رہا ہے، وہ دنیا میں فساد برپا کرے گا۔

جمال خاشقجی کا شمار بھی اُن بد نصیبوں میں ہوتا ہے جو بے رحم سیاست کی بھینٹ چڑھ گئے، یہاں تک کہ اُن کی انگلیاں اور بازو بھی کاٹ دیئے گئے جن سے وہ لکھا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرمائے۔ جمال خاشقجی کا شمار اُن چند عرب صحافیوں میں ہوتا تھا جو سعودی طرزِ حکومت کے سخت مخالف تھے۔ وہ سعودی حکومت کے اقدامات پر کھلی تنقید کیا کرتے تھے؛ بالخصوص یمن اور قطر کے معاملے میں اُن کی رائے ولی عہد سے مختلف تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سعودی سفارت خانے میں داخل تو ہوتے دیکھے گئے مگر اُنہیں وہاں سے واپسی نصیب نہیں ہوئی۔ ذرائع کے مطابق ذاتی محافظین نے یہ خدمت شہزادے کےلیے انجام دی ہے۔

لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ شہزادے کو کیا پڑی تھی جو اپنے ہی سفارت خانے میں ایک ایسے شخص کو قتل کروادے جو کھلم کھلّا اُس کے خلاف لکھتا اور بولتا ہے؛ اور وہ بھی ایک ایسے ملک میں جس کے ساتھ پہلے ہی اُن کے سفارتی تعلقات پیچیدہ ہیں؟ یہ تو وہی بات ہوئی کہ آ بیل مجھے مار! اب ولی عہد محمد بن سلمان اتنے بھی بچے نہیں کہ اتنی سی بھی عقل نہ ہو۔ ویسے تو مجموعی طور پر اُن کے اقدامات طفلانہ ہی کہلائیں گے مثلاً یمن میں بے مصرف جنگ، قطر سے جھگڑا، بے دریغ اسلحے کی خریداری، اسرائیل سے پینگیں، ایران کے خلاف 34 ملکی اتحاد، عراق و شام میں باغیوں اور بالخصوص داعش کی سرپرستی، اپنے ہی خاندان کے افراد کی گرفتاریاں اور قتل، الغرض اتنی سی عمر میں اُنہوں نے کیا کیا نہ کیا ہوگا۔

بہرکیف، جمال خاشقجی چونکہ ابلاغ عامہ کے شعبے سے وابستہ تھے لہٰذا اُن کی ناگہانی موت نے ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ دنیا کی واحد سپر پاور کے اعلیٰ ترین عہدے دار مائیک پومپیو، جو سی آئی اے کی سربراہی بھی کرچکے ہیں (جبکہ سی آئی اے خود بھی دنیا بھر میں اِس قسم کی کارروائیاں کرنے میں ماہر سمجھی جاتی ہے)، مبینہ طور پر یہ مسئلہ ''سلجھانے'' کےلیے کود پڑے ہیں۔ یعنی یہ جلتی پر تیل والا مضمون ہے۔ یہاں تک کہ امریکی صدر بھی اس معاملے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اب ہم اور آپ بخوبی جانتے ہیں کہ جہاں ڈونلڈ ٹرمپ ٹانگ اڑا دیں، وہاں کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔ ویسے بھی واشنگٹن پوسٹ کے مطابق اب امریکا کو آلِ سعود کی ضرورت نہیں رہی۔ یقیناً یہ چنگاری تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والی ہے اور شاید اُس ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کےلیے وبالِ جان ہونے والا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔