اسد عمر کو کیا کرنا چاہیے
یہ ایک بہترین طریقہ ہے ہمارے ہنر مند لوگ بیرون ملک جائے بغیر یہاں ڈالر کما سکتے ہیں۔
www.facebook.com/syedzishanhyder
وزیر اعظم عمران خان آئے روز ملکی معیشت کی زبوں حالی کا حل ڈھونڈنے کے لیے مختلف اجلاس بلوا رہے ہیں۔ پاکستانی معیشت ہے کہ وہ روز بروز گراوٹ کی طرف جارہی ہے۔ حکومت کی جانب سے کبھی سعودیہ عرب تو کبھی چین سے امداد طلب کی جاتی ہے۔
روز بروز اشیا کی قیمتیں بڑھتی جارہی اور ڈالر مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے موجودہ حالات کے اندر حکومت وقت کیسے اقدامات کر سکتی ہے جس سے پاکستان کی معیشت کی گاڑی چل پڑے ؟غور سے دیکھا جائے تو پاکستان کے اندر اس وقت مینو فیکچرنگ سیکٹر کا مستقبل دکھائی نہیں دے رہا ۔ اس کی بنیادی وجہ ہمارے پاس سستی توانائی کے ذرائع کا نہ ہونا ہے ۔
پانی بھی کم ہوتا جارہا ہے جس سے ہماری زراعت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ایسی صورتحال کے اندر پاکستان کو ایسے اقدامات کرنے چاہیے جس سے زرمبادلہ بھی حاصل ہو، لوگوں کو آمدن بھی بڑھے اور پاکستان کی معیشت کا پہیہ بھی چل پڑے۔ بھارت میں دیکھیں تو وہاں پر اس وقت حکومت نے کافی عرصہ سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبہ کو فوکس کیا ہوا ہے۔ اس وقت بھارت اربوں ڈالر مالیت کے سافٹ وئیر بیرون ملک برآمد کر رہا ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی ایسا سیکٹر ہے۔ جس کے لیے آپ کو زیادہ خام مال کی ضرورت نہیں ہے۔ اس سیکٹر میں انسانی سوچ اور آئیڈیاز خام مال ہوتے ہیں۔ کسی لمبی چوڑی ہارڈوئیر کی انڈسٹری یا سرمایہ کاری کیے بغیر ایسی اشیاء بنائی جا سکتی ہیں۔ جن کو بآسانی بیرون ملک برآمد کیا جاسکے۔ یہ پاکستان کی کایا پلٹنے کے لیے سب سے بہترین اور شاندار راستہ ہے۔ اگر اس وقت حکومت وقت تمام تر توجہ انفار میشن ٹیکنالوجی پر دے۔
اس حوالے سے بیرون ملک سے قابل اساتذہ کو پاکستان بلایا جائے پھر انھیں یونیورسٹیوں کے اندر ٹاسک دیا جائے کہ وہ زیادہ سے زیادہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہر گریجویٹ تیارکریں ۔ان اساتذہ، تعلیمی اداروں اور فارغ التحصیل طلباء کو حکومت کی بھرپور حمایت بھی حاصل ہو۔ اس ہنرمندی کی تعلیم میں طلباء کو فیسوں میں سبسڈی دی جائے تا کہ غریب طلباء اس میدان میں آگے بڑھ سکیں۔
یہ ایک بہترین طریقہ ہے ہمارے ہنر مند لوگ بیرون ملک جائے بغیر یہاں ڈالر کما سکتے ہیں۔ ملکی معیشت کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ اس سے نوکریاں مل سکتی ہیں۔ دنیا بھر میں لوگ سافٹ وئیر ہاؤس اور کال سینٹر کے علاوہ معاشی حساب کتاب کے معاملات آن لائن گھر بیٹھ کر چلا رہے ہیں۔ اگر ان ہنر مندوں کو گھر بیٹھے اچھی آمدن ہوجائے تو اور کیا چاہیے لیکن اس کے لیے انھیں رہنمائی اور تربیت کی ضرورت ہے۔ جس کے لیے حکومتی پالیسی میں واضح تبدیلی درکار ہے۔
پاکستان کا ایک سیکٹر ایسا بھی ہے جوسب سے زیادہ پاکستان کو فائدہ پہنچا سکتا ہے یہ بیرون ملک موجود پاکستانی ورکر کلاس ہے۔ لیکن اسے سب سے زیادہ نظر انداز کیا گیا ہے ۔ اب اگر آپ دیکھیں تو زیادہ تر ممالک کے اندر پاکستانی ورکر کلاس اور ہنر مند لوگوں کو ویزے بھی نہیں ملتے۔ اس کی چند وجوہات ہیں ۔ بڑی وجہ یہ ہے کہ بیرون ملک جب پاکستانی جاتے ہیں تو وہاں غائب ہوجاتے ہیں۔ ان کے پاس وہ ہنر نہیں ہوتا جس کی اس ملک میں مانگ ہوتی ہے ۔
اس لیے بعد میں چند لوگ جرائم کی دنیا میں چلے جاتے ہیں۔ جب کہ کچھ ممالک انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ان کو خرچہ دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ جو ان کی معیشت پر بوجھ بن جاتا ہے ۔ ان ساری وجوہات کی بنا پر وہ پاکستانیوں کو ویزہ دینے سے کتراتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں حکومت امیگریشن اور ہنرمندوں کو بیرون ملک لے جانے کا معاملہ اپنے ہاتھوں میں لے اس سے نہ صرف پاکستانی حکومت کو فائدہ ہوگا بلکہ پاکستان کے وہ ہنر مند جو لاکھوں روپے انسانی اسمگلروں کو دیکر اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر وہاں جاتے ہیں تو اکثر راستے میں مرجاتے ہیں پھر وہاں جاکر چوروں کی زندگی گزارتے ہیں اور پھر آدھی اجرت پر محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
ان کی زندگیوں کو ہمیشہ یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ ان کو کسی بھی وقت ڈی پورٹ کیا جاسکتا ہے۔ جو لوگ بیرون ملک کام کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی سرپرستی کی ذمے داری حکومت لے لے تو حالات یکسر تبدیل ہو سکتے ہیں۔ سب سے پہلے کرنے کا کام یہ ہے کہ حکومت کو ان ممالک میں جہاں پر ہنرمندوں کی ضرورت ہے اس کی نشاندہی کرنی چاہیے۔ مثال کے طور پر اس وقت جاپان میں آبادی میں بوڑھوں کی تعداد زیادہ ہے نوجوان کم ہیں۔ اس کی وجہ وہاں شادیوں کا کم ہونا اور زیادہ بچے پیدا نہ کرنے کا رواج ہے۔